1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حق ہے تجھے جسے بھی تُو چاہے غلط سمجھ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حق ہے تجھے جسے بھی تُو چاہے غلط سمجھ
    کم تر مگر کسی کو مرے یار مت سمجھ
    چلتا ہے کاروبارِ وفا اعتبار پر
    جو کہہ دیا گیا ہے اسے دستخط سمجھ
    پسپا ہوئے محاذ سے ہم جان بُوجھ کر
    یہ بزدلی نہیں ہے اسے مصلحت سمجھ
    مروا دیا ضمیر نے کہہ کہہ کے یہ مجھے
    کہہ ٹھیک کو تُو ٹھیک، غلط کو غلط سمجھ
    سر کی گرفت ہی سے تو گرتا نہیں بدن
    دیوار خود پہ چھت کو کبھی بار مت سمجھ
    تعریف زندگی کی اگر چاہیے تجھے
    آبِ رواں پہ بلبلے کے خال و خط سمجھ
    پائوں کی زد پہ آئے تو اطلاع ہو تجھے
    اس فرشِ پائمال کی تکلیف چھت سمجھ
    دیکھا تو ہر وجود تھا دراصل بے وجود
    اب اپنے اس وجود کی خود منزلت سمجھ
    کیوں دے نہیں رہا تُو فریبِ نظر کو دوش
    کس نے کہا تھا آسماں کو اپنی چھت سمجھ
    اندر خیال و خواب کے آباد ہیں جہاں
    سو اس بدن کو ایک نہیں اَن گنت سمجھ
    حالِ سفر تمام بتائے گا یہ حبیبؔ
    نقشِ کفِ قدم کو بھی اِک رسمِ خط سمجھ
    حبیب سعید






     

اس صفحے کو مشتہر کریں