1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏17 جون 2010۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    سلطان العارفین، برہان العاشقین، سید الطائفہ، غوث زمان حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ العزیز تیرھویں صدی ہجری کے بڑے برگزیدہ اورجلیل القدر بزرگ ہیں۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے برصغیر ہند و پاک کے شمالی کونے میں جو مرکز رشد وہدایت قائم کیا اس کی کرنیں ہند و پاکستان کے گوشے گوشے میں پہنچیں۔ پنجاب، سندھ،سرحد، دہلی،لکھنو ،دکن کے علاوہ افغانستان ،ایران، عربستان تک سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہدایت کا چراغ بن کرواپس لوٹے۔

    آپ رحمت اللہ تعالی علیہ چشتیہ نظامیہ سلسلہ کے عظیم الشان برزگ ہیں، جن کے فیوض وبرکات اور جن کی مقبولیت عامہ نے مشائخ متقدمین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمت اللہ تعالی علیہ ، شیخ کبیر رحمت اللہ تعالی علیہ فرید الدین گنج شکر رحمت اللہ تعالی علیہ اور سلطان مشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء دہلوی رحمت اللہ تعالی علیہ کی یاد تازہ کردی اور ان کی خانقاہوں کا مکمل نمونہ پیش کردیا۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے علمی تبحر، زہد و تقدس اور روحانیت وللہیت سے اتنی دنیافیض یاب ہوئی اور اتنے لوگوں کی اخلاقی اصلاح ہوئی جس کا شمار کرنا مشکل ہے۔

    خواجہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ تعالی علیہ نے جس وقت شمالی ہندوستان میں مسند ارشاد بچھائی اس وقت مغلیہ حکومت دم توڑ چکی تھی، پنجاب پرسکھوں کا تسلط تھا اور انگریزی حکومت اپنے قدم جمارہی تھی، مسلمان معاشرہ پر ایک یاس و افسردگی کا عالم طاری تھا۔ حضرت خواجہ تونسوی رحمت اللہ تعالی علیہ نے مسلمانوں کی دم توڑتی ہوئی سوسائٹی کو سہارا دینے کیلئے توکلاً علی اﷲ ،شریعت اسلامی کے احیا کے لئے سرتوڑ کوشش کی۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے تونسہ شریف میں اپنے پاس جید علماء کی ایک جماعت جمع کر کے ہزاروں مسلمانون کو علوم دینیہ کی انتہائی تعلیم دینے اور اس طرح اشاعت دین کا سامان پیدا کرنے کا اہم کام سرانجام دیا۔

    پیدائش و تربیت

    حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان رحمة اللہ تعالی علیہ کی ولادت ۱۱۸۴ھ ۱۷۷۰ء میں گڑگوجی کے مقام پر ہوئی۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی ولادت سے قبل بعض اہل کشف بزرگوں نے آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے والدین کو آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے متعلق بشارات دیں۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے والد ماجد کا اسم گرامی زکریا رحمت اللہ تعالی علیہ ہے۔گڑگوجی ضلع لورالائی (بلوچستان) میں ہے اور تونسہ شریف سے شمال مغرب کی جانب تیس کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ خواجہ محمد سلیمان رحمت اللہ تعالی علیہ کے والد ماجد کا انتقال آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے بچپن میں ہو گیا تھا اورآپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے ایک بڑے بھائی یوسف بھی عین عنفوان شباب میں اﷲ کو پیارے ہو گئے تھے ،آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی چار بہنیں تھیں۔ جب آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی عمر چار برس کی ہوئی تو والدہ ماجدہ نے آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو قرآن مجید کی تعلیم کے لئے ملا یوسف جعفر رحمت اللہ تعالی علیہ کے سپرد کر دیا۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے پندرہ پارے ان کے پاس رہ کر حفظ کئے۔ اس کے بعد جعفر قوم کے ایک حاجی صاحب کے پاس چند پارے پڑھے۔ پھر تونسہ شریف میں میاں حسن علی رحمت اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں آگئے اور تونسہ کی ’’بگی مسجد‘‘ میں مقیم رہ کر پورا قرآن مجید حفظ کیا اور فارسی نظم ونثر کی ابتدائی کتابیں بھی انہی میاں حسن علی صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ سے پڑھیں۔ کچھ عرصہ بعد لانگھ پہنچے۔ یہ مقام تونسہ سے پانچ کوس مشرق کی جانب دریائے سندھ کے کنارے واقع تھا۔ وہاںآپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے مولوی ولی محمدصاحب رحمت اللہ تعالی علیہ سے فارسی و عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ لانگھ سے کوٹ مٹھن چلے گئے وہاں قاضی محمد عاقل رحمت اللہ تعالی علیہ اور ان کے صاحبزادے قاضی احمد علی صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ نے ایک دارالعلوم قائم کر رکھا تھا جہاں علوم دینیہ کی انتہائی تعلیم دی جاتی تھی اس مدرسہ میں آپ نے نحو،منطق و فلسفہ کی کتابیں پڑھیں اورفقہ پر عبور حاصل کیا۔

    تمام تذکرہ نویسوں نے یہ روایت لکھی ہے کہ حضرت مولانا خواجہ فخرالدین دہلوی رحمت اللہ تعالی علیہ نے اپنے خلیفہ اعظم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمت اللہ تعالی علیہ کو فرمایا تھا کہ کوہ سلیمان کی بلند چوٹیوں پر ایک بلند پروازشاہباز ہے ا گر اس کو قید میں لاکر سدھا دیا گیا تو اس کی پرواز سدرۃ المنتہی تک ہو گی اور وہ ملک سلیمان کا وارث ہو گا جس سے ہمارے سلسلہ چشتیہ نظامیہ کی بڑی اشاعت ہو گی اور چندعلامات بھی بتلا دی تھیں۔ چنانچہ حضرت قبلہ عالم مہاروی رحمت اللہ تعالی علیہ ہمیشہ اس شاہباز کی تلاش میں اوچ شریف اور کوٹ مٹھن وغیرہ کی طرف سفر فرمایا کرتے تھے۔ ادھر شکارکا یہ حال تھا کہ افغانی خون آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی رگوں میں ابل رہا تھا اورجوش جوانی کے ساتھ دینی غیرت اور ایمانی جرأت کایہ حال تھا کہ جہاں کہیں کوئی خلاف شریعت کام دیکھتے امر معروف کے لئے چلے جاتے۔

    اسی عرصہ میں ایک روز قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاروی رحمت اللہ تعالی علیہ کے مقام اوچ شریف پر تشریف فرما ہوئے۔ قاضی محمد عاقل صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ اور سب طلباء وفقرا آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی زیارت کے لئے اوچ روانہ ہوئے ۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے سن رکھا تھا کہ قبلۂ عالم سماع، سنتے ہیں اورا ن کے بعض مریدین وجد کی حالت میں رقص کرتے ہیں۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو یہ بات ناپسند تھی (انہیں یہ گمان گزرا کہ شاید سماع مزامیر کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ آپ علیہ الرحمت جملہ شرائط و آداب مشایخ کے ساتھ مجلس سماع سنتے تھے)۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے یہ موقع غنیمت جانا اور امر معروف کے ارادہ سے اوچ شریف روانہ ہوئے مگر قدرت الہٰی اپنا فیصلہ کچھ اور رقم کر چکی تھی اور جہاں امر معروف کرنے چلے تھے وہاں کے غلام بے دام بن کے آگئے۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے اپنے پیرزادہ حضرت نور احمد صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ کو اپنی بیعت کا واقعہ سناتے ہوئے اس ملاقات وبیعت کی تفصیل یوں بیان فرمائی:

    ’’جب ہم وہاں (اوچ) پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کے ایک گروہ کے بیچ میں ایک بزرگ نہایت سادہ لباس میں مجلس آرا ہیں۔ ان کی سادگی دیکھ کر میرا یقین بڑھ گیا۔ تین روز ہم ان کی خدمت میں رہے، مگر مجھے اپنا کام کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ میں دیکھتا رہا کہ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ بارہا میری طرف گھور گھور کر دیکھتے اور قاضی صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ سے میرے متعلق کچھ پوچھتے ہیں۔ قاضی صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ کو میرے ارادہ کا علم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فقیر آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں امر معروف کی نیت سے حاضر ہوا ہے۔ یہ سن کر آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے فرمایا’’اچھا! بڑا عالی ہمت اور بلند ارادہ شخص معلوم ہوتا ہے‘‘سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا، آخری روز میں نے بڑی حسرت کے ساتھ اپنے ساتھی سے کہا کہ افسوس ہم اپنا کام نہ کر سکے اوراب جارہے ہیں۔ چلو سلام کر کے رخصت ہولیں۔ میں نے سلام کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ ابھی میں چند قدم پیچھے تھا کہ فوراً حضرت نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ نہیں معلوم کیاتھا کہ لرزہ میرے جسم پر اور بے حسی میری روح پرغالب آئی۔ چھری میرے ہاتھ میں سے گرپڑی جو میرے ساتھی نے اٹھالی۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ دیر تک میرے دائیں ہاتھ کو پکڑے رہے یہاں تک کہ جو آتا اسے دوسرے ہاتھ سے رخصت کرتے۔ اسی حالت میں چل دیے اورایسے تیز چلے کہ میرے قدم اکھڑے جاتے تھے یہاں تک کہ میرے ایک پاؤں سے جوتا نکل گیا۔ اسی صورت میں مجھے آپ سید جلال الدین بخاری رحمت اللہ تعالی علیہ کے روضۂ منورہ میں لے گئے اور مزار کے سرہانے ٹھہرا دیا۔ میرا دل اڑ گیا جی میں آیاخدا کرے میرا ہاتھ کبھی نہ چھوڑیں۔ اپنے دونوں ہاتھ میرے ہاتھ سمیت مزارپر رکھ کر کافی دیر چپ چاپ کھڑے رہے۔ پھرفاتحہ پڑھ کر دروازہ پر تشریف لائے۔ لوگوں کو روضۂ سے باہر نکال کر بائیں ہاتھ سے دروازہ اندر سے بند کر کے بیٹھ گئے اور مجھے بھی بٹھا دیا مگر ابھی تک میرا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ کچھ کلام خود پڑھی اور کچھ مجھے پڑھائی اور میرے سینہ پر دم کی اورمیرے دونوں ہاتھ سینہ پرملے اور پھران کو چھوڑ دیا اور فرمایا اے میاں جہاں علم حاصل کرناچاہے جا اور پڑھ‘‘ اس کے بعد وقفے وقفے سے اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دفعہ انہوں نے دہلی میں خواجہ فخرالدین دہلوی رحمت اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں حاضر ی کا حکم دیا۔

    اس وقت آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی عمر سولہ برس کی تھی۔ چنانچہ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ زاد سفر کے بغیر سخت گرمی میں دہلی کے سفر پرروانہ ہوئے۔ اوچ،بہاولپور، دلاور، جودھپور،اجمیر شریف ،جے پور اور ریواڑی سے ہوتے ہوئے دہلی پہنچے۔یہ ۱۱۹۹ھ ۱۷۸۴ء کی بات ہے۔ عشق و محبت کا یہ متوالا، ریگستان کا طویل اور کٹھن سفر طے کر نے کے بعد جب دہلی پہنچا تو معلوم ہوا کہ دورروز قبل حضرت مولانا خواجہ فخرالدین رحمت اللہ تعالی علیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔آپ رحمت اللہ تعالی علیہ حضرت کے مدرسہ میں ٹھہرے اور چالیس روز تک حضرت کے مزار پر معتکف رہ کر روحانی فیوض حاصل کئے۔پھر واپس مہار تشریف لائے۔

    مہار شریف پہنچ کر قبلۂ عالم کے حکم کے مطابق حافظ خدابخش رحمت اللہ تعالی علیہ کی مسجد میں مقیم ہو کر ریاضت وعبادت میں مشغول ہوگئے آپ رحمت اللہ تعالی علیہ رات دن ذکر پاس انفاس اور وقوف قلبی میں مصروف رہتے۔ صرف مجلس کے اوقات میں حضرت قبلۂ عالم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضرت سے تصوف کی کتابوں کا سبق پڑھتے ۔ مندرجہ ذیل کتابیں آپ نے حضرت قبلۂ عالم سے پڑھیں۔

    ۱۔ آداب الطالبین مصنفہ شیخ محمد گجراتی رحمت اللہ تعالی علیہ،
    ۲۔ فقرات خواجہ عبیداﷲ احرار رحمت اللہ تعالی علیہ،
    ۳۔لوائح جامی رحمت اللہ تعالی علیہ،
    ۴۔ عشرہ کاملہ و کشکول وغیرہ،
    ۵۔ فصوص الحکم مصنفہ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمت اللہ تعالی علیہ۔

    ریاضت شاقہ اور ذکر الہٰی کی وجہ سے آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کا دل عشق حق تعالیٰ میں بھونا گیا اور آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو محبت ذاتیہ کا مرتبہ نصیب ہوا۔ حالات عشقیہ اور کیفیات وجد کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔

    ایک مرتبہ مہار شریف میں نواب غازی الدین خان کے مکان پر جملہ شرائط وآداب مشایخ کے ساتھ مجلس سماع ہو رہی تھی۔ حضرت قبلۂ عالم خواجہ نور محمد رحمت اللہ تعالی علیہ بھی موجود تھے۔ قوال مولانا جامی رحمت اللہ تعالی علیہ کی غزل پڑھ رہے تھے جب یہ شعر پڑھا:

    از مدرسہ بہ کعبہ روم یا بہ میکدہ
    اے پیر رہ بگو کہ طریق صواب چیست


    آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو ایسا وجد ہوا کہ دونوں آنکھوں سے خون کے آنسوجاری ہو گئے کچھ دیر بعد آپ رحمت اللہ تعالی علیہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ حضرت قبلۂ عالم رحمت اللہ تعالی علیہ نے سماع بند کرادیا اوراپنی چادر مبارک آپِ رحمت اللہ تعالی علیہ کے اوپر ڈال دی اور آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو اٹھوا کر اپنے حجرہ میں لے گئے۔ حضرت میاں نور محمد صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ نارووالہ اور قاضی محمد عاقل صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ یہ پٹھان بہت خوش نصیب ہے۔ ایک ہی دفعہ پرواز کر کے تجلی ذاتی کے مقام تک پہنچ گیا ہے۔ ظہر کی اذان کے ساتھ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو ہوش آگیا۔ قبلۂ عالم کی چادر کو پہچانا اور سر پر رکھ کر مسجد کو چلے گئے۔

    قیام تونسہ شریف

    تونسہ شریف میں مقیم ہو کرآپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے اپنے مشایخ سلسلہ کی طرح وسیع پیمانہ پر درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ آہستہ آہستہ بہت سے بلند پایہ علماء آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی خانقاہ میں آکر مستقل طور پر آباد ہو گئے اور ہزاروں طلبہ ان سے دینی علوم حاصل کرنے لگے۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ خود بھی تصوف کی بعض کتابیں احیاء العلوم ، عوارف المعارف ،فتوحات مکیہ وغیرہ اپنے مخصوص مریدین وخلفا کو پڑھاتے تھے۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی خانقاہ میں تقریباً پچاس استاد تھے اور ہر ایک استاد کا الگ الگ حلقہ تھا،جہاں منطق و فلسفہ کے علاوہ فقہ، حدیث، تفسیر کی تعلیم دی جاتی تھی اورعلماء اور طلبا کے سب اخراجات آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے لنگر سے پورے ہوتے تھے۔ اس طرح گویا کہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے تونسہ شریف میں ایک دارالعلوم قائم کر دیا جس کے آپ رحمت اللہ تعالی علیہ خود سرپرست تھے۔ جہاں ان تمام علماء وطلبا کی اخلاقی تربیت بھی کی جاتی اس لحاظ سے یہ مدارس اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔

    اولیاء اﷲ کی کرامات حق ہیں،جیسا کہ اہلسنت والجماعت کی تمام کتابوں میںتصریح ہے اور تواتر اور تسلسل کے ساتھ اولیاء کاملین سے ظاہر ہوتی چلی آئی ہیں۔ حضرت خواجہ تونسوی رحمت اللہ تعالی علیہ سے بھی رات دن کشف و کرامات اور خرق عادات کا ظہور ہوتا رہتا تھا۔

    نواب اسد خان والئی سنگھڑ کے ظلم و تعدی سے لوگ تنگ آگئے ، تو آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں شکایت کی آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے اسے بلا کرفرمایا: تمہاری حکومت میں ہمیں صرف اتنا فائدہ ہے کہ اذان کی آواز سن لیتے ہیں، ظلم وستم سے ہاتھ اٹھا ورنہ میں تو سکھوں کی فوج کو یہاں دیکھ رہا ہوں۔ لیکن نواب مذکورظلم سے بازنہ آیا اور تھوڑے دنوں میں سکھوں کا لشکر آگیا اور جس ٹیلہ کی طرف آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے اشارہ کیا تھا وہیں آکر ڈیرہ ڈالا۔ بعد میں جب لوگوں نے اس بارے میں عرض کیا تو فرمایا:اعمالکم عمالکم تمہارے اعمال ہی تمہارے حاکم ہیں تم نے جب شریعت کی پابندی چھوڑ دی ہے تو حق تعالیٰ نے تم پرکافروں کو مسلط کر دیا ہے۔

    آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو ہر حال میں اس بات کا خیال رہتا تھا کہ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کا قدم جادۂ شریعت سے ہٹنے نہ پائے۔ چنانچہ ہر قول و فعل آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کا شریعت کے مطابق ہوتاتھا۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ فرماتے تھے،ہمارا اصلی کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے، اگر ایک شخص ہوا میں اڑتا ہوانیچے اترآئے لیکن اس کا ایک فعل بھی جادۂ شریعت سے باہر ہوتو وہ کوئی شے نہیں،ایک دفعہ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے خواب میں دیکھا کہ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے دونوں پاؤں قرآن مجید کے اوپر ہیں، گھبرا کر اٹھے، اور بہت پریشان ہوئے ۔علماء کو بلا کر تعبیر پوچھی۔ مولانا محمد عابد سوکڑی رحمت اللہ تعالی علیہ نے تعبیر دی کہ خدا نے آپ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی ظاہری و باطنی متابعت عطا فرمائی ہے کہ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے دونوں قدم قرآن مجید کے احکام پر ثابت ہیں۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے اور سب علماء نے اس تعبیر کو پسند کیا۔

    آپ رحمت اللہ تعالی علیہ اپنے مشایخ سلسلہ کی طرح امرا واہل دول سے بہت اجتناب فرماتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے دولت مندوں کی دوستی دلوںکو مردہ کر دیتی ہے۔

    ایک مرتبہ ڈیرہ غازی خان کے نواب عبدالجبارخان نے درویشوں کے اخراجات کے لئے جاگیر کی پیش کش کی۔ آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے فرمایا ہم ہرگز جاگیر نہ لیں گے۔ یہ ہمارے مشایخ کی سنت کے خلاف ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ صاحبزادہ گل محمد رحمت اللہ تعالی علیہ کے لئے قبول فرمالیں۔ فرمایا گل محمد رحمت اللہ تعالی علیہ کو بھی اس کی حاجت نہیں۔اگر یہ فقرا کی جوتیاں سیدھی کرتا رہا تو مقربین اس کی خدمت کریں گے۔تقریباً تریسٹھ برس تک مسند ارشاد پر بیٹھ کر آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے علماء، صلحا، امراء اور عامۃ المسلمین کی رہنمائی فرمائی آخری عمر میں آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو سلسل البول اور گھنٹوں کے درد کی تکلیف رہنے لگی مگر معمولات میںکوئی فرق نہ آنے دیا حتیٰ کہ صفر ۱۲۶۷ھ کو سحری کے وقت پاس انفاس کا شغل کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔ جنازہ میں اتنی مخلوق نے شرکت کی، جس کا شمار نہیں ہو سکتا تھا۔

    چند مشہور خلفاء کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
    حضرت صاحبزادہ خواجہ گل محمد رحمت اللہ تعالی علیہ ،
    حضرت خواجہ اﷲ بخش تونسوی رحمت اللہ تعالی علیہ ،
    مولانا محمد علی مکھڈی رحمت اللہ تعالی علیہ ،
    حافظ سید محمد علی خیر آبادی رحمت اللہ تعالی علیہ ،
    سید حسن عسکری دہلوی رحمت اللہ تعالی علیہ ،
    مولانا شمس الدین سیالوی رحمت اللہ تعالی علیہ ،
    مولانا فیض بخش الہی رحمت اللہ تعالی علیہ


    نوٹ: اوپر جس سماع کا ذکر ہوا وہ مزامیر سے پاک ہے جیسا کہ سردار سلسلہ علیہ بہشتیہ حضرت سلطان الاولیا ء شیخ المشائخ محبوب الہی نظام الحق والدین محمد رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

    چندیں چیز می باید تاسماع مباح شود مستمع و مسمع آلہ سماع، مسمع یعنی گویندہ، مرد تمام باشد کودک نباشد وعورت نباشد ومستمع آنکہ می شنود ازیاد حق خالی نبا شد ومسموع انچہ بگویند فحش و مسخرگی نباشد وآلہ سماع مزامیر است چوں چنگ درباب ومثل آں می باید درمیان نباشدایں چنیں سماع حلال است۔

    چندچیزیں پائی جائیں تو سماع حلال ہوگا، سنانے والے تمام مرد بالغ ہوں بچے اور عورت نہ ہوں سننے والے اللہ تعالٰی کی یاد سے خالی نہ ہوں کلام فحش ومذاق سے خالی ہو اور آلات سماع سرنگی نہ ہو تو ایسا سماع حلال ہوگا

    (سیرالاولیاء ، باب نہم ، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان ، اسلام آباد ، ص۰۲۔ ۵۰۱)
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

    جزاک اللہ ۔ ہارون بھائی
    اللہ تعالی ہمیں ان عظیم بزرگان دین کی محبت و اطاعت میں سے کچھ خیرات عطا فرمائے۔ آمین
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

    اِنَّ اَلاَرضَ یُرِثُہا عِباِدیَّ الصّالِحون ہ
    بیشک وارث ہوئے زمین کے میرے نیک بندے
     
  4. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

    اللہ تعالی ہمیں ان عظیم بزرگان دین کی محبت و اطاعت میں سے کچھ خیرات عطا فرمائے۔ آمین
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

    حضرت سلمان تونسوی رحمت اللہ علیہ ایک حجام کے پاس سر مبارک کا حلق کروارہے تھے کہ دور کہیں شہنائی بجنے کی آواز آئی ۔ تو وہ حجام اس شہنائی کی آواز پر رو پڑا اور اس کے آنسو سرکار کے سر مبارک پر گرے ، آپ رحمت اللہ علیہ نے اوپر دیکھا تو حجام رورہا تھا آپ رحمت اللہ نے اس سے رونے کی وجہ دریافت کی تو اس نے ٹال مٹول سے کام لیا آپ رحمت اللہ نے اسرار کیا تو اس حجام نے عرض کی "حضور میرا ایک ہی بیٹا تھا اور وہ ناراض ہوکر کہیں چلا گیا ہے آج جس گھر میں شہنائی بج رہی ہے اس لڑکی سے اس کی نسبت طئہ تھی میرا دل بھر آیا کہ
    آج اگر وہ موجود ہوتا تو میں اس کا نکاح‌کرتا"
    آپ رحمت اللہ اس حجام کے پاس سے اٹھ کر ایک سائیڈ‌پر کچھ دور چلے گئے کچھ دیر نظروں سے اوجھل رہنے کیبعد تشریف لائے اور فرمایا " جاؤ‌تمہارا بیٹا گھر میں تمہارا انتظار کررہا ہے "
    حمام حیرت اور پریشانی سے گھر کی طرف گیا وہاں جاکر دیکھا کہ اس کے بیٹے کے ہاتھ اٹے سے لپٹے ہوئے تھے اور وہ حیران پریشان کھڑا تھا ۔
    جب اس کے والد نے اس سے یہ ماجرا پوچھا تو اس لڑکے نے جواب دیا " کہ میں تو ناگ پور میں کسی گھر میں ملازم تھا اور اٹا گوندھ رہا تھا ۔ اچانک ایک نورانی چہرے والے بزرگ تشریف لائے چہرہ مبارک سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور لمبا اور پتلا جسم ہے سر مبارک کے آدھے بال منڈے ہوئے ہیں اور آدھے باقی ہیں انہوں‌نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا "تم یہاں‌کیا کررہے ہو گھر تمہارا والد تمہارے فراق میں‌رو رہا ہے مجھے نہیں‌پتا کہ میں‌کب وہاں سے یہاں‌پہنچ گیا ہوں‌"

    اب عقل اس بات کو کیا سمجھے کہ چشیاں شریف کہاں اور ناگ پور کہاں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

    ماشاء اللہ ھارون بھائی ۔ بہت عمدہ اور اچھی معلومات فراہم کیں آپ نے سلسلہ چشت اہل بہشت کے عظیم ولی اللہ کے بارے میں۔ اللہ تعالی ہمیں ان عظیم لوگوں کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق اور ہمت دے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. احمداسد
    آف لائن

    احمداسد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جنوری 2011
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

    ہارون رشید بھائی
    السلام علیکم
    آپ کا یہ مضمون دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اللہ تعالی ہمیں ان بزرگون کی برکات و فیضان نصیب فرمائے،آمین
    حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے تفصیلی حالات پرحضرت کے خلیفہ خواجہ فیض بخش للہی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے ایک مستند صاحب علم مولانا محمد حسین للہی رحمۃ اللہ علیہ نے تذکرہ خواجہ محمد سلیمان تونسویٌ کے نام سے کتاب تصنیف کی ہے جو سنگ میل پبلشرز لاہور نے شائع کی تھی بہت مفید اور نافع کتاب ہے
     
  8. آفتاب آصف
    آف لائن

    آفتاب آصف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2011
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

    ماشاء اللہ ھارون بھائی ۔ بہت عمدہ اور اچھی معلومات فراہم کیں آپ نے سلسلہ چشت اہل بہشت کے عظیم ولی اللہ کے بارے میں۔ اللہ تعالی ہمیں ان عظیم لوگوں کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق اور ہمت دے۔
    ساجد اسلامک پبلک لائبریری لیہ ۔
     
  9. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ

    جزاک اللہ خیر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں