1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل اور شہادت

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏15 جنوری 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فض

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل اور شہادت
    یہ وہ دوسرے خلیفہ راشد ہیں جن کی ہیبت اور دبدبے سے قیصر و کسریٰ لرزہ براندام تھے اور ان کا نام سن کر سلاطین عجم کا پِتہ پانی ہوتا تھا ان کے مقام عبدیت کا ایک انتہائی سبق آموز واقعہ کتب تاریخ میں درج ہے۔ ایک رات مدینے کے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر دیکھا کہ ’’امیرالمؤمنین اپنی پشت پر پانی کا مشکیزہ اٹھائے ہوئے اپنے خادم سے کہہ رہے ہیں کہ اٹھ اور درہ ہاتھ میں لے کر عمر کو اہل حاجت کے دروازوں پر لے جا‘‘ وہ خادم اپنے آقا کی یہ حالت دیکھ کر لرز گیا اور بچشم نم عرض کرنے لگا کہ آپ خود تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ مجھے حکم دیجئے کہ میں حاجت مندوں کے گھروں میں ان کی ضرورت کی چیزیں پہنچا آؤں۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس پر کہنے لگے کہ ’’نہیں میں نے آج اپنے نفس کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے آج مجھے لحظہ بھر کے لئے یہ خیال آ گیا کہ میں اتنا بڑا حکمران ہوں کہ عرب و عجم کے لوگ میرا نام سن کر تھر تھرا اٹھتے ہیں اب میرے اس نفس کا علاج اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ میں ایک سقہ کی طرح پانی کا مشکیزہ اٹھائے لوگوں کے گھروں میں جا کر صدائیں دوں کہ تمہارے شہر کا سقہ خدمت کے لئے حاضر ہے‘‘ صحابہ کرام کو زندگی گزارنے کا یہ قرینہ بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عطا ہوا تھا اور ان کے شب و روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے رنگ میں پوری طرح رنگے ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی چالیس کے قریب جانباز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت انقلاب کو قبول کر چکے تھے اور آپ کے دست و بازو بن کر دن رات کام کر رہے تھے۔ ان چالیس کے گروہ میں بڑے مخلص، وفادار اور جانباز اور عظیم و جلیل حضرات شامل تھے۔ اب ایک ایسے جوان عبقری کی ضرورت تھی جو طاغوتی قوتوں کے ساتھ پنجہ آزما ہو تو انہیں مروڑ کر رکھ دے۔ نگاہ نبوت نے ایک ایسی نادر روزگار اور عبقری شخصیت کو تلاش کر ہی لیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دست دعا اٹھائے ’’ اے اللہ عمر کے ساتھ دین اسلام کو غلبہ اور شوکت عطا فرما‘‘

    (سنن ابن ماجہ، مقدمہ، حدیث 105)

    مشن کے فروغ اور تحریک کی تقویت کے لئے جب عمر کو مانگا گیا تو اس وقت وہ ابوجہل جیسے سرکش معاندین میں گھرے ہوئے تھے مگر دعائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اثر دکھایا۔ وہ عمر بن خطاب جو بہن اور بہنوئی کو کبھی اسلام قبول کرنے پر قتل کرنا چاہتے تھے، وہی عمر جو کبھی حق کے خلاف ننگی تلوار تھے آج دعائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاثیر بنے۔ تاجدا کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں سرجھکائے بیٹھے ہیں اور عرض کر رہے ہیں کہ میرے آقا غلام حاضر ہے مجھے اپنی غلامی میں قبول فرما لیں۔ جب عمر بن خطاب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بنے تو سب کی زباں سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا۔ اب عمر مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے نہ صرف زمین والے بلکہ عرش والے بھی اس واقعہ سے لا تعلق نہیں تھے۔ حضرت جبرائیل امین نازل ہوئے اور بتایا ’’زمین والے ہی نہیں آسمان والے بھی عمر کے اسلام لانے پر بہت خوش ہوئے ہیں‘‘

    (سنن ابن ماجہ، مقدمہ، حدیث 103)

    اسلام کا پرچار سر عام ہونے لگا۔ عالم کفر لرزہ براندام تھا کہ وہ عمرجو کل تک کفر کے چاہنے والے تھے آج شیطان بھی ان کے نام سے لرزہ براندام ہو کر نزدیک نہیں آ رہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی سربلندی کے لئے محمدی شیر کا کردار ادا کیا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی کاوشوں کی بدولت 22 ہزار مربع میل تک اسلامی حکومت قائم کی۔ جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جنگجو اور مصطفوی مشن کے لئے مارنے مرنے کیلئے تیار ہوتے وہاں تقویٰ اور طہارت کا بھی عملی نمونہ تھے۔ آپ طاعت الٰہی کو اختیار کرنے میں شدت برتتے اور ممنوعہ چیزوں سے اجتناب میں سختی سے کار بند رہتے۔

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے چار چیزوں میں عبادت کو موجود پایا ہے۔

    اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی

    اللہ تعالی کی منع کی ہوئی چیزوں سے فقط اجتناب اللہ سے ثواب پانے کی خاطر امر بالمعروف کرنا۔

    اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنے کے لئے برائیوں سے لوگوں کو روکنا۔

    حضرت امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک روز سورہ کورت (اذالشمس کورت) پڑھ رہے تھے۔ ’’جب اعمال نامے کھولے جائیں گے‘‘ پر پہنچے تو بے ہوش ہو کر گر پڑے اور بہت دیر تک زمین پر تڑپتے رہے۔

    شیخان نے سعد بن ابی وقاص کی زبانی سرور دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد لکھا ہے۔ ’’ بخدا اے عمر! تم جس راستہ پر چلو گے اس سے شیطان کترا کر دوسری راہ اختیار کرے گا۔‘‘

    اوسط میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد تحریر ہے’’عمر سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھتا ہے اور عمر سے محبت رکھنے والا مجھ سے محبت کرتا ہے اور عرفہ کے دن زوال کے بعد جو حج کا دن ہے اللہ تعالیٰ تمام حاجیوں پر عموماً حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر خصوصاً باہم فخر کرتا ہے اور جتنے نبی ہوئے ہیں ان کی قوم میں ایک صاحب الہام ہوا ہے اور میری امت میں عمر رضی اللہ عنہ صاحب الہام ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محدث و صاحب الہام کی تعریف کیا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’محدث و صاحب الہام وہ ہے جو فرشتوں کی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے موافقات قرآنی

    حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی رائے سے قرآن کریم میں جہاں جہاں اتفاق کیا گیا ہے جسے بعض حضرات نے تحریر بھی فرمایا ہے چند کا ذکر درج ذیل ہے۔

    ایک دفعہ آپ مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے تو فوراً یہ آیت نازل ہوئی ’’اور مقام ابراہیم علیہ السلام میں سے اپنے لئے نماز گاہ اختیار کرو‘‘

    ایک مرتبہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امہات المؤمنین رضی اللہ عنہ کے سامنے نیک و بد ہر قسم کے آدمی آتے ہیں آپ انہیں پردہ کرنے کا حکم دے دیجئے تو فوراً ہی آیت پردہ نازل ہوئی۔

    مسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے میری رائے کی موافقت تین مقامات میں کی، پردہ کے بارے میں، مقام ابراہیم علیہ السلام کے مصلیٰ کے متعلق اور اسیران جنگ بدر کی بابت۔ اس روایت سے چوتھی چیز بدر کے قیدیوں کے ساتھ سلوک کرنا معلوم ہوا۔

    تاریخ شہادت

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدھ کے دن 26 ذی الحجہ 23ھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ و اقدی کی رائے ہے کہ شہادت کے وقت آپ کی عمر 60 سال تھی۔ آپ کی نماز جنازہ مسجد میں صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ تاریخ کی کتابوں میں روایت کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر عربی کی یہ عبارت کندہ تھی جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اے عمر رضی اللہ عنہ! موت کافی ناصح ہے۔ عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب نیزہ مارا گیا تو انہوں نے تھوڑا سا دودھ منگوا کر پیا لیکن وہ ان کے زخم سے باہر نکل آیا۔ انہوں نے اللہ اکبر کہا، یہ سن کر لوگ ان کی تعریف کرنے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’آج تمام چیزیں جن پر سورج نکلتا ہے اور غروب ہوتا ہے میری ہوتیں تو بھی میں ان کو قیامت کے خوف سے صدقہ کر دیتا۔

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب خنجر لگا اور شہادت کا وقت قریب آ پہنچا تو اتنے میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور رو کر عرض کرنے لگے وا عمراہ وا جیباہ واخاء تو اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے صہیب رضی اللہ عنہ! میری تعریف مت کر، اگر حق تعالیٰ مجھے کسی عمل پر اجر نہ دیں۔ صرف برابر برابر چھوڑیں تو بھی اس کو غنیمت سمجھوں گا۔

    تحریر: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری​
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔
    اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
    اور ہمیں خلیفہ راشد سیدنا عمر :rda: کی محبت، ادب اور آپ کے طریقہ زندگی سے سبق کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    صدق الرسول:saw: و سبحان رب العزۃ
     
  3. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    پیاجی !‌ جزا ک اللہ

    بہت اچھی تحریر ارسال کی ہے آپ نے۔ ماشاءاللہ
     
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں