1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت قائد اعظمؒ، مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان .... شریف المجاہد

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت قائد اعظمؒ، مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان .... شریف المجاہد

    آپ ؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دے دیتے تھے, آپ ؒ نے 1916ء مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو آئین میں شامل کرنے کا مطالبہ منوا لیا تھا , نمائندہ حکومت کا یہ مطلب نہیں کہ ایک آئین کے ذریعے 7 کروڑ مسلمانوں کو ہاتھ پیر باندھ کرہندوئوں کے سامنے ڈال دیا جائے,صرف ایک برس میں 57خونریز فسادات میں سینکڑوں مسلمان شہید ہوئے ،ہندوستان خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا

    حضرت قائد اعظم ؒ نے ایک زمانے میں خود کوپوری طرح قومی معاملات کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کے مفادات بھی ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتے تھے۔ تیسری دہائی کے خاتمے اور اور چوتھی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہا تھا کہ لالہ لاجپت رائے (1865ء تا 1928ء ) مدموہن مالویہ اور (1861ء تا 1946ء ) جیسے سرکردہ ہندو مبلغ اور علمبردار نیشنلسٹ سیاست کی کیا کیا تاویلات اور تشریحات پیش کرتے تھے، ان کے برخلاف حضرت قائد اعظم ؒ دو مختلف مقاصد یعنی ہندو فرقہ وارانہ مقاصد اور مسلم مقاصد کو کبھی غلط ملط کرنے پر تیار نہ تھے۔ مثال کے طور پر 1931ء میں حضرت قائد اعظمؒ نے یہ اعلان کرتے وقت کہ ’’ میں ہندوستانی ہوں لیکن میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ کوئی بھی ہندوستانی، مسلمانوں کے مفادات کو نظر انداز کر کے اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد انہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ ہی اس حقیقت کی بھی نشاندہی کی تھی کہ نمائندہ حکومت کا یہ مطلب نہیں کہ ایک آئین کے ذریعے سات کروڑ مسلمانوں کو ان کے ہاتھ پیر باندھ کر ہندوئوں کے ایک مخصوص فرقے کے سامنے ڈال دیا جائے،تاکہ وہا ں پر جو ظلم و ستم چاہیں، کریں۔ اور جو جی میں آئے، ان کے ساتھ سلوک روا رکھیں‘‘۔آپ ؒ کا کہنا تھا کہ اس قسم کی کوئی حکومت نمائندہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی جمہوری۔

    آپؒ دو صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت کو

    اقلیت میں بدلنے کی سازش کے خلاف ڈٹ گئے

    چنانچہ 1919ء کے ایکٹ میں جب ایک مرتبہ ہندوستانی نظام میں مسلمانوں کی یہ حیثیت تسلیم کر لی گئی تو انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اس امر پر مرکوز کر دی کہ مسلمانوں کو ان کے اکثریتی علاقوں میں قانونی اکثریت بھی حاصل ہو جائے۔ اس موقع پر مسلمانوں میں تحفظ کا احساس اجاگر کرنے کے لئے یہ مرحلہ طے کرنا نہایت ضروری تھا ۔ کیونکہ 1919ء کی اصلاحات کے تحت مسلم اکثریت جو کہ پنجاب میں 57 فیصد اور بنگال میں 54.7 فیصد تھی ۔مجالس قانون ساز میں اس اکثریت کو کم کر کے علی الترتیب 48فیصد اور 40فیصد کر دیا گیا تھا۔ اب جبکہ اصلاحات کی اگلی قسط میں صوبائی خود مختاری کے امکانات پیدا ہو گئے تھے حضرت قائد اعظم ؒ کی کوششیں بھی انہی امور پر مرکوز تھیں کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کو قانونی اکثریت حاصل ہو جائے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اصلاحات نافذ کی جائیں۔سندھ کو بمبئی (ممبئی ) پریذیڈنسی سے الگ کیا جائے،اور بقیہ اختیارات صوبوں کو سونپے جائیں۔ ہندوستان میں سات ہندو اکثریتی صوبوں کے مقابلے میں توازن پیدا کرنے کے لئے پانچ مسلم صوبے موجود تھے۔ لیکن حقیقی توازن قائم کرنے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ ان اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو قانونی اکثریت بھی حاصل ہو۔​
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    دہلی مسلم تجاویز اور 14نکات کی بنیاد

    مرکز میں مسلمانوں کو ایک تہائی نشستیں ملنا تھیں اور کیونکہ ہر دو فریقین کی دو تہائی اکثریت (دوہرے ووٹ ) کی شق بھی موجود تھی، اس طرح ایک حقیقی وفاقی آئین بھی بے رحم ہندو اکثریت سے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہو سکتا تھا۔ اس طرح مسلمان ہندوستان کی وحدت کے اندر رہتے ہوئے اس کے امور میں شرکت کر سکتے تھے۔آپؒ کایہی انداز فکر دہلی مسلم تجاویز کی بنیاد بنا اور پھر محمد علی جناحؒ کے مشہور 14نکات مارچ 1929ء میں نکھر کر سامنے آئے۔ یہ آپؒ کی طرف سے نیشنل کنونشن میں ہندو رویے کا جواب تھا۔ آپؒ نے اپنے 14نکات پیش کر کے مسلمانوں کو ایک پرچم تلے متحد کرنے کی کوشش کی تھی یہ نکات جہاں مسلمانوں کے مختلف نقطہ ہائے نظر میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے تھے وہیں نہرور پورٹ کے بارے میں حضرت قائد اعظمؒ کے اور مسلمانوں کے نقطہ نظر کو بھی پیش کرتے تھے۔ دہلی مسلم تجاویز انتخابی مسئلہ پر نیشنلسٹ رجحان کے تقاضوں کے پیش نظر وضع کی گئی تھیں جبکہ14 نکات اس سے قطعی متضاد خالصتاََ مسلمانوں کے نقطہ نظر کے غماز تھے۔ اس لئے یہ نکات گول میز کانفرنس اور اس کے بعد بھی (1930ء ۔ 1932ء )میں مسلمانوں کے مطالبات کی بنیاد بن گئے۔ یہ گول میز کانفرنس لندن میں بلائی گئی تھی۔ اور اس کا مقصد ہندوستان کے لئے مستقل آئین کی تیاری تھا۔ اس سے بھی اہم بات،آپ ؒ کے ان چودہ نکات میں سے کچھ نکات کو کمیونل ایوارڈ میں شامل کر لیا گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر ، یہ نکات اگلے گیارہ برس کے دوران یعنی قیام پاکستان تک، اسلامیان ہندوستان کا دستور عمل بنے رہے۔

    نہرو کی رعونت اور 1934ء میں

    مذاکرات کی ناکامی کے اسباب

    بہت سے دوسرے رہنمائوں کی طرح حضرت قائد اعظم ؒ بھی قائل ہو گئے تھے کہ کانگریس صرف نام کی حد تک قومی جماعت ہے ورنہ وہ بھی درحقیقت ہندوئوں کی بالادستی کے لئے ہی کام کر رہی ہے۔ اور یہ بالادستی وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو قربان کر کے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس کے اس رویے کی مزید تصدیق 1930ء اور1931ء میں اس وقت ہو گئی جب کانگریس نے یہ دعویٰ بھی شروع کر دیا کہ صرف وہی ہندوستانی امنگوں اور خواہشات ، ہندوستانی نیشنلزم اور تمام اقلیتوں کی واحد مسلمہ اور مصدقہ جماعت ہے۔دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ 1931ء میں نہرو نے بڑی رعونت کے ساتھ دوسری پارٹیوں اور شرکاء کو غیر اہم اور فضول کہا تھا ۔ حضرت قائد اعظمؒ جیسے زیرک سیاست دان کے لئے ان حقائق کی گہرائیوں تک پہنچناکچھ مشکل نہ تھا۔ یوں آپ ؒ کانگریس کی دو عمل اور منافقت کے باعث اس نتیجے تک پہنچے۔ لیکن ایک بار پھر آپؒ نے 1934ء میں پنڈت مدن مدہن مالویہ سے بات چیت کی۔ 1935ء کے اوائل میں کانگریس کے صدر بابو راجندر پرشاد سے طویل مذاکرات کئے۔ لیکن ہندوئوں کی توجہ بنگال اور پنجاب پر تھی لہٰذا یہ فارمولہ بھی اپنی موت آپ مر گیا۔ہندو لیڈروں سے مذاکرات کے ذریعے یہ مصالحت کی آخری کوشش تھی۔

    مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششوں کا آغاز

    دوسری جانب مسلمانوں کے معاملات میں بھی انہیں ٹھوس کامیابیاں حاصل ہوئیں۔1924ء میں انہوں نے مسلم لیگ کو زندہ کیا۔حالانکہ اس وقت کئی دیگر مسلم جماعتیں بھی قائم تھیں۔ آپؒ نے مسلم لیگ کو مسلم سیاست کا مرکز بنا دیا۔ مسلم لیگ کو از سرنو منظم کیا۔ 1934ء میں جب آپ ؒ نے قیادت سنبھالی، تو نہ صرف دیگر جماعتوں ( مثلاََ جمعیت علمائے ہند) اور میاں فضل حسین نے بھی خیر مقدم کیا ۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کامیابیاں ان کی منتظر تھیں۔ اب وہ صرف مسلم اتحاد کے لئے سرگرم عمل تھے۔ ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ ایک ایسی پالیسی بنانے میں ہمہ تن مصروف تھے جس پر پور ے ہندوستان کے مسلمان پورے خلوص اور یقین کے ساتھ گامزن ہوسکیں۔ یہی وہ کردار تھا جس کی بنا پر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اسلامیان ہند کے غیر متنازعہ رہنما کی حیثیت سے ابھرنا تھا۔ اس قوم کا قائد اعظمؒ بنناتھا۔

    مسلم لیگ میں گروہ بندی کا خاتمہ

    تیسری دہائی کے اوائل میں پورا ہندوستان تحریک خلافت اور ترکی کے مستقبل کی طرف سے اپنی قدرتی بے چینی اور تشویش کی بنا ء پر ایک بحرانی کیفیت کا شکار تھا۔ اسلام کے داعی کی حیثیت سے مولانامحمد علی جوہرا سلامیان ہند کے لیڈر کی حیثیت سے ابھرے۔مگر 1922ء میں تحریک خلافت کی ناکامی اور 1924ء میں اس کے خاتمے کے واقعات ایسے ہیں جن سے لوگ ان سے مایوس ہونے لگے۔جب سائمن کمیشن کے معاملے پر 1927ء میں میاں محمد شفیع کے اختلافات ظاہر ہونے لگے تو مولانا محمد علی نے کھل کر حضرت قائد اعظمؒ کی حمایت کی۔ جن دنوں محمد علی جوہر علیل تھے اور انہیں لندن لے جانے کے لئے سٹریچر پر جہاز میں سوار کرایا جا رہا تھا تو انہوں نے قائد اعظمؒ کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں اعتراف کیا تھا۔

    یاد رہے،گول میز کانفرنس میں کانگریس کے رویے سے انتہائی مایوس ہو کر قائد اعظم ؒ ہندوستان کو خیرباد کہہ کر انگلستان میں آباد ہو گئے تھے۔ مسلم لیگ کی از سر نو شیرازہ بندی کے ساتھ ساتھ اسے پھر سے فعال بنانے کی بھی ضرورت تھی۔ چنانچہ ایک تار میں حضرت قائد اعظمؒ سے درخواست کی گئی کہ وہ واپس آ کر لیگ کا نتظام اور قیادت سنبھال لیں۔ اسے منظم کر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر اس کی سابقہ حیثیت کو بحال کریں ۔ آپؒ پر ہندوستان کے مسلمان رہنمائوں کو کس قدر اعتماد اور بھروسہ تھا، اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اپریل 1934ء میں جب انہیں متفقہ طور پر مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا تو مجلس قانون ساز کے کئی مسلم اراکین نے ان کے لے اپنی نشستیں خالی کرنے کی پیش کش کر دی۔ تاکہ وہ بھی مجلس قانون ساز کے رکن بن سکیں۔ تاہم آپؒ نے یہ بات منظور نہ کی۔

    اقلیت میں رہ کر اکثریت سے ایوارڈ منظور کرایا

    حضرت قائد اعظمؒ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اکتوبر 1934ء میں جبکہ آپؒ انگلستان میں ہی تھے، بمبئی کے مسلمانوں نے انہیں متفقہ طور پر مرکزی اسمبلی کے لئے بلا مقابلہ رکن منتخب کر لیا۔ جنوری 1935ء میں جب نئی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو انہیں اسمبلی میں انڈیپنڈنٹ پارٹی کا قائدمنتخب کر لیا گیا۔اس پارٹی میں زیادہ تر مسلمان شامل تھے۔ مرکزی اسمبلی میں کانگریس کے بعد یہ پارٹی اراکین کی تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر تھی۔ اس دور میں اسلامیان ہند نے محمد علی جناح ؒ پر جس اعتماد کا اظہار کیا تھا آپؒ ان پر کماحقہ پورے اترے۔ فروری 1935ء میں قانونی اور پارلیمانی امور میں اپنی بے مثل اور خدا داد صلاحیتوں سے کام لے کر نہ صرف ایک سرکاری تحریک کو ناکام بنا دیا تھا، بلکہ جوائنٹ پارلیمنٹری رپورٹ میں بھی کانگریس کی تجویز کردہ ترامیم سے متعلق ایک تحریک کو بھی ناکام بنا دیا۔ انڈیپنڈنٹ پارٹی کے قائد کی حیثیت سے انہوں نے اسمبلی سے کمیونل ایوارڈ بھی منظور کرا لیا۔یہ ایوارڈ انہوں نے اس وقت منظور کرایا جب ان کی جماعت اقلیت میں تھی۔ ایوان میں ایک ایسی پارٹی کے قائد کی حیثیت سے یہ سب منوایا جس کے اراکین کی تعداد 127میں سے صرف 22تھی ۔
     
  3. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    حضرت قائد اعظم ؒ کی عدم موجودگی

    میں مسلم لیگ کی بے عملی

    محمد علی جناحؒ نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے کام کا آغازباقاعدگی کے ساتھ اکتوبر 1935ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد کیا۔ یہ کام کچھ اتنا آسان نہ تھا۔قائد اعظم ؒکی عدم موجودگی میں مسلم لیگ کی بے عملی کا یہ عالم تھا کہ گزشتہ چند برسوں سے اس کے سالانہ اجلاس بھی مسلمانوں میں کسی قسم کی ہلچل پیدا کرنے میں ناکام رہتے تھے۔پھر ان میں حاضری اس قدر کم ہوتی تھی کہ مجبوراََ کورم بھی 75سے 50کر دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں بنیادی سطح پر اس کی کوئی تنظیم یا ادارے موجود نہ تھے ۔ عالم یہ تھا کہ صوبائی سطح کی تنظیموں کا وجود بھی صرف کاغذ کی حد تک محدود تھا۔ یہ کاغذی شاخیں بھی قطعی غیر موثر اور غیر فعال تھیں۔ان پرمرکز کا کنٹرول بھی برائے نام تھا۔خود مرکزی مسلم لیگ کے پاس بھی کوئی واضح سیاسی پروگرام یا جامع دستور العمل بھی موجود نہ تھا۔ تاآنکہ بمبئی (اپریل 1936ء ) سیشن بھی منعقد نہ ہو سکا جس کا اہتمام خود حضرت قائد اعظمؒ نے سر سید وزیر حسن کی زیر صدارت کیا تھا ۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ صوبائی سطح پر لیگ کا وجود ایک عجیب گورکھ دھندا بن گیا تھا۔مختلف مسلم لیڈروں نے اپنی اپنی صوبائی پارٹیاں قائم کر لی تھیں۔ ان کا مقصد صرف اپنی ذاتی لیڈری کو چمکانا تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لیڈروں نے محمدعلی جناح ؒ سے اس مرحلے پر تعاون کیوں نہیں کیا تھا۔ ان میں پنجاب ، یوپی ،سندھ اور خیبر پختونخوا کے بعض رہنما بھی شامل تھے۔ کچھ حضرات بڑی حد تک انگریزوں کے زیر اثر تھے۔ کچھ دیگر رہنما بھی پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کی طرز پرسیاست کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔

    مسلم رہنمائوں کی مقامی جماعتیں

    اور قائد اعظمؒ کی حکمت عملی

    بنگال کا ہمسایہ صوبہ آسام چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹا ہوا تھا۔حد یہ ہے کہ وہاں لیگ بھی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔دیگر صوبوں میں بھی صوبائی جماعتوں کی تنظیم نو یونینسٹ پارٹی کی طرز پر کر دی گئی تھی۔خلافت کانفرنس کے ٹوٹنے سے قائم ہونے والی جماعتیں الگ تھیں۔خیبر پختونخوا میں بھی مسلمانوں کے چار گروپ موجود تھے۔ بہار میں سید عبدالعزیز انتہائی معتبر اور معزز رہنما سمجھے جاتے تھے، انہوں نے یونائیٹڈمسلم پارٹی کی نسبت سے پارلیمانی بورڈ میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔سنٹرل صوبہ (CP) میں رئوف شاہ نے 13دیگر رہنمائوں کے ساتھ صوبائی پارلیمانی بورڈ سے محض ذاتی بناء پر مستعفی ہو کر اپنی ’’مسلم پارلیمنٹری پارٹی‘‘ بنا لی تھی۔ اسی طرح چوہدری عبدالحکیم نے ’’مدراس پریزیڈینسی مسلم پروگریسو پارٹی‘‘ بنا لی تھی۔کئی دیگر جماعتیں بھی اپنی اپنی وجوہات کی بناء پر تعاون کے لئے تیار نہ تھیں۔ ان میں سے بیشتر رہنمابعد میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے ۔

    ان کی جانب سے یہ رویہ اختیار کرنے کے کیا عوامل تھے؟ پہلی بات تویہ ہے کہ 1919ء کے ایکٹ کے نفاذکے بعد برطانوی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ ابتدائی طور پر صوبوں میں خود مختاری کو فروغ دیا جائے گا۔برطانوی حکومت کا یہ فیصلہ ایساتھا جس نے صوبائی دائرہ عمل میں کام کرنے والے سیاست دانوں کے لئے آگے بڑھنے اور کامیابیوں کے نئے دروازے وا کر دیئے تھے۔اسی لئے وہ صوبائی سطح پر زیادہ سرگرم رہ کر اقتدار میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ برطانوی حکومت صوبائی خود مختاری پر زور دے رہی تھی اور دوسری جانب وفاق کی تشکیل ایک غیر یقینی مدت تک موخر ہو گئی تھی۔کیونکہ اس کی تشکیل چند ایسی شرائط سے وابستہ تھی جن کی تکمیل اس وقت کے حالات میں ممکن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ بنا بریں، 1935ء کا ایکٹ بھی سیاست کو صوبوں تک محدود کرنے کا ذریعہ بن گیا تھا۔اس صورتحال میں صوبائی سیاست کرنے والے ہی فوری انعام اور صلے سے متمتع ہو سکتے تھے ۔

    اس حوصلہ شکن صورتحال میں حضرت قائد اعظمؒ کے لئے واحد حوصلہ افز ا بات یہ تھی کہ اسلام کے فلسفی شاعرعلامہ اقبالؒ ان کا نہایت عزم و استقامت سے ساتھ دے رہے تھے۔انہوں نے پس منظرمیں رہتے ہوئے ہندوستانی سیاست کی راہیں متعین کرنے میں آپؒ کی مدد کی۔ حضرت قائد اعظم ؒ ان عظیم لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے انتہائی مایوس کن حالات میں بھی مایوس ہونا اور امید کا دامن چھوڑنا نہیں سیکھا تھا ۔ آپؒ نے فوراََ ہی ملک کا دورہ کیا، اور مسلم رہنمائوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات ختم کر کے مسلم کاز کے لئے سرگرم عمل ہوں۔انہوں نے مسلمانوں کو اتحاد اور تنظیم کی راہ دکھائی۔گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے بارے میں مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو مربوط بنا کر مقصدیت عطا کر کے ایک آہنگ بھی دیا تھا۔آپؒ نے اعلان کیا کہ وفاقی سطح پر جو اعلان کیا گیا ہے اسے قلم زد کر دیا جائے گا۔یہ انتظام مکمل اور ذمہ دار حکومت کے قیام سے متعلق ہندوستان کے عوام کی امنگوں کے قطعی منافی تھا۔ البتہ انہوں نے صوبائی اسکیم کو اس بنا پر بروئے کار لانے پر زور دیا کہ اس میں پہلی مرتبہ صوبائی اختیارات کو تسلیم کیا گیا تھا۔علاوہ ازیں آپ ؒ نے 1937ء میں ہونے والے انتخابات کے لئے مسلم لیگ کا ایک منشور بھی ترتیب دیا۔آپؒ کی کوشش یہی تھی کہ جو وقت ضائع ہو گیا ہے اس کی تلافی کرتے ہوئے کم سے کم وقت میں مسلم لیگ کو ایسی طاقت بنا دیا جائے جسے تسلیم کرنا ہر مخالف اور حریف کی مجبوری بن جائے اور آپ ؒ اس میں کامیاب بھی رہے۔

    مسلم اکثریتی نشستوں پر کانگریس کی ناکامی

    آپ ؒ کی کوششوں سے کم ترین عرصے میں مسلم لیگ نے 492 کے ایوان میں 108 (23 فیصد) نشستیں حاصل کر لیں۔مثبت بات یہ تھی کہ مسلم لیگ نے تمام تر مشکلات کے باوجود اتنی نشستیں حاصل کر لی تھیں۔اول تو کل ہند کی بنیاد پر مسلم لیگ کے لئے انتخابات میں حصہ لینا مشکل تھا ۔ یہ پہلا موقع تھا۔علاوہ ازیں چار صوبوں (بہار، اڑیسہ، خیبر پختونخوااور سندھ )میں پارلیمانی بورڈ بھی موجود نہ تھے۔مسلم لیگ ان صوبوں میں کوئی امیدوار ہی کھڑا نہیں کر سکی تھی۔پنجاب میں مسلم لیگ نے صرف سات نشستوں پر امیدار کھڑے کئے تھے جن میں سے دو کامیاب رہے۔مدراس کی کل 29 نشستوں میں سے 11پر امیدوار کھڑے کئے جن میں سے 10کامیاب رہے۔ ان نتائج نے کانگریس کا یہ نکتہ غلط ثابت کر دیا کہ وہ اسلامیان ہند کی بھی ترجمان ہے۔ کیونکہ کانگریس خود 1885نشستوں میں سے 711نشستیں لینے میں کامیاب رہی تھی۔مزید براں، ہندوستان کے گیارہ میں سے آٹھ صوبوں کے مسلم انتخابی حلقوں میں کانگریس کا ایک امیدوار بھی کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ان آٹھ صوبوں میں پنجاب، سندھ ، بنگال، آسام، اتر پردیش، مرکزی صوبہ، اڑیسہ اور بمبئی شامل ہیں۔اس سے بھی اہم اور نمایاں بات یہ تھی کہ تین بڑے مسلم اکثریتی صوبوں یعنی پنجاب، سندھ اور بنگال کانگریس ایک بھی مسلم نشست حاصل نہیں کرسکی تھی۔ یو پی میں بھی ا سے کوئی مسلم نشست نہیں مل سکی تھی۔ یہی سبب تھا کہ محمد علی جناحؒ کے لئے انتخابی نتائج حوصلہ افزا تھے۔لیکن بنگال کے سوا دوسرے صوبوں میں اس کامیابی کے ثمرات سے محروم رکھا گیا۔

    قیام پاکستان کے مطالبے کا پس منظر

    ہندوستان میں مسلمانوں کو نفسیاتی ، ثقافتی، سیاسی، اور اقتصادی سمیت ہر محاذ پر مختلف چیلنج درپیش تھے۔اگرچہ ابتدائی طور پر وہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے حقوق کے خواہاں تھے لیکن اس سلسلے میں ان کی ہر کوشش کو ہندو رہنمائوں نے ہی ناکام بنا دیا۔ انہیں بے سوچے سمجھے حقارت سے ٹھکرا دیا گیابلکہ انہیں ہر اعتبار سے ناکام بنا دیا گیا۔باوقار حل کی تلاش کے لئے قائد اعظمؒ نے خط و کتابت اورملاقاتیں جاری رکھیں لیکن کانگریسی لیڈروں کی جانب سے انہیں ہر بار ٹکا سا جواب دیا گیا۔کانگریس اقتدار کے نشے میں چورتھی۔اپنی شرائط کے سوا کسی بنیاد پر سمجھوتے کے لئے آمادہ نہ تھی۔کانگریس کی ہٹ دھرمی کی انتہا تو یہ تھی کہ لکھنو اجلاس کے بعد اگرچہ مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر زبردست کامیابی حاصل کی تھی لیکن کانگریس اب بھی اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھی۔انگریزوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لئے حضرت قائد اعظم نے کانگریس سے کسی معاہدے یا سمجھوتے کے لئے جتنی بھی کوششیں کیں انہیں نہ صرف مسلم لیگ کی کمزوری قرار دے کر مسترد کر دیا گیا بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ مثلاََ اس نے بندے ماترم کو قومی ترانے کی حیثیت دے دی،سرکاری سکولوں میں اردو کی جگہ ہندی زبان کو نافذکر نے کے علاوہ گائے کے ذبح کے خلاف بھی قانون منظور کرائے گئے۔تعلیم اداروں میں ہندو عقائد پر مبنی مندر سکیم شروع کی گئی۔اور ملازمتوں میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے حق سے محروم کر دیا گیا۔کانگریس کے اقدامات کے ساتھ ہی طول و عرض میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔صرف ایک برس میں 57سنگین اور خونریز فسادات ہوئے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ،مرنے والوں میں مسلمان زیادہ تھے۔لگتا تھا کہ ہندوستان خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔مسلم لیگ کے ایماء پر ان فسادات کی تین تحقیقاتی رپورٹیں مرتب کی گئیں، جن میں جامع شہادتوں اور ثبوتوں کے ساتھ کانگریس راج میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔آپؒ نے اعلان کیا کہ انگریزوں نے جو سلوک روا ررکھا تھا ایک عام ہندو آج مسلمانوں کے ساتھ اس سے بھی برا سلوک کر رہا ہے۔ اکتوبر میں مسلم لیگ وزارتوں سے مستعفی ہو گئی، اور حضرت قائد اعظمؒ نے 22دسمبر 1939ء کو ہندوئوں کے ظالم کے خلاف ’’یوم نجات‘‘ منانے کی اپیل کی۔ آپؒ کی اپیل پر مسلمانوں نے جوش و خروش سے عمل کر کے ثابت کر دیا کہ مسلم لیگ ہی ان کی نمائندہ جماعت ہے۔ اور یہ کہ ہندوستان میں ان پرمظالم کئے جا رہے ہیں۔ کانگریس نے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے اس قدر مذموم غیر منصفانہ اور متعصبانہ حربے اختیار کئے کہ قائد اعظم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ اگر مسلمان الگ نہ ہوئے تو ان کا مستقبل کس قدر بھیانک ہو سکتا ہے ۔انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک اقلیت بن کر رہنا ہو گا۔دو سالہ کانگریسی راج کا تجزیہ کرنے کے بعد ان کے یہ خدشات درست ثابت ہوئے کہ کانگریس کامقصد بے رحم اکثریت کے بل بوتے پر ہندو راج کے قیام کے سوا کچھ نہیں۔آپؒ نے فرمایا،

    ’’ہم ایک قوم ہیں، ہماری تہذیب و تمدن، زبان و ادب، اقدار و اخلاقیات، قوانین و ضوابط، نام اور اصول ، ہماری رسوم اور تقویم، تاریخ اور رواج، رویے اور جذبات سب مختلف اور جدا ہیں۔زندگی کے بارے میں ہمارا اپنا نقطہ نظر ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تمام معیارات کے اعتبار سے ہم ایک قوم ہیں ‘‘۔ چوہدری رحمت علی نے اس کے لئے ’’پاکستان ‘‘کا نام تجویز کیا۔قراردادپاکستان اس کی جانب اہم پیش رفت تھی۔
     
  4. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    قیام پاکستان کے مقصد کی تکمیل

    حضرت قائد اعظمؒ نے قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد سب سے پہلاکام یہ کیا کہ وائسرائے سے یہ منوا لیا کہ ’’ہز میجسٹی اپنے اختیارات کسی ایسے نظام کو منتقل نہیں کرے گی جسے کوئی بڑا عنصر قبول نہ کرے‘‘ ۔ اس سے مسلمانوں کو نئے آئین کی تیاری کے عمل میں ’’ویٹو ‘‘مل گیا تھا۔ یہ بات بھی تسلیم کر لی گئی تھی کہ مسلمان ایسی قوت بن گئے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اگست 1940ء کے اعلان کے بیس مہینے بعد کرپس تجاویز سامنے آئیں۔یہ قیام پاکستان کی کٹھن راہ پر ایک قدم آگے کی جانب تھا۔مسلم لیگ اور کانگریس نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا۔1942ء میں کانگریس نے ’’انڈیا چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کر دی، اس کا مقصد نازک اورسنگین دور میں انگریزوں پر یہ دبائو ڈالنا تھا کہ وہ سب کو نظر انداز کر کے اختیارات انہیں سونپ دیں۔ محمد علی جناحؒ نے یہ صورتحال بھانپ کر مسلمانوں کو اس تحریک سے الگ رہنے کی تلقین کی۔اس موقع پر گاندھی نے ’’مارو اور مرجائو‘‘ کا جو پیغام دیا تھا ، اس سے پورا ہندوستان توڑ پھوڑ اور فسادات کی لپیٹ میں آ سکتا تھا۔بھارتی پریس میں زبردست پذیرائی ملنے کے باوجود یہ تحریک تھوڑے ہی عرصے میں پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ گئی۔

    اگلااہم مرحلہ جولائی میں منعقد ہونے والی شملہ کانفرنس تھی۔جس میں ایک مرکزی حکومت کے قیام کی تجویز مسترد کر دی گئی۔ کانگریس اوروائسرائے لارڈ ویول مسلم نشستوں کے کوٹے پر نامزدگی کا حق مسلم لیگ کو دینے پر تیار نہ تھے، اس لئے یہ کانفرنس بھی ناکام ہوئی۔ جس کے بعد حضرت قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان اور مسلم پر مسلمانوں کی منشا معلوم کرنے کے لئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔کانگریس نے یورپ میں جاپان سے جنگ کا بہانہ بنا کرٹالنے کی کوشش کی ،لیکن وائسرائے کے لئے مطالبے کو ٹالنا مشکل ہو گیا۔ چنانچہ اگست 1945 ء میں ہندوستان میں عام انتخابات کے انعقاد کااعلان کر دیا گیا۔ یہ قائد اعظمؒ کے دعوے کی کڑی آزمائش تھی، اسلامیان ہند کی خوش قسمتی تھی کہ مسلم لیگ اور حضرت قائد اعظم اس آزما ئش پر پورے اترے۔انتخابات کے نتائج نے ان دعوئوں کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ،ایک طرف تو جہاں مسلم لیگ کانگریس کے ہم پلہ ایک فریق کے طور پر سامنے آئی وہیں ان انتخابات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی زبردست اکثریت قیام پاکستان کے حق میں ہے۔ یوں ان انتخابات کے ذریعے ہندوستان تقسیم کی جانب ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔مسلم لیگ نے نہ صرف مرکز میں مسلمانوں کے لئے مخصوص نشستیں جیت لیں بلکہ تمام صوبوں میں بھی مسلمانوں کی نوے فیصد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔

    بہرحال نتائج سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہندوستان دو پارٹیوں میں بٹا ہو اہے۔ہندوستان کی آبادی دو حصوں ، ہندوئوں اور مسلمانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ان حالات کے پیش نظر سر سٹیفورڈ کرپس اور اے وی الیگزنڈر پر مشتمل ایک کابینہ مشن ہندوستان آیا۔اس مشن کا مقصد ہندوستان کے لئے مختلف جماعتوں کے صلاح مشورے سے ایک آئین ساز ادارے اور عبوری پاپولر آئینی حکومت کا قیام تھا۔کانگریس اور مسلم لیگ میں کوئی قدر مشترک نہ تھی،اس لئے کابینہ مشن نے مئی 1946ء میں اپنے طور پر وہ تجاویز پیش کر دیں جو ’’کابینہ پلان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔کانگریس یہ تجاویز مان گئی۔ مگر بعد میں منحرف ہو گئی۔ اس میں مرکز کوصرف امور خارجہ،دفاع اور مواصلات کی حد تک بالا دستی حاصل تھی۔ علاوہ ازیں صوبوں کو تین خود مختار گروپوں میں تقسیم کرنے کی تجویز بھی شامل تھی۔ دو گروپ شمال مشرق اور شمال مغرب میں مسلم اکثریت پر مشتمل تھے جبکہ ایک گروپ ہندو واکثریتی صوبوں پر مشتمل تھا ۔قائد اعظمؒ نے فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تجاویز مان لیں ۔ انہوں نے محدود مرکز اور صوبوں کی گروپ بندی کو ’’قیام پاکستان‘‘ کی جانب اہم موڑ قرار دیا ۔ مسلم لیگ کی کونسل نے 6 جون کو یہ پلان منظور کر لیا۔

    ہندو رہنمائوں نے کابینہ مشن سے خفیہ مذاکرات کئے جس کے بعد وائسرائے لیگ سے کئے گئے وعدے سے منحرف ہو گیا۔ اس نے وہ پیش کش بھی واپس لے لی جسے عبوری حکومت کی تشکیل میں ’’حتمی‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کو وائسرائے کی اس وعدہ خلافی سے سخت صدمہ پہنچا۔ حالانکہ صوبوں میں مکمل اختیارات کی فراہمی کے باعث ہی مسلم لیگ نے کابینہ تجاویز منظور کی تھیں۔ اگست 1946ء میں کانگریس کا صدر منتخب ہونے پر نہرو نے تو حد ہی کر دی، انہوں نے سرے سے اس بات سے ہی انکار کر دیا کہ کانگریس نے کابینہ مشن پلان منظور کیا تھا۔

    ہندوئوں کے خفیہ مذاکرات اور وائسرائے کی وعدہ خلافی

    کانگریس اور وائسرائے کے درمیان ہونے والے خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں 2 ستمبر 1946 ء کو پنڈت نہر وکی قیادت میں ایک عبوری حکومت قائم ہو گئی تھی۔حکومت میں مسلمانوں کو نمائندگی نہیں دی گئی تھی اس لئے انہوں نے یوم سیاہ منایا۔ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے اپنے گھروں ، تجارتی مراکز اور دفاتر پر سیاہ پرچم لہرائے۔کانگریسی حکومت کے قیام سے دو ہفتہ قبل ہی کلکتہ میں بہت بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ یہ فسادات اتنے وسیع پیمانے پر تھے کہ ان کی نظیر نہیں ملتی ۔صرف تین دن کے اندر اندرپانچ ہزار افراد قتل کر دیئے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے فسادات کی آگ پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ ہندوئوں کے قاتل جتھوں نے نہایت بے رحمی سے ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا۔اور بہار میں تو یہ تعداد کہیں زیادہ تھی۔قائد اعظمؒ کو اس صورتحال پر نہایت تشویش اور پریشانی تھی۔ لہٰذا وائسرائے سے گفت و شنید کے بعد نئی پیش کش ہوئی اور مسلم لیگ عبوری حکومت میں شامل ہو گئی۔ تاہم مسلم لیگ اس موقف پر قائم رہی کہ وہ آئین ساز اسمبلی میں نہیں جائے گی۔

    ۔1946 ء کے خاتمہ پر خونریز فسادات نے پورے ہندوستان کو مزید شدت کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ مسلم لیگ کی جانب سے آسام، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کے بعد یہ صورتحال مزید دھماکہ خیز ہو گئی۔

    لارڈ ویول کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیاان کی جگہ مائونٹ بیٹن نے لے لی۔انہوں نے لیڈروں سے طویل مذاکرات شروع کر دیئے اور 3جون کا پلان پیش کر دیا۔برطانیہ میں لیبرپارٹی برسراقتدار تھی جو ہمیشہ سے ہی ہندوئوں کی طرف دار تھی۔ اس نے جھلا کر پنجاب اور بنگال کو تقسیم کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔قائد اعظم کے دو حریف تھے۔مائونٹ بیٹن مخالف فریق یعنی کانگریس کے حلیف تھے۔ لیکن ان بے پناہ مشکلات کے باوجود پاکستان بن گیا۔ یہ حضرت قائد اعظمؒ کی خداداد صلاحیتوں کا کمال تھا کہ انہوں نے قیام پاکستان کا مطالبہ ماننے پر مجبور کر دیا۔


     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں