1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جوش ملیح آبادی ۔۔۔۔۔۔ طیبہ بخاری

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    جوش ملیح آبادی ۔۔۔۔۔۔ طیبہ بخاری

    اب سر اٹھا رہے ہیں‌ کسی آستاں سے ہم
    جن کا نام جوش ہو انکے کلام میں کتنا ''جوش‘‘ ہو گا ۔۔۔؟جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں جوش ملیح آبادی کی،تاریخ ، صاحبانِ علم و فن اور قدردان شعر و سخن سب جوش سے مکمل تعارف رکھتے ہیں ، لیکن جوش کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ
    حد ہے اپنی طرف نہیں میں بھی
    اور ان کی طرف خدائی ہے
    لیکن یہ بھی واضح رہے کہ چاہے مخالف سمت میں کوئی بھی ہو جوش جس سمت میں ہونگے اہلِ ادب اُس سمت کو فراموش نہیں کر سکتے اور نہ ہی اب تک کسی نے ایسا کیا ۔ ادب کی دنیا میں جوش ملیح آبادی ہمیشہ منفرد و معتبر مقام کے حامل رہے ہیں ۔ شعر،غزل ، مرثیہ ہر صنف میں انہوں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ۔مرثیہ ، نوحہ اور منقبت میں جو کمال ہنر ان کے ہاں ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ، اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ
    میرے رونے کا جس میں قصہ ہے
    عمر کا بہترین حصہ ہے
    جوش کی زندگی اور ادبی خدمات کے کئی پہلو ہیں جنہیں ایک تحریر میں مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا کہیں وہ ''ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘‘ کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی وہ اپنے فلمی سفر میں کوئی بھی نغمہ دھن پر نہ لکھنے کا انوکھا فن اپنے نام کرتے ملتے ہیں ، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جوش ہر دور میں متنازعہ رہے یا بنائے گئے ۔ کچھ بھی کہہ لیں لیکن جوش کے مقام اور کلام پر بحث نہیں کی جا سکتی ۔ 20ویں صدی کی تیسری دہائی میں اپنے خالص اسلوب کے باعث جوش اپنے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ جوش کی جوانی کا زمانہ برصغیر پاک وہند کی سیاسی ابتری کا زمانہ تھا اس زمانے میں مسلمانوں پر ظلم وستم کا بازار گرم تھا۔ اسی دور میں جوش نے انقلاب کا نعرہ کچھ اس طرح لگایا تھا کہ
    کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
    میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
    اور پھر ان کا ایک اور شعر جو ان کے جذبات اور حریت پسندی کی عکاسی کرتا ہے کہ
    ہاں آسمان اپنی بلندی سے ہوشیار
    اب سر اُٹھا رہے ہیں کسی آستاں سے ہم
    جوش کوشاعری ورثے میں ملی انکے اساتذہ میں مرزا محمد ہادی رسوابھی شامل ہیں۔ سینئر کیمبرج تک تعلیم حاصل کی، علمی استعداد میں مطالعے کا بہت ہاتھ تھا۔ جوش کے والد بشیر احمد خاں بشیر، داد انواب احمد خاں اورپر دادا نواب فقیر محمد خاںبھی شاعر تھے۔ ان کے خاندان میں خواتین شاعرات بھی تھیں جوش کی دادی بیگم نواب محمد احمد خاں، مرزا غالب کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ جوش نے 9سال کی عمر میں پہلا شعر کہا:
    شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
    یہ میرا فنَ خاندانی ہے
    جوش صرف شاعر نہیں ایک ہشت پہلو شخصیت تھے شعر اور نثر دونوں پرکامل عبور تھا۔ شاعری کی تو اوجِ کمال تک پہنچے اور نثر لکھی تو ادبی حلقوں میں ہنگامہ برپا کردیا۔ انکا ایک شعر ملاحظہ کیجئے
    آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں
    مشورے دے کے ہٹ گئے احباب
    1916ء میں والد کے انتقال کے بعد ذمہ داریوں کا بوجھ جوش کے کاندھوں پر آپڑا۔ یہی وجہ ہے کہ 1916ء سے 1920ء کی شاعری میں تلخی، زندگی سے اکتاہٹ، دنیا کی بے ثباتی اور صوفیانہ خیالات ملتے ہیں۔
    دنیا نے فسانوں کو بخشی افسردہ حقائق کی تلخی
    اور ہم نے حقائق کے نقشے میں رنگ بھرا افسانوں کا
    انہی حالات ان کا پہلا مجموعہ کلام ''روحِ ادب‘‘ 1920ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے بعد 1936ء تک آتے آتے ان کی شاعری میں عشقیہ مضامین کیساتھ ساتھ بغاوت کے عنصر نے بھی جگہ بنالی۔
    کشتیٔ مے کو حکم روانی بھی بھیج دو
    جب آگ بھیج دی ہے تو پانی بھی بھیج دو
    اس دورانیے میں انکا کلام ''شعلہ وشبنم‘‘ کے نام سے 1936ء میں منصہ شہود پر آیا جبکہ تیسرا مجموعہ کلام ''نقش و نگار‘‘ 1944ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہواتاہم جوش کی زندگی کی بہترین شاعری پر مشتمل ان کا ضخیم شعری مجموعہ ''محراب ومضراب‘‘ ان کے انتقال کے 11سال بعد 1993ء میں قارئین تک پہنچ سکا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ جوش کی زندگیوں میں خوشیوں اور مسکراہٹوں کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی ،مسکراہٹ کے حوالے سے جوش کے کلام میں سے چند اشعار کچھ اس طرح ہیں کہ
    تبسم کی سزا کتنی کڑی ہے
    گلوں کو کھل کے مرجھانا پڑا ہے
    ...٭٭...
    ہر ایک کانٹے پہ سرخ کرنیں ہر اک کلی میں چراغ روشن
    خیال میں مسکرانے والے ترا تبسم کہاں نہیں ہے
    جوش کی خود نوشت ''یادوں کی بارات‘‘ 1972 ء میں کراچی سے شائع ہوئی، ان کا انتقال 22 فروری 1982 ء کو ہوا۔ یوں ایک طرح سے وہ 10 برسوں تک تنازعات میں گھرے رہے بے حد دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، حکومت کے عتاب کاشکاربھی ہوئے۔ شاعری میں جوش ایک ایسے شاعر ہیں جن کے بے شمار مجموعہ ہائے کلام منصہ شہود پر آئے۔ ان میں ''روح ادب، آوازہ حق، شاعر کی راتیں، جوش کے سو شعر، نقش و نگار، شعلہ و شبنم، پیغمبر اسلام، فکر و نشاط، جنوں و حکمت، حرف و حکایت، حسین اور انقلاب، آیات و نغمات، عرش و فرش، رامش و رنگ، سنبل و سلاسل، سیف و سبو، سرور و خروش، سموم و سبا، طلوع فکر، موجد و مفکر، قطرہ قلزم، نوادر جوش، الہام و افکار، نجوم و جواہر، جوش کے مرثیے، عروس ادب (حصہ اول و دوم)، عرفانیات جوش، محراب و مضراب، دیوانِ جوش ‘‘وغیرہ۔
    دسمبر 1955 میں جوش بھارت کی سکونت ترک کر کے پاکستان آگئے۔انہوں نے یہاں آ کر بھی فلمی دنیا کیلئے اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا لیکن یہ جان کر آپ کی حیرت میں اضافہ ہو گا کہ جوش اپنی فلمی شاعری کوکوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ 1966 ء میں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ''دراصل میں خود نہیں چاہتا تھا کہ فلموں کیلئے گیت لکھنے کا سلسلہ جاری رکھوں کیوں کہ جو لوگ خالص ادب تخلیق کرتے ہیں انہیں بلندی سے پستی کی طرف آنا پڑتا ہے اور اس سفر کے دوران انہیں اپنے معیار کو برقرار رکھنا دشوار ہو جاتا ہے ۔‘‘اسی انٹرویو میں جوش صاحب نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے کبھی کوئی نغمہ موسیقی کو سامنے رکھ کر ترتیب نہیں دیا بلکہ ہمیشہ فلم کی سچوئیشن کے مطابق نغمات تحریر کیے۔ نثر میں جوش ملیح آبادی کے کمالِ فن کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے نثری مجموعوں میں مقالات جوش، اوراق زریں، جذبات فطرت، اشارات، مقالات جوش ، مکالمات جوش اوریادوں کی بارات (خود نوشت سوانح) شامل ہیں۔آخر میں بس اتنا جوش کی زندگی ان کے تخلص کی مناسبت سے انتہائی پُر جوش گزری۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں