1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی سخی مرد

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی سخی مرد
    [​IMG]
    بیان کیا جاتا ہے، کسی بستی میں ایک عالی حوصلہ اور شریف شخص رہتا تھا جو تنگ دستی ہونے کے باوجود ہر وقت دوسروں کی امداد پر آمادہ رہتا تھا۔ ایک دن اس کے پاس ایک شخص آیا اور یوں گویا ہوا، اے سخی! میں نے ایک شخص سے قرض لیا تھا، وقت پر ادائیگی نہ کر سکا اور اب وہ مجھے قید کروا دینے پر آمادہ ہے۔ اس سوالی نے جتنی رقم مانگی تھی وہ کچھ زیادہ نہ تھی، لیکن وہ بھی سخی کے پاس نہ تھی۔ ایسے لوگوں کے پاس سرمایہ جمع بھی کہاں رہتا ہے۔ ان کی مثال تو بلند پہاڑوں کی سی ہے کہ جو پانی ان پر برستا ہے اسی وقت ڈھلانوں پر بہہ جاتا ہے۔ سوالی کو رقم نہ ملی تو قرض خواہ نے اسے قید کرا دیا۔ مردِ سخی کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ قرض خواہ کے پاس گیا اور اس سے درخواست کی کہ آپ نے اپنے جس قرض دار کو قید کرایا ہے اسے کچھ دنوں کے لیے آزاد کر دیجیے۔ اگر وہ پھر بھی آپ کی رقم ادا نہ کر سکا تو اس کی جگہ میں قید بھگتنے کو موجود ہوں۔ میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔ قرض خواہ نے یہ درخواست قبول کر کے قرض دار کو آزاد کر دیا۔ سخی مرد نے اس سے کہا کہ خدا نے تجھے قید سے رہائی بخش دی۔ اب تو یہاں سے بھاگ جا۔ چنانچہ وہ فرار ہو گیا اور معاہدے کے مطابق قرض خواہ نے اس کی جگہ سخی مرد کو قید کرا دیا۔ جب وہ قید کی سختیاں جھیل رہا تھا تو اس کے دوستوں میں سے ایک نے اس سے کہا کہ یہ بات تو دانائی کے مطابق معلوم نہیں ہوتی کہ تم نے پرائی مصیبت اپنے گلے میں ڈال لی۔ جو خطا کار تھا وہ خود اپنے کیے کی سزا بھگتتا۔ سخی مرد نے جواب دیا، تم اپنی جگہ ٹھیک سوچ رہے ہو۔ لیکن میں نے جو کچھ کیا ٹھیک ہی کیا۔ وہ بے چارہ سوالی بن کر میرے پاس آیا تھا اور اس کی رہائی کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ میں اس کی جگہ قید ہو جاؤں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ مردِ سخی قید خانے ہی میں مر گیا۔ اس کی رہائی کی کوئی سبیل پیدا نہ ہو سکی۔ بظاہر یہ کوئی اچھا انجام نہ تھا لیکن حقیقت میں اس نے حیاتِ جاوداں پالی تن کا کیا ہے ایک دن تن کو مٹا دیتی ہے موت من اگر ہو زندہ تو اس کو قضا آتی نہیں زندہ کر نورِ سخاوت سے دلِ بے مہر کو یہ کلی وہ ہے خزاں میں بھی جو مرجھاتی نہیں اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے مقامِ احسان کا حال بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں محسنین کا بہت بڑا درجہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے احسان کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ قاعدے قانون کے مطابق اور عام اخلاق کی رو سے انسان پر جو فرض عائد ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر نیکی کی جائے۔ مثلاً اگر کوئی قرض دار قرض کی رقم ادا نہ کر سکے تو اسے معاف کر دینا نیکی ہے، لیکن اگر معاف کر نے کے علاوہ اس کے ساتھ کچھ اور سلوک بھی کیا جائے تو یہ احسان ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں