1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی جہادِ اکبر

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏6 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی جہادِ اکبر

    upload_2019-6-6_2-22-30.jpeg

    بیان کیا جاتا ہے، ایک نیک دل اور صاف گو شخص سے وقت کا بادشاہ اس لیے ناراض ہو گیا کہ اس نے اس کے روبرو سچی بات کہہ دی تھی۔ بادشاہ نے اس کی حق گوئی کو گستاخی خیال کیا اور اسے جیل خانے بھجوا دیا۔ قیدیوں کی زندگی مصیبتوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے، لیکن وہ مردِ حق آگاہ یہاں بھی ہر وقت خوش رہتا تھا۔ اگر کوئی پرسان حال ہوتا تو بہت اطمینان کے ساتھ کہتا کہ میاں، قیدوبند کا کیا ہے، یہ معمولی سا وقت آخر گزر ہی جائے گا۔ اتفاق سے درویش کی یہ بات بادشاہ کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ وہ ہنسا اور اپنے ندیموں سے بولا، یہ احمق کی بھول ہے کہ قید سے چھوٹ جائے گا۔ ہماری طرف سے اسے بتاؤ کہ اب وہ قیدِ زندگی سے آزاد ہو کر ہی اس زندگی سے باہر نکلے گا۔ بادشاہ کا یہ فیصلہ سن کر بھی درویش کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ اس نے کہا، چلو یونہی سہی۔ لیکن میرے لیے تو یہ بھی نفعے کا سودا ہے۔ یہ ظلم برداشت کر کے میں خدا کے حضور پہنچوں گا تو اس کی رحمت سے نوازا جاؤں گا جبکہ بادشاہ اس کے غضب میں گرفتار ہو گا۔ درویش کی یہ بات بھی ظالم بادشاہ کے کانوں تک پہنچا دی گئی۔ اس نے غصے میں حکم دیا کہ گستاخ کی زبان گُدی سے کھینچ لی جائے۔ کسی نے درویش سے کہا، تجھے چاہیے تھا کہ احتیاط سے کام لیتا اور کوئی ایسی بات نہ کہتا جو بادشاہ کی طبع پر گراں گزرتی۔ درویش نے لاپروائی سے جواب دیا، سزا کے خوف سے حق گوئی کا شیوہ ترک کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ میں یہ سزا بھی خوشی سے برداشت کر لوں گا۔ عاقبت اچھی تو سب اچھا، یہ دنیا کچھ نہیں ایک سے انجام سے دوچار ہیں شاہ و گدا موت کی دہلیز تک ہے کروفر اور تاج و تخت قیصرِ اعظم بھی خالی ہاتھ دنیا سے گیا حضرت سعدیؒ کی اس حکایت کا مردِ حق گو شریفوں اور بہادروں کے طبقے کا ایک نمائندہ کردار ہے۔ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا رحمتِ دو عالم رسولِ مقبولﷺ کے مبارک الفاظ میں افضل الجہاد ہے اور یہ سچ ہے کہ یہ جہاد نوعِ انسانی کے ہر فرد پر فرض ہے۔ یہ فرض جس حد تک ادا کیا جائے گا، دنیا میں اس حد تک امن اور عدل قائم ہو گا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں