1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدیؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بادشاہ کی حماقت

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدیؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بادشاہ کی حماقت
    upload_2020-1-7_2-1-19.jpeg
    کہتے ہیں، ایک بادشاہ رعیت کی نگہبانی سے بے پروا اور بے انصافی اور ظلم پر دلیر تھا۔ ان دونوں باتوں کا یہ نتیجہ بر آمد ہو رہا تھا کہ اس کے ملک کے لوگ گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ ایک دن یہ کم فہم اور ظالم بادشاہ اپنے دربار میں عہدے داروں اور ندیموں کے درمیان بیٹھا فردوسی کی مشہور رزمیہ نظم ’’شاہنامہ‘‘ سن رہا تھا۔ بادشاہ ضحاک اور فریدوں کا ذکر آیا تو اس نے اپنے وزیر سے سوال کیا کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ ضحاک جیسا بڑا بادشاہ اپنی سلطنت گنوا بیٹھا۔ اور فریدوں بڑا بادشاہ بن گیا۔ جب کہ اس کے پاس لاؤ لشکر تھا نہ بڑا خزانہ ؟ اس کا وزیر بہت دانا تھا۔ اس نے ادب سے جواب دیا کہ حضور والا اس کی وجہ یہ تھی کہ فریدوں خلق خدا کا بہی خواہ اور ضحاک لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف سے لا پروا تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ضحاک کو چھوڑ کر فریدوں کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور وہ بادشاہ بن گیا۔ بادشاہی لشکر اور عوام کی مدد سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ پھر وزیر نے بادشاہ کو نصیحت کی کہ سلطنت قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور اپنا رویہّ بدلیں۔ لوگوں کو پریشان اور ہراساں کرنے کی بجائے اچھا برتاؤ کریں۔ احسان اور انصاف کرنے سے بادشاہ کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ فوج کے سپاہی وفادار اور جاں نثار بن جاتے ہیں۔ یہ باتیں خیر خواہی کے جذبے سے کہی گئی تھیں لیکن بادشاہ وزیر سے ناراض ہو گیا اور اسے جیل بھجوا دیا۔ اس نے اپنا رویہّ بدلنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ کچھ ہی دن بعد، کرنا خدا کا کیا ہوا کہ بادشاہ کے بھائی بھتیجوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور رعایا ان کی طرف دار ہو گئی۔ کیونکہ ہر شخص بے تدبیر بادشاہ کے ظلم سے پریشان تھا۔ سلطنت اور ظلم یک جاہو نہیں سکتے کبھی بھیڑیا بھیڑوں کی رکھوالی پہ کب رکھا گیا ظلم سفاکی پہ جو حاکم بھی ہو جائے دلیر جان لو قصر حکومت اس نے خود ہی ڈھا دیا حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں جہاندانی کا یہ زرین اصول بیان کیا ہے کہ بادشاہ کی اصل قوت رعایا کی خیر خواہی اور محبت ہے۔ یہ قوت احسان اور انصاف کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ بصورت دیگر انتہائی قریبی لوگ بھی مخالف بن جاتے ہیں۔ ظالم حاکم تنہا رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں دشمن اسے آسانی سے ختم کر دیتے ہیں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں