1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حاضر و ناظر کو سمجھیے-1

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏12 اگست 2017۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    ہمارے یہاں جن مسائل پر عموما بحث کی جاتی ہے ان میں سے ایک رسول اللہ ﷺ کے حاضر و ناظر ہونے کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں یہ تحریر پیش خدمت ہے۔ اس کا بنیادی مواد معروف بریلوی عالم مولانا سید سعید کاظمیؒ کی اسی مسئلے پر لکھی ہوئی جامع کتاب ’’تسکین الخواطر فی مسئلۃ حاضر و ناظر‘‘ سے لیاگیا ہے۔ امید ہے کہ اس مسئلے کی علمی حیثیت واضح ہو جائے گی۔
    اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے چند باتیں سمجھ لینا ضروری ہے:
    1) انسان کی حقیقت روح ہے، جسم اس روح کے لیے واسطہ ہے۔
    2) موت سے انسان کا مادی جسم فنا ہوجاتا ہے، (انبیائے کرام اس اصول سے متثنی ہیں)۔ روح کو فنا نہیں وہ باقی رہتی ہے۔
    3) موت کے بعد روح کا مقام عالم برزخ ہے جہاں اس کو ثواب یا عذاب ہوتا ہے۔
    عالم برزخ کی کیفیت سے ہم ناواقف ہیں اسی لیے روح کو پہنچنے والے ثواب یا عذاب کی کیفیت ہم کو نہیں معلوم۔ اہل علم کے نزدیک روح کو ایک دوسرا جسم عطاکیا جاتا ہے اس کو جسم مثالی کہا جاتا ہے۔ یہی جسم مثالی روح کے لیے اثرات کے وصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ جسم مثالی کی توضیح ایک اور اشکال (سوال) کو حل کردیتی ہے۔ وہ اشکال یہ ہے کہ کئی واقعات ملتے ہیں جن میں حالت بیداری میں لوگوں نے کسی بزرگ، شہید وغیرہ کی زیارت کی۔ روح تو اس عالم میں آ نہیں سکتی کہ اس کا مقام عالم برزخ ہے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ پھر زیارت کرنے والے نے کس کو دیکھا؟ اہل علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ زیارت جسم مثالی کی ہوتی ہے نہ کہ جسم حقیقی کی اور نہ ہی روح کی۔ جسم مثالی میں تعدد (ایک سے زیادہ ہونا) ہونے کا امکان بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کی مثال ٹیلی ویژن کی ہے جس میں ایک شخص اسٹودیو میں بیٹھا ہوتا ہے اور کی شبیہ پورے عالم میں نظر آرہی ہوتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
    ان نکات کو سمجھ لینے کے بعد اب تسکین الخواطر کا یہ اقتباس پڑھیے اس طویل اقتباس کو محض سہولت حوالہ کی خاطر نمبر وار لکھا گیا ہے۔
    1) حضور ﷺ کیلئے جو لفظ حاضر و ناضر بولا جاتا ہے اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح روح اپنے بدن کے ہر جز میں موجود ہوتی ہے اسی طرح روح دو عالم ﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری و ساری ہے
    2) جس کی بنا پر حضور ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر بھی تشریف فرما ہوتے ہیں
    3) اور اہل اللہ اکثر و بیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضور کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور حضور ﷺ بھی انھیں اپنی نظر رحمت سے مسرور و محفوظ فرماتے ہیں۔
    4) گویا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکار کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انھیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضور کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔‘‘ (ص: 17)
    یہ عبارت اس مسئلے میں بہت اہم بلکہ حتمی ہے اور اس مسئلے کو بالکل بے غبار کردیتی ہے۔ مندرجہ ذیل باتیں اس عبارت سے واضح ہوتی ہیں:
    · حاضر و ناظر بزرگان دین کا حالت بیداری میں آپ ﷺ کی زیارت فرمانے کا عنوان ہے۔نکتہ 3 اور 4۔
    · رسول اللہ ﷺ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود نہیں ہیں۔ (نکتہ 1)
    · یہ حاضر و ناظرہ ہونا بھی ہروقت اور ہر لحظہ نہیں ہے۔
    نکتہ 2 کے الفاظ دوبارہ پیش خدمت ہیں، ان کو غور سے پڑھیں:
    ’’حضور ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر بھی تشریف فرما ہوتے ہیں۔‘‘
    اب صفحہ 90 کی یہ عبارت پڑھیں:
    5) ’’مقامات کثیرہ اور امکنہ متعددہ میں حضور ﷺ کا تشریف فرما ہونا نہ صرف ممکن بلکہ امر واقع ہے۔‘‘
    · ان عبارات (2 اور 5) کا واضح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم مثالی کی زیارت متعدد مقامات (نہ کہ ہر مقام) پر ایک ہی وقت میں ہو سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہ ہر وقت ہر مقام پر آپ ﷺ جسم مثالی سے موجود ہیں۔ اس زیارت کا ہونا کبھی کبھار ہے اور مشیت الٰہی پر موقوف ہے۔
    آپ ﷺ کا اہل عرفان اور اہل بصیرت کو اپنی زیارت سے مشرف فرمانا زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے۔
    رسول اللہ ﷺ کا خواب میں کسی کو نظر آجانا یہ معروف بات ہے لیکن حاضر و ناظر حالت بیداری میں آپ ﷺ کی زیارت کا عنوان ہے۔ حالت بیداری میں آپ ﷺ کا دیدار کرنا عین ممکن ہے، اس بات کی تائید میں حضرت کاظمیؒ دیگر حوالوں کے علاوہ صفحہ 125 پر مشہور دیوبندی عالم انور شاہ کشمیریؒ کی تحریر نقل فرماتے ہیں:
    6) ’’میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا جاگتے ہوئے بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھنا ممکن ہے جس کو اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرمائے۔‘‘
    آپ ﷺ کا حاضر و ناظر ہونا بشری یعنی جسم اقدس کے ساتھ نہیں بلکہ روحانی اعتبار سے ہے جس کی توضیح جسم مثالی سے کی جاتی ہے۔ دیکھیے عبارت 2۔
    اس بات کو صفحہ 160 پر حضرت مولانا یوں فرماتے ہیں:
    7) ’’ہم حضور ﷺ کو بشریت مقدسہ کے ساتھ ہرگز حاضر وناظر تسلیم نہیں کرتے بلکہ حضور کی نورانیت و روحانیت اور حقیقت مبارکہ کے ساتھ حضور کو حاضر وناظر مانتے ہیں۔‘‘ (ص:160)
    اسی بات کو صفحہ 172پر مزید وضاحت کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں:
    8--’’قبر شریف میں حضورﷺ اپنی بشریت مطہرہ کے ساتھ رونق افروز ہیں اور ظاہر ہے کہ بشریت ایک محدود چیز ہے۔ اگرچہ حضور ﷺ کی روحانیت اور نورانیت تمام عالم میں موجود ہے لیکن جب تک اس کی صحیح معرفت کے بعد قرب روحانی حاصل نہ ہو اس وقت تک کوئی شخص اس روحانیت مقدسہ کے حاضر وناظر ہونے کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
    رسول اللہ ﷺ کا جسم مبارک قبر شریف میں موجود ہے۔ لہذا جن کو حالت بیداری میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوتی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے جسد اقدس کو نہیں دیکھتے بلکہ یہ زیارت جسم مثالی کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ تعدد (کثرت) کا امکان جسم مثالی کے ساتھ تو ہوسکتا ہے جسم عنصری (مادی) کے ساتھ ممکن نہیں اس لیے کہ جسم عنصری محدود ہے جس کی طرف مولانا کاظمیؒ نے ان الفاظ سے کیا ہے:
    ’’قبر شریف میں حضورﷺ اپنی بشریت مطہرہ کے ساتھ رونق افروز ہیں اور ظاہر ہے کہ بشریت ایک محدود چیز ہے۔‘‘
    جب بشریت محدود چیز ہے تو وہ ذات ایک مقام پر ہوگی نہ کہ ہر مقام پر۔ اگر کوئی جسم عنصری (مادی بدن) میں کثرت مانے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص آپ ﷺ جیسی کئی شخصیات کا قائل ہے اور یہ بلاشک کفر ہے۔
    یہ مقام (یعنی رسول اللہ ﷺ کا حاضر و ناظر ہونا) ہر ایک کے لیے نہیں بلکہ یہ خاص اہل اللہ کا مقام ہے۔ نکتہ 8کی عبارت پیش خدمت ہے:
    ’’ جب تک اس کی صحیح معرفت کے بعد قرب روحانی حاصل نہ ہو اس وقت تک کوئی شخص اس روحانیت مقدسہ کے حاضر وناظر ہونے کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
    علامہ کاظمیؒ نے تسکین الخواطر میں ان حضرات کے لیے جن کو یہ مقام حاصل ہے، اہل عرفان، اصحاب نظر و برہان، اہل بصیرت، کاملین جیسے لفظ استعمال کیے ہیں۔
    مولانا کاظمیؒ صفحہ 154 پر تفسیر روح المعانی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
    9) ’’میری (صاحب روح المعانی )غایت (آخری) گفتگو یہ ہے کہ یہ رویت (دیکھنا) جو صوفیہ کے لئے واقع ہوئی یہ معجزات انبیاء اور کرامات اولیاء کی طرح خوارق عادت سے ہے۔‘‘
    بیداری میں آپ ﷺ کی زیارت اہل اللہ کی کرامت ہے۔
    اسی کتاب کے صفحہ 20 کی عبارت ہے:
    10) ’’بندے کو کسی امر میں اللہ تعالیٰ کی مشیت جزئیہ کے ما تحت نہ سمجھنا یا اس کو کسی حال میں کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ سے مستغنی اور بے نیاز قرار دینا شرک جلی اور کفر خالص ہے۔‘‘
    صفحہ 17 پر تحریر فرماتے ہیں:
    11) ’’یاد رکھئے اللہ تعالیٰ جو کسی مخلوق کو کوئی کمال عطا کرتا ہے تو اس کے متعلق صرف یہ اعتقاد مومن ہونے کے لئے کافی نہیں کہ یہ کمال اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اتنی بات تو مشرکین بھی اپنے معبودوں کے حق میں تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عطائے خداوندی کا عقیدہ رکھتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کمال کسی مخلوق کو عطا فرمایا ہے وہ عطا کے بعد حکم خداوندی ارادہ اور مشیت ایزدی کے ماتحت ہے۔ ہر آن خداوند تعالیٰ کی مشیت اس کے ساتھ متعلق ہے، اور اس بندے کا ایک آن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز اور مستغنی ہونا قطعا محال اور ممتنع بالذات ہے۔‘‘
    دسویں اور گیارہویں عبارت کا مطلب یہ ہے کہ انبیائے کرام کے معجزے اور اولیائے کرام کی کرامتیں سب کا معاملہ محض اللہ کی مرضی اور مشیت پر مبنی ہے۔ اس کے برخلاف عقیدہ رکھنا بقول حضرت کاظمیؒ کھلا شرک اور خالص کفر ہے۔
    تسکین الخواطر کی جو عبارت شروع میں پیش کی گئی ہے اس میں نکتہ نمبر 1میں حضرت کاظمیؒ نے تحریر فرمایا ہے:
    ’’روح دو عالم ﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری و ساری ہے۔‘‘
    اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام عالم میں آپ ﷺ کا فیض جاری و ساری ہے، جیسا کہ صفحہ173 حضرتؒ لکھتے ہیں:
    ’’جس طرح میری حیات ظاہری میں میرے بارگاہ میں حاضر ہونے والا کبھی محروم نہیں ہوا بالکل اسی طرح بعد الوصال بھی میرا فیض جاری ہے۔‘‘
    اس کی وضاحت ایک اور جگہ یوں کی ہے:
    ’’مسلمانوں کیلئے اس طور پر کہ دنیاوی زندگی میں وہ ہمارے ہادی و رہبر اور آخرت میں ہمارے شفیع ہیں۔‘‘

    (جاری ہے)
     
    نعیم، پاکستانی55 اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    :jazakallah:
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ۔ ایمان افروز مضمون ہے۔ جزاک اللہ خیر
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مسند احمد میں ہے:
    سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم ؑپیدا کئے گئے، اسی میں قبض کئے گئے، اسی میں نفحہ ہے، اسی میں بیہوشی ہے۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں۔
    صحابہ نے پوچھا آپ تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ پر کیسے پیش کئے جائیں گے؟
    آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا۔
    ابوداؤد نسائی میں بھی یہ حدیث ہے۔
    ابن ماجہ میں ہے:
    جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو
    پوچھا گیا موت کے بعد بھی؟
    فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں۔
    ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ حاضر سامنے جو موجود ہو اور ناظر جو نظر آ رہا ہو
    ابوداؤد میں ہے :
    جو مسلمان مجھ پر سلام پڑھتا ہے۔ اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔
    ابو داؤد میں ہے:
    اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ میری قبر پر عرس میلہ نہ لگاؤ۔ ہاں مجھ پر درود پڑھو گو تم کہیں بھی ہولیکن تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔
    قاضی اسماعیل بن اسحاق اپنی کتاب فضل الصلوۃ میں ایک روایت لائے ہیں:
    ایک شخص ہر صبح روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا تھا اور درود سلام پڑھتا تھا۔ ایک دن اس سے حضرت علی بن حسین بن علی نے کہا تم روز ایسا کیوں کرتے ہو؟
    اس نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا مجھے بہت مرغوب ہے۔
    آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں ایک حدیث سناؤں میں نے اپنے باپ سے انہوں نے میرے دادا سے سنا ہے کہ رسول اللہﷺفرمایا:
    میری قبر کو عید نہ بناؤ۔ نہ اپنے گھروں کو قبریں بناؤ جہاں کہیں تم ہو وہیں سے مجھ پر درود و سلام بھیجو وہ مجھے پہنچ جاتے ہیں۔
    حسن بن حسن بن علی سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ کی قبر کے پاس کچھ لوگوں کو دیکھ کر انہیں یہ حدیث سنائی کہ آپ کی قبر پر میلہ لگانے سے آپ نے روک دیا ہے۔ ممکن ہے ان کی کسی بے ادبی کی وجہ سے یہ حدیث آپ کو سنانے کی ضرورت پڑی ہو مثلاً وہ بلند آواز سے بول رہے ہوں۔
    یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر پے درپے آتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ تو اور جو شخص اندلس میں ہے جہاں کہیں تم ہو وہیں سے سلام بھیجو تمہارے سلام مجھے پہنچا دیئے جاتے ہیں۔
    طبرانی میں ہے :
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ یہ خاص راز ہے اگر تم مجھ سے نہ پوچھتے تو میں بھی نہ بتاتا۔ سنو میرے ساتھ دو فرشتے مقرر ہیں جب میرا ذکر کسی مسلمان کے سامنے کیا جاتا ہے اور وہ مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں اللہ تجھے بخشے۔ اور خود اللہ اور اس کے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔
    مسند احمد میں ہے:
    اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے رہتے ہیں میری اُمت کے سلام مجھ تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
    نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے۔
    ایک حدیث میں ہے:
    جو میری قبر کے پاس سے مجھ پر سلام پڑھتا ہے اسے میں سنتا ہوں اور جو دور سے سلام بھیجتا ہے اسے میں پہنچایا جاتا ہوں۔
    قریب سے پڑھنے والے کا سننا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر دلالت کرتا ہے جبکہ پہنچانا اس بات پر دلیل ہے کہ موجود نہیں ہیں اور فرشتے پہنچاتے ہیں
     
    نعیم، پاکستانی55 اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اپنے اپنے عقیدے اور اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ ظاہر ہے ہم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، جس مدرسہ یا استاد کے پاس پڑھا وہی ہمارے ذہین میں پختہ ہوکر ہمارے "عقیدے" کی بنیاد بنتا ہے۔
    پھر چاہے قرآنی آیت یا حدیث کا جو بھی مضمون ہو ہم نے اس میں سے اپنی "سوچ و عقیدے" کے مطابق دلیل اخذ کرنا ہوتی ہے۔
    حالانکہ اگر حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و قدر و منزلت کو سامنے رکھا جائے تو اسی حدیث پاک سے یہ بھی دلیل نکلتی ہے
    "خود سنتے ہیں " سے مراد ہے ۔۔ کہ جو امتی اتنی دور سے چل کر، اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ پاک حاضری کے لیے آیا ہےتو اس پر خاص کرم فرماتے ہوئے "خود سننے" کی بشارت سنا دی کہ امتی خوش ہوجائے۔
    "فرشتے پہنچاتے ہیں " سے مراد ہے کہ اللہ پاک نے فرشتوں کو بھی "خدمتِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم" پر مقرر فرما کر حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قدر و منزلت دنیا پر واضح فرمائی کہ میرا محبوب ظاہرا دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد بھی اس شان کا حامل ہے کہ فرشتے بھی انکی نوکری کرتے ہیں۔

    اپنا اپنا ایمان، اپنا اپنا عقیدہ ہے جو جیسے من چاہے سمجھ لے۔
     
    پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    الحمد لللہ احادیث پر میرا ایمان پختہ ہے
    فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں۔
    جو مسلمان مجھ پر سلام پڑھتا ہے۔ اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔
    اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے رہتے ہیں میری اُمت کے سلام مجھ تک پہنچاتے رہتے ہیں۔

    نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں بس دنیا سے پردہ کر چکے ہیں حاضر ہیں لیکن ناظر ہم نہیں کیوں کہ ہمیں نظر نہیں آ رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسائی ہم تک ہے ہماری رسائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں
     
    Last edited: ‏17 نومبر 2017

اس صفحے کو مشتہر کریں