1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حاجی لق لق وہ شاعر,مزاح نگار اور صحافی تھے, افسانہ نگاری اور کالم نویسی میں بھی نام پیدا کیا

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حاجی لق لق وہ شاعر,مزاح نگار اور صحافی تھے, افسانہ نگاری اور کالم نویسی میں بھی نام پیدا کیا
    upload_2019-12-3_2-26-41.jpeg
    عبدالحفیظ ظفر
    حاجی لق لق باکمال شخصیت تھے ۔ ان کا شمار ایسے لکھاریوں میں ہوتا ہے جن کو شہرت تو بہت ملی لیکن وہ اس سے بے نیاز رہے۔ وہ1898 کوپتی (امرتسر، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے واجبی تعلیم حاصل کی۔ یہ ان کا کمال تھا کہ انہوں نے مزاحیہ شاعری لکھی اور ’’زمیندار، احسان اور شہباز‘‘جیسے اخبارات میں کام کیا۔ آغا شورش کاشمیری نے حاجی لق لق کو ’’نورتن ‘ ‘ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے صحافت کا دامن ادب کے موتیوں سے بھر دیا ۔ حاجی لق لق کا اصل نام عطا محمد تھا۔ وہ کئی زبانیں جانتے تھے ۔ وہ مولانا نواب دین رام پتی سے متاثر تھے جو کہ ایک صوفی اور دینی عالم تھے ۔ یہ صوفی اور دینی عالم مشہور ادیب نسیم حجازی کے سسر تھے ۔ عطا محمد نے اپنے نام کے ساتھ چشتی کا اضافہ کرلیا۔ 1919میں وہ برطانوی فوج میں شامل ہوگئے اور پہلی جنگ عظیم کے دوران انہیں عراق بھیج دیا گیا۔ وہ فارسی زبان پہلے ہی جانتے تھے اور پھر برطانوی فوج میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد انہوں نے انگریزی بھی سیکھ لی ۔ آغا شورش کاشمیری کے مطابق جنگ کے خاتمے پر حاجی لق لق نے ایک عراقی عورت سے شادی کرلی ۔ اس کے بعد وہ عربی زبان بھی روانی سے بولنے لگے۔ انہوں نے عراق میں ہی قیام کیا لیکن ان کی والدہ کو یہ گوارا نہ تھا۔ وہ عراق گئیں اور اپنے بیٹے کو واپس لے آئیں ۔ یہ 1933کی بات ہے ، لاہور آنے سے پہلے انہوں نے ایک مختلف نام رکھ لیا اوراردو کے ادبی جرائد میں قلمی نام ابوالاعلیٰ چشتی کے نام سے افسانے لکھنے لگے ۔ ان کا پہلا افسانہ لاہور سے شائع ہونے والے مشہور ادبی جریدے ’’نیرنگ خیال‘‘ میں چھپا۔ لاہور واپسی کے بعد انہوں نے مختلف اخبارات اور جرائد میں کام کیاجن میں تاج، ایمان، احسان اور شہباز‘‘ شامل ہیں۔ چونکہ انہیں عربی زبان میں مہارت حاصل ہوچکی تھی اس لئے انہوں نے عربی سے اردو میں خبریں ترجمہ کرنا شروع کردیں۔ لیکن جس چیز نے انہیں صحیح معنوں میں شہرت عطا کی وہ ان کی مزاحیہ شاعری اور کالم تھے جو مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار‘‘میں شائع ہوتے تھے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے اپنا قلمی نام حاجی لق لق رکھ لیا تھا۔ طنزیہ مضامین کے علاوہ انہوں نے ’’ادب کثیف‘‘ میں لکھا جو ’’ادب لطیف‘‘ کی نقل ہے۔ دراصل اس میں رومانوی شعری اسلوب کو اجاگر کیا گیا۔ اس کے بعد ہوا یوں کہ ان کی جدید غزلیں اور ’’کالم لقلقہ‘‘ اتنے مقبول ہوئے کہ لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے ۔ اگرچہ حاجی لق لق کا مزاح لطافت سے عاری ہے لیکن ان کے ہاں جو طنز کی کاٹ ہے اس کا کوئی جواب نہیں ۔ وہ صورت حال کی نسبت سے مزاح پیدا کرتے ہیں اور ان کے کچھ افسانے پڑھ کر مرزا عظیم بیگ چغتائی یاد آجاتے ہیں ۔ گاہے یہ احساس ہوتا ہے کہ روزی کمانے کیلئے انہوں نے جو لکھا اس نے کہیں کہیں ان کی تحریروں کے معیار کو متاثر کیا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی تحریروں میں ان کے دور کے سیاسی، ادبی اور سماجی مسائل کی جھلک ملتی ہے ۔ یہ وہ دور تھا جس میں عوام کو کئی نسلی ، مذہبی ، لسانی ، سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا تھا۔ مسلم لیگ اور کانگرس کی کشمکش، سیاسی افراتفری اور لاہور کے شہری مسائل وہ موضوعات تھے جن کا ذکر حاجی لق لق کی تحریروں میں کثرت سے ملتا ہے ۔ حاجی لق لق اردو اور فارسی کے عمدہ شاعر تھے ۔ انہوں نے اپنا اخبار بھی نکالا لیکن یہ جلد ہی بند ہوگیا ۔ اپنی کتاب ’’درانتی اور دوسرے مضامین‘‘ میں حاجی لق لق کی خود نوشت کی کچھ جھلکیاں ملتی ہیں ۔ خاص طور پر جب انہوں نے جب جنگ عظیم اول میں حصہ لیا تو اس کی تفصیلات پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ اس میں درانتی کا لفظ انہوں نے اس لئے استعمال کیا کیونکہ وہ دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ جنگ عظیم اول میں کسانوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’لقلقہ، ادب کثیف، منکر لق لق، تقدیر کشمیر‘‘ شامل ہیں ۔ ان کی دوسری کتابوں میں ’’آواز لقِ لق ، پرواز لقِ لق ، حاجی لق لق کے افسانے، سرکش روحیں‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ذیل میں ان کے چند طنزیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ دوا لائوں یا ڈاکٹر کو بلائوں کہ میں ٹیکس والوں سے پیچھا چھڑائوں خدارا بتائو کہاں بھاگ جائوں میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بنائوں ہے بچوں کی فیس اور چندہ ضروری کتب، کاپیوں کا پلندہ ضروری زندگی اپنی نمائش گاہِ مصنوعات ہے چاردن بجلی کے لیمپ اور پھر اندھیری رات ہے آئے ہیں دنیا میں کوئی کام کرنے کیلئے کچھ خدا سے اور کچھ بیوی سے ڈرنے کیلئے رات دن اس کا قلم مصروف لقلقات ہے چاردن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہے اب ان کی غزلوں کے کچھ اشعار دیکھئے کیا ان کو دل کا حال سنانے سے فائدہ ہوگا تو ہوگا نوٹ دکھانے سے فائدہ طنز و مزاح کے حوالے سے حاجی لق لق ایک جگہ لکھتے ہیں ’’اگر آپ کو دنیا میںکوئی کام نہیں ملتا تو لیڈر بن جائو‘‘ پھر لکھتے ہیں ’’جب سے کالجوں میں تعلیم مخلوط ہوئی ہے ادبی رسائل بھی مخلوط ہوگئے ہیں‘‘ پھر ایک جگہ انہوں نے کیا کمال لکھا ہے کہ ’’دراصل سب سے زیادہ ڈاک تو اس سرکاری افسر کی ہوتی ہے جس نے کلرک کی اسامی کیلئے اشتہار دے رکھا ہو‘‘ حاجی لق لق بے پناہ شہرت حاصل کرنے کے بعد ایک دم گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگئے لیکن ان کا نام گم نہیں ہوا۔ یہ شہرت بھی عجیب و غریب چیز ہے ۔ کچھ لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن ناکامی ان کا مقدر بنتی ہے جبکہ کچھ لوگوں کے دروازے پر یہ خود دستک دیتی ہے ۔ حاجی لق لق نے زندگی کے آخری ایام بڑی تکلیف میں گزارے۔ ان کا انتقال27 ستمبر 1961 ء کو لاہور میں ہوا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں