1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔ محاسبہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 جون 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔ محاسبہ

    بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مسافر اتفاقاً خدا رسیدہ لوگوں کے حلقے میں پہنچ گیا اور ان کی اچھی صحبت سے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔ اس کی بری عادتیں چھوٹ گئیں اور نیکی میں لذت محسوس کرنے لگا۔
    یہ انقلاب یقینا بے حد خوش گوار تھا لیکن حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کو کون بدل سکتا ہے۔ اس شخص کے مخالفوں نے اس کے بارے میں مشہور کر دیا کہ اس کا نیکی کی طرف راغب ہو جانا تو محض دنیا کو دکھانے کے لیے ہے۔
    اس بات سے اسے بہت صدمہ پہنچا چنانچہ وہ ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مرشد نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تیرے مخالف تجھے جیسا بتاتے ہیں، تو ویسا نہیں۔ صدمے کی بات تو یہ ہوتی کہ تو اصلاً برا ہوتا اور لوگ تجھے نیک اور شریف بتاتے۔
    یہ کہیں بہتر ہے نیکی کر کے بد مشہور ہو
    یہ تباہی ہے کہ بد ہو اور تجھے سمجھیں شریف
    اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے نہایت لطیف پیرائے میں اپنا محاسبہ آپ کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اپنے بارے میں اہل دنیا کی رائے کو ہر گز قابل اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہاں تو اچھوں کو برا اور بروں کو اچھا کہنے کا رواج ہے۔
    اس کے علاوہ دوسری بہت ہی عمدہ بات یہ بتائی ہے کہ برائی کر کے اچھا مشہور کرنے کی خواہش کے مقابلے میں یہ بات ہر لحاظ سے مستحسن ہے کہ انسان اچھا ہو اور لوگ اسے برا خیال کریں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں