1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت داتا صاحب رحمتہ اللہ علیہ

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن حاجی خانی زمان, ‏15 اگست 2014۔

  1. عبدالرحمن حاجی خانی زمان
    آف لائن

    عبدالرحمن حاجی خانی زمان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جون 2014
    پیغامات:
    78
    موصول پسندیدگیاں:
    92
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت داتا صاحب رحمتہ اللہ علیہ
    نے اپنے وطن غزنی کو خیر باد کہا اور تبلیغ اسلام کا شوق آپ کو کشاں کشاں بُت کدہ ہند میں لے آیا – آپ کے ہمراہ آپ کے دو دوست شیخ احمد سرخسی رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ ابو سعید ہجویری رحمتہ اللہ علیہ بھی تھے – اسلام کے یہ پُرجوش مبلغ اگرچہ تعداد میں قلیل تھے لیکن ماحول کی اجنبیت ، سازوسامان کے فقدان اور مخالفین کے تشدد و تعصب کو خاطر میں نہ لاتے ہوے تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کے لیے لاہور کی طرف روانہ ہوے اور یہ راستے میں جہاں جہاں ٹھہرے ، کفر و ظلمت کے اندھیروں میں توحید کی شمعیں فروزاں کرتے آے – جب سرزمین لاہور ان نفوس قدسیہ کی قدم بوسی سے مشرف ہوئی اس وقت لاہور میں سلطان محمود غزنوی کا لڑکا سلطان مسعود غزنوی سریر آراے مملکت تھا – اس کا عہد حکومت 421ھ تا 432 ہجری ہے – لیکن لاہور میں آپ کی آمد کے سال کا تعین مشکل ہے – اگر آپ کا سال وصال 465ھ تسلیم کیا جاے تو لاہور میں آپ کے قیام کی مدت 30 سال سے زائد بنتی ہے – اس عرصہ میں آپ شب و روز اسلام کی تبلیغ میں مصروف رہے – آپ کی بے داغ اور دلکش سیرت ، پُرنور شخصیت ، آپ کے پُر خلوص دل سے نکلے ہوے اور دلوں میں اُتر جانے والے مواعظِ حسنہ لوگوں کو کفر و ضلالت کی دلدل سے نکال کر صراطِ مستقیم پر گامزن کرتے رہے – جن خوش نصیب لوگوں نے آپ کے دست ہدایت پر اسلام کی بیعت کی اور آپ کے فیض نگاہ کی برکت سے ان کے لوح قلب پر کلمہ توحید یوں نقش ہوا کہ صرف وہی تادم واپسیں اس کی لذت سے سرشار نہیں رہے بلکہ ساڑھے نو صدیاں گزرنے کے باوجود ان کی نسلیں بھی اسی ذوق و شوق کے ساتھ اسی کلمہ توحید کا ورد کر رہی ہیں – اور جب بھی وقت آتا ہے تو پرچم توحید کو بلند کرنے کے لیے بلا تامل بصد مسرت اپنے سروں کے نذرانے پیش کر دیتی ہیں – اللہ تعالی کے بندوں کی یہی خصوصیت ہے کہ ان کا پڑھایا ہوا سبق فراموش نہیں ہوتا بلکہ گردش لیل و نہار اور حوادثات دہر کے باوجود اس کی سرمستیاں بڑھتی رہتی ہیں ، اس کی آب و تاب میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے – ایک درویش جس کے پاس نہ خزانہ ہے ، نہ لشکر اور نہ دنیوی وسائل ہیں اور نہ جاہ و حشمت ، اپنے مصلے پر بیٹھا ہے ، اپنے معبودِ برحق کی یاد میں ہمہ وقت مصروف ہے – اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کے نزول کے باعث اسے وہ شانِ دلربائی عطا کر دی جاتی ہے کہ لوگ اس کے رُخِ زیبا کو دیکھتے ہی اپنے زنار توڑ دیتے ہیں – اپنے آبائی عقیدوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کر دیتے ہیں – کل تک جن بتوں کی وہ پرستش کر رہے تھے ، آج اپنے ہاتھوں سے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں اور اس خداوند قدوس کی بارگاہ بیکس پناہ میں سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور ان سجدہ ریزیوں میں انہیں جو لُطف ، جو سرور ، جو کیف میسر ہوتا ہے اس پر وہ اپنا سب کچھ نثار کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں – غزنوی خاندان کے باہمت فاتحین نے ممالک فتح کیے ، قلعے سر کیے اور شاہی محلات پر اپنے پرچم لہراے ، لیکن ہجویر سے آے ہوے اس غریب الدیار درویش نے قلوب کی امالیم کو مسخر کیا اور تعصب اور ہٹ دھرمی کے قلعوں کو پیوندِ خاک کیا اور جہالت و گمراہی کے پردوں کو سرکا کر حقیقت کے رُخِ زیبا کو یوں بے نقاب کیا کہ ہر صاحب قلبِ سلیم دیوانہ وار اس پر سوجان سے نثار ہونے لگا –
     

اس صفحے کو مشتہر کریں