1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدیؒ ، مغرور کا انجام

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدیؒ ، مغرور کا انجام
    [​IMG]
    بیان کیا جاتا ہے، زمانے کا ستایا ہوا ایک مفلس ایک امیر آدمی کے پاس گیا اور اپنا احوال سنا کر امداد کی درخواست کی۔ امیر آدمی مال و دولت ضرور رکھتا تھا لیکن دولتِ اخلاق سے محروم تھا۔ اس نے سائل کو خوب ڈانٹا اور غلاموں کو حکم دیا کہ دھکے دے کر اسے باہر نکال دو۔ غیور خدا کو اس بدخلق امیر کی یہ حرکت کچھ ایسی ناگوار ہوئی کہ اس نے اس کی تقدیر کا پانسا پلٹ دیا۔ پے در پے نقصانات اور آفات نے اس کی املاک کو برباد کر دیا اور وہ عزت اور وجاہت سے بالکل محروم ہو گیا۔ جیسا کہ قاعدہ ہے، زوال کے وقت کوئی ساتھی نہیں بنتا۔ ملازم اور یار دوست اس سے کنارہ کش ہو گئے، اور ملازموں میں سے ایک ایسا تھا جو اس کا معتمد تھا، ایک اور شخص کی خدمت پر مامور ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک دن یہ خادم اپنے نئے آقا کو کھانا کھلا رہا تھا کہ کسی فقیر نے دروازے پر آ کر صدا لگائی۔ یہ امیر نیک خُو اور خدا ترس تھا۔ اس نے خادم کو حکم دیا کہ سائل کے لیے کھانا لے جا اور اس کا سوال پورا کر۔ خادم کھانا لے کر چلا گیا اور جب واپس لوٹا تو غم سے نڈھال ہو رہا تھا۔ اس کے رخساروں پر یوں آنسو بہہ رہے تھے جیسے اسے کوئی بہت ہی بڑا صدمہ پہنچا ہو۔ امیر نے رونے اور ملول ہونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا، اے آقا! جو بوڑھا آدمی ہاتھ میں کشکول لیے آج ہمارے دروازے پر بھیک مانگنے آیا ہے، یہ کسی وقت بہت دولت مند تھا اور اس زمانے میں اس کے خدمت گاروں میں شامل تھا۔ آج اسے ایسی خراب حالت میں دیکھ کر میرا دل بے چین ہو گیا۔ امیر آدمی نے خادم کی یہ بات سن کر کہا، تو نے اسے تو پہچان لیا لیکن مجھے بھی پہچانتا ہے؟ میری طرف دیکھ! میں وہی سائل ہوں جو ایک دن تیرے پہلے آقا کے پاس گیا تھا اور اس نے مجھے بے آبرو کر کے اپنے گھر سے نکلوا دیا تھا۔ آج تو اسے جس حالت میں دیکھ رہا ہے، یہ یقینا اس کے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔ خدا نے اسے اپنے فضل و کرم سے نوازا تو وہ فرعونِ بے سامان بن گیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس حال کو نہ پہنچتا۔ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں قدرت کے اٹل قانون مکافاتِ عمل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جس طرح کوئی شخص جَو کاشت کرنے کے بعد گندم حاصل نہیں کر سکتا، اسی طرح برائی کرنے والے کو بھلائی حاصل نہیں ہوتی۔ بعض اوقات یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک شخص برے اعمال میں مگن ہوتا ہے، جیسے برائی اسے راس آ گئی ہو۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ برے کی رسی دراز کی جاتی ہے اور وقت آنے پر اسے اگلے پچھلے سارے گناہوں کی سزا دی جاتی ہے۔ اور کبھی ایسے آدمی کی حیثیت جلاد کی ہوتی ہے۔ اسے اس سے بڑے مجرموں کو سزا دینے پر مقرر کیا جاتا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں