1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت ام الفضل حضرت لبابہ بنت ِحارث رضی اللہ عنھا

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏18 مئی 2008۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    حضوراکرم :saw: کےچچا کا مقام و مرتبہ :۔

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب :rda: سے بڑی محبت بھی تھی اور ان کا بے حد احترام بھی کرتے تھے۔وہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بمنزلہ باپ تھے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے ’ ’ عباس عمی وصنو ابی “ کہ عباس میرے چچا ہیں اور میرے لیے باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔حضرت عباس کا اپنا بھی بلند مقام تھا۔قبیلہ قریش میں اہم مناصب اور ذمہ داریوں کی جو تقسیم تھی اس کے مطابق حضرت عباس رضی اللہ عنہ چشمہ زم زم کے ناظم و نگران تھے ۔
    خاتون خانہ :۔

    حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے فضائل بلاشبہ ذاتی تھے لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انہیں ان کی اہلیہ لبابہ بنت حارث رضی اللہ عنھا (المعروف ام الفضل ) کا شوہر ہونے کی وجہ سے بھی بڑامقام حاصل ہواتھا۔انسان کے مقام و مرتبہ کو گھٹانےاور بڑھانے میں خاتون خانہ کا کردار ہوتاہے۔ام الفضل رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہا گیاہے کہ ان جیسی عورتیں شاذو نادرہی جنم لیاکرتی ہیں۔حضرت ام الفضل آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی حقیقی بہن تھیں۔ان کی ایک اور بہن حضرت سلمیٰ شیرخداحضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی اہلیہ تھیں جبکہ ان کی ماں شریک بہن سیدہ اسماءبنت عمیس حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی نامور زوجہ تھیں۔ یہ چاروں بہنیں نہ صرف درجہ صحابیت پر فائز ہوئیں بلکہ امت کے اعلیٰ ترین افرادکےگھروں میں ملکہ بن کر آئیں۔لوگ ان کے والدین پر رشک کیا کرتےتھے ۔
    حضرت ام الفضل رضی اللہ عنھا کی فضیلت :۔

    حضرت عباس رضی اللہ عنہ شروع سے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے مانوس بھی تھے اوردل سے اسلام کے قدردان بھی لیکن قبول اسلام کا اعلان فتح مکہ سے کچھ عرصہ قبل ہی کر سکے ۔ جنگ بدر میں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کافروں کے اصرار پر لشکر قریش میں شامل ہوئے اورجنگ کے بعدجنگی قیدی بنا لیےگئے۔حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا بالکل ابتدائی ایام میں مسلمان ہو گئیں۔اگرچہ ان کے شوہر نام دارنےاسلام قبول کرنےمیں کافی تاخیر کی لیکن چونکہ وہ اسلام کےبارے میں نرم گوشہ رکھتے تھےاس لیےام الفضل کو اپنے قبول اسلام کی وجہ سے گھر میں کبھی کوئی مشکل اوردقت پیش نہ آئی ۔
    مدینہ آمد :۔

    حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام کا اعلان کر دیا تو حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے اصرار کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔وہ جانتی تھیں کہ فتح سے قبل ہی ہجرت کا مقام اور درجہ ہے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں اپنے چچا کے گھراکثر تشریف لے جاتے تھےاوردوپہر کو قیلولہ بھی وہیں کرتےاور کھانا بھی آل عباس کے ساتھ تناول فرماتے۔ایسے مواقع پرحضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوا کرتی تھیں۔مکے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی بڑی دوستی تھی اورحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے ہی وہ حلقہ بگوش اسلام ہوئی تھیں۔یہ بھی ایک وجہ تھی کہ آنحضور اپنی اس چچی سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے۔ام الفضل رضی اللہ عنہا کی کنیت ان کے بیٹے فضل بن عباس کی نسبت سے ہے۔
    شہید کربل :rda: ا کی رضاعی ماں :۔

    حضرت ام فضل رضی اللہ عنھا نے آنحضور کے نواسےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کودودھ پلایا تھا اور اکثر وبیش تر انہیں اپنے گھر رکھا کرتی تھیں۔حضرت حسین کو دیکھنے کے لیے بھی آنحضوران کے ہاں اکثر تشریف لے جاتی تھیں۔حضرت ام الفضل بڑی جرات مندخاتون تھیں ۔ مکے میں ہونے اور ابتدائی ایام میں ہجرت سے محروم رہنے کی وجہ سے وہ اگرچہ جنگوں میں شریک نہ ہو سکیں مگرمکےمیں رہتے ہوئے بھی انہوں نے جرات کے کارنامے سرانجام دیے۔جنگ بدر میں ان کے خاوند کافروں کی طرف سےشریک تھےاوروہ گرفتار بھی ہوگئے لیکن انہوں نے مکے میں فتح کی خوشخبری سنی تو بہت مسرور ہوئیں
    جرات وغیرت کا نمونہ :۔

    حضرت عباس :rda: کے زیر کفالت ایک کمزور مسلمان ابورافع مکے میں مقیم تھے ۔ وہ نیزے سیدھے کرنے کا کام کرتے تھے اور حضرت عبا س کے لیے وہ اس حرفت میں بڑے ممد تھے۔ جنگ بدر کے حالات بنو ہاشم کےفردابو سفیان بن حارث کی زبانی اہل مکہ کے سامنے پہنچےتوان کالب لباب یہ تھاکہ ”مسلمانوں نے ہمیں گاجرمولی کی طرح کاٹا اور بھیڑ بکریوں کی طرح باندھ لیا۔ہمارے مدمقابل جولوگ لڑ رہے تھےان کےساتھ ہم نےعجیب قسم کی مخلوق دیکھی۔یہ سرخ وسفید رنگ کے نوجوان ابلق گھوڑوں پر سوار زمین وآسمان کے درمیان معلق نظرآ رہے تھے ۔“
    ابو لہب اپنے بھتیجے کی زبانی یہ رپورٹ سن کرپریشان ہوگیا۔ابھی اس نے کوئی تبصرہ نھیں کیا تھاکہ چاہ زم زم کے قریب ایک حجرے میں بیٹھے ابو رافع پردہ سرکا کر بولے ” خداکی قسم یہ عجیب مخلوق اللہ کے فرشتے تھے۔“ابو لہب نےان کی زبانی یہ بات سنی توبپھرگیا۔ان پرجھپٹااور انہیں گرا کر ان کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔حضرت ام الفضل نے یہ منظر دیکھاتودوڑ کر آئیں اور ابو لہب کے سر پر ایک چوب دے ماری اوراسےسخت الفاظ میں ڈانٹتے ہوئے کہا ” اس مسکین پر کیوں ظلم ڈھا تےہو،اس کا کیا قصور ہے ۔“
    ابو لہب کاحوصلہ توپہلےہی پست ہوچکا تھااورفطری طور پر تھا بھی بزدل آدمی۔اس ضرب کاری نے رہی سہی کسربھی نکال دی۔اس واقعہ کے تھوڑے عرصےبعدابولہب ذلت و رسوائی کے ساتھ موت کی وادی میں اتر گیا ۔اس واقعے سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا کےاندرجرات بھی تھی اور غیرت ایمانی بھی۔خاندانی عصبیت کے بت پاش پاش کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن انہوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔
    ایک حکیمانہ تدبیر :۔

    آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سفر حجۃ الوداع اور جملہ مناسک کی تفصیلات حدیث میں ملتی ہیں۔اس میں ایک بہت دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ عرفہ کےدن لوگوں کو خیال ہواکہ شاید آنحضورنے روزہ رکھاہواہے۔عرفہ کےدن کاروزہ بلاشبہ بڑی فضیلت رکھتاہے لیکن فی الحقیقت آنحضورنےاس دن روزہ نہیں رکھاتھا۔اس میں حکمت یہ تھی کہ حج شدیدگرم موسم میں بھی آتا ہےاورایسے موسم میں عرفہ کا دن خاصاسخت اورلمبا ہوتاہے۔اگر یہ مشہور ہو جاتا کہ آپ نے روزہ رکھا ہواہےتوبعدمیں بھی اکثرلوگ اس کا اہتمام کرتے اور انہیں خاصی زائد مشقت اٹھانا پڑتی۔ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہ نے اسی حکمت کے تحت اس روز آنحضور کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا جسے آپ نے لوگوں کے سامنےنوش فرمایا۔یوں لوگوں کا شک دور ہو گیا۔
    اولاد :۔

    حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے چھے بیٹے اور ایک بیٹی حضرت ام الفضل رض سےپیداہوئی اوراللہ کی رحمت سے یہ سبھی شہرت و بلندی کے آسمان پر ستارے بن کر چمکے۔حضرت ام الفضل کے بیٹے اکثر آنحضور کے ساتھ سفر کے دوران آپ کی سواری کے پیچھے بیٹھےدیکھےگئے۔حجۃ الوداع میں فضل بن عباس آپ کے پیچھےسوارتھے۔ان میں سب سے زیادہ معروف تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں لیکن باقی یعنی عبیداللہ ، عبدالرحمن،قثم اور معبدبھی شہرت کی بلندیوں پر فائز تھے۔بیٹی ام حبیبہ بھی صحابیہ ہیں۔
    حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا مدینہ میں مقیم ہوگئی تھیں۔اگرچہ مکےمیں بھی ا ن کاگھرموجود تھامگران کا دل مدینہ ہی میں لگتاتھا۔مدینہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔وہ مدینۃالنبی سے دور رہنا پسند نہیں کرتی تھیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ا ن کی وفات کے وقت زندہ تھے۔خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں وہ آسودہ خاک ہوئیں ۔
     
  2. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    جذاک اللہ خیر مجیب بھائی عمدہ شئرنگ ہے
     
  3. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    جزاك الله خير ؛آبی بھائی
    وكتبه في موازين حسناتك
     
  4. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  5. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    سبحان اللہ ۔ بہت ایمانی تحریر ہے۔
    مجیب منصور صاحب۔ جزاک اللہ خیرا
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جزاک اللہ مجیب جی اس شیرنگ کے لئے خدا آپ کوسداخوش رکھے
     
  7. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ۔۔جزاکم اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طارقراحیل بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔نور،،،،،،،،،،جی۔اور ۔خوشی جی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں