1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جوتا مارنگ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از آریان انیس, ‏1 ستمبر 2010۔

  1. آریان انیس
    آف لائن

    آریان انیس ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2010
    پیغامات:
    179
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جوتا مارنگ


    اللہ تعالی نے انسان کے پاﺅں کو گرمی دھوپ اور سردی وغیرہ سے بچانے کے لئے جوتا سازی کا علم عطا کیا۔ پہلے دور میں تو انسان جوتے کے بغیر کئی کئی منزلیں طے کر لیتا تھا۔ لیکن آج کل کے دور میں امیر انسان کے لئے چند سو میٹر کا فاصلہ بھی ننگے پیر کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ انسان میں جیسے جیسے غرور و تکبر اور ظلم کرنے کی صلاحیت بڑھتی گئی۔جوتا کا استعمال میں تبدیلی آتی گئی۔ آنے والے دور میں یہ ایک کھیل کی صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے۔

    کھیل سے یاد آیا کہ فٹ بال میں جوتے کا بہت بڑا کمال ہے جو پلئیرجتنا اچھا جوتے کا استعمال جانتا ہے وہ اتنا ہی اچھا پلئیر مانا جاتا ہے۔حیران مت ہوں میچز جوتے پہن کر ہی کھیلے جاتے ہیں۔ تو جی جو پلئیر جوتے کا جتنا اچھا استعمال جانتا ہے وہ اتنا ہی اچھا کھلاڑی تصور ہوتا ہے۔ اس کو خود کو اچھا کھلاڑی ثابت کرنے پر بھی جوتا ہی انعام میں ملتا ہے۔مثلاً فٹ بال ورلڈ کپ میں جو تین بہترین کھلاڑی جوتے کا بہترین استعمال کرتے ہیںان کو انعام میں گولڈن جوتا ، سلور جوتا اور براﺅنز جوتا دیا جاتا ہے ۔ یہاں جوتے کے استعمال سے مراد جتنی اچھی گیم ہے ہیں۔

    انسان پر جوتے کا استعمال کب شروع ہوا ۔ اس چیز کے بارے میں جاننے کے لئے ہم کو زمانہ قدیم میں جانا پڑے گا۔جوتے کے زیر عتاب آنے والوں میں پہلا نمبر نمرود کا ہے ۔نمرور جی اپنے زمانے کے مانے ہوئے حکمران تھے۔ساری دنیا پر انکی حکومت تھی۔ لیکن ساری دنیا کی حاکمیت بھی ان کو جوتے کھانے سے محفوظ نہ کر سکی۔ جناب نمرود کی ناک میں ایک مچھر داخل ہو گیا۔مچھر صاحب کو نمرود کا دماغ کھیل کا میدان لگا۔سو مچھرے صاحب لگے شرارتیں کرنے ۔ ویسے یہ بھی زیادتی تھی کہ اتنے بڑے حکمران کے دماغ میں ایک چھوٹا سامچھر داخل ہو۔ اگر داخل ہی ہونا تھا تو کوئی بڑی سے چیز ہوتی۔ مچھر صاحب شرارتوں سے باز نہی آتے تھے۔ مچھر کو شرارتوں سے باز رکھنے کے لئے نمرود کے دماغ کا علاج شروع ہوا لیکن سارے علاج لاعلاج رہے ۔ سو آخری علاج کے طور پر حکمران وقت کے سر میں جوتے مارے جانے لگے۔ جب تک جوتے سر میں مارے جاتے مچھر شرارتوں سے باز رہتا جیسے جوتا مارنے والا جوتا رکھتا مچھر شرارتیں دوبارہ شروع کر دیتا۔ سو مچھر جیت گیا اورطاقت و حکومت کا نشہ لئے ہوئے نمرود جی جوتوں کے زیر سایہ ایک مچھر سے ہار کر دنیا سے چلے گئے۔ مچھر بھی بڑا چلاک تھا جیسے نمرود صاحب کاسارا غرور و تکبر ختم ہوا وہ بھی خاموشی سے باہر نکلے اور اپنے گھر کو پرواز کر گئے۔

    جوتا مارنگ کی ایک سسٹر بھی ہیں جن کا نام سینڈل مارنگ ہے یا زنانہ چپل مارنگ ے ۔ آپ کسی چو ک میں کھڑے ہو جائیں۔ یا کسی بازار میں اگر نہی تو سڑک کے کنارے چلتی ہوئی لڑکی کو چھیڑ دیں۔ بس پھر کیا ہوگا کہ پہلے تو وہ خود آپ کو سینڈل سے مارے گی۔ جس وقت آپ کی پٹائی ہو رہی ہوگی آپ کے پا س بہت سارے لوگ جمع ہو جائیں گے اور لڑکی کے فوری بھائی بن کر ایسی پٹائی کریں گیں کہ آپ اللہ توبہ کریں گے۔ ان بھائیوں میں جو سب سے زیادہ بھڑ چڑھ کر آپ کو مارے سمجھ لیں یہ بھی دل جلا ہے اور یہ بھی پہلے اس ٹائم فریم سے گزر چکا ہے۔ وہ حضرت تو آپ کے منہ پر کالک مل کر آپ کو گدھے پر بٹھانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کیونکہ شاید ان کے ساتھ بھی پہلے ایسا ہی ہوا تھا۔

    منہ کالا کرنے اور گدھے پر بٹھانے سے یاد آیا کہ جب پہلے کوئی چور پکڑا جاتا تھا تو اسکو گنجا کرکے اسکی آنکھوں کے اوپر کے بال اڑادئیے جاتے ۔پھر اسکے کپڑوں اور منہ پر کالک ملی جاتی۔ اور جوتے مارے جاتے ۔آخر میں وہ تمام جوتے جو چور کو مارے گئے ہوں گے۔ انکو اکٹھا کرکے انکا ہار بنایا جاتا اور چور کے گلے میںڈال کر اسکو پور ے شہر کی سیر کرائی جاتی تھی۔لیکن اب تو اول کوئی چور قابو نہی ٓتا۔اگر آپ اسکوقابو کرنے کی کوشش کریں گے تو یاتوں اپنی جان سے سے جائیں گے یا پھر لازمی طور پر زخمی ہوکی ہسپتال جائیں گے۔ اسلحہ اب ایسے عام ہو گیا ہے جیسے بارش کے بعد پتنگے عام ہو جاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگوں کو اپنے مخالف کو بڑی سزا دینی ہوتی تو اسکو بازا ر میں قابو کرکے چار جوتے پھیر دیتے تھے۔ لیکن اب آپ نے کسی کو غلط کام سے باز رکھنے کی کوشش کی تو جناب عالی غصہ کرتے ہوئے گولیاں آپ کے سینے میں پار کر نے پر اتر آتا ہیں۔ اپنے مخالف کو گولی مارکر لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔اگر اب بھی کسی چور کا منہ کالا کیا جاتا ہے اور اسکو گدھے کی سواری نصیب ہوتی ہے تو ہ مسجدوں سے جوتے ، لوٹے اور ٹونٹیاں چوری کرنے والا چور ہے۔یہ تو سمجھ آتی ہے کہ جوتے چورپہن کر مسجد سے نکل گیا۔ اور ٹونٹی وہ جیب میں ڈال کر لے جاتا ہے ۔ لیکن آج تک یہ سمجھ نہی آئی کہ چور دن ٹائم لوٹے لیکر کیسے نکل جا تا ہے۔ ایسے چور پر جوتے مارنگ کا پروگرام بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

    جوتا کے والد محترم کا نام قصور ی خصہ اور والدہ کا نام پشاوری چپل ہے ۔ لیکن یہ جن ہستی کے پاﺅں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں وہ ایک ہی شخصیت ہیں ۔ یعنی والد محترم۔ ہم بھی دنیا کے ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جس نے اپنے والد محترم کو اپنے اوپر جوتے کھل کر فراہم کیا۔ اسکول کا کام کرنے کا ہمیں شروع سے ہی شوق نہ تھا جس پر اکثر والد محترم اپنے قصوری خصے اور پشاوری چپل کی ہم پر آزمائش کرتے ۔یہ بات نہ ہم کو، نہ ہی والد محترم او ر نہ ہی ہمارے اساتذہ اکرام کو آج تک سمجھ آسکی کہ ہم امتحانات میںپوزیشن کیسے لے لیتے رہے ہیں۔ہم ہمیشہ یہ سوچتے کہ جن بعد میں ہمارے پیپر حل کر دیتا ہے۔ اور ہمارے استاد صاحب یہ سمجھتے تھے کہ ہم بوٹی لگاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر پیپر کے دوران ہماری دو تین دفعہ مکمل طور پر تلاشی لی جاتی۔ لیکن برآمد کچھ نہ ہوتا ہم بس اتنا ہی کرتے تھے کہ امتحانات سے دون تین ہفتے پہلے تمام قسم کی شرارتیں بند کرکے کتابیں لیکر بیٹھ جاتے۔ ایک اور چیز نے ہم کو ہمیشہ پریشان رکھا کہ ہمارے جس جس دوست نے بھی اپنے والد محترم سے مار کھائی اس نے یہی بتیا کہ انکے والد محترم کے جوتے کا نمبر10تھا۔ جس کے بعد ہمارا یقین ہوگیا اس بات پر کہ ہر ا س بچے کے والد کے جوتے کا نمبر 10ہے جو اپنے والد سے مار کھاتا ہے۔ ہم نے اپنی والدہ محترمہ سے بھی کافی مار کھائی۔ اللہ ہمارے والدین کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین۔ والدہ سے جوتے کھا کر ہمیشہ ایک چیز کا بڑا افسوس ہوتا کہ ہم کو مارنے کے بعد وہ خود بھی رونے لگ پڑتی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہم ان کو کم ہی تنگ کیاکرتے تھے۔

    ایشیاءکی پولیس بھی مجرموں پر جوتے استعمال کرتی ہے۔ جس کو پولیس کی زبان میں چھتر اور اس عمل کو چھترول کہتے ہیں۔ویسے تو پاکستان اور انڈیا کی پولیس کی چھترول بڑے بڑے لوگوں کی زبان کھول دیتی ہے۔ اور کئی دفعہ جس بندے نے زندگی میں پستول کبھی دیکھا بھی نہ ہو وہ چھترول کے بعد ایسے جرم قبول کرتا ہے جیسے وہ شیطان ہی ہو اگر ہم نے اپنی زندگی میں کسی بندے پر پولیس کی چھترول ناکام ہوتی دیکھی ہے تو وہ زرداری صاحب ہیں۔یا تو پھر شاید انکی کبھی چھترول ہوئی نہ ہوگی۔ اور صرف چھتر انکے پاس ہی رکھ دیا جاتا ہو۔ اگر پولیس کو کہا جائے کہ ہاتھی کو سوئی کے نکے میں گزارنا ہے توپولیس ہاتھی کی ایسی چھترول کرے گی کہ ہاتھی سوئی کے نکے سے ایسے گزرے گا جیسے بجلی کی تاروں میں سے بجلی گزرتی ہے۔کاش ہمارے ملک کے تمام حکمرانوں کی ایک ایک ہفتہ چھترول ہو ۔چھترول کے بعد جو جو باقی بچے گا وہ آئندہ کبھی غلط کام کرنے کا خواب میں بھی نہی سوچے گا۔
    آجکل جوتا مارنگ کا ایک سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے ۔ یعنی حکمرانوں اور وزیروں کو سرعام جوتا مارنے کا۔نمرود کے بعد ہسٹری میں کسی ایسے حکمران کا ذکر نہیں ملتاجس کی عوام نے چھترول کی ہو اور وہ زندہ رہا ہو۔ عوام کے ہاتھوں قتل تو بہت سے حکمران ہو ئے ہیںلیکن جوتا مارنگ کا واقعہ کوئی نہی ہوا۔ نمرود کے بعد جس حکمران کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے وہ بھی اپنے وقت کا نمرود تھا بس نام کے لحاظ سے اس کو بس پکارا جاتا ہے۔ بش دو ہیں باپ کا نام بھی بش اور بیٹے کا نام بھی بش۔دونوں بشوں میں جو بات مشترک تھی وہ انسانی خون کی پیاس ۔ خاص کر مسلمانوں کا خون تو انکو بہت پسند تھا۔لیکن جوتے کا سامنے کرنے کا اعزاز بیٹے کے حصے میں آیا۔ جو کہ عراق میں رونما ہوا جب بیٹا بش عراق میں اپنے ڈھائے ہوئے مظالم کو احسان اور رحم مین بدلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہاں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ صدام حسین کے دور میں عراق کو دنیا میں دو بہت بڑے اعزاز حاصل تھے۔ ایک اس ملک میں ہر قسم کا علاج فری ہوتا تھا۔ دوم اساتذہ ارکام کی بھاری تنخواہوں کے باوجود عراق میں پی ایچ ڈی تک تعلیم مکمل طور پر فری تھی۔ بش صاحب جوتے کے اس حملے سے بچ گئے۔لیکن اس حملے نے لوگوں کو دنیا میں مشہور ہونے کا ایک نیاطریقہ دیکھا دیا۔ کہ کسی بھی ظالم انسان کو اس وقت جوتا مارو جس وقت وہ تقریر کر رہا ہو۔ایک تو آپ ہیرو بن جائیں گے دوسرا چند لمحوں میں ساری دنیا آپ کے نام سے واقف ہو جائے گیی۔ اب ظالم لوگ جب بھی تقریر کرنے لگا کریں گے وہ سب کے جوتے اتروا کر دور پھینکوا دیا کریں گے۔ہو سکتا ہے ظالموں کو جوتے مارنے والا کوئی کھیل ہی بن جائے۔

    بش صاحب کے بعدہم نے سوچا کہ شاید کئی سو سال تک عوام کو مذید حکمرانوں کو جوتا مارنے کا قصہ سننے کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ ہمارے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا چاہتا ہے،جس سے اب ظالم لوگوں کا بچنا ناممکن ہے۔ بش کے بعد دوسرے نمبر پر جس شخص کو جوتا کھانا نصیب ہوا وہ پاکستان کے سابقہ وزیراعلی غلام ارباب رحیم ہیںان حضرت کے منہ پر تو ایسا جوتا لگا کہ صاحب کئی دن تک آئینہ میں اپنے منہ اور جوتا میں فرق تلاش کرتے رہے۔۔ وصی ظفر بھی شہیدوں میں شامل ہیں۔ پہلے پارلیمنٹ میں خاتون ممبر صرف جوتا دیکھاتی تھیں اب وہ باقاعدہ جوتا مارنگ کا کورس بھی کر چکی ہیں۔ پاکستان کے بعد بھی کئی دنیا کے نام گرامی حکمرانوں کو جوتوں کا مزہ چکھنے کاموقع ملا ہے۔جس میں اسرائیلی وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔ جن کو ایک طالب علم نے جوتا مار کر سائنس کا ایک نیا تجربہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ اعزاز برطانیہ،فرانس،ارجنٹائن ،افغانستان اور انڈیا کے حصے میں بھی آچکے ہیں۔

    اس ضمن میں جو آخری واقعہ ابھی تک رونما ہوا ہے وہ جناب آصف زرداری کو جوتا مارنے کی کوشش کی صورت میں کیا گیا۔ زرداری صاحب تک تو جوتا پہنچ نہی سکا ۔کیونکہ مارنے والے کی عمر ساٹھ سال سے اوپر تھی۔ اس خبر کو جیوءاور جنگ نے سب سے پہلے عوام تک پہنچایا ۔ لیکن اس کے بعد اب دی نیوز اور اے آر وائی سیمت یہ دونوں ادارے زیر عتاب آئے ہوئے ہیں۔ ہمارا جوتا مارنگ کا ارادہ کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ وہ کسی حکومت کے موجودہ وزیر پر ایسی کسی قسم کی کوشش نہ کریں۔ ورنہ یا تو ان کو غائب کروادیا جائے گا یا سارے کا سارا خاندان اشتہاری قرار دیکر پولیس مقابلے میں مروادیا جائے اور قل پڑھنے والا بھی کوئی نہی ملے گا۔ اگر آپ جوتا مارے بغیر نہی رہ سکتے تو کسی دوسرے ملک کی قومیت لے لیں۔

    آخر میں ہم نے ایک جوتے سے سوال کیا کہ جب آپ کو لیکرانسانوں کو مارنگ کا پروگرام کیا جاتا ہے تو کیسا فیل کرتے ہیں۔ جوتے نے جو جواب دیا اس ہم کو ایسا شرمندہ کیا کہ اب کسی جوتے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ جوتے نے جو جواب ہمیں دیا آپ بھی پڑھیں اور غور کریں کہ کیا اس نے سچ کہا کیونکہ ہمیں تو سوفیصد سچ ہی لگا۔

    ©"اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ہمیں اسکے پیروں کو گندسے بچانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ انسان کی کم عقلی اور غرور ہے کہ اس نے خدا کی برابری شروع کر دی اور اپنے ہی جیسے لوگوں پر اور دوسری مخلوقات پر ظلم ڈھانے شروع کر دئیے۔ کیونکہ اللہ کو اپنی ساری مخلوقات بہت پیاری ہیں۔ اور انسان کو تو اس نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ اسلیئے انسان کو سبق سیکھانے کے لیے اس چیز کا انتخاب کیا جو اسکو گندی سے بچاتا ہے یعنی ہم جوتوں کو۔ اگر انسان ، انسان ہی رہتا اور ایسی حرکتیں نہ کرتا تو ہم بھی اسکے پیروں میں رہتے۔ اب جب ہمیں اسکے منہ ، سر جسم وغیرہ پر آزمایا جاتا ہے تو شرمندگی سی ہوتی ہے کہ آزمانے پروالا بھی انسان ہی ہے اور جس پر آزمایا جارہا ہے وہ بھی انسان ہی ہے۔ اللہ نے انسان کو عقل و شعور عطا کیا ہے اور اگر وہ اسکے اسکو استعمال کرتا اوراللہ کا عاجز بندہ بن کر رہتا تو ہم بھی اسکے پیروں میں ہی رہتے۔ کیونکہ ہماری یہی جگہ ہے۔ اگر اس کے باوجود انسان ہم کو قصور وار سمجھتا ہے تو یہ اسکی ناقص عقلی ہے یا پھر اللہ نے اسکو بیوقوف بنا دیا ہے۔ کیونکہ جوتا پیروں میں اچھا لگتا ہے نا کہ سر پاﺅں اور جسم پر۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں اس میں کس کا قصور ہے ہم جوتوں کا یا انسانوں کا "
     

اس صفحے کو مشتہر کریں