1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏6 جون 2010۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


    الحمد للہ رب العالمین ، والصلوٰہ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ وعلٰی الیک واصحابک یا حبیب اللہ

    سلسلہ عالیہ چشتیہ کے عظیم پیشوا حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کو مدینہء منورہ کی حاضری پر مدینے کے تاجور، نبیوں کے سرور، حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے معین الدین (یعنی دین کا مددگار) کا خطاب ملا اور تبلیغ دین کی خاطر اجمیر جانے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ سیدنا سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اجمیر شریف تشریف لائے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغ سے لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔ وہاں کے ہندو راجہ پرتھوی راج کو اس سے بڑی تشویش ہونے لگی۔ چنانچہ اُس نے اپنے یہاں کے سب سے خطرناک اور خوفناک جادوگر اَجے پال جوگی کو خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مقابلے کے لئے تیار کیا۔ اجے پال جوگی اپنے چیلوں کی جماعت لے کر خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ گیا۔ مسلمانوں کا اضطراب دیکھ کر حضور غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے گرد ایک حصار جھینچ دیا اور حُکم فرمایا کہ کوئی مسلمان اس دائرے سے باہر نہ نکلے۔ ادھر جادوگروں نے جادو کے زور سے پانی، آگ اور پتھر برسانے شروع کر دئیے مگر یہ سارے وار حلقے کے قریب آکر بیکار ہو جاتے۔ اب اُنہوں نے ایسا جادو کیا کہ ہزاروں سانپ پہاڑوں سے اُتر کر خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مسلمانوں کی طرف لپکنے لگے مگر جوں ہی وہ حصار کے قریب آتے مر جاتے۔ جب چیلے ناکام ہو گئے تو خود اُن کا گرو خوفناک جادوگر اجے پال جوگی جادو کے ذریعے طرح طرح کے شعبدے دکھانے لگا۔ مگر حصار کے قریب جاتے ہی سب کچھ غائب ہو جاتا۔ جب اس کا کوئی بس نہ چلا تو وہ بپھر گیا اور غصے سے بیچ و تاب کھاتے ہوئے اس نے اپنا مرگ چھالا (یعنی ہرنی کا بالوں والا چمڑا) ہوا میں اُچھالا اور اچک کر اُس پر بیٹھا اور ہوا میں اڑتا ہوا بہت بلند ہو گیا۔ مسلمان گھبرا گئے کہ نہ جانے اب اُوپر سے کیا آفت برپا کرے گا۔ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اس کی حرجت پر مسکرا رہے تھے۔ آپ نے اپنی نعلین مبارکین کو اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی وہ بھی تیزی کے ساتھ اڑتی ہوئیں جادوگر کے تعاقب میں روانہ ہوئیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر پہنچ گئیں اور اس کے سر پر تڑاتڑ پڑنے لگیں۔ ہر ضرب میں وہ نیچے اتر رہا تھا۔ یہاں تک کہ قدموں پر گر پڑا اور سچے دل سے ہندو مذہب سے توبہ کی اور مسلمان ہو گیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا اسلامی نام عبداللہ رکھا اور وہ خواجہ صاحب کی نظر فیض اثر سے ولایت کے اعلٰی مقام پر فائز ہوکر عبداللہ بیابانی نام سے مشہور ہو گئے۔ (آفتاب اجمیر)

    اونٹ بیٹھے رہ گئے

    سیدنا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ جب اجمیر شریف تشریف لائے تو اولاً ایک پیپل کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ یہ جگہ وہاں کے ہندو راجہ پرتھوی راج کے اونٹوں کے لئے مخصوص تھی۔ راجہ کے کارندوں نے آ کر آپ رحمۃ اللہ علیہ پر رُعب جھاڑا اور بے ادبی کے ساتھ کہا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہ جگہ راجہ کے اونٹوں کے بیٹھنے کی ہے۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، ?اچھا ہم لوگ جاتے ہیں تمہارے اونٹ ہی یہاں بیٹھیں۔? چنانچہ اونٹوں کو وہاں بٹھا دیا گیا۔ صُبح ساربان آئے اور اونٹوں کو اٹھانا چاہا لیکن باوجود ہر طرح کی کوشش کے اونٹ نہ اٹھے۔ ڈرتے جھجکتے حضرت سیدنا خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت سراپا عظمت میں حاضر ہو کر اپنی گستاخی کی مُعافی مانگی۔ ہند کے بے تاج بادشاہ سیدنا غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :۔ ?جاؤ خدا عزوجل کے حکم سے تمہارے اونٹ اٹھ بیٹھے۔? جب وہ واپس ہوئے تو واقعی سب اونٹ کھڑے ہو چکے تھے۔ (خواجہء خواجگان)

    خواجہء ہند وہ دربار ہے اعلٰی تیرا
    کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا

    چھاگل میں تالاب

    حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے چند مریدین ایک بار اجمیر شریف کے مشہور تالاب انا ساگر پر غسل کرنے گئے۔ برہمنوں نے دیکھ کر شور مچا دیا کہ یہ مسلمان ہمارے تالاب کو ناپاک کر رہے ہیں چنانچہ وہ حضرات لوٹ گئے اور جاکر سارا ماجرا خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک چھاگل (پانی رکھنے کا مٹی کا برتن) دے کر خادم کو حکم دیا کہ اس کو تالاب سے بھر کر لے آؤ۔ خادم نے جاکر جُوں ہی چھاگل کو تالاب میں ڈالا سارے کا سارا تالاب اس چھاگل میں آ گیا۔ لوگ پانی نہ ملنے پر بے قرار ہو گئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر فریاد کرنے لگے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو رحم آگیا اور خادم کو حکم دیا کہ جاؤ اور چھاگل کا پانی واپس تالاب میں انڈیل دو۔ خادم نے حکم کی تعمیل کی اور اناساگر پھر پانی سے لبریز ہو گیا۔ (خواجہء خواجگان)

    ہے تری ذات عجب بحر حقیقت پیارے
    کسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا

    عذاب قبر سے رہائی

    حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک مُرید کے جنازے میں تشریف لے گئے۔ نماز جنازہ پڑھا کر اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا۔ حضرت سیدنا بختئار کاکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، تدفین کے بعد تقریباً سارے لوگ چلے گئے مگر حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اس کی قبر کے پاس تشریف فرما رہے۔ اچانک آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک دم غمگین ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد آپ کی زبان پر الحمدللہ رب العالمین ط جاری ہوا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ مطمئن ہوگئے۔ میرے استفسار پر فرمایا، میرے اس مُرید پر عذاب کے فرشتے آ پہنچے جس پر میں پریشان ہو گیا۔ اتنے میں میرے مرشد گرامی حضرت سیدنا خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور فرشتوں سے اس کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا، اے فرشتو ! یہ بندہ میرے مُرید معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مُرید ہے اس کو چھوڑ دو۔ فرشتے کہنے لگے، ?یہ بہت ہی گنہگار شخص تھا۔? ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ غیب سے آواز آئی، ?اے فرشتو ! ہم نے عثمان ہارونی کے صدقے معین الدین چشتی کے مُرید کو بخش دیا ہے۔? (معین الارواح)

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اس حکایت سے درس ملا کہ کسی پیر کامل کا مُرید بن جانا چاہئیے کہ اُس کی برکت سے عذاب قبر دُور ہونے کی امید ہے۔

    مجذوب کا جوٹھا

    حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے لڑکپن شریف کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہے تھے کہ اُس دور کے مشہور مجذوب حضرت سیدنا ابراہیم قندوزی رحمۃ اللہ علیہ باغ میں داخل ہوگئے۔ جُوں ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اس اللہ (عزوجل) والے پر پڑی، فوراً سارا کام چھوڑ کر دوڑے اور سلام کرکے دست بوسی کی اور نہایت ہی ادب سے ایک درخت کے سائے میں بٹھایا پھر ان کی خدمت میں انگوروں کا ایک خوشہ انتہائی عاجزی کے ساتھ پیش کیا۔ اللہ عزوجل کے ولی کو ننھے منے باغبان کا انداز بھا گیا۔ خوش ہو کر اپنی جھولی میں سے ایک کھلی کا ٹکڑا نکالا اور اپنے مُنہ سے جوٹھا کرکے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مُنہ میں ڈال دیا۔ گھلی کا ٹکڑا جُوں ہی حلق کے نیچے اترا، خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دل کی کیفیت ہی بدل گئی اور دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ملکیت میں ایک وراثت میں ملے ہوئے باغ اور پن چکی کو اونے پونے داموں بیچ کر مذید جو کچھ تھا سب اللہ عزوجل کی راہ میں لٹا دیا۔ اور والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا سے اجازت لے کر صرف پندرہ برس کی عُمر میں حصول علم دین کی خاطر راہ خدا عزوجل میں گھر سے نکل پڑے۔ اللہ عزوجل نے آپ رحمۃ اللہ علیہ پر بے حساب کرم نوازیاں فرمائیں اور آپ رحمۃ اللہ علیہ اولیائے کرام رحمہم اللہ کے پیشوا اور ہندوستان کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔

    خفتگان شب غفلت کو جگا دیتا ہے
    سالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا

    غیب کی خبر

    ایک روز حضرت سیدنا غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا شیخ اوحد الدین کرمانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سیدنا شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، ایک جگہ تشریف فرما تھے کہ ایک لڑکا (سلطان شمس الدین التمش) تیر و کمان لئے وہاں سے گزرا۔ اسے دیکھتے ہی حضور غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، یہ بچہ دہلی کا بادشاہ ہو کر رہے گا اور بالآخر یہی ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں وہ دہلی کا بادشاہ بن گیا۔ (سیرالاقطاب)

    ترے منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی
    کہا جو دن کو کہ شب ہے تو رات ہو کے وہی

    پیارے بہنو اور بھائیو ! ہو سکتا ہے کہ شیطان کسی کے دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ غیب کا علم تو صرف اللہ عزوجل ہی کو ہے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیسے غیب کی خبر دیدی ؟ تو عرض یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل عالم الغیب والشادۃ ہے۔ اس کا علم غیب ذاتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ سے ہے جبکہ انبیاء علیہ السلام اور اولیاء رحمہم اللہ کا علم غیب عطائی بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ سے بھی نہیں۔ انہیں جب سے اللہ عزوجل نے بتایا تب سے ہے اور جتنا بتایا اُتنا ہی ہے۔ اس کے بتائے بغیر معمولی سا بھی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو یہ وسوسہ آئے کہ جب اللہ عزوجل نے بتا دیا تو غیب غیب ہی نہ رہا۔ اس کا جواب آگے آرہا ہے کہ قرآن نے نبی کے علم غیب کو غیب ہی کہا ہے۔ اب رہا یہ کہ کس کو کتنا علم غیب ملا یہ دینے والا جانے اور لینے والا جانے۔ علم غیب مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :۔

    وما ھو علی الغیب بضنین (التکویر آیت 24)
    ترجمہ :۔ اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) غیب بتانے میں بخیل نہیں۔ (کنزالایمان)


    اس آیت مبارک کے تحت خازن میں ہے، ?مراد یہ ہے کہ مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس علم غیب آتا ہے تو تم پر اس میں بُخل نہیں فرماتے بلکہ تم کو سکھاتے ہیں۔? اس آیت و تفسیر سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو علم غیب سکھاتے ہیں اور ظاہر ہے سکھائے گا وُہی جو خود بھی جانتا ہو۔

    علم غیب عیسٰی علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :۔

    وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ط ان فی ذالک لایۃ لکم ان کنتم مؤمنین (آل عمران 49)
    ترجمہ :۔ اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ (کنزالایمان)

    پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! مندرجہ بالا آیت میں سیدنا عیسٰی علیہ السلام صاف صاف اعلان فرما رہے ہیں کہ تم جو کچھ کھاتے ہو وہ مجھے معلوم ہو جاتا ہے اور جو کچھ گھر میں بچا کر رکھتے ہو اس کا بھی پتا چل جاتا ہے۔ اب یہ علم غیب نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ شان ہے تو آقائے عیسٰی میٹھے میٹھے مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا شان ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخر کیا چُپھا رہ سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اللہ عزوجل جو کہ غیب الغیب ہے اس کو بھی چشمنا سر سے ملاحظہ فرما لیا

    اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
    جب نہ خدا (عزوجل) ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود (حدائق بخشش)

    بہرحال اللہ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو علم غیب سے نوازا ہے اور یقیناً علم غیب انبیاء علیہم السلام کا انکار قرآن کریم کی متعدد آیات مبارکہ کا انکار ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی تو بڑی شان ہے فیضان انبیاء علیہم السلام سے اولیائے کرام رحمہم اللہ بھی غیب کی خبریں بتا سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے الاخبار الاخیار میں حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے :۔ اگر شریعت نے میرے منہ میں لگام نہ ڈالی ہوتی تو میں تمہیں بتا دیتا کہ تم نے گھر میں کیا کھایا ہے اور کیا رکھا ہے، میں تمہارے ظاہر و باطن کو جانتا ہوں کیونکہ تم میری نظر میں شیشے کی طرح ہو۔ حضرت مولیٰنا رومی رحمۃ اللہ علیہ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں

    لوح محفوظ است پیش اولیاء
    ازچہ محفوظ است محفوظ ازخطا
    یعنی لوح محفوظ اولیاء اللہ رحمہم اللہ کے پیش نظر ہوتا ہے جو کہ ہر خطا سے بھی محفوظ ہوتا ہے۔

    مُردہ زندہ کردیا

    اجمیر شریف کے حاکم نے ایک بار کسی شخص کو بے گناہ سُولی پر چڑھا دیا اور اُس کی ماں کو کہلا بھیجا کہ اپنے بیٹے کی لاش آکر لے جائے۔ مگر وہاں جانے کے بجائے اُس کی ماں روتی ہوئی سرکار غریب نواز حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر ہوئی اور فریاد کی، ?آہ ! میرا سہارا چھین گیا، میرا گھر اُجڑ گیا یا غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ! میرا ایک ہی بیٹا تھا اُسے حاکم ظالم نے بے قصور سولی پر چڑھا دیا ہے۔? یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ جلال میں آکر اٹھے اور فرمایا، مجھے اپنے بیٹے کی لاش پر لے چلو، چنانچہ اُس کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کی لاش پر آئے اور اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا، ?اے مقتول ! اگر حاکم وقت نے تجھے بے قصور سولی دی ہے تو اللہ عزوجل کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو۔? فوراً لاش میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ شخص زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ (ماہ اجمیر)

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! کہیں شیطان یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ مارنا اور جلانا تو صرف اللہ عزوجل ہی کا کام ہے کوئی بندہ یہ کیسے کر سکتا ہے ؟ تو عرض یہ کہ بے شک اللہ عزوجل ہی فاعل حقیقی ہے مگر وہ اپنی قدرت کاملہ سے جس کو چاہتا ہے جس طرح کے چاہتا ہے اختیارات عطا فرماتا ہے۔ دیکھئے بے جان کو جان بخشنا اللہ عزوجل کا کام ہے مگر اللہ عزوجل کے دئیے ہوئے اختیارات سے حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ایسا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے :۔

    انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ (آل عمران آیت 49)
    ترجمہ :۔ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ پرند ہو جاتی ہے اللہ عزوجل کے حکم سے۔ (کنزالایمان)

    اندھے کو آنکھیں مل گئیں

    کہتے ہیں ایک بار اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے۔ احاطہ میں ایک اندھا فقیر بیٹھا صدا لگا رہا تھا، ?یا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ! آنکھیں دے۔? آپ نے اس قفیر سے دریافت کیا، بابا ! کتنا عرصہ ہوا آنکھیں مانگتے ہوئے ؟ بولا، برسوں گزر گئے مگر مُراد پوری ہی نہیں ہوتی۔ فرمایا، میں ابھی مزار پاک پر حاضری دے کر تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں اگر آنکھیں روشن ہو گئیں فبہا ورنہ قتل کروا دوں گا۔? یہ کہہ کر فقیر پر پہرہ لگا کر بادشاہ حاضری کے لئے اندر چلے گئے۔ اُدھر فقیر پر گریہ طاری تھا اور رو رو کر فریاد کر رہا تھا۔ ?یا خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ! پہلے صرف آنکھوں کا معاملہ تھا اب تو جان پر بن گئی ہے اگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کرم نہ فرمایا تو مارا جاؤں گا۔? جب بادشاہ حاضری دے کر لوٹے تو اُس کی آنکھیں روشن ہو چکی تھیں۔ بادشاہ نے مسکرا کر فرمایا کہ تم اب تک بے دلی اور بے توجہی سے مانگ رہے تھے اور اب جان کے خوف سے تم نے دل کی تڑپ کے ساتھ سوال کیا تو تمہاری مراد پوری ہو گئی۔

    اب چشم شفا سوئے گنہگار ہو خواجہ رحمۃ اللہ علیہ
    عصیاں کے مرض نے ہے بڑا زور دکھایا

    مفید درس

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ مانگنا تو اللہ عزوجل سے چاہئیے اور وہی دیتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی آنکھیں مانگے اور وہ عطا بھی فرما دیں۔ جواباً عرض ہے کہ حقیقۃً اللہ عزوجل ہی دینے والا ہے۔ مخلوق میں سے جو کوئی جو کچھ دیتا ہے وہ اللہ عزوجل ہی سے لے کر دیتا ہے۔ اللہ عزوجل کی عطا کے بغیر کوئی ایک ذرہ بھی نہیں دے سکتا۔ اللہ عزوجل کی عطا سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی نے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے آنکھیں مانگ لیں اور انہوں نے عطائے خداوندی عزوجل سے عطا فرما دیں تو آخر یہ ایسی کون سی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آتی ؟ یہ مسئلہ تو آج کل کے فن طب نے ہی حل کر ڈالا ہے ! ہر کوئی جانتا ہے کہ آج کل ڈاکٹر آپریشن کے ذریعہ مُردہ کی آنکھیں لگا کر اندھوں کو بینا کر دیتے ہیں۔ بس اسی طرح خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک اندھے کو اللہ عزوجل کی عطا کردہ روحانی قوت سے نابینائی کے مرض سے شفا دے کر بینا کر دیا۔ بہرحال اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ عزوجل نے کسی نبی یا ولی کو مرض سے شفاء دینے یا کچھ عطا کرنے کا اختیار دیا ہی نہیں ہے تو ایسا شخص حکم قرآن کو جھٹلا رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد قرآنی ہے :۔

    وابرئ الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اللہ ج (آل عمران آیت 49)
    ترجمہ :۔ اور میں شفاء دیتا ہوں مادر زاد اندھوں اور سفید داغ والے (یعنی کوڑھی) کو اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ عزوجل کے حکم سے۔ (کنزالایمان)

    دیکھا آپ نے ؟ حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ علٰی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام صاف صاف اعلان فرما رہے ہیں کہ میں اللہ عزوجل کی بخشی ہوئی قدرت سے مادر زاد اندھوں کو بینائی اور کوڑھیوں کو شفاء دیتا ہوں۔ حتٰی کہ مردوں کو بھی زندہ کر دیا کرتا ہوں۔ اللہ عزوجل کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو طرح طرح کے اختیارات عطا کئے جاتے ہیں اور فیضان انبیاء علیہم السلام سے اولیاء رحمہم اللہ علیہ کو بھی عطا کئے جاتے ہیں لٰہذا وہ بھی شفاء دے سکتے ہیں اور بہت کچھ عطا فرما سکتے ہیں۔

    محی دیں غوث ہیں اور خواجہ معین الدیں ہیں
    اے حسن کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا (رحمۃ اللہ علیہ)



    اجمیر بلایا مجھے اجمیر بلایا
    اجمیر بلایا مجھے اجمیر بلایا
    اجمیر بلا کر مجھے مہمان بنایا

    ہو شکر ادا کیسے کہ مجھ پاپی کو خواجہ رحمۃ اللہ علیہ
    اجمیر بلا کر مجھے دربار دکھایا

    سلطان مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا بھکاری
    بن کر میں شہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں آیا

    دنیا کی حکومت دو نہ دولت دو نہ ثروت
    ہر چیز ملی جام محبت جو پلایا

    سینے سے لگا لو، مجھے سینے سے لگالو
    خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ہے زمانے نے بڑا مجھ کو ستایا

    ڈوبا ابھی ڈوبا مجھے للہ عزوجل سنبھالو
    سیلاب گناہوں کا بڑے زور سے آیا

    اب چش، شفاء، بہر خدا عزوجل سوئے مریضاں
    عصیاں کے مرض نے ہے بڑا زور دکھایا

    سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنا دیجئے عاشق
    یہ عرض لئے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کراچی سے میں آیا

    یاخواجہ رحمۃ اللہ علیہ کرم کیجئے ہوں ظلمتیں کافور
    باطل نے بڑے زور سے سر اپنا اٹھایا

    عطار کرم ہی سے تیرے جم کے کھڑا ہے
    دشمن نے گرانے کو بڑا زور لگایا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    جزاک اللہ ھارون بھائی اولیا کرام کی کرامات سے بھری زندگی ہمیں بہت کچھ سمجھنے کی دعوت دیتی ہے ۔
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    جزاک اللہ ،
     
  4. پاکیزہ
    آف لائن

    پاکیزہ ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جولائی 2009
    پیغامات:
    249
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    آج کل تو خواجہ غریب نواز کا عرس بھی چل رہا ہے نا ؟
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    ایک روز حضرت خواجہ غریب نواز صحرا سے گزرے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستش میں مشغول تھا یہ لوگ اس قدت ریاضت و مجاہدات کرتے تھے کہ چھ چھ مہینے تک دانہ پانی زبان پر نہیں رکھتے تھے سرکار خواجہ نے ان لوگوں سے آتش پرستی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آگ کو اس لئے پُوجتے ہیں کہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں تکلیف نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا دوزخ سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں بلکہ نارِ دوزخ سے بچنے کیلئے خالق نار کی پُوجا کرو پھر یہ آگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پوجا کرتے ہو ذرا اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر دکھاؤ ؟ ان لوگوں نے جواب دیا۔ آگ کا کام جلانے کا ہے، ہمارا ہاتھ تو جل جائے گا لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حق پرستوں کو آگ نہ جلائے گی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا، دیکھو ہم خدا کے پرستار ہیں۔ یہ آگ ہمارے جسم کو تو دور کی بات ہماری جوتی کو بھی نہیں جلا سکتی۔ یہ فرما کر آپ نے اپنی ایک جوتی آگ میں ڈال دی بہت دیر تک وہ آگ میں رہی مگر اس پر آگ کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر سب مسلمان ہو گئے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    آپ کی شان نرالی ہے آپ کے دربار میں ایک بار حاضری کے بعد بار بار حاضری کو دل کرتا ہے انشا اللہ کچھ تصاویر بھی ہے جو میں نے حال ہی میں نے لئے تھے یہاں پر شیر کروں گئی
    شکریا ھارون بھائی اچھی شیرینگ ہے اس میں‌میری طرف سے کچھ اضافعہ کر رہی ہون امید کرتی ہوں کے پسند ائیگی
     
  7. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    حضرت خواجہ معین الدین چشتی 14 رجب 536 ہجری کو جنوبی ایران کےعلاقےسیستان کےایک دولت مند گھرانےمیں پیدا ہوئےآپ نسلی اعتبار سےصحیح النسب سید تھےآپ کا شجرہ عالیہ بارہ واسطوں سےامیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سےجاملتا ہے۔ آپ کےوالد گرامی خواجہ غیاث الدین حسین بہت دولت مند تاجر اور بااثر تھے۔ حالانکہ کثرت مال و دولت کو قرآن حکیم میں سب سےبڑا فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ مگر خواجہ غیاث صاحب ثروت ہونےکےساتھ ساتھ ایک عابد و زاہد شخص بھی تھے۔ دولت کی فراوانی کےباوجود حضرت معین الدین چشتی بچپن سےہی بہت قناعت پسند تھے۔
    جس زمانےمیں آپ کی ولادت ہوئی وہ بڑا پرآشوب دور تھا سیستان اور خراسان لوٹ مار کی زد میں تھےہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ سرسبز و شاداب علاقوں میں آگ بھڑک رہی تھی اور خوبصورت شہر کھنڈروں میں تبدیل ہو رہےتھےملت اسلامیہ میں کئی فرقےپیدا ہو چکےتھےجو بڑی سفاکی اور بےرحمی سےایک دوسرےکاخون بہا رہےتھی۔ ''ملاحدہ'' اور ''باطینوں'' کی جماعت نےپورےملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
    یہی وہ خون رنگ اور زہرآلود فضا تھی جس نےخواجہ غیاث الدین حسین کو ترک وطن پر مجبور کر دیا۔ آپ اہل خانہ کو لےخراسان چلےآئی۔ اس وقت حضرت معین الدین چشتی کی عمر مبارک ایک برس تھی۔ خواجہ غیاث الدین حسین کا خیال تھا کہ انہیں ارض خراسان میں کوئی نہ کوئی گوشہ عافیت ضرور مل جائےگا۔ مگر گردش ایاّم کےیہاں بھی وہی تیوڑ تھے جاں گداز فتنےیہاں بھی سر اٹھا رہےتھی۔
    549 ھجری میں خونی سیلاب انسانی سروں سےگزر گیا۔ اس وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی عمر 13 سال تھی۔
    طوس اور نیشاپور کےشہروں میں ظالموں نےایسا ظلم کیا اور اس قدر خون بہایا کہ وہاں ایک بھی انسان زندہ نہ بچا۔ ہر طرف لاشوں کےانبار لگےہوئےتھے۔ مسجدوں میں پناہ لینےوالوں کو بھی ظالموں نےنہ چھوڑا۔ نیشاپورکےمظلوموں اور جامہ شہادت نوش کرنےوالوں میں سپاہی اور عوام ہی میں شامل نہ تھےبڑےبڑےعلماء? فضلا? اولیاءابرار? اتقیا بھی شامل تھی۔ نیشاپور جو ان دنوں علم و فضل کا گہوارہ تھا۔ اسےبھی خاک میں ملا دیا گیا لائبریریوں? درسگاہوں اور کتاب گھروں کو آگ لگا دی گئی۔
    انہی پر آشوب حالات اور آفتوں سےلڑتےجھگڑتےحضرت خواجہ معین الدین چشتی نےپرورش پائی۔ اور اپنی آنکھوں سےمسلمانوں کےخون کےدریا بہتےدیکھی۔ کبھی کبھی آپ نہایت رقت آمیز لہجےمیں اپنےوالد خواجہ غیاث الدین حسین سےسوال کرتے۔ بابا! خون مسلم کی یہ ارزانی کب تک جاری رہےگی۔ نوعمر فرزند کا سوال سن کر والد گرامی رونےلگتےاور فرماتےبیٹے! یہ خونی ہوائیں اہل ایمان کیلئےآزمائش ہیں تمہیں صبر سےکام لیتےہوئےاچھےوقت کا انتظار کرنا چاہئے۔
    پھر ایک دن صبر کی تلقین کرنےوالا باپ بھی 551 ھجری کو دنیا سےرخصت ہوگیے۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 15 سال تھی۔ آپ اس نازک اور درندگی سےلبریز دور میں ایک شفیق اورمہربان باپ کےسایہ عافیت سےمحروم ہو چکےتھےوالد گرامی کی رحلت پر آپ ہر وقت اداس رہنےلگے۔ ایسےلمحات میں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی نور نےبڑی استقامت کا ثبوت دیا اور بڑےحوصلےکےساتھ بیٹےکو سمجھایا۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    فرزند! زندگی کےسفر میں ہر مسافر کو تنہائی کی اذیتوں سےگزرنا پڑتا ہےاگر تم ابھی سےاپنی تکلیفوں کا ماتم کرنےبیٹھ گئےتو زندگی کےدشوار گزار راستےکیسےطےکرو گے۔
    اٹھو اور پوری توانائی سےاپنی زندگی کا سفر شروع کرو۔ ابھی تمہاری منزل بہت دور ہےیہ والد سےمحبت کا ثبوت نہیں کہ تم دن رات ان کی یاد میں آنسو بہاتےرہو۔ اولاد کی والدین کیلئےحقیقی محبت یہ ہوتی ہےکہ وہ اپنےہر عمل سےبزرگوں کےخواب کی تعبیر پیش کری۔تمہارےباپ کا ایک ہی خواب تھا کہ ان کا بیٹا علم و فضل میں کمال حاصل کری۔ چنانچہ تمہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں تعلیم کےحصول کیلئےہی صرف کر دینی چاہئیں۔ مادر گرامی کی تسلیوں سےحضرت خواجہ معین الدین چشتی کی طبیعت سنبھل گئی اور آپ زیادہ شوق سےعلم حاصل کرنےلگے۔ مگر سکون و راحت کی یہ مہلت بھی زیادہ طویل نہ تھی مشکل سےایک سال ہی گزرا ہو گا کہ آپ کی والدہ حضرت بی بی نور بھی خالق حقیقی سےجاملیں۔ اب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس دنیا میں اکیلئےرہ گئے۔

    والد گرامی کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنےوالی چکی آپ کو ورثےمیں ملی۔ والدین کی جدائی کےبعد باغبانی کا پیشہ آپ نےاختیار کیا۔ درختوں کو خود پانی دیتے۔زمین کو ہموار کرتےپودوں کی دیکھ بھال کرتے۔ حتیٰ کہ منڈی میں جا کر خود ہی پھل بھی فروخت کرتے۔ آپ کاروبار میں اس قدر محو ہو گئےکہ آپ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آپ کو اس کا بڑا افسوس تھا لیکن یہ ایک ایسی فطری مجبوری تھی کہ جس کا بظاہر کوئی علاج ممکن نہ تھا۔ آپ اکثر اوقات اپنی اس محرومی پر غورکرتےجب کوئی حل نظر نہ آتا تو شدید مایوسی کےعالم میں آسمان کی طرف دیکھتےاوررونےلگتے۔ یہ خدا کےحضور بندےکی ایک خاموش التجا تھی۔ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنےباغ میں درختوں کو پانی دےرہےتھےکہ ادھر سےمشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی کاگزر ہوا۔ آپ نےبزرگ کو دیکھا تو دوڑتےہوئےگئےاور حضرت ابراہیم قندوزی کےہاتھوںکو بوسہ دیا۔
    حضرت ابراہیم قندوزی ایک نوجوان کےاس جوش عقیدت سےبہت متاثر ہوئی۔ انہوں نےکمال شفقت سےآپ کےسر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگےجانےلگےتو آپ نےحضرت ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔
    حضرت ابراہیم نےمحبت بھرےلہجےمیں پوچھا اےنوجوان! ?آپ کیا چاہتےہیں؟?
    حضرت خواجہ معین الدین چشتی نےعرض کی کہ آپ چند لمحےاور میرےباغ میں قیام فرما لیں۔ کون جانتا ہےکہ یہ سعادت مجھےدوبارہ نصیب ہوتی ہےکہ نہیں۔ آپ کالہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم سےانکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سےبھرےہوئےدو طباق لئےآپ حضرت ابراہیم کےسامنےرکھ دئیےاور خود دست بستہ کھڑےہو گئے۔
    اس نو عمری میں سعادت مندی اورعقیدت مندی کا بےمثال مظاہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم حیران تھے۔ انہوں نےچند انگور اٹھا کر کھا لئے۔ حضرت ابراہیم کےاس عمل سےآپ کےچہرےپر خوشی کا رنگ ابھر آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزی نےفرمایا۔ معین الدین بیٹھ جائو!

    آپ دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے۔ فرزند! تم نےایک فقیر کی خوب مہمان نوازی کی ہی۔ یہ سرسبز شاداب درخت? یہ لذیذ پھل یہ ملکیت اورجائیداد سب کچھ فنا ہو جانےوالا ہے۔ آج اگریہاں بہار کا دور دورہ ہےتو کل یہاں خزاں بھی آئےگی۔ یہی گردش روزوشب ہےاور یہی نظام قدرت بھی۔ تیرا یہ باغ وقت کی تیز آندھیوں میں اجڑ جائےگا۔ پھر اللہ تعالیٰ تجھےایک اور باغ عطا فرمائےگا۔ جس کےدرخت قیامت تک گرم ہوائوں سےمحفوظ رہیں گے۔ ان درختوں میں لگےپھلوں کا ذائقہ جو ایک بار چکھ لےگا پھر وہ دنیا کی کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھےگا۔ حضرت ابراہیم قندوزی نےاپنےپیرھن میں ہاتھ ڈال کر جیب سےروٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ کی طرف بڑھا دیا اور فرمایا وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔
    یہ کہہ کر خشک روٹی کاوہ ٹکڑا حضرت معین الدین چشتی کےمنہ میں ڈال دیا۔ پھر باغ سےنکل کر اپنی منزل کی جانب تیزی سےچل دیئے۔
    حضرت ابراہیم کی دی ہوئی روٹی کا ٹکڑا اس قدر سخت اور خشک تھا کہ اس کا چبانا دشوار تھا۔ مگر آپ نےایک بزرگ کا تحفہ سمجھ کر وہ روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔ اس ٹکڑےکا حلق سےنیچےاترنا ہی تھا کہ حضرت معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔ آپ کو یوں محسوس ہونےلگا جیسےکائنات کی ہر شےفضول ہی۔ دوسرےہی دن آپ نےاپنی چکی اور باغ فروخت کر دیا اور اس سےحاصل ہونےوالی رقم غریبوں اورمحتاجوں میں بانٹ دی۔ عزیزواقارب آپ کی اس حرکت کو دماغی خلل بھی قرار دےرہےتھےلیکن وہ یہ سمجھنےسےقاصر تھےکہ ذہن و دل کےکس گوشےسےروشنی کی وہ لکیر پھوٹ رہی ہےجس نےدنیا کےتمام اجالوں کو دھندلا کر کےرکھ دیا ہے۔ بعدازاں آپ سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹانےکےبعد تحصیل علم کیلئےخراساں کو خیرباد کہہ کر سمرقند بخارا کا رخ کیا جو اس وقت علوم وفنون کےاہم مراکز تصور کئےجاتےتھے۔ یہاں پہلےآپ نےقرآن پاک حفظ کیا۔ پھر تفسیر? فقہ? حدیث اور دوسرےعلوم ظاہری میں مہارت حاصل کی۔ علوم ظاہری کی تکمیل کےبعد آپ نےمرشد کامل کی تلاش میں اورعراق کا رخ کیا۔ راستےمیں اپنےزمانےکےمشہور بزرگ حضرت خواجہ عثمان ہرونی سکونت پذیر تھے۔ حضرت خواجہ کچھ دن تک ایک عام طالب علم کی حیثیت سےحضرت عثمان ہرونی کی خدمت میں حاضر ہوتےرہے۔ مگر شیخ نےکوئی توجہ نہ دی۔ پہلےقدرےمایوس ہوئےبعدازاں ایک موقع پا کر آپ نےدل کی بات شیخ سےکہہ ہی ڈالی کہ میری دلی تمنا ہےکہ آپ مجھےمستقل غلامی کا شرف بخشیں۔ اس پر حضرت عثمان ہرونی نےفرمایا فرزند! مجھ سےاپنا ہی بوجھ نہیں اٹھایا جاتا۔ تمہارا کیسےاٹھائوں گا دراصل شیخ آپ کو ٹالنا چاہتےتھےلیکن آپ مسلسل اصرار فرماتےرہے۔
    پھر ایک دن حضرت عثمان ہرونی نےآپ کو اپنےحلقہ ارادت میں شامل کر لیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنےمرشد کی خدمت میں تقریباً اڑھائی سال رہے۔ آپ پیرومرشد کی خدمت کیلئےساری ساری رات جاگتےرہتےکہ مرشد کو کسی چیز کی ضرورت نہ پڑ جائے۔
    پھر ایک دن حضرت خواجہ کو مرشد پاک نےسینےسےلگا کر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئےاور دعا فرمائی۔ ?اےخدائےذوالجلال!معین الدین کو قبول فرما لے۔ اس نے بےسروسامانی کےباوجود مجھےنہیں چھوڑا تو بھی اسےزمین پرتنہا نہ چھوڑ۔ ابھی دعا کےالفاظ مکمل بھی نہ ہوپائےتھےکہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی بارش نور میں نہا گئے۔ ایک تیز شعاع دل و دماغ کو روشن کرتی چلی گئی۔ اور آپ کی آنکھوں کےسامنےسےتمام حجابات اٹھ گئے۔
    معین الدین! اب کیا نظر آتا ہے؟ حضرت عثمان ہرونی نےآپ سےفرمایا۔ آپ کےصدقےمیں عرش سےتحت الثری تک دیکھ رہا ہوں۔ حضرت معین الدین چشتی نےکہا۔ اللہ کا شکر ہےکہ تم سیراب ہو گئے۔ ورنہ عشق کےصحرا میں لوگ ایک بوند کیلئےزندگی بھر ترستےرہتےہیں پھر آپ کےپاس جو شخص بھی نگاہ کرم کی بھیک مانگنےآتا تو آپ فرماتےکہ میرےپاس جو کچھ تھا وہ میں نےمعین الدین کو عطا کر دیا ہے۔
    ایک اور روایت کےمطابق حضرت عثمان ہرونی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو لےکر مکہ معظمہ حاضر ہوئی۔ خانہ کعبہ کا طواف کرنےکےبعد آپ نےبلند آواز میں فرمایا۔ الٰہی!معین الدین حاضر ہےاپنےاس عاجز بندےکو شرف قبولیت عطا فرما۔ جواب میں ندائےغیبی سنائی دی۔ ?ہم نےاسےقبول کیا۔ بےشک! یہ معین الدین ہے۔
    پھر مکہ معظمہ کےبعد مدینہمنورہ تشریف لےگے۔ پھر جیسےہی سرورِکائنات ا کی قربت حاصل ہوئی حضرت عثمان ہرونی نےخواجہ معین الدین چشتی کو حکم دیا۔?معین الدین! آقائےکائنات کےحضور اسلام پیش کرو۔
    حضرت خواجہ معین الدین چشتی نےگداز قلب کےساتھ لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ?السلام علیکم یا سید المرسلین۔? وہاں موجود تمام لوگوں نےسنا۔ روضہ رسول ا سےجواب آیا۔ ?وعلیکم السلام یا سلطان الہند?۔
    اس کےبعد مرشد نےحضرت خواجہ کومبارکباد دیتےہوئےفرمایا معین الدین! تم خوش نصیب ہو کہ تمہیں دونوں مقامات پر قبولیت کی سند عطا ہوئی آئندہ بت خانہ ہند تمہاری سرگرمیوں کامرکز ہو گا۔ اگرچہ وہاں کفر کی گہری تاریکی پھیلی ہوئی ہےلیکن تم وہاں اسلام کی شمع روشن کرنےمیں کامیاب ہو جائو گے۔ اس وسیع و عریض ملک میں صرف تم ہی سلطان کہلائو
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    گےجسےدرباررسالت ا سےتاج سلطانی عطا ہوا ہےوہ ہندوستان کےتمام بادشاہوں پر غالب آکر رہےگا۔
    بعدازاں حضرت معین الدین چشتی نےاپنےمرشد کی ہدایت پر طویل عرصےتک شدید ریاضتیں کیں۔ مسلسل سات سات دن کا روزہ رکھتے۔
    پھر پیرومرشد کی اجازت سےآپ تنہا حجاز مقدس پہنچے۔ حج کی سعادت حاصل کی روضہ رسول پر حاضری دینےکےساتھ ساتھ کئی ممالک کا سفر اختیار کیا۔ سفر بغداد کےدوران آپ کی ملاقات حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ سےہوئی اولیائےکرام میں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ کا مقام بہت بلند ہی۔ حضرت معین الدین چشتی اڑھائی ماہ تک حضرت شیخ نجم الدین کبریٰکےہاں قیام پذیر رہےاور ایک عظیم صوفی کی محبتوں سےفیض یاب ہوئے۔
    اس کےبعد حضرت معین الدین چشتی بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کیا۔ پھر آپ تبریز تشریف لےگئےاوروہاں حضرت خواجہ ابو سعید تبریزی سےفیض حاصل کیا۔ حضرت تبریزی کو تصوف کی دنیا میں ہمہ گیر شہرت حاصل ہی۔ چند دن یہاں گزارنےکےبعد آپ اصفحان تشریف لےگئی۔ وہاں مشہور بزرگ حضرت شیخ محمود اصفحانی کی محبت سےفیض یاب ہوئی۔
    انہی دنوں وہاںایک نو عمر لڑکےکو دیکھا جو درویشوں سےنہایت عقیدت رکھتا تھا حضرت معین الدین چشتی کی آمد سےپہلےوہ لڑکا حضرت شیخ محمود اصفحانی کی ذات سےبہت متاثر تھا۔ مگر جب اس نےحضرت خواجہ معین الدین چشتی کو دیکھا تو ارادہ بدل دیا۔ پھر جب آپ اصفحانسےروانہ ہوئےتو وہ نو عمر لڑکا آپ کےساتھ ہی ہولیا۔ یہی نو عمر لڑکا حضرت معین الدین چشتی کی صحبت میں اولیائےہند کا تاجدار بنا۔ جسےدنیا حضرت قطب الدین بختیار کاکیکےنام سےجانتی ہی۔ آپ گنج شکر حضرت بابا فریدکےمرشد اورحضرت نظام الدین اولیاءکےدادا مرشد ہیں۔
    بہرکیف حضرت معین الدین چشتی اصفحانسےخرقان تشریف لےآئےیہاں آپ نےدو سال وعظ فرمایا اور ہزاروں انسانوں کو راہِ راست پر لائی۔ پھر ایران کےشہر استرآباد تشریف لےآئےان دنوں وہاں ایک مرد کامل حضرت شیخ ناصر الدین قیام پذیر تھی۔ جن کا دو واسطوں سےسلسلہ حضرت بایزید بسطامی سےجا ملتا ہےچند ماہ یہاں حضرت شیخ ناصرالدین سےروحانی فیض حاصل کیا۔ پھر ہرات کا قصد کیا۔ یہ شہر ایرانی سرحد کےقریب افغانستان میں واقع ہی۔ یہاں حضرت خواجہ عبداللہ انصاری کےمزار مبارک پر آپ کا قیام تھا۔ بہت جلد سارےشہر میں آپ کےچرچےہونےلگے۔ جب بات حد سے بڑھ گئی اور خلق خدا کی ہر لمحےحاضری کی وجہ سےوظائف اور عبادت الٰہی میں فرق پڑنےلگا تو آپ ہرات کو خیرباد کہہ کر سبزوار تشریف لےگئے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    ماشاءاللہ :222: سبحان اللہ :222: جزاک اللہ خیر
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    6رجب المرجب کو حضرت خواجہ خواجگان سلطان الہند معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ کا عرس مبارک ہے۔

    سانا بہن ۔ آپ کا مضمون قدرے نامکمل ہے۔ اور آپ نے کچھ تصاویر ارسال کرنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگر ہوسکے تو پورا کردیں۔ شکریہ
    جزاکم اللہ خیر
     
  12. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

     
  13. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    نعیم بھائی میرے مضمون کے بعد ہارون بھائی کا مضمون پڑلیا جائے تو مکمل ہوجائے گا اس لیے میں نے اگے کا نہیں لکھا ہے
     
  14. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    [​IMG]
    Nizam Gate
    [​IMG]
    [​IMG]
    [​IMG]
    Buland Darwaza
    [​IMG]
    Badi Degh (capacious Vessel)
    [​IMG]
    [​IMG]
    Choti Degh
    [​IMG]
    [​IMG]
    Begami Dalaan
    [​IMG]
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    آب کام کا وقت ہو رہا ہے بعد میں اور بعد میں وقت ملنے پر
     
  16. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    ماشاءاللہ :n_TYTYTY:
     
  17. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    [​IMG]
    نوٹوں کی اکثریت پاکستانی ہے
     
  18. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    اچھا واقعی آپ کی عینک کہیں گوم ہوگئی ہے
     
  19. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    جزاک اللہ سانا بہن
     
  21. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    جزاک االلہ
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    سانا بہن ۔ بہت شکریہ ۔ جزاک اللہ خیر۔
    اللہ تعالی ہمیں اپنے محبوب و مقربین اولیاء و صلحاء سے فیضاب ہونے کے قابل بنائے۔ آمین
     
  23. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    آپ سب کاشکریہ
     
  24. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ

    جزاک اللہ خیر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں