جہالت کے یرغمالی کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم پاکستانی قوم جہالت کے یرغمالی ہیں اور گو کہ ہمارے پاس خود کو چھڑوانے کے لیے تاوان بھی ہے اور وہ ہے علم کی روشنی، علم کا سرچشمہ جسے قرآن کریم کہتے ہیں لیکن ہم نے اس کتاب عظیم کو قیمتی غلاف چڑھا کر اپنی پہنچ سے دور اونچی جگہ پر رکھ دیا ہے، ہم روز اس کے نیچے سے گزر کر سمجھتے ہیں کہ بلا ٹل جاۓ گی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ عدالتوں میں دیکھو تو سب سے جھوٹا شخص اس پر ہاتھ رکھ جھوٹی قسمیں کھاتا نظر آتا ہے اور جھوٹ بھی ایسا جو اس نے قوم کے سامنے سر عام ٹی پر بولا ہوتا ہے اور ستم ظریفی دیکھیئے کہ عدالت اس جھوٹے کی قسم بھی قبول کر لیتی ہے۔ ہم جھوٹ بول اور لکھ کر روزی کماتے ہیں اور حرام کھلا کر اولاد کو پالتے ہیں اور جب بیٹی جوان ہوتی ہے تو اسی قرآن کے ساۓ میں بیٹی کو وداع کرتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ اس کا گھر بسا رہے۔ پھر کیا ہوتا ہے زندگی بھر داماد کے نشانے پر اور بیٹے کی صورت میں بہو کی چالوں کا شکار رہتے ہیں۔ جب تک ہم خود کو جہالت سے دور نہیں کر لیتے ہم بحیثیت قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔