1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏9 جنوری 2010۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جوانی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    اور یہ میں تو سب کچھ جانتا بھی تھا کہ کوئی بھی تو ایسا لڑکا نہیں تھا، ان کے جاننے والوں میں یا اور کوئی ھو جسے وہ پسند کرتی ھو، کیونکہ میں تو زیادہ تر وقت انہیں کے ساتھ گزارتا تھا!!!! میں تو بس اسی میں ھی خوش تھا، ادھر کالج کی ُپڑھائی پر بھی کافی اثر ھورھا تھا، اور اب کالج سے بھی جلدی آجانا اور ھم تینوں گھر میں ھی اُدھم بازی کرتے اور جب تک ھماری اماں کا بلاؤا نہیں آتا تھا، میں وہاں سے ہلتا نہیں تھا !!!!!!

    ایک دن گھر پر اباجی جلدی آگئے ان کو شاید مجھ سے کچھ کام تھا یا بازار جانا تھا مجھے اپنی بہن کےذریئے بلوایا گیا، لیکن میں نے سنی ان سنی کردی، ابا نے اور زیادہ سختی سے پیغام بھجوایا کہ فوراً آؤ اور جب مجھے پتہ چلا کہ اباجی گھر پر آگئے ھیں، تو فوراً بھاگا وھاں گھر پر ایک دو اور محلے کی فیملیز بیٹھی تھیں اور مجھے دیکھتے ھی وہ لوگ چلے گئے اور میرا ماتھا ٹھنکا اور چھٹی حس نے کہا کہ بیٹا آج کچھ ضرور گڑبڑ ھے گھر میں کچھ سناٹا سا محسوس ھو رھا تھا، میری اندر سے جان نکلی جارھی تھی، والد صاحب کچھ زیادہ ھی غصہ میں لگتے تھے لیکن انہوں نے کچھ برداشت سے کام لیا ھوا تھا اور باقی بہن بھائی بھی ایک کونے میں خاموشی سے دبکے بیٹھے ھوئے تھے اور والدہ اسی وقت اٹھ کر باورچی خانہ میں چلی گئی تھیں،

    میں کچھ سمجھ نہیں ‌پا رھا تھا کہ کیا گڑبڑ ھے، ابھی کچھ حالات کا دماغ میں جائزہ ھی لے رھا تھا کہ ابا جی نے سکوت کو توڑتے ھوئے مجھے اپنے پاس بلانے کا اشارہ کیا اور میرے کندھے پر ھاتھ رکھتے ھوئے کچھ یوں اپنے غصہ کے ملے جلے الفاظوں سے یہ کہا کہ “ بیٹا جو میں تم سے بات کہنے جارھا ھوں اسے ذرا غور سے سننا، اب تم بچے نہیں رھے ھو اب تم کافی بڑے ھوگئے ھو، تمہیں اب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاھئے، گھر میں تمھاری ایک ماں ھے اور تمھارے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ھیں، تمھیں ان کے بارے میں بھی سوچنا ھے اور پڑھ لکھ کر ھم سب کا ایک مضبوط سہارا بننا ھے، ایک صرف تم سے درخواست ھے کہ اب تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ھوئے، اپنی تمام تر توجہ اپنی پڑھائی،اور اپنے اور صرف اپنے گھر پر ھی دوگے، اور اب تمھارا پرائی جوان لڑکیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اچھا نہیں لگتا، اس میں تمھاری اور ھمارے یہ ایک چھوٹے سے کنبے کی بدنامی بھی ھے، میں صرف یہی چاھتا ھوں کہ کل سے تم سیدھا کالج جاؤ گے اور واپسی پر سیدھے اپنے گھر، اور اس کے علاوہ اگر گھر کے کام کے سلسلے میں جانا ھو تو ٹھیک ورنہ تم ان کے گھر اب کبھی نہیں جاؤ گے آج میں یہ تمھیں یہ پیار سے سمجھا رھا ھوں، اور تم میرا غصٌہ جانتے ھو اور اگر آج کے بعد میں نے تمھیں اس گھر کے آس پاس بھی دیکھا تو مجھ سے کوئی بھی برا نہیں ھوگا اور جو میں تمھارا حشر کرونگا پھر سے ایک مرتبہ پھر ساری دنیا دیکھے گی، شاید تمھیں یاد ھو !!!!!!!!

    وہ کہتے جارھے تھے اور میرے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین نکلتی جارھی تھی، اور میرا دماغ بالکل معاؤف ھوتا جارھا تھا کہ یہ ایک دم اچانک کیسے ھوگیا کچھ بھی سمجھ نہیں آرھا تھا!!!!!!!!!!!

    1967 کا زمانہ اور اُس وقت میری عمر جو تقریباً 17 سال کے لگ بھگ تھی، یہ عمر ایک ایسی جذباتی عمر ھوتی ھے کہ کوئی بھی مرضی کے خلاف بات ھو وہ بالکل برداشت نہیں ھوتی، لیکن والد صاحب کا غصہ بھی بالکل بجا تھا، اور میں بھی شاید اپنے طور پر اپنی جگہ بالکل صحیح تھا، !!!!!!!!!

    اسی دوران سالانہ امتحانات بھی سر پر تھے، اور حالات ھی کچھ ایسے تھے کہ امتحانات کی تیاری بالکل نہیں کرسکا تھا، روزانہ ایک آدھ پیریڈ کے علاوہ کوئی اور پیریڈ میں جاتا ھی نھیں تھا، ایک تو وہاں کی آزادی اور دوسرے لیکچرار جو انگلش میں اس وقت سوال کرتے تھے اور وہ بھی مجھے ھی نشانہ بناتے تھے، اول تو سوال ھی سمجھ میں نہیں آتا تھا، اگر سمجھ میں آتا تو جواب نہیں آتا تھا، کئی دفعہ اردو میں جواب دینے کی کوشش بھی کی لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا، پھر کیا کرتا ایسی ساری مضامین کی کلاسوں میں جانا ھی چھوڑ دیا جہاں پر اردو کا کوئی ذکر نہیں ھوتا تھا، اور مجھے آج تک انگریزی زبان سے اتنا زیادہ لگاؤ بھی نہیں ھے، بعض اوقات مجبوری ھوجاتی ھے!!!!!!!

    فرسٹ ائیر کامرس کے امتحان ھوچکے تھے، مگر افسوس کہ میں نے 5 مضامیں میں سے صرف 2 پیپر ھی کلئیر کئے تھے، اور پھر بھی سیکنڈ ائیر میں پہنچ گئے تھے، مگر بس اب کل آٹھ مضامین کے امتحانات کا سوال تھا، لیکن افسوس اگلی کلاس میں جانے کی نوبت ھی نہیں آئی، کیونکہ اپنے ذاتی مسائل کی الجھنیں کچھ اتنی شدت اختار کرچکی تھیں، کہ کالج کی طرف دھیان ھی نہیں گیا،

    والد صاحب کو جب پتہ چلا کہ میں نے صرف دو ھی پیبر کلئیر کئیے ھیں تو انکا تو اور بھی پارہ اوُپر چڑھ گیا، اور کچھ ھمارے مہربان لوگوں کو بھی میرے خلاف شکایات کرنے کا موقعہ مل گیا، اب تو میری ھر طرف سے سخت نگرانی کی جانے لگی تھی، میرے پیچھے جاسوس چھوڑدئیے گئے اور کچھ تو اپنی مرضی سے اور کچھ اپنی خوشی سے ھی میرے خلاف جہاد میں شریک ھوگئے اور مجھے بھی ان کا پتہ آسانی سے چل ھی گیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ کئی لوگوں کو میرے ان کے یہاں آنے جانے سے بہت تکلیف ھوتی تھی، کچھ تو یوں کہ ان کے گھر سے لفٹ نہیں ملتی تھی اور کچھ ایسے بھی تھے، جو چاھتے تھے کے میں ان کے تعلقات ان سے کرانے میں مدد کروں، جسکا کہ میں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا، اور وہ میرے خلاف ھوگئے اور مجھے ان معصوم لوگوں سے دور کرنے کی مہم میں بلا معاوضہ شامل ھوگئے، مگر میں بھی کہاں باز آنے والا تھا،!!!!!!!!!

    ادھر والد صاحب نے انکے والد کو اپنے گھر پر یا انہی کے گھر جاکر محلے والوں کی شکایت کی، جسکا مجھے انہیں کی زبانی بعد میں معلوم ھوا کہ انہوں نے کچھ یوں کہا تھا کہ بھائی صاحب دیکھیں ھمیں اسی محلے میں رھنا ھے اور ھمارے آپس کے تعلقات اتنے اچھے اور مضبوط ھیں کہ میں نہیں چاھتا کہ اس میں کوئی دراڑ آئے، آپکی بیٹیاں بھی میری بیٹیوں سے زیادہ عزیز ھیں، اور میں یہ بھی اچھی طرح جانتا ھوں کہ ان میں کوئی بھی خرابی نہیں ھے بہت ھی اچھے کردار کی مالک اور خلوص دل اور عزت کے قابل ھیں، مگر آپ یہ سوچیں کہ اب وہ دونوں جوانی کے دھلیز پر قدم رکھ چکی ھیں اورمیرا بیٹا بھی اور اس کی بھی میں کیا آپ بھی ضمانت دے سکتے ھیں کہ وہ بھی کوئی ایسا غلط قدم اٹھا نہیں سکتا جس سے آپ کے اور میرے درمیان کوئی عزت کا مسئلہ یا بدنامی کا باعث ھو، مجھے اس بات کی بھی خوشی ھے بلکہ میں آپ سب کا ھمیشہ سے احسان مند ھوں کے میرے بچوں کی آپ کی بیٹیوں نے بہت اچھی تعلیم اور تربیت کی اور بہت اچھا خیال رکھا،!!!!

    اور یہ کہ اب آپ خود سوچیں کہ محلے والوں کی زبان کو کون پکڑ سکتا ھے آجکل یہ سب میرے بیٹے اور آپکی بیٹیوں کو لے کر اس کے موضوع کو ایک غلط شکل میں ڈھال رھے ھیں، جب یہ بچے چھوٹے تھے تو کوئی بات نہیں تھی اب یہ سب جوانی کی طرف قدم بڑھا رھے ھیں، میں یہ نہیں چاھتا کہ کوئی بھی ذرا سی آنچ نہ آپ پر آئے اور نہ مجھ پر، آپ کو پتہ ھے بھائی صاحب آجکل دنیا کسی کے بھلے کا نہیں سوچتی جتنی عزت دیتی ھے تو اتنا ھی اپنے مفاد کی خاطر موقعہ ملے تو ذلیل کرنے سے باز بھی نہیں آتی، اور میں چاھتا ھوں کہ کچھ عرصہ کیلئے اپنے گھر میں سب کو کہہ دیں کہ میرے بیٹے کو آنے سے روک دیں اور ادھر میں اپنی پوری کوشش کرونگا کہ اسے آپ کی طرف نہ جانے دوں،

    اور نہ جانے کیا کیا کہا ھوگا، جس کے جواب میں لازمی بات ھے کہ انکے والد نے بھی ھامی بھری ھوگی، اس کے علاوہ انکو بھی محلے کے کچھ عزت دار لوگوں نے بھی اسی طرح کی نصیحتیں کی تھیں کہ یہ سب ھمارے بچوں کی طرح ھیں، لیکن اس طرح کی غلط افواھوں سے بچنے کیلئے اس طرح انکا آزادانہ ملنا جلنا باھر گھومنا پھرنا اچھی بات نہیں ھے !!!!!!!!!!

    بس پھر کیا تھا کہ ھمارے اور انکے درمیان میں ایک دراڑ کی لائن پڑ چکی تھی، ادھر میرے والد صاحب نے مجھے سختی سے نوٹس دے دیا اور ادھر ان کے والد نے بھی ان دونوں کو بری طرح ڈانٹا بھی اور یہ کہا کہ اھر میں نے اس لڑکے کو اس گھر کے اندر یا باھر تم لوگوں سے باتیں کرتے دیکھا یا سنا تو تم لوگوں کی خیر نہیں ھے اور اگر میں نے اسے یہاں دیکھا تو اسکی میں ٹانگیں توڑ دونگا،!!!!!!

    ادھر کچھ محلے والے بھی بہت خوش تھے اور میں شعلوں کی ایک اور جنگ کے لپیٹوں میں گھرا ھوا پریشان حال ایک اور مصیبت کے پہاڑ کو اپنے سر سے اتارنے کی سوچ میں لگا ھوا تھا !!!!!!!!!!!!!!

    اب تو دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ھوچکی تھیں، نہ کوئی اس وقت ٹیلیفون تھا، نہ کوئی موبائیل قسم کی چیز، نہ کوئی انٹرنٹ ٹائپ کی کوئی ایجاد تھی، بس ایک دوست جس کو ننھا کے نام سے بلاتے تھے، مجھ سے چھوٹا لیکن بہت پھرتیلا اور چالاک باقی سب دوستوں پر سے تو اعتبار اٹھ چکا تھا، سب کے سب مخالف پارٹی سے مل چکے تھے، اور اسی طرح ان دنوں ملک کی سیاست بھی کچھ یونہی ڈگمگا رھی تھی، خیر ھمیں سیاست سے کیا ھمیں تو اس محلے پر سے حکومت ختم ھوتی نظر آرھی تھی، اس محلے کا اب وہ معیار نہیں رھا تھا ھر کوئی اب ایک دوسرے سے حسد کرنے لگا تھا اور آھستہ آھستہ اچھے لوگ یہ محلہ چھوڑتے جارھے تھے، اور نئے لوگ بسنا شروع ھوگئے تھے، لیکن ان میں اور پرانے لوگوں میں زمین اور آسمان کا فرق تھا،

    اب تو ھر طرف سے مجھ پر نطر رکھی جارھی تھی، جاسوسوں کا بھی کیا منطم گروپ تھا، میرے گھر سے نکلنے سے لیکر بس اسٹاپ، اور جب تک بس میں نہ چڑھ جاؤں، میرا پیچھا ھوتا رھتا، لیکن میں نے بھی یہ کسی کو محسوس نہیں ھونے دیا کہ میں مجھے اپنے پیچھا کرنے والوں کا علم ھے، کبھی کبھی تو وہ میرے ساتھ ھی چلتے رھتے اور پوچھنے پر بتاتے کہ بس ایسے ھی ذرا مارکیٹ جارھا تھا اور کبھی کوئی دوسرا بہانہ، مگر میں بھی انکی چالاکیوں کو جانتا تھا، یہ کل کے بچے آج ھمارے ساتھ مقابلہ کرنے چلے تھے، مگر انہوں نے مجھے بہت تنگ کیا، پیچھے سے آوازیں لگانا، اس کا نام لے کر مجھے برے الفاظوں کے ساتھ چھیڑنا، اس کے علاوہ دیواروں پر چاک سے اور کبھی کوئلے سے میرا اور اس کا نام لکھ کر اس کے ساتھ نازیبا الفاظوں کو لکھنا، جو مجھے بہت تکلیف دیتے تھے، اسے پھر میں اور میرا چھوٹا دوست ننھا مل کر پانی اور برش لے کر صاف بھی کرتے رھتے تھے،

    اس کا نام ننھا تو تھا ھی اور عمر میں شاید مجھ سے کچھ چھوٹا ھی تھا، لیکں اس نے ان دنوں میرا بہت ساتھ دیا تھا، اور وھی میرا ایک زبانی واحد پیغام رسانی کا ذریعہ بھی تھا، اور اب وھی میرے ساتھ زیادہ تر رھتا تھا، اس کے پیچھے بھی کافی جاسوس لگے رھتے تھے مگر وہ تو مجھ سے کہیں زیادہ تیز تھا،

    اکثر وہ اس طرح پیغام لیتا کہ برابر والے کو پتہ نہیں لگتا تھا کبھی کبھی ھم اسی دیوار کے ساتھ گولیاں کھیلتے تو ساتھ جاسوس بھی ھمارے ساتھ چپکے رھتے اور ھماری ایک ایک حرکت پر نظر رکھتے تھے، لیکن گولی کھیلتے کھیلتے اسی دیوار کے ساتھ سامنے والے دروازے پر گولی وہ یونہی پھینک دیتا اور جیسے ھی وہ گولی اٹھانے، وہاں پہنچتا تو دروازے کی آڑ میں سے وہ میرے لئے پیغام سن بھی لیتا، وہ دروازہ انہیں کے گھر کا تھا اور وہ دونوں بھی اسی دروازے کی دراڑ میں سے ھمیں کھیلتے ھوئے دیکھتی رھتی تھیں، اور جیسے ھی وہ ننھا اس دروازے کے پاس کسی بھی بہانے سے پہنچتا اسے اپنا پیغام سنادیتی اور سن بھی لیتا اور بس کہتا چلو بھائی اپنا کام ختم،

    اس کے علاوہ نزدیکی گھروں سے بھی عورتوں کی جاسوسی چل رھی ھوتی تھی، ان کی نطر صرف مجھ پر ھی ھوتی، مگر میرا ننھا اپنا کام کرجاتا اور کسی کو پتہ ھی نہیں چلتا اور سب کو مایوسی ھوتی اور وہ ننھا واقعی میرا ایک مخلص ساتھی تھا، جس نے مجھے اس وقت سنبھالا، جس وقت میں ٹوٹنے والا تھا، وہ بہت بہادر تھا اور اس میں قدرتی بہت طاقت بھی تھی اس سے میں خود کئی دفعہ مار کٹائی میں ھار چکا تھا، جب کبھی اس سے میری دوستی نہیں تھی اور محلے والے بھی اس کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، جب اس نے دیکھا کہ مجھ سے تمام محلے کے لڑکے دور ھوتے جارھے ھیں، اور مجھے تنگ کرنے لگے ھیں تو وہ میرے سامنے آگیا اور پھر اس نے تمام مخالفتوں کے باوجود سب سے گن گن کر بدلا لیا، میں لڑائی سے بہت دور بھاگتا تھا، اور اسے بھی بہت روکتا تھا لیکن وہ میری ایک نہیں سنتا تھا اور ھر ایک سے لڑ پڑتا تھا اکثر لڑکے اس سے گھبراتے بھی تھے، کیونکہ وہ ایک تو پھرتیلا بہت تھا اور دوسرے وہ کسی کا بھی آسرا نہیں کرتا تھا، فوراً اسکے ھاتھ میں جو چیز بھی آجائے اٹھا کر ماردیتا تھا، اس کا نشانہ بھی بہت پکا تھا، ایک دفعہ اس نے تو میرا سر بھی پھاڑ دیا تھا جس وقت میری اور اسکی بات چیت نہیں تھی،

    اور اب بھی وہ دونوں میرے لئے اتنی بےچین رھتیں کہ شاید روتی بھی ھونگی اور ان کی والدہ ان دونوں کے لےکر ان کی کسی سہیلی کے گھر پہنچ جاتیں جسکا مجھے ننھے دوست سے پہلے ھی خبر مل چکی ھوتی تھی، اور میں بڑی مشکل سے جاسوسوں کو چکما دے کر آخر وہاں پہنچ ھی جاتا تھا، گھر سے بس اسٹاپ تک میرے ساتھ رھتے تھے اور جیسے ھی میں بس میں بیٹھتا وہ واپس چلے جاتے، جب ننھا میرے ساتھ ھوتا تو کوئی بھی جاسوس میرے پیچھے نہیں ھوتا تھا، مگر افسوس کہ صبح کے وقت ننھا اسکول میں ھونے کی وجہ سے میرے جاسوسوں کو میرا پیچھا کرنے کا موقعہ مل جاتا تھا،

    میں بس میں سوار تو ھوجاتا لیکن اگلے اسٹاپ پر اتر کر واپس پیدل دوسرے محلے میں ننھے کے بتائے ھوئے گھر پر پہنچ جاتا، اور بس پھر گپ شپ شروع ھوجاتی، وہاں سب ھوتے اور حالات کا رونا ھی روتے رھتے اس طرح کی ملاقاتیں مجھے خود بھی اچھی نہیں لگتی تھیں، کسی دوسرے کے گھر او ڈر بھی لگا رھتا تھا اور ھم روزانہ اسی ڈر کی وجہ سے گھر بھی بدلتے رھتے تھے، جیسے خانہ بدوشوں کی طرح، آکر کچھ دنوں میں اس سے بھی عاجز آگئے، مگر میرے دوست ننھے نے بڑے بڑے ایسے کام دکھائے کے جاسوسوں کا ناک میں دم کردیا، اور وہ بھی آہستہ آہستہ میری مخالفت سے پیچھے ھٹتے جارھے تھے،

    اب میں ان کے گھر پر ھی چھپ چھپا کر جانے لگا، گھر سے نکلنے سے پہلے ھی مجھے ننھے کی طرف سے ایک سیٹی کی صورت میں گرین سگنل مل جاتا اور میں گھر سے دوپہر کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر نکلتا اور ننھے کی کو دیوار کے ایک کونے پر کھڑا ھوا پاتا اپنے گھر سے اس دیوار کے کونے تک پہنچتے پہنچتے وہ مجھے ہر خطرہ سے آگاہ کرتا رھتا وہ وہاں کونے پر کھڑا ٹریفک سپاھی کی طرح چاروں طرف سے دیکھتا ھوا مجھے اشارے کرتا رھتا وہ میرے پیچھے بھی دیکھ رھا ھوتا تھا اور دیوار کی دوسری طرف بھی اسکی نطریں ھوتی تھیں اس کے علاؤہ دائیں اور بائیں کی گلیوں کا تو وہ خاص خیال کرتا تھا اور ھمارے کچھ مخصوص کوڈ ورڈ بھی تھے، جسے ھم دونوں ھی سمجھ سکتے تھے، وہ اپنے اشاروں سے ھی مجھے گائیڈ کرتا رھتا اور اپنے گھر کے دروازے سے لیکر دوسرے کونے تک اس کے اشاروں کو سمجھتے ھوئے، بغیر آگے پیچھے دیکھے ھوئے، چلتے ھوئے اس کونے تک پہنچتا اور جیسے ھی ننھے کا اشارہ مثبت میں ھوتا تو میں خاموشی سے ان کے گھر میں ھوتا ورنہ دوسری طرف نکل جاتا،

    اس طرح ڈر ڈر کر گھر میں داخل ھونا بھی بہت مشکل نظر آتا تھا اور چھپ چھپ کر ملنا بھی خطرناک ثابت ھوسکتا تھا، لیکن ھم تینوں ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے، اس دوراں بھی ھر بات ھوتی دنیا کی بحث ھوتی لیکن مجھے دو لفظ جسے اظہار محبت کہتے ھیں نہیں کرسکا، لاکھ کوشش کی لیکن بے سود اور ان حالات میں تو اور بھی مشکل تھا، یہی کافی تھا کہ ملاقات ھی ھو جاتی اور واپسی کا بھی ٹائم مقرر تھا، ننھے کی پہلی سیٹی پر میں تیار ھو جاتا دوسری سیٹی پر بالکل دروازے کے پاس الرٹ کھڑا ھوجاتا اور یہ دونوں بھی اِدھر اُدھر کھڑکی سے یا گھر کے صحن کی دیوار سے باھر جھانک کر لائن کلئیر کا سگنل ایک دوسرے کو دیتیں اور ننھے کی تیسری مخصوص سیٹی کی آواز پر میں فوراً خاموشی سے دروازے سے باھر اپنے گھر کے بجائے سیدھا باھر جانے والے راستے کی ظرف نکل جاتا،

    آگے کچھ فاصلے پر پہنچ کر ایک چھوٹی سے نالے پر ایک پُلیا پر بیٹھ کر میں اپنے دوست ننھے کا انتظار کرتا وہ بھی بعد میں مجھے جوائن کر لیتا اور بعد میں ھم دونوں کہیں بھی گھومنے نکل جاتے اور اب میرا پہلا اور آخری رازدار ھی تھا، جسے میں اپنی ساری باتیں بتاتا تھا، اور اس نے جتنا میرا اس معاملے میں خیال رکھا ھے، اس نے ھر ایک سے میری خاطر دشمنی مول بھی لی، اگر یہ ننھا نہ ھوتا تو میری تو ھمت نہیں تھی کہ اس طرح میں ان لوگوں سے مل سکتا، ھم نے کبھی کوئی ایسا دل میں کوئی برا خیال یا کسی غلط نیت کے بارے میں نہین ‌سوچا، جیسا کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ لڑکیاں مجھے غلط راستے پر لے جارھی تھیں، بس ایک مجبوری یہ تھی کہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے،

    میری طرف سے لوگوں نے بہت کوشش کرلی لیکن میرے بارے میں کوئی ایسا سراغ نہ پا سکے کہ میں ان سے ملتا ھوں، لیکن نہ جانے کسی طرح یہ خبر والدہ کے کانوں میں پڑ گئی کہ میں اب بھی ان کے گھر پر چوری چوری جاتا ھوں، جس کا کہ والدہ نے مجھے خبردار بھی کیا کہ دیکھو جس دن تمھارے ابا جی کو پتہ چل گیا وہ تمھیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، میں نے صاف انکار کردیا نہیں ایسا ھوھی نہیں سکتا، مگر والدہ نے بہت عاجزی سے کہا کہ خدارا اب آئندہ ایسا مت کرنا ھماری عزت رکھ لینا وغیرہ وغیرہ !!!!! جس کی میں نے پھر بھی کوئی پرواہ نہیں کی اور پھر ایک دن ؟؟؟؟؟؟؟؟

    اب تو اتنی پریکٹس ھو گئی تھی کہ روز بلاجھجک بالکل اپنے ٹائم پر اسی ترکیب سے پہنچ جانا ھم تینوں کسی ڈر اور خوف کے بغیر بلکل اپنے آپ میں مگن رھتے، ساتھ ھماری نانی اور خالہ بھی ھوتیں اور باھر ھماری چوکیداری ننھا کرتا رھتا، مگر اس بات سے بے خبر کہ برابر والے گھر کی دیوار میں اوپر کی ظرف سے ایک سوراخ سا ھوگیا تھا اور کسی نے بھی اس ظرف توجہ نہیں دی یا تو پہلے سے ھی تھا، اور ان پڑوسن کا ھمارے گھر آنا جانا بھی تھا، ایک اور نئی ھماری جاسوسی شروع ھوگئی لگتا تھا کہ کئی دنوں تک انہوں نے مجھ پر نگرانی کی اور ایک دن جیسے ھی میں ان کے گھر پہنچا اور خبر میرے گھر پہنچا دی گئی!!!

    کچھ ھی لمحے بعد دروازے پر دستک ھوئی اور جیسے ھی دروازہ کھلا سامنے میں نے اپنی والدہ کو پایا، اور زندگی میں پہلی مرتبہ ان کے منہ سے اُن کے خلاف غصہ میں جو کچھ کہہ سکتی تھی کہنا شروع کیا اور وہ سب خاموش انہیں تکتی رھی نہ جانے کیا کیا کہ تم لوگوں نے میرے بیٹے کی زندگی برباد کردی ھے ، تم لوگ ایسی ھو ویسی ھو، تم لوگ اس محلے میں رھنے کے قابل نہیں ھو، میں تمھیں اس محلے سے نکال کر رھونگی اور نہ جانے کیا کیا کہا، کوئی بھی ماں ھوتی تو شاید اس سے بھی زیادہ کہتی، بہرحال انہوں نے مجھ سے صرف اتنا ھی کہا کہ تم اپنی والدہ کو لے جاؤ اس سے پہلے کہ ھمارا دماغ خراب ھوجائے، اور انہوں نے ایک لفظ بھی میری والدہ سے کچھ نہیں کہا !!!!

    میں نے بڑی مشکل سے انہیں پکڑ کر اپنے گھر لے گیا باھر لوگوں کا رش بھی جمع ھوگیا تھا اور وہ سب مجھے اور ان لوگوں پر کافی لعن طعن کررھے تھے!!!!!!!

    اور اس کی خبر والد صاحب کو بھی گھر آنے سے پہلے ھوگئی تھی، لوگ تو پہلے سے ھی منتظر تھے کہ میرے ابا آئیں اور ان کے کان بھریں گھر آنے سے پہلے وہ بھی ان کے شاید گھر پہنچے اور نہ جانے ان کو کیا کیا کہا ھوگا !!!!! اور پھر گھر آتے ھی مجھ پر برس پڑے کہ،!!!!!!

    تُو تو اس قابل ھی نہیں ھے کہ اس گھر میں رہ سکے، اور میں کل سے تیرا یہ منحوس چہرہ دیکھنا ھی نہیں چاھتا، ھمیں بہت تو نے بدنام کردیا اب اللٌہ کے واسطے ھماری جان چھوڑ دے !!!!!!!!!!

    کھانا تو دور کی بات ھے، پانی تک بھی پینے کا ھوش نہیں رھا تھا، آخر محلے والے اپنی مکمل سازش میں کامیاب ھوچکے تھے، اور باھر سب خوشیاں منا رھے تھے دونوں فیملیز کو پریشان کرکے، اور پورے محلے میں صرف میرا دوست ننھا ایک کونے میں اسی دیوار کے ساتھ خاموش بیٹھا ایک میرے لئے سوگ منا رھا تھا!!!!!!!!!

    دوسرے دن والد صاحب کے جانے کے بعد صبح اٹھا اور گھر میں ایک سودا لانے کی ٹوکری اٹھائی اس میں خاموشی سے اپنے چند پہنے کے کپڑوں کے جوڑے رکھے اور والدہ کی اسی خفیہ جگہ سے 500 روپے کے بانڈز آٹھائے، اور انہیں تین چار جگہ تقسیم کرکے الگ الگ جیبوں میں ڈالا اور سیدھا گھر سے نکل گیا، بغیر کسی کو بتائے ھوئے نامعلوم منزل کی طرف !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج کا شکار

    دوسرے دں والد صاحب کے جانے کے بعد صبح اٹھا اور گھر میں ایک سودا لانے کی ٹوکری اٹھائی اس میں خاموشی سے اپنے چند پہنے کے کپڑوں کے جوڑے رکھے اور والدہ کی اسی خفیہ جگہ سے 500 روپے کے بانڈز آٹھائے، اور انہیں تین چار جگہ تقسیم کرکے الگ الگ جیبوں میں ڈالا اور سیدھا گھر سے نکل گیا، بغیر کسی کو بتائے ھوئے نامعلوم منزل کی طرف !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ میرے جانے کے بعد میری ماں پر کیا گزرے گی، والد کو کیا حال ھوگا اور چھوٹے بہن بھائی میرے لئے کتنا روئیں گے اور اس فیملی کا کیا ھوگا جس کی وجہ سے میں جذبات میں آکر مقابلہ کرنے کے بجائے والدصاحب کی ایک چھوٹی سی دھمکی سے اپنا گھر چھوڑ رھا تھا، اور ان کو کس کے رحم و‌کرم پر چھوڑ کر جارھا تھا، اور میرے بعد ان کا کیا لوگ حشر کرتے، میرے بہانے سے لوگ ان پر کیا کیا لعن طعن کرتے، ان کا جینا حرام کردیتے، یہ میری اپنی زندگی کی ایک اور بہت بڑی غلظی کرنے جارھا تھا !!!!!!!!!

    ٹوکری اٹھائے اور چپکے سے ایک عجیب سے بے قابو جذبات لئے، میں اپنا گھر چھوڑ رھا تھا، اسی دیوار کے کونے پر پہنچ کر دوسری طرف گھومنے سے پہلے ایک مرتبہ پیچھے مڑکر میں نے آخری بار اپنے گھر کا دیدار کیا اور ان دونوں کے گھر کا بھی جو اسی موڑ پر تھا، میں نہیں چاھتا تھا کہ کسی کو بھی میری خبر ھو اور میں اس طرح خاموشی سے ٹوکری اٹھائے جارھا تھا، جیسے کہ گھر کا سودا لینے جارھا ھوں، کسی کو بھی نہیں بتایا، مجھے معلوم تھا کہ اگر کسی کو بھی بھنک پڑجاتی تو شاید میں وھاں سے بھاگ نہیں سکتا تھا، میرا دوست ننھا بھی شاید اسکول گیا ھوا تھا، اس کو بھی پتہ نہیں تھا، کہ میرا کل کا کیا پروگرام ھے، ورنہ تو شاید وہ بھی میرے ساتھ نکل لیتا، یا مجھے جانے نہیں دیتا کیونکہ وہ کچھ زیادہ ھی طاقت رکھتا تھا،

    ابھی تک میں یہ فیصلہ کر نہیں پایا تھا کہ مجھے جانا کہاں ھے اور بس غصہ اور جذبات حالت میں چلا جارھا تھا، راستے میں اپنے کچھ محلے کے لوگوں نے مجھ سے گزشتہ کل کے بارے میں سوال بھی کئے مگر میں نے کسی کا کوئی جواب نہیں دیا، میں گردن جھکائے اپنے محلے کی گلیوں سے ھوتا ھوا اس دیوار کو ایک بار پھر پیار سے دیکھتا ھوا اور الٹے ھاتھ میں ٹوکری اور سیدھے ھاتھ سے اس پکی اینٹ کی مضبوظ ملٹری کی دیوار کو چھوتا ھوا گزررھا تھا، جبکہ مجھے محسوس ھی نہیں ھوا کہ اس سیدھے ھاتھ کی ھتیلی میں اس دیوار کی رگڑ سے چھل جانے کیوجہ سے ھلکا ھلکا خون بھی رس رھا تھا، جب کافی آگے نکل گیا تو ھاتھوں میں کچھ گیلا گیلا سا لگا میں تو پہلے یہ سمجھا کہ شاید پسینہ ھوگا جیب سے رومال نکالا اور بغیر دیکھے ھی پسینہ سمجھ کر پونچھنے لگا تو کچھ درد سا محسوس ھوا،

    ایک جاننے والے کی دکان سے جہاں برف بھی بکتی تھی کچھ برف کے ٹکڑے لئے اور ھتیلی میں برف کے ٹکڑے رکھ کر کچھ دیر ان کو مسلا ، جس سے مجھے کافی آرام ملا تھا، ھلکی سی خراش تھی راسنے میں ھی ٹھیک ھوگئی، لیکن پھر بھی ٹوکری کو سیدھے ھاتھ سے پھر بھی پکڑنے میں تکلیف ھوتی تھی -

    اور پھر ایک انجان منزل کی طرف خود بخود میرے قدم بڑھتے جارھے تھے، ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا جارھا تھا کہ کہاں جانا چاھئے، مگر مجھے میرے قدم کینٹ ریلوے اسٹیشن پر لے گئے، جو ھمارے محلے سے کچھ قریب ھی تھا، اور اکثر میں وھاں سے ھی شہر کیلئے بس پکڑتا تھا، جبکے اس سے نزدیک بھی ایک اور بس اسٹاپ تھا لیکن بس مجھے کچھ بچپن سے ھی ٹرینوں کو آتے جاتے دیکھنے کا شوق رھا تھا، اسلئے ٹرینوں کو آتے جاتے دیکھتا ھوا اسٹیشن پہنچ کر ھی وھاں کے بس اسٹاپ سے بس پکڑتا تھا اور محلے کے لوگوں کی نظروں سے بھی دور رھتا تھا کیونکہ وہاں بس کیلئے شاید کوئی آتا ھوگا اور یقینی بات ھے کہ نزدیک والے بس اسٹاپ کو چھوڑ کر کسی کا کیا دماغ خراب ھے کہ وہ دور کے بس اسٹاپ پر جائے،

    اب ریلوے اسٹیشن تو پہنچ گیا اور سیدھا رزرویشن کاونٹر پر جاکر آج کے شام کی تیزگام کا ٹکٹ لاھور کیلئے پوچھا، شاید اس نے کہا کہ 26 روپے اور کچھ آنے دو میں نے جیب مین دیکھا تو اسوقت میرے پاس دس یا بارہ روپے تھے، میں نے اس سے کہا کہ میں ابھی واپس آتا ھوں، اور سیدھا نزدیک کے بنک میں گیا اور 100 روپے کے بانڈز کیش کروائے، واپسی سے پہلے وھیں اسٹیشن کے نزدیک ھی سارے کپڑے جو ٹوکری میں تھے، ایک دھوبی کی دکان میں استری کیلئے دئیے، اور بازار گیا وہاں سے ایک خوبصورت سا چھوٹا سوٹ کیس اور کچھ مزید ضرورت کے استعمال کی چیزیں خریدیں اور ریلوے اسٹیشن کی رزرویشن کاونٹر سے لاھور کیلئے تیزگام کے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ لے لیا، ان دنوں تیزگام میں سیکنڈ اور تھرڈ کلاس نہیں ھوتا تھا، اور یہ میری پسندیدہ ٹرین بھی تھی !!!!!!! اور یہ سوچئے کہ اس وقت تمام چیزیں، ٹکٹ کے ساتھ خرید کر بھی تقریباً 50 روپے کے لگ بھگ جیب میں بچے ھوئے تھے!!!!

    یہ سب کچھ پلاننگ کے بغیر ھی وقت کے ساتھ ساتھ فیصلے ھوتے جارھے تھے، اب کچھ پتہ نہیں تھا کہ لاھور کا ٹکٹ تو لے لیا ھے، لیکن جانا کہاں ھے یہ سوچا ھی نہیں !!!! بس اچانک خیال آیا کہ ایک میرا قلمی دوست لاھور میں رھتا تھا اور اس سے اکثر بس خط وکتابت تک کی جان پہچاں تھی، اس کے گھر کا ایڈریس بھی مجھے زبانی یاد تھا، فوراً یہ یاد آتے ھی میں ریلوے اسٹیشن کے ٹیلیگراف آفس پہنچا اور اس دوست کو ایک ٹیلگرام دیا کہ میں کل تیزگام سے لاھور پہنچ رھا ھوں،
    ٹیلیگرام تو دے دیا لیکن سوچنے لگا کہ میں اسے اور وہ مجھے کیسے پہچانے گا صرف ھم دونوں کے پاس ایک دوسرے کی تصویریں ضرور تھیں، اور اسوقت تو میرے پاس وہ بھی نہیں تھی، چلو دیکھا جائے گا، یہ سوچ کر چپ ھوگیا،

    خیر سوٹ کیس میں دھوبی کی ھی دکان پر استری شدہ کپڑے ڈالے اور دوسری چیزیں بھی ساتھ ھی ڈال دیں اور ابھی تو تیزگام کے جانے میں کافی وقت تھا کیونکہ شام کے 4 بجے ھی کینٹ اسٹیشن سے اسے روانہ ھونا تھا، ابھی تو دوپہر کا ایک بھی نہیں بجا تھا، بس سوچا کہ کسی ریسٹورنٹ میں جاکر کھانا کھاتے ھیں، کھانا تو منگا لیا لیکن حلق سے پہلا ھی نوالہ نہیں ‌اتر رھا تھا، میں پریشان ھوگیا کہ یہ کیا ھوا، بڑی مشکل سے چائے کی ایک پیالی دو تیں بسکٹ کے ساتھ کھائے، کھانا بالکل نہیں کھا سکا، اور واپس اسٹیشن کے فرسٹ کلاس کے ویٹنگ روم میں جاکر ایک صوفہ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ساتھ ھی سوٹ کیس بھی ایک طرف رکھ لیا، ویسے بھی میں گھر سے تیار ھوکر ھی اچھے ھی کپڑے پہن کر نکلا تھا، اور واقعی ایک مسافر ھی لگ رھا تھا !!!!!!!!

    بڑی مشکل سے وقت گزررھا تھا، ایک قلی نے بتایا تھا کہ اسی ویٹنگ روم کے سامنے والے ھی پلیٹ فارم پر تیزگام دو گھنٹے پہلے ھی لگ جائے گی اور ابھی ڈھائی بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے، کسی کا بھی انتظار بہت مشکل ھوتا ھے، !!!!!
    بہرحال وہ وقت بھی آگیا کہ تیزگام الٹی پلیٹ فارم کی طرف اپنی شان و شوکت کے ساتھ آھستہ آہستہ لگتی جارھی تھی، اور میں بھی اٹھا اور فرسٹ کلاس کے اپنے ڈبے میں جاکر بالکل کھڑکی کے پاس ھی قدرتی سیٹ ملی تھی، جاکر بیٹھ گیا !!!!!!!!!

    آخر کو وہ وقت آھی گیا، سگنل ڈاؤن ھوگیا اور تیزگام کے انجن نے اپنی روانگی کی مخصوص سیٹ دی، ادھر گارڈ نے بھی ھر جھنڈی لہرانا شروع کردیا اور ساتھ ھی اپنی سیٹی بھی سنا دی، پھر بھی کچھ لوگ اتر رھے تھے کچھ جلدی جلدی چڑھ رھے تھے قلی بھی ساتھ شور مچا رھے تھے، کچھ لوگ پلیٹ فارم پر سے مسافروں کو ھاتھ ھلا ھلا کر الوداع کہہ رھے تھے اور میں اکیلا ھی کھڑکی سے یہ سب منظر دیکھ رھا تھا مجھے الوداع کہنے والا کوئی نہیں تھا اور تیزگام آھستہ آھستہ اپنے پلیٹ فارم کو چھوڑ رھی تھی !!!!!!!!!!!!!!!!!

    جیسے ھی اسٹیشن سے تیزگام نکلی، میں اپنی سیٹ کے پاس والی کھڑکی سے اپنے شہر کو پیچھے جاتے ھوئے دیکھ رھا تھا، ابھی اسپیڈ کچھ کم ھی تھی، تو سامنے سے ایک دم میرا علاقہ بھی نظر آگیا اور وہ جگہ بھی جہاں سے میں بیٹھ کر ٹرینوں کو آتے جاتا دیکھتا تھا، آج میرا دوست ننھا مجھے ڈھونڈ رھا ھوگا، اور نہ جانے گھر والے کیا سوچ رھے ھونگے اور اگر رات گئے تک میں گھر نہیں پہنچا تو ایک کہرام مچ جائے گا، یہ سوچتے ھی میری آنکھوں میں آنسو جاری ھو گئے، کہ اچانک سامنے ایک صاحب نے پوچھا کہ!!!! کیا بات ھے بیٹا !!! کیوں پریشاں ھو، اپنوں سے بچھڑ کر تو دکھ ھی ھوتا ھے، کہاں جارھے ھو !!! میں نے جواب دیا کہ!!!! ایک دوست سے لاھور ملنے جارھا ھوں!!!!! تو اس میں پریشانی کیا ھے، رو کیوں رھے ھو ، انہوں نے مجھے پیار سے پوچھا!!!! میں نے بس یہی کھا کہ گھر والوں سے بچھڑ کر دکھ ھو رھا ھے، !!!!!

    اور اسی ظرح ان سے باتیں کرتے ھوئے مجھے کچھ سکون ملا ان کی باتوں سے پتہ چلا کہ وہ بھی لاھور ھی جارھے ھیں اور لاھور میں ھی رھتے ھیں اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی مشکل آئے تو اس پتہ پر مجھ سے رابظہ کرلینا، ٹرین بھی اب فل اسپیڈ سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی اور رات بھی ھورھی تھی، کوٹری جنکش کا اسٹیشن آیا تو کچھ کھانے کیلئے میں نے ٹرین کے بیرے سے منگوایا، لیکن نہ جانے میرا بالکل ھی دل نہیں چاہ رھا تھا، کچھ بھی نہ کھا سکا حالانکہ کل سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا، سامنے سیٹ پر بیٹھے ھوئے صاحب نے کچھ کینو وغیرہ دیئے، تو وہ میں نے بڑی مشکل سے کھائے اور پھر سب نے اپنی اپنی برتھیں کھولیں اور سونے کی تیاری کرنے لگے،

    میری برتھ نیچے ھی تھی، چادر پاس نہیں تھی نہ کوئی تکیہ تھا ویسے ھی میں لیٹ گیا، سوٹ کیس سیٹ کے نیچے ھی رکھا ھوا تھا، موسم بھی اچھا ھی تھا، سونے کی بہت کوشش کی مگر نیند نہیں آئی، بار بار گھر کا خیال آرھا تھا کہ وہاں کیا ھورہا ھوگا اور آنکھوں سے ایک آنسووں کا دریا بہہ رھا تھا، واپس جانے کے خیال سے ھی دل کانپ جاتا، کیونکہ والد صاحب کا ڈر اور ان کے وہ ڈائیلاگ ذہن میں گونج رھے تھے، اسی رات کے سفر میں ھی اور ٹرین کی کھٹ کھٹا کھٹ میں تقریباً سارا سفر ختم ھونے کو تھا، صبح صبح کی روشنی میں پنجاب کی سہانی صبح دیکھ رھا تھا وھی لہلہاتے کھیت اور باغات اسی اسپیڈ سے میرے سامنے سے گزر رھے تھے!!!!!!!

    صبح کے تقریباً 8 بجے کے قریب ٹرین نے اپنی رفتار کچھ دھیمی کی، تو یہ اندازہ ھوا کہ لاھور آنے والا ھے، سب لوگ اپنا اپنا ساماں سمیٹنے لگے، میرے پاس تو سمیٹنے کے لئے ایک چھوٹے سے ھی سوٹ کیس کے علاؤہ کچھ بھی بھی نہیں تھا، جیسے ھی اسٹیشن کے اندر ٹرین داخل ھوئی ایک الگ ھی گونجتا ھوا شور سنائی دیا لاھور کا ایک واحد اسٹیشن ھے جو چاروں ظرف ھی بند اور گھرا ھوا ھے اور شاید پاکستاں کا بہت بڑا اسٹیشن ھے، اگر یہاں کوئی گم ھوجائے تو ملنا بہت مشکل ھے، بہرحال اسٹیشن پر گاڑی تو رک گئی، لیکن میں ابھی کھڑکی میں ھی بیٹھا رھا، تاکہ کچھ رش کچھ کم ھوجائے اور میں کھڑکی سے ھی اپنے دوست کو پہچاننے کی کوشش کرتا رھا، اتنے رش میں کسی کو تلاش کرنا اور وہ بھی بغیر دیکھے ھوئے، صرف ایک تصویر کا ایک دھندلا سا دماغ میں خاکے سے کیسے اتنے رش میں پہچانا جاسکتا ھے، اور ویسے بھی میری حالت غیر ھوچکی تھی !!!!!

    تھوڑی دیر بعد میں ٹرین کی بوگی سے اترنے کیلئے گیٹ پر کھڑا ھی تھا کہ ایک لڑکے کو جو تقریباً میرا ھی ھم عمر ھوگا، ایک ھاتھ میں تصویر لئے ھوئے کسی کو ڈھونڈرھا تھا، اس کی نظر اچانک مجھ پر پڑی اور وہ مجھے پہچان گیا لیکن میں اسے پہچاں نہیں سکا تھا، اس نے بڑی گرم جوشی سےمجھے گلے لگایا اور مجھ سے میرا سوٹ لیا اور مجھ سے باتیں کرتے ھوئے حال احوال پوچھتے ھوئے باھر نکلے، وہاں سے ٹانگے میں بیٹھ کر اس دوست کے گھر پہنچے، گھر کیا ایک بہت شاندار حویلی لگتی تھی،

    سب گھر والوں نے بہت اچھی طرح سے استقبال کیا، ناشتے کا بہترین بندوبست کیا ھوا تھا، میں ھاتھ منہ دھو کر کچھ تازہ دم ھوا اور پھر ناشتہ کی میز پر کافی سارا مختلف قسم کے پکوان کے ساتھ سجی ھوی تھی اور انکی یہ ایک بہت ھی خوبصورت حویلی لگتی تھی اور ناشنے کی ٹیبل پر تقریباً تمام گھر والے موجود تھے، سب کا باری باری تعارف کرایا گیا لیکن میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رھی تھی، بس ایک جوس کا ھی گلاس بہت مشکل سے پی سکا، اور سب سے معذرت کی، میرا دماغ معاوف ھو رھا تھا اور گھر کی بہت شدت سے یاد آرھی تھی !!!!!!

    کھانے کا بالکل دل نہیں چاہ رھا تھا اور جو کچھ بھی پیتا تھا وہ باھر آجاتا تھا، چکر بھی آرھے تھے، لیکن اس دوست نے ایک ڈاکٹر سے دوائی بھی دلائی لیکن کچھ افاقہ نہیں ھوا، کچھ دیر آرام کیا لیکن بار بار آنکھ کھل جاتی اور بہت زیادہ پریشان تھا، شام کو وہ مجھے راوی کے کنارے لے گیا اور ایک کشتی کرائے پر لے کر مجھے سیر کراتا رھا اور اسی دوران اس نے گانے بھی سنائے اور اس سے یہی پتہ چلا کہ اس کے سارے چچا او تایا کا موسیقی سے ھی تعلق ھے، مجھے اس کے دو تیں گانے اب تک یاد ھیں مجھے بہت اچھے لگے تھے، اور اسکی آواز بھی بہت اچھی تھی،
    ھم تم سے جدا ھوکر، مرجائیں گے رو رو کر
    اس کے علاوہ ایک اور گانا:
    کھلونا جان کر تم تو، میرا دل توڑے جاتے ھو

    میری طبعیت پھر بھی کسی طرح بھی بہل نہیں پا رھی تھی پھر شاید ڈاکٹر کے پاس گئے یا انہوں نے گھر کی ھی کوئی دیسی دوائی کھلائی مگر کوئی فائدہ نہ ھوا، وہ لوگ بھی پریشان ھوگئے تھے حالانکہ ان سب نے اس رات ایک موسیقی کا پروگرام بھی مرتب کیا ھوا تھا اور مجھے خاص طور سے وہاں لے گئے رات کے کھانے کے بعد مگر میں نے صرف سوپ کی ایک پیالی ھی پی تھی،

    آخر کو مجھ سے رہا نہیں گیا ، میں نے اپنے دوست سے کہا کے مجھے واپس اسٹیشن لے چلو مجھے صبح راولپنڈی پہنچنا ھے وھاں پر میرے ایک رشتہ دار رھتے ھیں، ان کے ساتھ میں مری جاونگا کیونکہ میں کچھ بیمار ھوں اور ڈاکٹر نے مشورہ دیا ھوا ھے کہ کچھ دن پرفضا مقام پر گزاروں تو بالکل ٹھیک ھوجاونگا، میرے کافی اصرار پر وہ مجھے اسٹیشن لے گئے اور وہاں پر ایک پسنجر ٹرین راولپنڈی جارھی تھی، مجھے انہوں نے ٹرین میں بٹھا دیا اور ٹرین کے چلتے ھی وہ مجھ سے یہ کہتے ھوئے رخصت ھوگئے کہ میں انہیں راولپنڈی پہنچ کر خط لکھونگا یا ٹیلیفون کروں، انہوں نے مجھے اپنے گھر کا نمبر بھی دیا تھا،

    اب وہاں سے اس پسنجر ٹرین میں ایک خالی برتھ پر لیٹ گیا اور کچھ دیر کیلئے نیند بھی آگئی، پھر دوسرے دں بھی ٹرین ‌چلتی رھی کافی دیر بعد راولپنڈی پہنچی، وھاں سے ایک ٹانگے والے کو کہا کہ کسی سستے سے ھوٹل میں لے چل، وہ مجھے ایک چھوٹے سے علاقے جس کا نام بکرامنڈی تھا اور تیس روپے کرایہ لے لیا، جو کہ اس وقت کے لحاظ سے بہت زیادہ تھے اور ایک ھوٹل کے مالک سے ملوایا کہ یہ ایک شہری بابو ھے کراچی سے آیا ھے اس کو کوئی سستا اور اچھا کمرا دے دو، وہ یہ کہ کر چلا گیا، اس ھوٹل کے مالک نے دو چار سوال کئے اور میں نے بھی انہیں یہی کہا کہ موسم کی تبدیلی کے لئے آیا ھوں، اور اس نے مجھے ایک چھوٹا سا صاف ستھرا کمرا دے دیا اس وقت اس نے مجھے 5 روپے روزانہ پر 50 روپے ایڈوانس لے کر مجھے کمرے کی چابی دے دی،

    وہاں بھی میری حالت غیر ھی تھی، تین دن ھوچکے تھے کچھ بھی کھایا نہیں جارھا تھا فوراً ھی کچھ خیال آیا فوراً ایک خط اپنے گھر پر ابا جی اور اماں کو لکھا اور معافی مانگی اور لکھا کے اب میں گھر اسی وقت آونگا جب تک میں کسی قابل نہ ھوجاؤں مجھے بہت شرمندگی ھے وغیرہ وغیرہ، اور خط پوسٹ کرکے واپس ھوٹل آیا تو کچھ پہلے سے طبعیت بہتر محسوس ھوئی، کچھ تھوڑا سا کھانا بھی کھا سکا اور دوسرے دں سے نوکری ڈھونڈنے کے چکر میں نکل پڑا، تین دن بعد گھر سے دو خط آئے ایک ھوٹل کے منیجر کے نام اور ایک میرے نام اور اتفاق سے دونوں خط اس ھوٹل کے مالک نے مجھے ھی پکڑا دیئے!!!!

    شکر ھے کہ دونون خط میرے ھی ھاتھ لگے ورنہ بڑا مسئلہ ھوجاتا، کیونکہ منیجر کے خط میں یہ لکھا تھا کہ یہ میرا بیٹا گھر سے ناراض ھوکر آپ کے پاس ھوٹل میں ٹھرا ھوا ھے، اسے کسی طرح بھی پیار سے واپسی کراچی کی ٹرین میں بٹھا دو اس کی ماں سخت بیمار ھے وغیرہ وغیرہ!!!!

    اور میرے خط میں لکھا کہ بیٹا جو کچھ بھی ھو بھول جاؤ، مین قسم کھاتا ھوں کہ آئندہ تمھیں کچھ بھی نہیں کہونگا اور جہاں تم چاھتے ھو تمھاری پسند سے ھی تمھاری شادی ھوگی مگر شرط یہ ھے کہ تعلیم کو مکمل کرلو اور اچھی جگہ سروس ھونے کے بعد جو مرضی آئے کرنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ھوگا، لیکن فی الحال گھر فوراً پہنچو تمھاری اماں کی طبعیت بہت خراب ھے، میں نے بھی جواباً بہت اچھا خط اماں اور اباجی کو لکھا کہ میری فکر نہ کریں میں بہت جلد لوٹ رھا ھوں !!!!!!

    اس دن سے پانچوں وقت کی نماز شروع کردی اور وھاں کے اچھے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر درس اور تدریس میں حصہ لینے لگا، اور ایک دن وھاں کے موذن مجھے اپنے ایک روھانی پیشوا بزرگ کے پاس “گجر خان“ کے ایک گاؤں جس کا نام “بانٹھ “ مین لے گئے، ان کے پاس جیسے ھی پہنچا تو انہوں نے سب سے کہا کہ دیکھو آج ھمارے پاس بہت دور سے ایک سٌید زادہ آیا ھے فوراً سارے کھڑے ھوگئے اور بڑے ادب سے ملے اور سب مجھے شاہ جی کہہ کر مخاطب کرنے لگے، ان بزرگ نے مجھے تیں تسبیح 11 مرتبہ ھر فرض نماز کے بعد پڑھنے کو کہا اور پانچوں وقت کی نماز کےلئے تلقیں کی اور وہ واقعی مجھے کوئی بہت پہنچے ھوئے لگ رھے تھے، لمبی سفید داڑھی اور ان کی عمر اس وقت 100 سال سے اوُپر ھی ھوگی، مجھے ان سے ملکر بہت سکون بھی ملا اور اس دن کے بعد کھانا کھانے میں بہتری بھی آئے اور بھوک بھی لگنے لگی تھی،

    اب تو گھر سے خط و کتابت شروع ھوگئی تھی والدہ کی طبعیت اب بہتر تھی لیکن وہ بضد تھیں کہ میں جلد گھر آجاؤں، لیکن میں تو کسی اور اُونچے خوابوں کے چکر میں تھا، مگر افسوس اس بات کی تھی کہ میں نے باجی اور زادیہ کو کوئی خط بھی نہیں لکھا اور نہ ھی کوئی خیریت معلوم کی !!!!!!!!!!!!!

    میں نے اپنی زندگی کے یہ دن بہت ھی پریشانی اور تکلیف میں نکالے تھے، شاید یہ میری اللٌہ کی طرف سے سزا ملی تھی، جوکہ میں نے بعد مین اس کا اعتراف بھی کیا اور اس کا ازالہ بھی کرنے کی کوشش کی، کیونکہ جو میری شروع میں اپنا گھر چھوڑنے کے بعد حالت ھوئی تھی، اللٌہ کسی دشمن کو بھی ایسی تکلیف اور سزا نہ دے -

    میرے لاھور سے راولپنڈی جانے سے پہلے ھی کراچی سے والد صاحب لاھور کے لئے روانہ ھوچکے تھے، حیرت کی بات ھے کہ انہیں نہ جانے اس بات کا کیسے پتہ چلا کہ میں لاھور چلا گیا ھوں، خیر صبح صبح وہ لاھور پہنچ گئے تھے اور بڑی مشکل سے وہ میرے دوست کے گھر پہنچ سکے اور وہ وہاں پر کافی میرے لئے یہ سن کر پریشان ھوئے کہ میں رات کو ھی راولپنڈی کیلئے نکل چکا ھوں، یہ سب مجھے میرے دوست کی زبانی بعد میں پتہ چلا جب وہ مجھ سے ملنے کراچی آیا ھوا تھا، انہوں نے سب کہانی انکو سنائی اور والدہ کا بھی ذکر کیا کہ وہ جب سے نہ کچھ کھا پی رھی ھیں اور لگاتار میرے لئے روتی جارھی ھیں،

    میرے گھر سے نکلتے ھی تمام محلے والوں نے اور ھمارے والدین نے سارا الزام ان دونوں بہنوں اور انکے والدیں پر لگا دیا تھا کہ ان سب نے ملکر مجھے ورغلایا اور گھر سے بھاگنے پر مجبور کیا، اور روز بروز انکو دھمکیاں اور گالیاں اور نہ جانے کیا کیا ان پر ستم نہ ڈھائے، ان سب کی زندگی اجیرن کردی تھی، یہ بھی تمام تفصیل مجھے گھر واپسی پر ھی معلوم ھوئی، مگر انہوں نے خاموشی ھی اختیار کی اور یہی کہا کہ جب میں واپس آجاؤنگا تو ھی سچ کا پردہ اٹھ جائے گا اور جس طرح وہ آپ کا لخت جگر ھے، اُس سے زیادہ ھمیں بھی پیارا ھے اور واقعی ان لوگوں نے وہ دن بھی بہت تکلیف اور مصیبتوں میں گزارے اور مجھے معلوم تھا کہ دونوں فیملیز میرے جانے کے بعد بہت ھی زیادہ تکلیفیں اٹھائیں گی، کیونکہ اب وہ محلہ ویسا نہیں تھا اور وہاں کے لوگ بھی ویسے ھی حاسد اور ایک دوسرے کو لڑانے میں خوش ھوتے تھے،

    میں یہاں راولپنڈی میں دونوں خاندانوں کے لئے صدقِ دل سے دعائیں کررھا تھا اور اپنے گناھوں کی بھی ساتھ ساتھ رو رو کر معافی مانگ رھا تھا، آپ یقیں نہیں کریں گے کہ وھاں کے مقامی لوگ بھی جب مجھے روتے ھوئے دعائیں کرتے دیکھتے تو مجھے گلے سے لگاتے اور یہی کہتے کہ اللٌہ تعالیٰ تمھیں ھر پریشانی سے بچائے، ھر بیماری سے محفوظ رکھے اور شفا دے، وہ یہی سمجھتے تھے کہ میں اپنی بیماری کی وجہ سے ھی موسم کی تبدیلی کیلئے یہں آیا ھوا ھوں، کسی کو بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ میں گھر سے بھاگ کر آیا ھوں، اور انہوں نے مجھ پر رحم کھا کر مجھے مسجد کے ساتھ ھی ایک کمرے میں ھی موذن صاحب کے ساتھ رھنے کی اجازت بھی دے دی، تاکہ میرے ھوٹل کا خرچہ بھی بچ جائے، اور کھانا بھی اڑوس پڑوس سے آجاتا تھا،

    اور موذن صاحب بہت اچھے قاری بھی تھے، اور انکی تلاوت کرنے کا انداز بہت پیارا تھا، وہ میرے اچھے دوست بن گئے تھے اور تقریباً میرے ھی ھم عمر تھے، ھم دونوں اکثر ساتھ ھی رھتے تھے ان کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا، ان سے میں نے یہ بھی وعدہ کرلیا تھا کہ میں ان کو کراچی لے جاؤنگا اور وھاں پر اپنے محلے کی ھی مسجد میں رکھوا دونگا، وہ بھی مجھ سے بہت خوش تھے، انھوں نے میرا بہت خیال رکھا، وہ میرے ساتھ اس وقت تو نہ جاسکے، لیکن میں نے انکے شوق کے مطابق انہی کی پسند سے قران شریف، ترجمے اور تفسیر کے ساتھ اور احادیث کی کتابیں خرید کردیں،

    میں بھی مسجد میں بغیر کسی کرائے کے رھتا تو تھا لیکں مسجد میں موذن صاحب کے ساتھ ملکر سارے مسجد کی صفائی اور ستھرائی کا خیال رکھتا تھا اور تمام چیزوں اور جائے تماز کی تمام صفحوں کا اور قران شریف کے غلافوں کو دھونا اور قرینے سے رکھنا غرض کہ جتنا بھی مجھ سے ھوسکتا تھا میں موذن صاحب کےساتھ ملکر مسجد کی خدمت کرتا تھا، کہ شاید اللٌہ تعالیٰ میری اسی بہانے سن لے، مجھے بخش دے اور میری تمام تکلیفوں اور مصیبتوں سے جان چھڑا دے !!!!!!!!

    اب تو گھر سے خط و کتابت چل پڑی تھی، ادھر اب والدہ کو بھی کچھ سکون تھا اور ان کی طرف سے بھی اب خط آنے لگے اور ھر خط میں یہی ایک بات تھی کہ جلدی سے واپس آجاؤ، میں جواباً انہیں خوب تسلی دیتا کہ سروس کی تلاش میں ھوں، اور جب تک آپ کے پیسے آپ کو واپس لوٹا نہیں دونگا واپس نہیں آؤنگا، میرے لئے شرمندگی کی بات ھے کہ خالی ھاتھ جاؤں، وہ بھی پلٹ کر یہی بار بار لکھتیں کہ ھمیں کوئی پائی پیسہ نہیں چاھئے، تم واپس اجاؤ!!!!!

    اور میں میٹرک پاس، نوکری کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رھا، مگر ھر جگہ ناکامی ھوئی، آخر کو میں نے سوچا کہ چلو اپنے شوق کو ھی کیوں نہ آزمائیں، ایک دن ٹیلیویژن اسٹیشن پہنچ گیا، جو ان دنوں بالکل نیا نیا وجود میں آیا تھا، اور چکلالہ کے ایک ملٹری کے چھوٹی سی بیرک میں چل رھا تھا، وھاں پہنچتے ھی میں سیدھا پروگرام منیجر کے کمرے میں اجازت لے کر پہنچ گیا، اس وقت شاید پورے پاکستان میں وہیں سے بلیک اینڈ واہیٹ کلر میں ایک ھی چینل اپنے پروگرام براہ راست نشر کرتا تھا، صرف مختصر وقت کیلئے شاید آزمائیشی اور تعارفاتی پروگرام شروع کئے گئے تھے۔

    میرا انہوں نے آڈیشن لیا اور ایک چھوٹی سی اسٹوری کو منظرنامے کے ساتھ ساتھ مکالمہ نگاری کے انداز میں لکھنے کو کہا اور کچھ سادے پیپر اور قلم ھاتھ میں تھما کر یہ کہتے ھوئے باھر نکل گئے، کہ میں ابھی آتا ھوں، جب تک آپ اس کہانی پر کام کیجئے، جسے کبھی بچپن میں نے ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگرام میں بھی ایک ڈرامہ نگار صاحب کی اسی طرح لکھنے میں مدد کی تھی، اسی انداز میں ھی ایک جلدی سے اس کہانی کے کرداروں کو ڈائیلاگ کے ساتھ اور ساتھ ھی منظرنامہ کو بھی اس میں پیش کرتا چلاگیا اس کہانی کا کچھ حصہ پیش کرنا چاھونگا جوکہ مجھے کچھ تھوڑا تھوڑا سا یاد ھے،

    ایک فیملی کی کہانی جو جنگل مینں پکنک منانے آئی اور کسی مصیبت کا شکار ھوگئی!!!!!!

    جنگل میں ایک گھپ اندھیرا اور ایک ھاتھ دوسرے ھاتھ کو سجھائی نہیں دے رھا تھا، ھم ایک دوسرے کا ھاتھ پکڑے ایک نامعلوم منزل کی طرف چلتے جارھے تھے ، ساتھ ھی ایک ندی کے پانی کے شور کی آواز اور کبھی مینڈکوں کی اچانک ٹرٹرانے کی آوز سے ایک دم دل کی دھڑکن ایک خوف کی وجہ سے اچھلنے لگتا، کبھی کسی جھاڑی یا درخت سے کسی بندر کی چھلانگ ایک اور ھوا میں ایک عجیب سی ھنگامی سرسراھٹ، ڈراونے سرتال کا رنگ پیش کردیتی اور کبھی نہ جانے کئی مختلف جانوروں کی آوازیں بھی قدم قدم پر دماغ میں ایک ہیبت کا منظر پیش کرھی تھیں، چونکہ اندھیرا ھونے کی وجہ سے ھم آوازوں کا یہ ایک ڈراونی تاثر صرف محسوس ھی کر سکتے تھے، اگر دیکھ سکتے تو اتنا گھبرانے کی نوبت ھی نہیں آتی، کبھی کبھی تو ایک دوسرے کا ھاتھ اگر اتفاقاً بھی ایک دوسرے سے چھو جانے سے بھی ایک دوسرے کی چیخ نکل جاتی تھی!!!!!!!!

    جاوید (کانپتی آواز میں !!!)
    بھیا میرا ھاتھ پکڑلو، مجھے لگتا ھے کہ کوئی سامنے سے مجھے گھور رھا ھے،،،،،،،،،،
    میں نے فورآً ھی دل میں ڈرتے ھوئے ھی جواب دیا ‌!!!!!!
    ارے یار تمھارا دماغ خراب ھوگیا ھے، میں ھی تو تمھارے سامنے کھڑا ھوا ھوں،،،،،،،،،،،

    اتنا ھی لکھا تھا کہ وہ پروگرام منیجر آگئے، میرے ھاتھ سے وہ پرچہ لےلیا اور لگے پڑھنے اور ساتھ ساتھ مجھے گھورتے بھی جارھے تھے، انہون نے پوچھا کہ کیا کرتے ھو!!!! میں نے کہا کہ!!!! ابھی انٹرکامرس میں پڑھ رھا ھوں، !!!! انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا ابھی اپنی تعلیم مکمل کرلو اور ابھی کچھ تھوڑی محنت اور پریکٹس کی ضرورت ھے، تم اپنا ایڈریس وغیرہ نوٹ کرادو، ھم آپ سے ضرور رابطہ کریں گے، اور ابھی ایسا کرو کہ ایک پروگرام آن ایئر جانے والا ھے اس میں اگر شرکت کرسکو تو بہتر ھے اسمیں آپکی آواز کا ٹیسٹ اور کارکردگی کا بھی پتہ چل جائے گا فوراً مجھے ایک فارم دیا اور اس پر میں نے دستخط کردئے
    اس پروگرام کا نام “زینہ بہ زینہ“ تھا اور پہلی مرتبہ ھی ٹیلی کاسٹ ھونے جارھا تھا اور شاید ڈائریکٹ نشر ھونے والا تھا،

    جیسے ھی میں نے فارم بھرا اور دستخط کئے، اس کے بعد مجھے میک اپ روم میں لے جایا گیا جہاں کئی اور آرٹسٹ کا میک اپ ھورھا تھا، فورا میرے پہنچتے ھی ان منیجر صاحب نے میک اپ مین سے کچھ کہا اور اس نے مجھے اشارا کیا اور کرسی پر بیٹھنے کوکہا، وہ سمجھا کہ شاید میں کوئی خاص کردار کرنے باھر سے آیا ھوں اور یہ منیجر صاحب شاید میرے رشتہ دار ھیں، مجھ سے پوچھا کہ یہ آپکے کون ھیں، میں نے اسے جواب دیا کہ نہین!!!!!
    میں نے ذرا اپنا ایک رعب ڈالتے ھوئے کہا کہ مجھے کراچی سے ایک یہاں پروگرام کرنے کےلئے بلایا گیا ھے، آپ وھاں کیا کرتے ھیں میں نے کہ میں وہاں کے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر زیڈ یے بخاری کا رشتہ دار ھوں،
    وہ تو بس کچھ زیادہ ھی مہربان ھوگیا اور کہنے لگا کہ آپ کا میک اپ میں اسپیشل کررھا ھوں !!! میں نے شکریہ کہہ کر خاموشی اختیار کرلی کہیں ایسا نہ ھو کہ باتوں باتوں میں پول ھی نہ کھل جائےََََ !!!!!
    وہ بہت بولتا تھا، میک اپ سے فارغ ھو کر مجھے سیٹ پر لایا گیا جہاں پہلی مرتبہ حبیب بنک کی طرف سے پروگرام “زینہ بہ زینہ“ ایک معلوماتی کھیل ٹائپ کا پروگرام رکارڈ ھونے والاتھا یا ڈائریکٹ ھی نشر ھونے والا تھا، سامنے ٹی وی بھی تھا دو دو کیمرے لگے ھوئے تھے،
    میں مہمانوں کی ساتھ بیٹھا تھا سامنے دو کمپئرئر تھے میرے ساتھ چار یا پانچ لوگ جو وہاں کے ھی آرٹسٹ تھے، پروگرام کے قوائد ضوابظ پہلے ھی بتا دیئے گئے تھے،

    مجھے پہلی مرتبہ اتنی زیادہ خوشی ھو رھی تھی کہ جیسے میں کوئی بہت بہت بڑا پرانا آرٹسٹ ھوں اور کیمرا میرے سامنے اور مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ اور قدرتی میں بھی سوالات کا صحیح صحیح جواب دے رھا تھا اور پہلا سیشن میں جیت چکا تھا اور تالیوں سے مجھے دوسرے درجہ میں لے جایا گیا لیکن وہاں سے اگلی سیڑھی میں جانتے جاتے رہ گیا، !!!!!!!!!!!!!

    پروگرام کے ختم ھوتے ھی میں ان صاحب کے پاس گیا تو انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے چند دنوں میں اگر ضرورت پڑی تو ضرور بلوالیں گے، میں نے اسی ھوٹل کا پتہ دے دیا لیکن جواب تونہیں آیا لیکن گھر سے خطوط کا سلسلہ کچھ زیادہ چل پڑا اور بار بار میری واپسی کا مطالبہ ھی ھوتا رھا، اب میرا دل بھی بہت گھبرانے لگا تھا، کوئی نوکری کا سبب بھی نہیں بن سکا تھا، نوکری کی تلاش مین میں نے پنڈی سے لیکر پشاور تک کا سفر بھی کیا اور چھوٹے بڑے شہروں کا بھی رخ کیا لیکن مجھے ھر جگہ اپنی ماں کی یاد نے بہت تڑپایا اور آخر میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب مجھے واپس جانا ھی چاھئے!!!!!

    جانے سے پہلے میں اپنے اس علاقے میں پہنچا جہاں میں نے اپنا ایک شروع کا بچپن گزارا تھا، وہی اپنا ایک پرانا سا لال اینٹوں کا وہ مکان جو اب کافی بوسیدہ ھوچکا تھا، مجھے اپنی ماں کی یاد دلا رھا تھا، جہاں ھم تیں بہن بھائی اپنی ماں کے ساتھ خوب لاڈ کیا کرتے تھے، اور سامنے “ریس کورس گراونڈ“ کو بھی دیکھا جہاں 1956 سے1958 کے دور میں ایک اپنے بچپں کا ایک خوبصورت دور گزارا تھا، اپنے والد کی انگلی پکڑے ھم دونوں بہن بھائی اس گراونڈ میں ھر شام کو جاتے تھے اور ھم کافی دیر تک کھیلتے رھتے تھے!!!!!

    دو مہینے ھونے والے تھے اور آج میں پھر ریلوے اسٹیشن کی طرف جارھا تھا اور ساتھ موذن صاحب بھی مجھے اسٹیشن تک چھوڑنے آئے تھے ان کی آنکھوں میں، اس روز میں نے آنسوؤں کی جھلک دیکھی تھی، اس مسجد کے آس پاس کے لوگ بھی میرے جانے سے بہت افسردہ تھے، تمام لوگوں نے بھی مجھے بہت گرمجوشی سے رخصت کیا تھا، میں نے دو دن پہلے ھی تیزگام سے کراچی کیلئے سیٹ بک کرالی تھی، اور گھر پہنچنے کی اطلاع بھی دے دی تھی، آج میرا دل بہت خوش تھا کہ میں اپنی ماں کے پاس جارھا تھا، جو میرے لئے بہت تڑپتی اور بہت روتی بھی تھی !!!!!

    آج پھر اسی تیزگام میں ایک کھڑکی کے پاس والی سیٹ میں بیٹھا میں بہت کچھ سوچ رھا تھا کہ اب میں کبھی بھی والدین کی بات ٹالوں گا نہیں اور ھمیشہ اپنی پوری زندگی انکی خدمت میں گزاردوں گا، پہلے تو میں سوچ رھا تھا کہ میں پنڈی میں ھی اپنا مستقبل سنواروں گا لیکن ماں کی دعاؤں کے بغیر یہ بالکل نہ ممکن تھا، تیزگام پھر اپنی اسی تیزرفتاری سے کھٹ کھٹا کھٹ کرتی ھوئی انجن کی ایک مخصوص سیٹی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی، مگر میرے لئے ایک ایک لمحہ بہت بھاری لگ رھا تھا، اور وقت لگتا تھا کہ گزر ھی نہیں رھا تھا، کتنے اسٹیشں آئے اور نکل گئے لیکن آج میری دلچسپی صرف اور صرف میری ماں ھی تھی جس کو میں نے ھمیشہ بہت دکھ ھی دئیے، آج جب میں اس سے دور ھوا تو مجھے اس کا شدٌت سےاحساس ھوا تھا !!!

    کراچی نزدیک آرھا تھا، لیکن پھر بھی یہ کہ سفر کاٹے نہیں کٹ رھا تھا، آخر وہ لمحہ آھی گیا کہ ٹرین کراچی کے شہر کے اندر غل مچاتی سیٹیاں بچاتی انے اسی رفتار کے ساتھ دوڑی چلی جارھی تھی!!!!!!!!!!

    جیسے ھی تیزگام کراچی میں داخل ھوئی، اسکے ساتھ ساتھ میرے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ھوگئیں، اور ڈر بھی اس خوف کے ساتھ کہ کس طرح میں سب کے سامنے آپنے آپکو کس شرمندگی کے ساتھ پیش کرسکونگا، ٹرین کراچی کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آہستہ آہستہ رک رھی تھی، اور میں کھڑکی سے جھانک رھا تھا کہ شاید کوئی مجھے لینے آیا ھوا ھو، دیکھا تو ایک دوست نظر آیا، اس نے مجھے دیکھتے ھی ہاتھ ہلایا، مین‌سمجھ گیا کہ یہی دوست مجھے لینے آیا ھوا ھے، کیونکہ اس کے علاوہ مجھے اور کوئی دکھائی نہیں دیا!!!!

    خیر علیک سلیک کے بعد ھی میں اور وہ پیدل ھی گھر کی طرف نکل گئے، کیونکہ اتنی دور تو نہیں تھا ، آدھے گھنٹے کی مسافت طے کرتے ھی محلے میں جیسے ھی داخل ھوا، بچوں کے ساتھ بڑے چھوٹے، مرد عورتیں ، بچے اور بوڑھے، سب نے مجھے گھیر لیا اور سوالوں کی ایک بوچھاڑ کردی، میں نے علیک سلیک کے علاؤہ کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا، اور سیدھے ھی چلتا رھا، اور سامنے کے گھر کی طرف ھی اچانک دیکھا کہ پردہ کے پیچھے سے دونوں باجی اور زادیہ جھانک رھی تھیں، مگر میں نے بغیر دیکھے ھی کچھ کہے سنے ان کے سامنے سے نکل گیا، جس کا کہ مجھے بعد میں بہت افسوس ھوا، بہرحال بس پھر خاموشی سے اپنے دوست کے ساتھ ھی اپنے گھر میں داخل ھوا جہاں میری امی میرا بےچینی سے انتظار کررھی تھیں اور ساتھ بہں بھائی بھی اور اس وقت تک والد صاحب باھر ھی تھے، والدہ کو دیکھتے ھی میں ان سے گلے لگ کر بہت رویا اور سارے بہن بھائی بھی ساتھ ھی سب مجھ سے لپٹ گئے،

    اور کھانا جلدی جلدی والدہ نے لگایا اور سب بہن بھائی کھانا کھانے میرے ساتھ ھی بیٹھ گئے اور والدہ مجھے پنکھا بھی جھل رھی تھی اور ساتھ انکے آنسو بھی گرتے جارھے تھے، اور میری بھی آنکھیں نم تھی، آج کتنے دنوں کے بعد اپنے گھر کا کھانا کھا رھا تھا دل رو بھی رھا تھا کہ اپنا گھر بھی کیا ھوتا ھے دنیا کی ساری نعمتیں ایک طرف اور اپنا گھر ایک طرف جہاں ماں کی پیار بھری دولت ھوتی ھے، والد صاحب بھی میری خبر سنتے ھی فوراً گھر آگئے، اور گلے لگایا مگر کچھ نہیں بولے اور میں بھی بس خاموشی سے کھانے کھانے میں مصروف ھوگیا!!!!

    آج تقریباً دو مہینے بعد پھر مجھے سکون ملا، بہت تکلیف اور بے سکونی ھی اٹھائی، جس کا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، بس تھوڑی دیر میں ھی میرا دوست ننھا بھی پہنچ گیا، اور بہت ھی شکوہ شکایت کرنے لگا وہ بھی بہت بدل سا گیا تھا اور میرے بغیر اس نے کہا کہ اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رھا تھا، کیونکہ ایک عرصہ سے وہ مجھ سے کبھی جدا نہیں ھوا تھا اور ھم دونوں زیادہ تر ایک ساتھ ھی رھتے تھے، جب سے حالات خراب ھوئے تھے، اس نے میری کافی مدد کی تھی، واقعی وہ ایک مخلص دوست تھا!!!!!!!

    باقی تمام باتیں مجھے اسی کی ھی زبانی معلوم ھوئیں کہ میری غیر حاضری میں کیا ھوا تھا وہ بہت بےچین تھا مجھے تمام کہانی سنانے کیلئے اور میں بھی کچھ سننے کےلئے، مگر اس وقت مجھے اچھا نہیں لگ رھا تھا کہ سب کو چھوڑ کر چلا جاؤں!!!!!!

    کیونکہ دو مہینے بعد تو میں اپنے گھر والوں سے ملا تھا، اور بس میں یہی چاھتا تھا گھر میں سب کو جی بھر کر دیکھوں، اور کچھ نہ کروں، باھر جاکر بھی تو میں ھر ایک کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا اور ھر کوئی تمام حالات اور واقعات جو مجھ پر گزرے تھے ان کو معلوم کرنے کیلئے سب بےچین تھے، اور ھر ایک کو باری باری تمام تفصیل کو دھرانا میرے بس کی بات بھی نہیں تھی اور مجھے آئے ھوئے دو دن گزرچکے تھے، لیکن کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیا، بس ایک بات تھی کہ نماز کیلئے اب پانچوں وقت مسجد میں جانے لگا تھا، اور اس دوران ھر ایک کی یہی کوشش ھوتی کہ مجھ سے کچھ پوچھے لیکن میں خاموش ھی رھتا اور کوئی بہت زیادہ ھی ضد کرتا تو میں عاجزی سے اس کے سامنے ھاتھ جوڑ لیتا، اور بعض اوقات تو میرے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے،

    کبھی کبھی تو میرے پیچھے لڑکے آوازیں کستے اور مذاق بھی اُڑاتے، لیکن اس وقت ان کی ھمت بھی نہیں پڑتی تھی جب میرے پیچھے میرا دوست “ننھا“ ھوتا، اس نے سب کو خبردار کیا ھوا تھا، اگر کسی نے کچھ بھی اگر مجھے ایک لفظ بھی کہا تو اس کی خیر نہیں، اور کئی دفعہ تو وہ کئی لڑکوں سے میری خاطر الجھ بھی چکا تھا، میں نے اسے سمجھایا بھی کہ تو میری خاطر کسی سے بھی جھگڑا نہیں کیا کر لیکن وہ باز نہیں آتا تھا، اور کئی لڑکے بہت اچھے بھی تھے جو مجھے ھر نماز میں باجماعت ملتے تھے، شروع شروع میں انہوں نے ازراہِ ھمدردی کچھ پوچھنا چاھا، لیکن میری خاموشی کے بعد تو انہوں نے بھی کوئی سوال نہیں کیا،

    ننھا بھی میرے ساتھ ھی نماز پڑھنے جاتا اور ساتھ ھی وہ میرے پیچھے پیچھے مجھے گھر تک چھوڑ کر چلاجاتا، اکثر وہ اذان کے وقت ھوتے ھی میرا باھر انتطار کررھا ھوتا، میں اس سے بس ھاتھ ھی ملاتا اور کچھ بھی کہنے کی مجھ میں کوئی ھمت نہیں تھی، اور وہ بھی مجھ سے کوئی سوال نہیں کرتا تھا بس میں اس کو چلتے چلتے ھی دیکھ کر بس روایتاً ھلکا سا مسکرا دیتا تو وہ بھی کچھ مسکرا کر مجھے اس طرح دیکھتا کہ جیسے وہ مجھ سے بہت کچھ کہنا چاھتا ھے، وہ اتنا بولنے والا بس اب تو میرے ساتھ خاموشی سے مسجد اور گھر تک، بس اتنا ھی ساتھ رھتا جیسا کہ وہ میرا کوئی باڈی گارڈ ھو، اور مجھے اسکا ساتھ بھی بہت اچھا لگتا، ایسا مجھے محسوس ھوتا کہ میں اس کے ساتھ ھر وقت ھر کسی پریشانی سے بالکل محفوظ ھوں، کبھی کبھی اگر نماز کیلئے اسے آنے میں دیر بھی ھوجاتی تو میں اپنے گھر کے باھر مین دروازے پر انتظار بھی کرتا، مجھے اس کی دور سے ھی اس کی آہٹ سے ھی اندازہ ھوجاتا کہ وہ آرہا ھے، وہ کبھی کبھی میرے پیچھے ھی سے ان دونوں زادیہ اور باجی کو ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ھوئے میری طرف سے خیریت کا پیغام دے دیتا اور خاموشی کی زبان میں ھی تسٌلی بھی دیتا کہ جیسے وہ بہت جلد میرا آمنا سامنا کرادے گا، وہ دونوں بھی میرے آنے جانے کے وقت ھی اپنے دروازے پر مجھے دیکھنے آجاتی تھیں، لیکن میں ایک لفظ بھی نہیں کہتا تھا اور نہ ھی اسطرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا تھا،!!!

    نہ جانے بس مجھے ایک چپ سی لگ گئی تھی، اور مجھے عبادت کرنے میں بہت مزا آتا تھا اور بعض اوقات تو میں نماز کے بعد مسجد میں اکیلا ھی رہ جاتا تھا اور مسجد کے باھر ننھا میرا انتطار کررھا ھوتا تھا، اور لوگ اسے گھیر لیتے تھے بہت سارے میرے بارے میں سوالات لئے اور کچھ پوچھنے کیلئے کہ آج کل مجھے کیا ھوگیا ھے اور جیسے ھی میں مسجد سے باھر نکلتا وہ سب لوگ اِدھر اُدھر ھوجاتے، اور پھر ھم دونوں سیدھا گھر کی ظرف نکلتے، راستے میں ان دونوں کا گھر بھی پڑتا اور وہ حسب معمول مجھے دیکھنے کیلئے پردے کی آڑ میں سے حسرت بھری نگاھوں سے مجھے تکتی رہتیں، اور میں اسی طرح خاموشی سے سر جھکائے ان کے گھر کا سامنے سے بھی گزر جاتا،

    کئی لوگوں نے تو یہ افواہ بھی اُڑا دیی کہ مجھ پر کسی بھوت پریت وغیرہ کا سایہ ھوگیا ھے، مجھے ایک عادت تو بچپن سے ابا جی کے ھاتھوں پرائمری اسکول کے واقعہ کے بعد مار کھانے کی وجہ سے تھی کہ رات کو اکثر سوتے میں بری طرح چیخنے لگتا تھا اور جبتکہ مجھے کوئی اچھی طرح جھنجھوڑ نہ لے اور میں اٹھ نہ جاؤں، میرے حوش ٹھکانے نہیں آتے تھے، اور یہ عادت مجھ میں اب تک ھے، جو مجھے اپنی وہ پانچویں کلاس سے پورے سال کے سیشن میں پرائمری اسکول سے بھاگ جانے والی اس حرکت کو ایک سبق کی طرح ھمیشہ یاد دلاتی ھے!!!!!!

    کئی دفعہ ننھے نے مجھ سے کہا کہ یار اب تو ٹھیک ھوجاؤ کافی دن ھوگئے، مجھ سے تمھاری یہ خاموشی کی حالت دیکھی نہیں جاتی، میں جواباً اسے صرف یہی کہتا کہ دوست ننھے ابھی تک میری ندامت اور شرمندگی کے آنسو ختم نہیں ھوئے ھیں، جبتکہ میری اپنے اندر کی شرمندگی خود بخود باھر نکل نہیں جاتی، میں اپنی گردن اٹھا نہیں سکتا اور یہ ایک حقیقت بھی تھی کہ مجھے دوبارہ گھر سے بھاگنے کی حرکت کی وجہ سے جو شرمندگی اٹھانی پڑی تھی وہ میں شاید زندگی بھر نہ بھول سکونگا !!!!!!!!!

    اب کچھ دنوں بعد ظبیعیت کچھ بہتر ھوگئی اور آہستہ آہستہ میں کچھ اپنے آپ میں سکون محسوس کررھا تھا، یہ تو واقعی ایک طے شدہ بات ھے کہ جب بھی آپ پانچوں وقت کی نماز باجماعت پڑھیں اور ساتھ ھی نوافل اور اذکار کثرت سے ادا کریں، تو جو بھی پریشانی دکھ یا کوئی بھی تکلیف ھو، بالکل ھی جاتی رھتی ھے، لیکن ھمارے میں یہ ایک بہت بڑی کمزوری ھے کہ جیسے ھی حالات بہتر یا کوئی بھی پریشانی، دکھ یا تکلیف دور ھوجاتی ھے تو اللٌہ کو ھم بھول جاتے ھیں!!!

    آخر ننھے سے صبر نہیں ھوا اور اس نے میرے جانے کے بعد کی اسٹوری سنا ھی دی، جس کے بعد مجھے بہت افسوس ھوا کہ میری اس غلطی کی وجہ سے دونوں فیملیز کو کیا کیا پریشانیاں اٹھانی پڑیں، آپس میں بہت ھی زیادہ جھگڑے ھوئے، اور حالات کافی سے بہت زیادہ کشیدہ ھوچکے تھے، روزانہ کچھ نہ کچھ لڑائی رھتی تھی اور ان لوگوں کا محلے والوں نے ناک میں دم کیا ھوا تھا، اور ان کے والد نے یہ محلہ بھی چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا، مگر میرے واپس آنے تک اس فیصلے کو روکا ھوا تھا، کیونکہ ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے ھی مجھے گھر سے بھاگنے پر اکسایا تھا، اور انہیں یہ بھی معلوم ھے کہ میں کس جگہ پر ھوں، یہ تو اچھا ھوا کہ میری خط و کتابت چل پڑی ورنہ تو بےچاروں اور بےقصوروں کو میری وجہ سے کافی دھمکیاں بھی مل چکی تھیں کہ اگر کچھ دنوں میں میرا پتہ نہ چلا تو ان کے خلاف مقدمہ دائر کردیں گے، اور یہ سب محلے کے چند افراد ھی ھمارے والدیں کو یہ مقدمہ کرنے کیلئے ورغلا رھے تھے، مگر والد صاحب نے پھر بھی اپنی عزت کے لئے اسطرح کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور میرے خط و کتابت شروع ھونے کے بعد ھمارے گھر والوں نے کسی اور کی باتوں کی طرف دھیان نہیں دیا، کیونکہ یہ میں اپنے خط میں مکمل طور پر واضع کرچکا تھا کہ میں کسی کے کہنے بہکانے یا اکسانے پر گھر سے نہیں گیا یہ صرف میرا اور صرف میرا ھی فیصلہ تھا،

    پھر سے وہ رونقیں واپس آرھی تھیں، مجھے والد صاحب نے ایک اور دوسرے کالج جسکا نام عائشہ باوانی کامرس کالج میں سیکنڈ ائیر شام کی شفٹ میں میں داخلہ دلا دیا، اور گھر سے بھی کچھ قریب ھی تھا اور اس کالج کے پیچھے وہ پرائمری اسکول بھی تھا، جہاں سے کبھی پانچویں کلاس پاس کی تھی اور اس سے پہلے اسی اسکول سے بھاگا بھی تھا، وہ دن یاد آتے ھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ھے، اس کالج میں کافی پابندی تھی، اور اچھے کالجوں میں سے ایک تھا اور ھمارے اکاونٹس اور اسٹیٹس کے لیکچرار جناب اسلم صاحب بہت ھی قابل استادوں میں سے تھے، اں کا پڑھانے کا دوستانہ انداز میں آج تک نہیں بھولا، یہ میں کہہ سکتا ھوں کہ آج جس اکاونٹس کی پوزیشن میں ھوں، ان ھی کی محنت اور کاؤش کا نتیجہ ھے، وہ میرے صحیح معنوں میں اس فیلڈ کے پہلے استادوں میں سے ایک تھے اور میں اپنے تمام استادوں کو آج تک نہیں بھولا ھوں، چاھے وہ میرے اسکولوں یا کالجوں کے استاد تھے یا میری سروس کے دوران جن سے میں نے کچھ نہ کچھ حاصل کیا تھا، ان سب کے لئے آج بھی میں صدقِ دل سے دعائیں کرتا ھوں!!!!

    مجھے اب سیکنڈ ایئرکامرس میں کل آٹھ پیپرز پچھلے سال کے 3 پیپرز ملا کر دینے تھے اور اس کے لئے مجھے کافی محنت بھی کرنی تھی، اس کے لئے والد صاحب نے بہت پیار سے یہی کہا کہ اب تمھاری مرضی ھے کہ کس طرح اور کس پوزیشن میں پاس کرتے ھو یہ تمھارے مستقبل کا سوال ھے، اگر اپنی زندگی میں کچھ بننا چاھتے ھو، تو تمھیں محنت تو ضرور کرنی پڑے گی، اور اب میں تمھیں کچھ نہیں کہوں گا اب تمہیں خود اپنے پیروں پر کھڑا ھونا ھے اور وہ بھی بغیر سہارے کے اگر محنت کروگے تو تمھاری قابلیت ھی تمھارے سہارا بنے گی ورنہ تمھارا کچھ بھی نہیں ھوسکتا، اور یہ بھی کہا کہ ھوسکتا ھے کہ کمپنی میرا کچھ دنوں بعد میرا ٹرانسفر سعودی عرب میں کردے تو تمھیں ھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ اپنے گھر کو بھی سنبھالنا ھوگا، مجھے امید ھے کہ ھر لحاظ سے میری غیرحاضری میں اپنے گھر کا خیال رکھو گے!!!!

    اب تو مین واقعی خوب اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دینے لگا، اور اب میرا دوست ننھا بھی اپنے والدین کے ساتھ کسی اور اچھی جگہ جا چکے تھے، اور ھمارے والد صاحب بھی ایک اور کوئی چھوٹا سا مکان خریدنے کے چکر میں تھے، نہ جانے کیوں ھر کوئی اس علاقے سے بھاگ جانے کے حق میں تھا، رات کو جب کالج سے آتا تو روزانہ ان دونوں بہنوں کو انکے گھر کے صحن کی دیوار کے اوپر سے مجھے جھانکتے ھوئے دیکھتا تھا، لیکں میں اسی خاموشی کے ساتھ بغیر کسی قسم کا اشارا یا بات کئے ھوئے گزر جاتا، اور کوئی بھی دھیان نہیں دیا، لیکن بلاناغہ انہوں نے یہ اپنا ایک معمول بنا لیا تھا،

    لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دل اب بھی انہیں کی طرف تھا، ان کو میں بُھلا نہیں پایا تھا، لیکن والدین کی وجہ سے میں بہت مجبور تھا 1968 کا سال تھا اور سالانہ انٹر کامرس کے فائنل کے امتحانات شروع ھونے والے تھے، اور امتحانات کی تیاری کے دوران ھی میں نے سوچا کہ میں شاید کسی کا دل تو نہیں دُکھا رھا، کہیں ایسا نہ ھو کہ کسی کی بددعاء مجھے یا میرے گھر والوں کو نہ لگ جائے، کیونکہ جاتے جاتے ننھا مجھے یہ ضرور کہہ گیا کہ وہ سب تمھارے لئے خیریت کی دن رات دعاء کرتے تھے، اور وہ واقعی تمھیں بہت زیادہ دل و جان سے چاھتے ھیں، اس لئے ایک دں موقع پا کر تم ان سے ضرور ملکر معافی مانگ لینا،!!!

    میں بھی یہی چاھتا تھا کہ ان سے کم از کم معافی تو مانگ لوں اور ایک دن چپکے سے باھر کا مین دروازے سے اندر جا کر ان کے گھر کے بڑے کمرے کے دروازے پر ھلکی سی دستک دی، دروازہ کھلا اور باجی دروازے پر تھیں اور بس وہ مجھے دیکھتے ھی شروع ھوگئیں، کہ “اب اتنے دنوں بعد کیوں آئے ھو، کیا کام ھے، تمھیں اتنے دن ھوگئے آئے ھوئے اور آج اپنی شکل دکھا رھے ھو، ھمارا کیا حال تھا تمھیں کسی بات کی خبر بھی تھی یا نہیں، تمھیں ذرا سی بھی شرم نہیں آئی“ اور نہ جانے وہ کیا کیا کہتی چلی گئیں، اور انکی امی نے باجی کو کافی روکنا چاھا مگر وہ غصہ میں بےقابو ھو کر بولتی ھی چلی گئیں لیکن میں بس یہ سب کچھ خاموشی سے سب کچھ سنتا رھا، مگر میری آنکھوں سے ایک آنسوؤں کا سیلاب جیسے امڈ رھا تھا جوکہ انہوں دیکھا نہیں تھا!!!

    جب وہ کہہ کہہ کر تھک گئیں تو میرے بازوؤں کو پکڑ کر جیسے ھی جھنجھوڑا تو میری آنکھوں کے آنسو کے کچھ قطرے شاید ان کے چہرے پر پڑے تو فوراً انہوں نے مجھے بے اختیار اپنے گلے لگا لیا، اور انکی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ھو گئے، ادھر زادیہ کی آنکھوں میں بھی نمی دیکھی اور خالہ نے بھی مجھے فوراً اپنے گلے لگایا اور ساتھ ھی نانی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پیار کیا اور ادھر زادیہ اپنی باجی کے گلے سے لگ کر رورھی تھی یا پتہ نہیں پھر کوئی اور میری شکایت ھی کررھی ھوگی!!!!!!!!!

    میں اب ایک اور شش و پنج میں تھا کہ کیا کروں، پھر یہی ھم نے یہی فیصلہ کیا کہ میں ان سب سے باھر ھی ملوں گا، کیونکہ انکے والد نے پہلے ھی سے انہیں یہ سختی سے نوٹس دے ھی دیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں میری شکل دیکھنا نہیں چاھتے، اور میری ھی وجہ سے انکے والد سے آپس میں کافی جھگڑا بھی ھوا تھا، میں رات کو جب بھی کالج سے واپس آتا تو وہ دونوں میرا شدت سے انتظار کرھی ھوتی تھیں اور دیوار کے اُوپر سے جھانک کر مجھے اکثر میرے لئے شامی کباب یا کوئی بھی کھانے کی چیز پکڑا دیتی تھیں جو بھی مجھے پسند تھی، اور ایک دو لفظ کہہ کر واپس نیچے اتر جاتیں مگر ھمیشہ وہ دونوں امتحانات کی اچھی طرح تیاری کرنے کا حکم صادر فرماتی تھیں، اور میں اپنے گھر میں داخل ھونے سے پہلے ھی اسے شامی کباب ھوں یا کچھ اور سب کچھ کھا کر ختم کرلیتا تھا، اور گھر پہنچ کر بھی کچھ تھوڑا بہت اپنے گھر کا بھی کھا لیتا تھا کہ کہیں گھر والوں کو شک نہ ھوجائے!!!

    اسی طرح دن گزرتے رھے اور کئی دفعہ باھر ملاقات بھی ھوئی لیکن زادیہ سے تو اکیلے میں بات کرنے کا موقعہ ھی نہیں ملا کہ کچھ اظہار محبت ھی کرلیتے کئی دفعہ موقعہ نکالنے کی کوشش بھی کی اور اس نے بھی پہلے ھی کی طرح پوچھا کہ تم کچھ کہنے والے تھے، لیکن بس اس وقت اپنے گال سہلاتا ھوا بات کو ٹال دیتا، اور جب وقت گزرجاتا تو اپنے آپ کو بزدل ھی کہتا لیکن ساتھ ھی سوچتا کہ چلو اچھا ھی ھوا کہ کچھ نہیں کہا، کہنے سے پہلے میری جان ھی نکلی ھوئی ھوتی تھی اور جب کہہ نہیں سکتا اور بات ٹل جاتی تو شکر بھی ادا کرتا کہ شکر ھے بال بال بچ گئے، میرے ساتھ ایک عجیب سی ھی ایک سچیویشن تھی، کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ لوگ کس طرح اتنی بڑی ھمت کرلیتے ھیں،

    جبکہ ریڈیو پاکستان میں ایک دفعہ آڈیشن کے وقت میں نے بہت اچھی طرح ایک ڈرامے کی رہل سہل کے وقت ایک اپنے سامنے والی لڑکی جو اس وقت ڈرامے کی ھیروئین کا ٹیسٹ دے رھی تھی اور مجھے بھی ھیرو کا اسکرپٹ پکڑا دیا تھا، جس میں ایک لڑکا ایک لڑکی سے محبت کا اظہار کرتا ھے، وہ تو میں نے بہت ھی بہتریں طریقے سے ادا کیا تھا اور اس لڑکی نے مجھ سے بھی شاندار طریقے سے ڈائیلاگ کی ڈلیوری کی تھی، وہ بات دوسری ھے کہ میں سیلکشن میں کامیاب نہیں ھوسکا تھا، کیونکہ میرے مقابلے میں اور بھی بہت اچھے منجھے ھوئے فنکار بھی موجود تھے، تو ھماری دال کہاں گلتی، بہرحال میں نے کم از کم ڈائیلاگ تو بہت ھی اچھی طرح بولے تھے مگر اصل میں جب بھی موقع آتا تھا تو ٹیں ٹیں فش ھوجاتی تھی، نہ جانے میرے کالج کے دوست تو اپنی عشق کی داستان ایسے سناتے تھے کہ جیسے وہ خاندانی عاشق ھی ھوں!!!!!!!!!!

    آخر کو انٹر فائنل کے سالانہ امتحانات کے دن آھی گئے اور میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ آٹھوں پیپرز اچھی طرح ھوجائیں اور شکر ھے کہ سیکنڈ ڈویژن کے بجائے تھرڈ ڈویژن کی پوزیشن آئی، میں نے بھی شکر کیا چلو انٹر سے تو جان چھوٹی، نتیجہ نکلنے کے بعد کچھ آزادی بھی ملی اور اب میں “بی کام“ میں بھی چلا ھی گیا، والد صاحب بھی خوش ھوگئے،!!!!!!!

    اور نہ جانے ایک دن پتہ نہیں کیا ھوا کہ میں کسی شادی میں یا اور کسی تقریب میں شرکت کیلئے دوستوں کے ساتھ کراچی سے باھر دو یا تیں دن کیلئے اندرون سندھ سکھر گیا ھوا تھا، جیسے ھی واپس آیا تو اچانک مجھے خبر ملی کہ زادیہ اور باجی سب گھر والوں سمیت اپنا گھر بیچ کر نہ جانے کہاں جا چکی تھیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا اور میں پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر پوچھتا پھر رھا تھا مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں تھی، اور لوگ مجھے یہ خبر اچھل اچھل کر سنارھے تھے، اور ساتھ میرا مذاق بھی اُڑا رھے تھے !!!!!!!
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    میرے خدا یہ کب کا واقعہ ھے:139:
    آپ تو چھپے رستم نکلے ،اب سمجھ آئی کیوں نہیں نکلتے تھے یادوں کی پٹاری سے
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    اگر کاش آپ یادوں کی پٹاری کو مکمل پڑھ لیتیں،!!! اب تو سابقہ حصہ بھی یہاں سے غائب ھوگیا، اور ابھی تک انتظامیہ سے بحال نہیں ھوسکا، اسی لئے اب یہاں دل نہیں کرتا کچھ لکھنے کو،!!! بس ویسے ھی گپ شپ کرنے آجاتے ھیں،!!!
     
  5. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    سید انکل بہت خوب اچھا لکھا ہے :suno:
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    حسن جی،!!!
    بہت شکریہ،!!!!

    اگر انتظامیہ میری اس کہانی"یادوں کی پٹاری" کے سابقہ ورژن کو بحال کردے، تو آپ میری اپنی کہانی سے مزید مکمل طور پر محظوظ اور لطف اندوز ہوں گے،
     
  7. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    انتظامیہ نیند سے جاگے تب ناں سید جی:212:
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    لگتا ہے کہ کسی نے ھماری انتظامیہ کو بہت ساری نیند کی گولیاں کھلادی ہیں،!!!
     
  9. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    میں نے دریاب بھائی کو ای میل کی تھی ابھی کوئی رپلائی نہیں آیا دوبارہ چیک کرتا ہوں
     
  10. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    واقعی آپ ہی دریاب جی کو نیند سے جگا سکتے ہیں،!!!
     
  11. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    ابھی تک کوئی رپلائی نہیں آیا اللہ خیر کرے

    میں نے ان سے سیل نمبر مانگا تھا مگر انہوں نے دیا نہیں :(

    کبھی کبھار فون کرتے ہیں پرائیویٹ نمبر سے :(
     
  12. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    چلئے حسن جی، کوئی بات نہیں،!!! کبھی تو کوئی ہماری ضرور سنے گا،!!!!
     
  13. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    آپ کی داستان وفا کے سابقہ اور موجودہ حالات پڑھ کر دل میں موجود ایک گھٹن سی جو تھی وہ تو افلاطون کے نظریہ تطہیر کی بدولت فرو ہوئی لیکن لاحقہ کب لکھ رہے ہیں۔
    بہت دردناک کہانی ہے ۔
    مجھے اس ساری کہانی میں :
    آپ کا اپنے ماں کے بارے میں جو الفاظ ہیں بہت ہی اچھے لگے ۔ ماں لفظ ہی محبت اور شفقت کی علامت ہے ۔
     
  14. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جوانی کی طرف پہلا قدم اور ظالم سماج

    بہت بہت شکریہ قراقرم جی،!!!!!
    خوش رہیں،!!!!
    اب تو ہماری کہانی کا اختتام ہی سمجھئے کیونکہ اب تو کہانی ہمارے بچوں کی شادیوں کی طرف رواں دواں ہے،!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں