1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدیؒ ، نگینہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏17 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدیؒ ، نگینہ
    upload_2019-12-17_2-16-12.jpeg
    حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی انگشتری میں ایک ایسا نگینہ جڑا ہوا تھا جس کی صحیح قیمت کا اندازہ جوہری بھی نہ کر سکتے تھے۔ وہ گویا دریائے نور تھا جو رات کو دن میں بدل دیتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک سال سخت قحط پڑ گیا۔ لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ حضرتؒ کو ان حالات کا علم ہوا تو لوگوں کی امداد کے لیے اپنی انگشتری کا وہ قیمتی نگینہ فروخت کر دیا اور جو قیمت ملی اس سے اناج خرید کر تقسیم کروا دیا۔ جب اس بات کا علم آپؒ کے بہی خواہوں کو ہوا تو ان میں سے ایک نے آپؒ سے کہا، یہ آپؒ نے کیا کیا؟ ایسا بیش بہا نگینہ بیچ ڈالا؟ حضرتؒ نے یہ بات سن کر فرمایا کہ نگینہ مجھے بھی بہت پسند تھا، لیکن میں یہ بات گوارا نہ کر سکتا تھا کہ لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہوں اور میں قیمتی انگوٹھی پہنے بیٹھا ہوں۔ کسی بھی حکمران کے لیے یہ بات زیبا نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو تکلیف میں مبتلا دیکھے اور آرام اور زیب و زینت کے سامان کو عزیز رکھے۔ یہ فرماتے ہوئے آپؒ کے رخسار پر آنسو بہہ رہے تھے۔ جنھیں حق نے بخشا دل درد مند انھیں اپنا آرام کب ہے پسند اگر حکمراں سوئے آرام سے رعایا ہو دوچار آلام سے اگر حکمران ہو گا شب زندہ دار ملے گا رعایا کو صبرو قرار حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں حکمرانوں کو ان کے اس فرض کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انھیں اپنے آرام اور آسائش پر عوام کے آرام اور آسائش کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جو تختِ حکومت سے لے کر ایک معمولی خاندان تک کا احاطہ کرتا ہے۔ ہر بالادست شخص کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ زیردستوں کے خیال سے کسی طرح بھی غافل نہ ہو۔ یہ اس کی اخلاقی اور دینی ذمے داری ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں