1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جنریشن گیپ ، خاندانی جھگڑوں کی جڑ ، تحریر : الطاف احمد

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏5 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    جنریشن گیپ ، خاندانی جھگڑوں کی جڑ ، تحریر : الطاف احمد
    [​IMG]
    جنریشن گیپ کیا ہے ؟

    دو نسلوں کے درمیان فکری نظریات، اقدار ، روایات اور طرزِ عمل کے اختلاف یا غیر ہم آہنگی کو ’’جنریشن گیپ‘‘ یعنی ایک نسل سے دوسری نسل کا فرق کہتے ہیں۔انسان کی سوچ سے اسکے انفرادی نظریات اور رویے جنم لیتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ بسنے والے مختلف افراد کی سوچ، معاشرتی نظریات ، اخلاقی اقدار، پسند ناپسند، کھانے پینے اور لباس پہننے کے انداز اور رجحانات قدرے مشترک ہوتے ہیں۔ یہ مخصوص نظریات، رویے، رجحانات، پسند ناپسند، نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں اور اس معاشرتی انتقال کے درمیان تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ بعض بیرونی اور اندرونی محرکات بھی ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔آج سے 20 یا 25 سال قبل پاکستان میں مخلوط نظامِ تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا اوریہ نظام صرف یونیورسٹی لیول پر یا چند کالجز میں رائج تھا۔دو دہائیاں قبل جب پرائیویٹ تعلیمی اداروں، کالجز اوریونیورسٹیز کورجسٹریشن اور الحاق ملا تو مخلوط نظامِ تعلیم عام ہو گیا۔اس عرصہ کے دوران جن نوجوانوں نے مخلوط تعلیم حاصل کی ہے وہ اس مخلوط نظامِ تعلیم کو برا نہیں سمجھتے اور چاہتے ہیں کہ یہی نظامِ تعلیم رائج رہے اور انکی آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس نظام سے مستفید ہوںجبکہ ان کے بزرگ جو مخلوط نظامِ تعلیم سے نہیں پڑھے وہ اس نظام کی برائیاں گنواتے نہیں تھکتے۔

    جنریشن گیپ ایک عالمی مسئلہ ہے اورنئی اور پرانی نسل کے درمیان اختلاف، بحث و تکرار اور بہت سی جگہوں پر لڑائی کی اہم وجہ ہے۔نسلوں کے فرق کا معاشرتی نظریہ یعنی جنریشن گیپ تھیوری سب سے پہلے 1960 کی دہائی میں سامنے آئی جب اس دہائی کی نوجوان نسل (جسے بعد میں Baby Boomers کے نام سے جاناگیا) نے اپنے والدین کے تمام معاشرتی نظریات، اقدار، سیاسی نظام کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔پھر اس کے بعد جنریشن X اور جنریشن Z کا دور آیا۔ ان میں سے ہر جنریشن کے اپنے مخصوص رجحانات اور نظریات تھے۔ پاکستان میں بھی یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ جنریشن گیپ ایک نسل سے دوسری نسل کے درمیان کم جبکہ ایک نسل سے تیسری نسل کے درمیان زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی بچوں اور باپ کے درمیان نظریاتی اختلاف کم جبکہ بچوں اور ان کے دادا دادی یا نانا نانی کے درمیان زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ان خاندانوں میں جہاں والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اختلاف کم پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں جنریشن گیپ کے مسائل زیادہ تر ان خاندانوں میں پائے جاتے ہیں جن کے بچے جدید تعلیم کے زیرِ اثر روشن خیال ہوگئے ہیں اوراپنا لائف سٹائل والدین سے مختلف اپنا چکے ہیں۔ جنریشن گیپ کے مسائل کو مختلف وجوہات کی بناء پر ہم کچھ اس طرح تقسیم کر سکتے ہیں۔

    ٹیکنالوجی کے استعمال سے

    پیدا ہونے والے مسائل

    نظریات کا پروان چڑھنا سراسر ماحول کے زیراثر ہوتا ہے۔ٹیکنالوجیکل ڈیویلپمنٹ جنریشن گیپ کی ایک اہم وجہ ہے۔پاکستان میں جن موضوعات پر والدین اور بچوں میں نظریاتی اختلاف بڑھتا جارہا ہے ان میں سب سے اہم مسئلہ سوشل میڈیا اور اس کا بے تحاشا استعمال ہے۔والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے گمراہ ہو رہے ہیں۔جبکہ نوجوان نسل کی تمام تر دلچسپیاں اور مفادات سوشل میڈیا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا کے یہ مجاہد کھانے پینے کے بغیر تو چند دن گزار سکتے ہیں لیکن سمارٹ موبائل فون کے بغیران کا گزارا نہیں ہو سکتا۔فیس بک، وٹس ایپ، ٹوئٹر، سنیپ چیٹ، ٹک ٹاک اور اس طرح کی ہزاروں اپلیکیشنز ہیں جو اکیسیویں صدی کے نوجوانوں کی محبوبائیں ہیں۔ایسی صورتِ حال میں کون غلط ہے اور کون صحیح یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    شریکِ حیات کے انتخاب کے معاملہ

    میں والدین سے اختلاف

    جنوبی ایشیائی معاشروں خصوصاً پاکستان میں والدین اور بچوں کے درمیان جنریشن گیپ کا عملی مظاہرہ بچوں کی شادی کے وقت عام ہوتا ہے۔ اس انتہائی نازک اور اہم مرحلہ پر بچوں اور والدین کی پسند اور ناپسند کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔عموماً آج کے نوجوان اپنے شریکِ حیات کے انتخاب میں مکمل اختیارات چاہتے ہیں۔ دوسری طرف والدین نے کئی سالوں سے بہو یا داماد کی کے انتخاب کے لئے طرح طرح کے پیمانے بنا رکھے ہوتے ہیں۔والدین اپنے بچوں کے لئے ایسا رشتہ چاہتے ہیں جہاں نہ صرف بچوں کا شریک ِ حیات بلکہ ان کا خاندان بھی ان کی سوچ کے پیمانوں پر پورا اترے، مثال کے طور پر لڑکی تعلیم یافتہ ہو، سلیقہ شعار ہو، کھانے پکانے اور گرہستی کی ماہر ہو، بزرگوں کی فرمانبردار ہو، خاندان شریف اور ویل سیٹلڈ ہو، وغیرہ وغیرہ۔جبکہ ان کے نوجوان بچے ان چیزوں کو یا تو یکسر رد کر دیتے ہیں یا پھر ثانوی حیثیت پر رکھتے ہیں۔ نوجوانوں کے نزدیک شادی کے لئے سب سے اہم بات ذہنی ہم آہنگی اور پیار ہے۔اسے کم بھی کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔اسلام کا حکم بھی یہی ہے۔

    شادی کے بعد کے نظریاتی اختلافات

    اکثر خاندانوں میں شادی کے بعد کے بیشتر مسائل، بحث و تکرار یا لڑائی جھگڑے بھی جنریشن گیپ تھیوری کی پیداوار ہیں۔ ہمارے ہاں ساس بہو کا مسئلہ دنیا کے تمام مسائل سے بڑاا ور اہم ہوتا ہے۔’’تم نے یہ کیا پہن لیا ؟ تم باہر اکیلی کیوں چلی گئیں؟ تم نے یہ بات کیوں کی؟ تم نے میری بات کیوں نہیں مانی؟ تم نے آج کھانا باہر سے کیوں منگوایا؟ ‘‘ دوسری طرف آج کی بہوئیں بھی یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ میری ساس تو ہے ہی پرانے خیالات کی۔مجھے اس کی باتوں کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ ہمارے اکثر گھروں میں معمولی باتوں پر ساس اور بہو کے درمیان اکثر سرد جنگ کا ماحول ہوتا ہے یا پھر یہ جنگ کھلم کھلا ’’ہتھیاروں‘‘ کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہے۔یہاں بھی اختلاف سوچ کا ہی ہوتا ہے۔ ساس چاہتی ہے کہ اس کی بہو اس ماحول میں اور اسی طرح اپنی زندگی گزارے جس طرح ساس نے خود گزاری ہے جبکہ بہو اپنا ایک الگ نظریہ لے کر آتی ہے اور اس پر مداخلت براشت نہیں کر سکتی۔پاکستان میں میاں بیوی کے درمیان ہونے والی طلاقوں میں سب سے بڑی وجہ ساس اور بہو کی آپس میں نہ بن پانا ہے۔

    بزرگوں کے احترام کا فقدان

    آج کی نوجوان نسل والدین کے شرعی اور انسانی تقاضوں کو پورا نہیں کر رہی۔پرانی نسل سے وابستہ لوگ ہمیشہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ نئی نسل کے ساتھ کیا غلطی ہوئی ہے ۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں ، نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ بہتر سلوک ، زیادہ فرمانبردار اور بڑوں کا زیادہ احترام تھا۔ دوسری طرف ، نوجوان ، محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی رہنمائی کے لئے بڑی عمر کی نسل پر زیادہ دباؤ ڈالنے کے بجائے خود ہی سیکھنے کے قابل ہیں۔

    لباس کے انتخاب بارے نظریاتی اختلاف

    لڑکیوں کا لباس گھروں میں بھی زیر بحث رہتا ہے اور گھر سے باہر بھی۔ لڑکوں کا لباس والدین کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن لڑکیوں کے لباس پر والدین کو محتاط ہونا پڑتا ہے اور یہ ہماری مشرقی تہذیب اور اسلامی اقدار کے مطابق ان کی ذمہ داری بھی ہے۔کالج ، یونیورسٹی یا دفتر جانے والی خواتین میں آج کل جینز پہننے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور دونوں نسلوں کے درمیان بحث و تکرار کا باعث بھی بن رہا ہے۔دوسری طرف خواتین کا لباس گھر سے زیادہ گھر سے باہر زیر بحث رہتا ہے۔ لڑکی کوئی بھی لباس پہن کر گھر سے باہر جائے اس پر آوازے کسنے والے کہیں نہ کہیں ضرور مل جاتے ہیں۔ اس معاملہ میں نہ صرف سینئر مرد حضرات بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں بلکہ نوجوان بھی بزرگ بن کر مشورے دینے لگتے ہیں۔اگر عورت نے حجاب پہنا ہے تو روشن خیال بن کر اس پر تنقید کریں گے اور خواہش رکھیں گے کہ اس کو حجاب کے بغیر دیکھیں۔اگر صنفِ مخالف حجاب میں نہیں ہے تو یہ کہتے نظر آئیں گے کہ کیسی لڑکی ہے حجاب کے بغیر گھوم رہی ہے۔ اگر دوپٹہ نہیں لیا تو بے شرمی کا لیبل لگا دیں گے۔ جینز پہن لی تو بے شرمی کے لیبل سے دو درجے آگے نکل جائیں گے۔ او بھئی آپ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے؟ اگر آپ کو اپنے نظریات مسلط کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے گھر والوں پر پورا کر لیں۔

    سیاسی ونظریاتی اختلاف

    نوجوان نسل اور پرانی نسل کے درمیان سیاسی و مذہبی نظریات پر اختلاف بڑھ گیا ہے۔زمانۂ قدیم سے ہی دیکھا گیا ہے کہ ہر آنے والی نسل سیاست کے معاملہ میں اپنے آبائو اجداد سے کم بنیاد پرست اور شدت پسند ہوتی ہے۔ لیکن دورِ حاضر میں جس رفتار سے ٹیکنالوجی میں جدت آئی ہے اس نے والدین اور بچوں کے درمیان مذہبی عقائد کا خلا وسیع کر دیا ہے۔جس سے گھروں کے بزرگ اور والدین شدید پریشان ہیں۔نئی نسل لبرل ہے، اور اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں۔مذہب کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات بھی گھراور گھر سے باہر بزرگوں اور نوجوانوں میں بحث و تکرار کا باعث بن رہے ہیں۔

    دیگر موضوعات

    اس کے علاوہ بہت سے موضوعات ہیں جن پر ایک نسل سے دوسری نسل میں اختلاف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گھر میں ماحول کیسا ہونا چاہیے؟ کھانا کیسا پکنا چاہیے؟ کونسا فرنیچر ہونا چاہیے، کونسی ضروریاتِ زندگی اور الیکٹرانکس ہونی چاہئیں؟ میوزک کیسا چلنا چاہیے؟ گھر میں موویز کونسی دیکھی جائیں؟بچوں کو کونسی فیلڈ میں جانا چاہیے؟ کونسا مضمون پڑھنا چاہیے؟ کونسا کھیل کھیلنا چاہیے؟ کیسے دوست بنانے چاہئیں؟ گھر میں آنا جانا کس کا ہو؟ رشتہ داروں کے ساتھ برتائو کیسا ہو؟ شادی کے بعد معاملات کس طرح سے ہوں؟ یہ سارے موضوعات ہیں جن پر والدین اور بچوں میں نظریاتی اختلاف ہو سکتا ہے۔

    جنریشن گیپ کے مسائل کا حل؟

    یہ وہ اہم نکتہ ہے جس پر والدین اور بچوں کو فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے اگر فریقین حل کرنا چاہیں۔ والدین کو اس بات پر اعتراض نہیں ہوتا کہ بچے اپنے فیصلے خود کریں بلکہ یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کے بچے کم علمی، ناتجربہ کاری اور جذبات کی رو میں بہہ کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔کوئی کوتاہی ان سے سرزد نہ ہو جائے۔ اختلاف کی وجہ دونوں طرف سے غلط فہمی اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہوتا ہے۔ جنریشن گیپ سے پیدا ہونے والے نظریاتی اختلاف کو درج ذیل چند اقدامات سے کم کیا جا سکتا ہے۔
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    نسلوں کے درمیان کمیونی کیشن یا بات

    چیت کو فروغ دیا جائے

    جنریشن گیپ ایک فطری نظریاتی اختلاف ہے۔ لیکن آج کل جنریشن گیپ سے خطرناک والدین اور بچوں کے درمیان کمیونی کیشن گیپ ہے۔ہمارے نوجوانوں کی مصروفیات بڑھ گئی ہیںوہ والدین سے کسی موضوع پر بات چیت کرنا، مشورہ کرنا، ان سے رہنمائی لیناضروری نہیں سمجھتے۔ اور اپنی عقلِ ناقص پر اکتفا کرتے ہوئے خود مختاری چاہتے ہیں۔اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ والدین ان کا حقِ خود ارادی سلب کر کے اپنا فیصلہ صادر کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اکثر والدین بھی اپنی مصروفیات کے باعث بچوں کو وقت نہیں دے پاتے۔ ان سے بات چیت نہیں کر پاتے، انکے جذبات اور احساسات سے بے فکر رہتے ہیں۔اس طرح دو نسلوں کے درمیان ایک خطرناک کمیونی کیشن گیپ پیدا ہو رہا ہے۔

    اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان زیادہ سے زیادہ بات چیت ہو، ایک دوسرے کو اپنے اپنے موقف سے اچھی طرح آگاہ کیا جائے۔ والدین اگر بچوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائیں کہ وہ اپنا فیصلہ ان پر مسلط نہیں کر رہے بلکہ فلاں فلاں خدشہ کے پیشِ نظر ان کی رہنمائی کر رہے ہیں تو یقینا بچے کسی حد تک اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر والدین کی رائے کو وزن دیں گے۔ اسی طرح بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کو اپنے فیصلے کی اہمیت، اس کے ساتھ جڑے جذبات، نظریات اور مستقبل کی منصوبہ بندی بارے آگاہ کریں۔اس طرح دونوں فریقین ایک دوسرے کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔اور جب آپ اپنی بات کسی کو سمجھا لیں تو منوا بھی سکتے ہیں۔ اس سارے عمل کے دوران اس بات کا خیال رکھا جائے کہ گفت و شنید بحث و تکرار تک نہ آئے کیونکہ بحث و تکرار میں فیصلے ہوش سے نہیں جوش سے ہوتے ہیں۔ دونوں فریقین آپس میں برتائو جتنا دوستانہ ہو گا وہ مسائل کے حل کے لئے اتنا ہی معاون ہو گا۔ایک طریقہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اپنے بچپن کی کہانیاں سنائیں، اپنے تجربات سے آگاہ کریں، اپنی تعلیم، روزمرہ معمولات اور نوجوانی کے قصے سنائیں۔ اس سرگرمی سے دوستانہ ماحول بنانے میں مدد ملے گی ۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے طرز زندگی کو سمجھ سکیں گے۔

    بزرگوں کااحترام ملحوظِ خاطر رکھا جائے

    ہر بڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ چھوٹا اس کا احترام کرے، اس کی بات پر عمل کرے، اس کے ساتھ بدتمیزی نہ کرے، اس کے نقشِ قدم پر چلے، اس سے سیکھے۔یہی اصول دنیا بھر میں رائج ہے اور یہی اصول گھرکے ماحول میں بزرگوں اور بچوں کے درمیان ہونا چاہیے۔باہمی عزت و احترام تمام رشتوں کی پائیداری کا ضامن ہے۔گھر میں اکثر مسائل بچوں کی طرف سے بزرگوں کی نافرمانی یا پھر فیصلوں میں ان کی عدم شمولیت سے پیدا ہوتے ہیں۔بزرگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ان کی نسل انہیں کچھ دے نہ دے، لیکن عزت و احترام ضرور دے جو کہ ان کا حق ہے۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں والدین کی نافرمانی کو گناہِ کبیرہ کہا ہے اور اسکی معافی نہیں۔​
     
  3. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے

    دونوں فریقین کو اپنے بارے میں بہت زیادہ حساس نہیں ہونا چاہیے ۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ انسان کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں پیوست ہیں،دونوں کسی نہ کسی مقام پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔دونوں فریقین کو گھریلو امن اور سکون کا احساس ہونا چاہئے جو باہمی تعاون کے ذریعہ تعمیر کیا جاسکتا ہے ۔ جب دونوں جماعتیں آپس میں تعاون کرتی ہیں تو وہ اس کام کو بہت پر امن طریقے سے مکمل کرسکتی ہیں۔ ساس بہو کے مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں ۔ ساس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کی بہو اس سے کم و بیش دو یا تین دہائیاں کم عمر ہے۔ اور اس نے ابھی زندگی کے وہ تمام تجربات کرنے ہیں جو ساس پہلے ہی کر چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی پرورش مختلف ماحول اور مختلف دور میں ہوئی ہے۔ لہذا اچانک گھریلو سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا اس کے لئے آسان کام نہیں ہے ۔ بہو کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کی ساس اتنی خوش قسمت نہیں تھی کہ وہ اپنے دور میں وہ تعلیم اور ماحول حاصل کر پاتی جو بہو کو میسر ہے ۔

    فریقین کو اپنی حدودکا تعین کرنا چاہیے

    دونوں فریقین کو حدود کے نظریہ کا ادراک کرنا چاہئے کیونکہ دونوں اپنی خواہش کے مطابق مطمئن نہیں ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی اپنی خواہش کے مطابق مطمئن نہیں ہوتا کیوں کہ انسانی خواہشات صرف لامحدود ہوتی ہیں۔ انہیں امید کی آسانی اور عمل درآمد میں دشواری کا احساس کرنا چاہئے ۔ خاص طور پر ابتدائی مرحلے میں جب ایک ساس اور بہو ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ سکون کے ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ وہ دونوں مختلف ادوار اور مختلف ماحول میں پروان چڑھے ہیں۔

    دوستانہ ماحول باہمی تفریح کے ماحول

    کو فروغ دیا جائے

    ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے لئے دونوں جماعتیں وقتا فوقتا باہمی تفریح سے لطف اندوز ہوسکتی ہیں جیسے سنیما ، ریسٹورنٹ ، خریداری اور اور اس طرح کی دیگر سرگرمیاں ۔ وہ ایک دوسرے کی سالگرہ منانے کا بھی اہتمام کرسکتے ہیں۔جب ان کے پاس وقت ہو تو دونوں فریقین کو جان بوجھ کر ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا چاہئے ۔ یہ سرگرمی جذباتی پابندی کو بہت جلد ختم کر دیتی ہے ۔اگر دونوں جماعتیں روحانیت کے موضوع سے دلچسپی لیتی ہیں تو پھر یہ فارمولا حیرت انگیز طور پر کام کرتا ہے کیونکہ امن قائم کرنے کے لئے دونوں فریقین کی زندگی میں روحانیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔

    دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے نظریات قبول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے

    پرانا جین یعنی ہم سے پہلی نسل کا نمائندہ نئے نظریات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں جبکہ نیا جین یعنی آج کا نوجوان ترقی پسند ، متحرک اور تبدیلی کا پجاری ہے ۔ پرانا مریض ، مطمئن اور سست ہے ۔ آج کا نوجوان بے صبر ، جارحانہ اور تیز ہے ۔بوڑھا انتظار کرسکتا ہے لیکن آج کا جوان سب کچھ چاہتا ہے اور وہ بھی ایک ساتھ۔ دونوں فریقین اپنی اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی مکمل ، مطلق اور کامل نہیں ہے ۔ پرانا جین بہت ساری نئی ٹیکنیک جیسے کمپیوٹر اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کو نئے جینوں سے سیکھ سکتا ہے ۔ اس کو تبدیلیوں کو قبول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ تبدیلی ناگزیر ہے ۔پرانے لوگوں یعنی ہمارے بزرگوں کو نئی نسل کے دماغوں کو ہمدردی کے ساتھ جاننے کی بھی کوشش کرنی چاہئے ۔اس طرح سے ، نسل کا فرق کم کیا جاسکتا ہے اور دونوں جین خوشی سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ، وہ دشمن نہیں بلکہ دوست ہیں۔ اور تخلیقی دوستی کے لیے اور سیکھنے کے لئے عمرکی کوئی پابندی نہیں ہے ۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں