1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی ؒ ،توقع

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏9 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی ؒ ،توقع
    upload_2019-12-9_2-36-4.jpeg
    حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ میں دیار بکر میں ایک امیر آدمی کے گھر مہمان تھا۔ مال و دولت کے علاوہ خدا نے اس شخص کو ایک خوبرو بیٹا بھی دیا تھا۔ ایک رات وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ سعدیؒ، شاید تمھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ میرے گھر یہ بیٹا ایک مدت کی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہوا ہے۔ فلاں مقام پر ایک بابرکت درخت ہے۔ لوگ اس درخت کے قریب جا کر دعائیں مانگتے ہیں اور ان کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔ میں نے اس بابرکت درخت کے پاس جا کر دعا مانگی اور اللہ نے میری مراد پوری کر دی۔ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جس وقت امیر باپ اپنے بیٹے کے بارے میں یہ باتیں کر رہا تھا، بیٹا اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہوا یہ کہہ رہا تھا کہ اے کاش! مجھے معلوم ہو جائے کہ وہ بابرکت درخت کس جگہ ہے، میں آج ہی وہاں جاؤں اور یہ دعا مانگوں کہ میرا باپ جلد مر جائے تاکہ سارا مال اور جائیداد میرے قبضے میں آئے۔ گزر جاتی ہے مدت تجھ سے اتنا بھی نہیں ہوتا سمجھ لے تیرا بیٹا بھی یونہی اغماض برتے گا کہ اپنے باپ کی تربت پہ بہر فاتحہ جائے یہی قانون قدرت ہے کہ جو بوئے وہی پائے حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسانی زندگی کے المیے کے طرف اشارہ کیا ہے کہ جس اولاد کے لیے انسان اتنے پاپڑ بیلتا ہے اور رنگا رنگ تمنائیں سینے میں بساتا ہے، وہ اس کی ذات کے مقابلے میں اس کے مال کو زیادہ عزیز رکھتی ہے اور متعدد مرتبہ یہ تمنا کرتی ہے کہ بڑے میاں کل کی جگہ آج ہی دنیا سے سدھار جائیں تاکہ اسے کھل کھیلنے کا موقع ملے۔ اس حکایت میں اولاد کے لیے یہ سبق ہے کہ آج جیسا سلوک وہ اپنے ماں باپ سے کر رہے ہیں، کل ویسا ہی سلوک ان کی اولاد ان کے ساتھ کرے گی۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں