1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حجتہ الاسلام حضرت علامہ مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد ایاز افضل عباسی, ‏15 فروری 2016۔

  1. محمد ایاز افضل عباسی
    آف لائن

    محمد ایاز افضل عباسی ممبر

    شمولیت:
    ‏14 ستمبر 2015
    پیغامات:
    59
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    ملک کا جھنڈا:
    اعلیٰحضرت کے خلف اکبر حجۃ الاسلام حضرت علامہ ومولانا حامدرضا خاں قدس سرہ العزیز کی شخصیت محتاج تعارف نہیں البتہ ضرورت ہے کہ ان کی شخصیت اور کارناموں غور وفکر اور تحقیق کی جائے اور انہیں عام کیا جائے ۔آپ کی ذات تو وہ ہے کہ جن کے علم وفضل کا اعتراف خود آعلیٰ حضرت کو تھا ،عرب وعجم کے علماء ومشائخ کو تھا اور آج بھی جن کے حسن صورت اور حسن سیرت اور علمی جلالت وروحانی کمال کا چرچا ہے۔
    حجتہ الاسلام حضرت علامہ مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمہ الرحمہ‘ آپ ماہ ربیع النور شریف 1292ھ بمطابق 1875ء محلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام نامی اسم گرامی محمد رکھا گیا اور اسی نام پر عقیقہ ہوا‘ مگر عرفاً بلانے کے لئے حامد رضا رکھا گیا۔ اس طرح آپ کا پورا نام محمد حامد رضا ہوا چونکہ آپ 1292ھ میں پیدا ہوئے اور اسم محمد کے اعداد بھی 92 ہیں لہذا علم ابجد کے اعتبار سے آپ کا تاریخی نام محمد ہوا۔
    آپ علیہ الرحمہ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد گرامی سیدی ومرشدی اعلیٰ حضرت سے حاصل کئے اور درس کے وقت آپ کے بعض سوال اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اتنے پسند آتے کہ کتاب پر قال الوارالاعز لکھ کر سوال و جواب رقم فرمادیتے اور اعلیٰ حضرت ان سے بہت محبت کرتے اور ان پر بڑا ناز کرتے اور کیوں نہ کرتے کہ ایسا لائق و فائق عالم و فاضل‘ ادیب و خطیب دیندار و پارسا‘ حسین و جمیل بیٹا اﷲ عزوجل کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اور قسمت والوں کو ہی ملتا ہے اور حضرت موصوف ہر لحاظ سے اعلیٰ حضرت کے جانشین تھے۔
    علمی و تبلیغی کارنامے:-جانشین اعلیٰ حضرت حجتہ الاسلام حامد رضا خان علیہ الرحمہ بلند پایہ خطیب اور مایہ ناز ادیب بڑے عالم و فاضل تھے۔ دین کی تبلیغ و اشاعت ناموس رسالت کی حفاظت کی خاطر اپنی تمام عمر صرف کردی اور یہی حق و سچ ہے کہ آپ دین متین کی خدمت کے لئے ہی زندہ رہے اور ساری عمر اسی خدمت میں گزار دی۔ آپ علیہ الرحمہ نے دین کی اشاعت کی خاطر قصبہ قصبہ شہر شہر سفر کیا۔ سیاستدانوں اور گستاخان رسولﷺ سے مناظرہ کئے اور ان کو دندان شکن جواب دیئے اور ہر جہت سے باطل و گمراہ فرقوں کا رد اور انسداد کیا۔ آپ کی خدمات دین سے ایک بہت ہی مشہور خدمت جس کا جواب آج تک ان گمراہوں اور دشمنان اعلیٰ حضرت سے نہ بن سکا اور وہ خدمت و حقیقت اور آپ کے علم و فضل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میری مراد مناظرہ لاہور جوکہ لاہور کی جامع مسجد وزیر خان میں رکھا گیاتھا۔ حضرت قبلہ حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ کو ملت اسلامیہ کے منتشر ہونے کا بہت افسوس و رنج تھا اور آپ کے دل کی تمنا تھی کہ کسی طریقے ملت اسلامیہ متحد ہوجائے آپ اسی مقصد کے لئے 15 شوال المکرم 1352 بمطابق 1934ء میں لاہور تشریف لائے کیونکہ لاہور میں مسلک حق اہلسنت و جماعت بریلوی اور دیوبند مذہب کے سربرآوردہ حضرات کی ایک میٹنگ رکھی گئی تھی جوکہ بعد میں مناظرے کی صورت اختیار کرگئی اور دونوں طرف لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ مسئلہ بذریعہ گفتگو حل ہوجائے اور اتفاق و اتحاد ہوجائے اور حق بات واضح ہوجائے۔ پھر مناظرہ کی ٹھن گئی اور وقت بھی مقرر ہوگیا یعنی 15 شوال 1352ء اہلسنت کی طرف سے مناظر اسلام حجتہ الاسلام مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمہ اور دیوبندیوں کی طرف سے حکیم الامت آف دیوبند اشرف علی تھانوی مقرر ہوئے۔ حجتہ الاسلام اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ کر وقت مقررہ پر لاہور تشریف لے آئے کہ شاید اب یہ لوگ راہ راست پر آجائیں اور مجھ سے بات کرلیں تاکہ مسئلہ حل ہوجائے۔ مگر افسوس صد ہزار افسوس کہ دیوبندیوں کی طرف سے مولوی اشرف علی نہ آئے۔ حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ کا یہ ذہن تھا کہ شاید یہ لوگ صرف میرے والد گرامی اعلیٰ حضرت سے ہی ڈرتے اور ان کا نام سن کر تھر تھر کانپتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مجھ سے بات کرلیں اور مسئلہ حل ہوجائے لیکن دیوبندیوں کو علم تھا کہ شیر کا بچہ بھی شیر ہوتا ہے اور حق حق ہی ہوتا ہے اور یوں دیوبندیوں کی شکست فاش کا اعلان ہوگیا اور اہل سنت و جماعت کا سر فخر سے تاباں ہوگیا۔
    اس کے بعد حجتہ الاسلام نے وہیں وزیر خان مسجد میں جو خطبہ دیا وہ بے مثال خطبہ تھا اور سننے والے بڑے بڑے علماء کرام‘ آپ کی فصاحت و بلاغت اور علم و فضل کی جلوہ سامانیاں دیکھ کر دھنگ رہ گئے۔ اسی موقع پر پنجاب کے مسلمانوں نے یہ نعرہ بلند کیا اگر دیوبندی آیا تو چھوڑو‘ ان کے چہرے بھی دیکھ لو اور ان کے چہرے بھی دیکھ لو۔ حق واضح ہوجائے گا کہ کون حق پر ہے۔ حضرت حجتہ الاسلام کواﷲ عزوجل نے بہت حسن و جمال عطا کیا۔ آپ اتنے حسین و جمیل تھے کہ آپ کے چہرہ انور کی طرف نگاہ ٹکتی نہ تھی‘ اسی موقع پر محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ کی زیارت کی اور بیان سنا تو علم دین حاصل کرنے کی خواہش دل میں جوش مارنے لگی اور حجتہ الاسلام کے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی اور حجتہ الاسلام نے قبول فرمالیا۔
    حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ کی ڈاکٹر اقبال شاعر مشرق سے ملاقات
    اسی موقع پر حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ کی ملاقات ڈاکٹر اقبال صاحب سے ہوئی۔ ڈاکٹر اقبال صاحب کی ملاقات کا حال علامہ تقدس علی خان صاحب نے اپنے مکتوب میں اس وقت تحریر کیا تھا۔ جس کا عکس (دعوت فکر) از مولانا منشاء تابش قصوری مدظلہ ص 53 پر چھپا ہے۔ ڈاکٹر اقبال صاحب کو حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ نے دیوبندیوں کی گستاخانہ عبارات سنائیں تو ڈاکٹر اقبال صاحب حیران و ششدر رہ گئے اور بے ساختہ بول اٹھے ایسی گستاخانہ عبارتیں ہیں ان پر آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا ان پر تو آسمان ٹوٹ پڑنا چاہئے تھا۔
    حجتہ الاسلام اور سیاسی بصیرت
    حجتہ الاسلام سیاستدانوں کی چالاکیوں اور چالوں کو خوب جانتے و سمجھتے تھے اور اپنے زمانے کے حال سے پوری طرح سے باخبر تھے۔ مسلمانوں کو سیاست و ریاست کے چنگل سے بچانے کے لئے ہرممکن جدوجہد کرتے تھے اور آپ علماء قائدین جوکہ سیاست کے چنگل میں پھنس چکے تھے ان کو سمجھائے اور حق و قبول نہ کرنے پر نبرد آزمائی پر اتر آئے اور بدمذہب علماء قائدین سے اس معاملے پر ٹکرائو رہتا اور مناظرے تک کرتے۔ ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔
    ابوالکلام آزاد کانگریسی کی تھرتھراہٹ بریلی شریف میں تحریکی خلافت کے اراکین نے ایک جلسہ رکھا جس میں علماء اہلسنت بھی مدعو تھے۔ اس موقع پر بدمذہبوں سے مناظرے کی ٹھن گئی۔ مخالفین کو ابوالکلام آزاد کی طلیق اللسانی اور زبان آوری پر بڑا ناز تھا‘ ان مخالفین کی طرف سے ابوالکلام اور اہل سنت کی طرف سے حضرت علامہ سید سلیمان اشرف بہاری رحمتہ اﷲ علیہ (جو اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے صدر تھے) مقرر ہوئے اور حجتہ الاسلام اہلسنت کی طرف سے صدر منتخب ہوئے۔ جب مناظرہ شروع ہوا تو علامہ سید سلیمان علیہ الرحمہ نے سوالات کی بوچھاڑ کردی اور حجتہ الاسلام ان کو بیچ بیچ میں ضروری ہدایات کرتے تھے‘ ابوالکلام اور اس کے رفقاء گھبرا اٹھے حتی کہ جس وقت علامہ نے تقریر شروع کی تو ابوالکلام آزاد کو گویا سانپ سونگھ گیا ہو یا گونگے ہوگئے ہوں۔ اس موقع پر ابوالکلام تھر تھر کانپ رہے تھے اور پوری تقریر میںایک لفظ تک نہیں بولے۔ اسی طرح مناظرے کا فیصلہ اہل سنت کے حق میں ہوا۔
    پھر اسی طرح ایک مرتبہ ابوالکلام آزاد نے اتراتے ہوئے حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ کو عربی زبان میں مناظرہ کرنے کا چیلنج کردیا تو حجتہ الاسلام نے مسکراتے ہوئے مناظرے کا چیلنج قبول کرلیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ شرط بھی لگادی کہ محض عربی نہیں بلکہ بے نقطہ عربی میں مناظرہ ہوگیا۔ یہ سن کر ابوالکلام کے پائوں تلے زمین نکل گئی اور ہکا بکا رہ گیا اور خاموشی میں اپنی عافیت سمجھی اور وہاں سے بھاگ نکل گیا۔ اس واقعہ سے حضرت علامہ حجتہ الاسلام حامد رضا خان علیہ الرحمہ کی عربی میں مہارت اور فصاحت و بلاغت کا بدرجہ اتم اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
    وصال پرملال : حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ کا وصال پرملال 17 جمادی الاول 1362 ہجری بمطابق 23 مئی 1943ء دوران نماز عشاء حالت تشہد میں ہوا۔ نماز جنازہ آپ کے تلمیذ ارشد محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ ابوالفضل سردار احمد لائل پوری علیہ الرحمہ نے آپ کی وصیت کے مطابق پڑھائی۔
    ﷲ عزوجل آپ کے مزار مقدس پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے
     
    Last edited: ‏15 فروری 2016
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوبصورت تحریر
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں