1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی دنیا بھی اچھی, عاقبت بھی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی دنیا بھی اچھی, عاقبت بھی
    [​IMG]
    بیان کیا جاتا ہے، ایک نیک سیرت شخص اپنے دشمنوں کا ذکر بھی برائی سے نہ کرتا تھا۔ جب بھی کسی کی بات چھڑتی اس کی زبان سے نیک کلمہ ہی نکلتا۔ اس کے مرنے کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا تو سوال کیا، سناؤ میاں! دوسری زندگی میں کیا معاملہ رہا؟ پکڑے گئے کہ بخشے گئے؟ یہ سوال سن کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اور وہ بلبل کی طرح شیریں آواز میں بولا، دنیا میں میں اس بات سے بچتا تھا کہ میری زبان سے کسی کے بارے میں کوئی بری بات نہ نکلے۔ نکیرین نے مجھ سے بھی کوئی سخت سوال نہ کیا اور یوں میرا معاملہ بہت اچھا رہا۔ برائی سے کسی کو یاد کرنا بھی برائی ہے جو عاقل ہیں بروں کو بھی برا کہنے سے ڈرتے ہیں کسے معلوم کس کے واسطے کیا حکم صادر ہو اسی دہشت سے وہ ہر وقت استغفار کرتے ہیں بدگوئی بدکلامی کی طرح نہایت مکروہ فعل ہے۔ ہر شخص کی ذات میں عیب تلاش کرنے والا شخص دراصل حسد کا شکار ہوتا ہے اور دوسروں کی ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے دل کی آگ اس طرح ٹھنڈی کرتا ہے کہ ہر شخص کی ذات میں کوئی برائی ڈھونڈ کر اسے کم درجے کا ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ جس طرح ابھرتے ہوئے سورج کو ناخن کے پیچھے نہیں چھپایا جا سکتا، اسی طرح یہ بات ممکن نہیں کہ فردِ واحد سارے زمانے کی ترقی روک دے اور خوش حالی کو بدحالی میں بدل دے۔ لہٰذا ایسا شخص غصے اور رنج کی آگ میں خود جل مرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سب کا بھلا چاہنے والا اور سب کا خیرخواہ ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔ سب اس کی عزت کرتے ہیں اور یوں اسے سچی مسرت حاصل ہوتی ہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں