1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت امّ عطیہ بنت حارث رضی اللہ عنھا

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    خلافِ راشدہ کے عہد باسعادت کا ذکر ہے کہ مدینہ منورہ کی ایک انصاریہ خاتون کے صاحبزادے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تشریف لے گئے۔اتفاق سے وہ میدان جنگ میں سخت علیل ہوگئے۔ جوں توں کر کے بصرہ پہنچے کہ علاج معالجہ کرسکیں۔ ان کی والدہ کو بیٹے کی شدید علالت کی خبرملی تو انہوں نے بیتاب ہوکر مدیہ منورہ سے بصرہ کا عزم کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا کہ وہ بیٹے کا منہ دیکھ سکیں۔ابھی راستے ہی میں تھیں کہ ان کے لخت جگر نے داعی اجل کو لبیک کیا۔ بصرہ پہنچ کرجب معلوم ہوا کہ ان کے فرزند ایک دو دن پہلے خالق حقیقی کے حضور پہنچ چکے ہیں ، تو شدت الم سے نڈھال ہوگئیں۔ لیکن انا للہ واِنا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہوگئیں۔نہ واویلا کیا اور نہ بین۔تیسرے دن خوشبو منگا کر ملی اور فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کیاجائے۔
    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ اطاعت گزار خاتون ، جنہوں نے اپنے محبوب فرزند کی موت پر بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو پیش نظر رکھا، حضرت ام عطیہ انصاریہ تھیں۔
    حضرت ام عطیہ کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ ان کا نام "نسیبہ" تھا اور باپ کا نام حارث تھا جو انصار کے قبیلہ بنو نجار سے تعلق رکھتے تھے۔حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا ان خوش نصیب ہستیوں میں سے تھیں جو ہجرت نبوی سے پہلے ہی نعمت اسلام سے بہرہ یاب ہوگئی تھیں۔
    جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ جوق در جوق سعادت اندوز اسلام ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر دامن اسلام سے وابستہ ہوئے۔ چاہتی تھیں کہ مردوں کی طرح وہ بھی حضور کی بیعت کا شرف حاصل کریں۔ چونکہ سرور عالم غیر عورتوں کے ہاتھ سے اپنادست مبارک مس نہیں فرماتے تھے، آپ نے بیعت کی خواہش مند عورتوں کو ایک مکان میں جمع ہونے کی ہدایت فرمائی۔ ان خواتین میں حضرت ام عطیہ بھی شامل تھیں۔ جب تمام خواتین اس مکان میں جمع ہوگئیں تو حضور نے حضرت عمر فاروق کو ان کی طرف بھیجا کہ ان شرائط پر بیعت لیں:
    1 ۔ کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔
    2 ۔ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے۔
    3 ۔ چوری نہ کریں گی۔
    4 ۔ زنا سے بچیں گی۔
    5 ۔ کسی پر جھوٹی تہمت نہ لگائیں گی۔
    6 ۔ اچھی باتوں سے انکار نہ کریں گی۔
    بیعت کے بعد حضرت ام عطیہ نے حضرت عمرفاروق سے پوچھا: "اچھی باتوں سے انکار نہ کرنے کیا مطلب ہے؟"
    حضرت عمر نے جواب دیا" نوحہ اور بین نہ کرنا"
    سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امّ عطیہ پر بہت شفقت اور اعتماد فرماتے تھے، وہ ان چند خواتین میں سے تھیں جنہیں حضور غزوات میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اہل سیرت نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ وہ سات غزوات میں شریک ہوئیں اور اور قابل قدر خدمات انجام دیں وہ مجاہدین کے لیے کھانا پکاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ اگر لشکر اسلام میں کوئی بیمار ہوجاتاتو نہایت تندہی سے اس کی تیمار داری کرتی تھیں۔
    صحیح مسلم میں خود حضرت ام عطیہ سے روایت ہے کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سات غزوات میں شریک ہوئی، میں مجاہدین کے کچاووں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہتی، مجاہدین کے لیے کھانا پکاتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور مصیبت زدوں کی نگہداشت کرتی تھی۔
    اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام عطیہ طب میں بھی مہارت رکھتی تھیں یا کم از کم زخمیوں کی مرحم پٹیوں کے کام میں مہارت رکھتی تھیں ۔ ایک مرتبہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت حضرت ام عطیہ کو صدقہ کی ایک بکری بھیجی۔ انہوں نے اسے ذبح کر کے تقسیم کیا تو گوشت کا کچھ حصہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں بھی بھیجا۔ حضور گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ سے کھانا مانگا۔ انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ اور تو کوئی چیز گھر میں موجود نہیں البتہ جو بکری آپ نے نسیبہ (ام عطیہ)کو بھیجی تھی اس کا گوشت گھر میں رکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا "لاؤ کیونکہ بکری حقدار کے پاس پہنچ چکی "
    8ھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب نے وفات پائی تو حضرت ام عطیہ نے چند دوسری خواتین کے ساتھ مل کر انہیں آخری غسل دیا۔
    حضرت ام عطیہ سرور کائنات کی پوری تعمیل کرتی تھیں اور کوئی کام حضور کی اجازت کے بغیر نہ کرتی تھیں۔اسی متابعت رسول کی وجہ سے صحابیات میں ان کا بڑا درجہ مانا گیا ہے۔ سرورکائنات کے ساتھ ان کی محبت اور عقیدت کی کوئی انتہا نہ تھی۔ آپکے اعزہ و اقارب سے بھی محبت رکھتی تھیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات الکبیر میں لکھا ہے کہ حضرت علی کبھی کبھی ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور آرام کیاکرتے تھے۔
    حضرت ام عطیہ کی زندگی کی زیادہ تفصیلات کتب سیر میں نہیں ملتی اور ان کا سال وفات کسی نے بیان نہیں کیاہے۔ البتہ اتنا ضرور پتہ چلتا ہےکہ وہ عہد خلافت راشدہ میں زندہ تھیں۔ان کے فرزند کی وفات کا واقعہ خلافتِ راشدہ کے زمانے ہی میں کسی وقت پیش آیا،اس واقعہ کے بعد انہوں نے بصرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور وہیں کسی وقت وفات پائی۔ان کے ایک فرزند کے سوا کسی دوسری اولاد کا بھی کتابوں میں ذکر نہیں ہے اور نہ کسی نے ان کے شوہر کا تذکرہ کیاہے۔
    علم و فضل کے اعتبارسے حضرت ام عطیہ بڑے اونچے درجے پر فائز ہیں۔ محدثین نے روایت کے لحاظ سے انہیں صحابیات کے چوتھے طبقے میں شمار کیا ہے۔ ان سے اکتالیس احادیث مروی ہیں۔ راویوں میں حضرت انس بن مالک، ابن سیرین، ام شراحبیل ، حفصہ بنت سیرین وغیرہ شامل ہیں۔
    صحیح بخاری کی ایک حدیث میں وہ فرماتی ہیں۔
    "ہم کو (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے)ممانعت کی گئی کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کریں، ہاں خاوند کی موت پر(بیوہ عورت) نہ سرمہ لگائے نہ خوشبو ملے نہ عصب (ایک قسم کی یمنی چادر) کے سوا رنگا ہوا کپڑا پہنے"
    صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں روایت کرتی ہیں کہ ہم کو جنازوں کے ساتھ جانے کی ممانعت کردی گئی تھی لیکن زور دے کر منع نہیں کیاگیا تھا۔ایک اور روایت میں ہے کہ ہمیں عید کے دن عید گاہ کی طرف جانے کا حکم دیا جاتا تھا۔ حائضہ عورتوں کو(عید گاہ سے الگ رہنے کے باوجود)حکم تھا کہ وہ تکبیر کے ساتھ تکبیر کہیں اور دعا کے ساتھ دعا کریں۔
    شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ (اگر پردہ کا معقول انتظام ہو) تو عورتیں بھی جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں شریک ہوسکتی ہیں۔ بلکہ ان کا شریک ہونا سنت ہے۔
    حافظ ابن عبدالبراندلسی نے "الاستیعاب" میں حضرت ام عطیہ کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ"صحابیات میں ان کا بڑا مرتبہ تھا"
     
  2. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    کاپی پیسٹ‌؟‌
     
  3. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    جزاک اللہ ۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں