1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدیؒ ، عیوب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏22 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدیؒ ، عیوب
    [​IMG]
    بیان کیا جاتا ہے کہ سرزمینِ وخش (تاجکستان) کے ایک بزرگ نے عمر کے آخری حصے میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ یہ بزرگ ان لوگوں میں سے ہرگز نہ تھے جو ہر کام دکھاوے کے لیے کرتے ہیں اور دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لیے دینداری کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ لیکن برا چاہنے والوں کی زبان کون پکڑ سکتا ہے۔ ان کا ایک بدخواہ جہاں جاتا تھا، بزرگ کو برا بھلا کہنے کا کوئی پہلو پیدا کر لیتا تھا۔ کبھی کہتا کہ ان رنگے ہوئے گیدڑوں کا کیا اعتبار، یہ تو صرف دکھاوے کے لیے پرہیزگاری کی دکان سجاتے ہیں۔ وہ ان کی ذات میں طرح طرح کے عیب نکالتا اور من گھڑت خامیاں بیان کرتا۔ کسی طرح یہ بات ان بزرگ کو بھی معلوم ہو گئی۔ اس شخص کی دشمنی کا حال سن کر آپ آبدیدہ ہو گئے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر فرمایا، یااللہ! اس شخص کو توبہ کی توفیق بخش اور اگر وہ برائیاں واقعی میری ذات میں ہیں جنہیں وہ بیان کرتا ہے تو مجھے توبہ کی توفیق عطا فرما۔ یہ حکایت بیان کرتے ہوئے حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں کہ اگر تجھے دشمن کی کہی ہوئی باتوں سے دکھ پہنچتا ہے تو ایسی پاکیزگی سے زندگی گزار کہ اس کی بات ہمیشہ غلط ثابت ہو۔ میں تو اس شخص کو اپنا دوست خیال کرتا ہوں جو مجھے میرے عیوب سے آگاہ کرتا ہے دوست ہے وہ تجھ پہ جو ظاہر کرے تیرے عیوب اس کو دشمن جان جو عیبوں کو بھی خوبی بتائے غور کر! تیرا محاسب تجھ سے بڑھ کر کون ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ادنیٰ بات بھی خود سے چھپائے اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے قوتِ برداشت پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خوشامد کرنا ایک بدترین کام ہے لیکن خوشامد پسند ہونا بھی کچھ کم برائی کی بات نہیں بلکہ یہ عیب پہلے عیب سے زیادہ سنگین ہے کیونکہ خوشامد پسند لوگ ہی خوشامدیوں کا گروہ پیدا کرتے ہیں۔ ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اپنی حقیقی حیثیت سے غافل ہو کر ان لوگوں سے خوش ہوتے ہیں جو ان کی جھوٹی سچی تعریفیں کریں اور انہیں اپنا بدخواہ جانتے ہیں جو کسی خامی کی نشان دہی کریں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ان کے گرد خوشامدیوں اور بے ضمیر لوگوں کا گروہ اکٹھا ہو جاتا ہے اور شرفا کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر ان میں بات سننے کی قوت ہو تو احمقوں کی جنت سے نکل کر زندگی کا حقیقی حسن دیکھیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں