1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایتِ سعدیؒ , دو بیٹے

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایتِ سعدیؒ , دو بیٹے
    upload_2019-11-20_2-4-48.jpeg
    بیان کیا جاتا ہے کہ باختر کے امیر کے دو بیٹے تھے۔ دونوں شہ زور، فنون سپہ گری میں طاق اور حوصلہ مند تھے۔ امیر نے محسوس کیا کہ میرے بعد اپنی اپنی جگہ دونوں ہی یہ کوشش کریں گے کہ ملک پر تصرف حاصل ہو جائے اور یوں ان کے درمیان تلوار چلے گی۔ چنانچہ سارے پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد اس نے ملک کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر کے اپنی زندگی ہی میں دونوں کو ایک ایک حصے کا حاکم بنا دیا اور نصیحت کی کہ ہمیشہ متحد رہنا اور ایک دوسرے کی امداد کرتے رہنا کہ اسی میں تم دونوں کی بھلائی ہے۔ دونوں بھائی قوت اور فنون سپہ گری میں تو قریب قریب برابر تھے لیکن ان کی عادتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ایک خدا ترس، عادل اور خوش اخلاق تھا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا لالچی، سخت گیر اور بدخُو تھا۔ باپ کی زندگی میں تو ان کی زندگی قریب قریب ایک سی گزرتی تھی کیونکہ اس کی شفقت دونوں کو اپنے سائے میں لیے ہوئے تھی، لیکن اس کی وفات کے بعد دونوں کی عادتوں کے مطابق نتیجے نکلے۔ پہلے کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کا ملک خوش حال ہو گیا۔ باغوں میں پھلوں اور کھیتوں میں غلے کے انبار لگ گئے۔ ہر شخص اس کی تعریف کرتا تھا اور درازیٔ عمر کی دعائیں مانگتا تھا۔ دوسرے نے رعایا کو لوٹ کر اپنا خزانہ بھرنے کی فکر کی۔ لوگوں کو طرح طرح سے ستانا اور پریشان کرنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنے گھر بار اور زمین چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ پڑوسی ملک کے حاکم کو اس کی تباہ حالی کا پتا چلا تو اس نے چڑھائی کر دی اور اس کا اقتدار ختم کر دیا۔ ظلم میں وہ چیز ڈھونڈی جو نہاں تھی عدل میں ایسے ناداں کو بھلا حاصل ہو کیوں عزو جاہ ایسا ظالم کامرانی سے نہ ہو گا ہمکنار جس کے سر پر برق بن کر آئے مظلوموں کی آہ اٹھ رہے ہوں بددعا کو ہاتھ جس کے واسطے چرخِ نیلی فام کے نیچے نہیں اس کو پناہ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں مکافاتِ عمل کا فلسفہ بیان کیا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن قدرت کا یہ پکا قانون ہے کہ جَو بونے والے کو جَو، اور گندم بونے والے کو گندم ملتی ہے۔ عاقبت میں انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق جو سزا اور جزا ملے گی وہ اپنی جگہ، لیکن اس دنیا کے معاملات بھی ہمارے اعمال و افکار کے مطابق ہی طے پاتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ ضرور ہوتا ہے کہ نتیجہ کسی قدر دیر میں سامنے آتا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں