1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جشن میلاد النبیﷺکی شرعی حیثیت

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    ربیع الاوّل میں درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بارہ ربیع الاوّل کو میلاد النبیﷺ منانے کا ہے ۔ چنانچہ بہت سارے مسلمان نبی کریمﷺ کی ولادت با سعادت کے حوالے سے ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو 'عید میلاد النبیﷺ اورجشن مناتے ہیں ۔ عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا اور جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں ، نعت خوانی کےلئے محفلیں منعقد کی جاتیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور چھٹی بھی کی جاتی ہے ۔

    مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا قرآن وحدیث میں 'جشن میلاد' کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا نبی کریمﷺ نے اپنا میلاد منایا یا اس کی ترغیب دلائی ؟ کیا آپﷺ کے خلفائے راشدین میں سے کسی نے اپنے دورِ خلافت میں میلاد کے حوالے سے جشن منایا یا یومِ ولادت کو عید کا دن قرار دیا ؟کیا قرونِ اولیٰ میں اِس 'عید' کا کوئی تصور تھا ؟

    اگر قرآن وحدیث اور قرونِ اولیٰ کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان تمام سوالات کے جوابات کچھ یوں ملتے ہیں :

    1. قرآن وحدیث میں جشن یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

    2. نہ نبی کریمﷺ نے اپنا میلاد منایا اور نہ اس کی ترغیب دلائی ۔

    3. پھر خلفاے راشدین میں سے کسی نے اپنے دورِ خلافت میں نبی کریمﷺ کی ولادت با سعادت کے حوالے سے کوئی جشن سرکاری طور پر یا غیر سرکاری طور پر نہیں منایا اور نہ ہی یومِ ولادت کو عید کا دن قرار دیا ۔ حالانکہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں نبی کریمﷺ سے سب سے زیادہ محبت تھی اور اگر وہ چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے کیونکہ حکومت اُن کے ہاتھوں میں تھی ۔

    4. قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ جنھیں نبی کریمﷺ نے بہترین لوگ قرار دیا ،اُس زمانے میں لوگوں کے ہاں اِس عید کا کوئی تصور نہ تھا اور نہ ہی وہ یہ جشن مناتے تھے ۔

    5. اِس پر مستزاد یہ کہ اِس اُمت کے معتبر ائمہ دین کے ہاں بھی نہ اس عید کا کوئی تصور تھا اور نہ وہ اُسے مناتے تھے اور نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اِس کی تلقین کرتے تھے ۔

    جشن عید میلادالنبیﷺ کا موجد

    جشن عیدمیلادالنبی کی ابتدا ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن محمد الملقّب الملک المعظم مظفر الدین اربل (موصل،متوفی ۱۸؍رمضان ۶۳۰ء) نے کی۔ یہ بادشاہ ان محفلوں میں بے دریغ پیسہ خرچ کرتااور آلاتِ لہو و لعب کے ساتھ راگ و رنگ کی محفلیں منعقد کرتا تھا۔

    مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں:

    اہلِ تاریخ نے صراحت کی ہے کہ بادشاہ بھانڈوں اور گانے والوں کو جمع کرتا اور گانے کے آلات سے گانا سنتا اور خود ناچتا ۔ ایسے شخص کے فسق اور گمراہی میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اس جیسے کے فعل کو کیسے جائز اور اس کے قول پرکیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے !

    نیز کہتے ہیں :

    اس فسق کی مختصر کیفیت اور اس بدعت کی ایجادیہ ہے کہ مجلس مولود کے اہتمام میں بیس قبے لکڑی کے بڑے عالی شان بنواتا اور ہر قبہ میں پانچ پانچ طبقے ہوتے ۔ ابتداے ماہِ صفر سے ان کو مزین کرکے ہر طبقہ میں ایک ایک جماعت راگ گانے والوں ، ٹپہ خیال گانے والوں ، باجے ،کھیل تماشے اورناچ کود کرنے والوں کی بٹھائی جاتی اور بادشاہ مظفر الدین خود مع اراکین وہزار ہا مخلوق قرب و جوار کے ہر روز بعد از عصر ان قبوں میں جاکر ناچ رنگ وغیرہ سن کر خوش ہوتا اور خود ناچتا ۔ پھر اپنے قبہ میں تمام رات رنگِ لہو ولعب میں مشغول ہورہتا اور دو روز قبل ایامِ مولود کے اونٹ ،گائیں ،بکریاں بے شمار طبلوں اور آلاتِ گانے ولہو کے ساتھ جتنے اس کے یہاں تھے، نکال کر میدان میں ان کو ذبح کراکر ، ہر قسم کے کھانوں کی تیاری کراکر مجالسِ لہو کو کھلاتا اور شبِ مولود کی کثرت سے راگ قلعہ میں گواتا تھا ۔

    یہ تو تھا اِس کا موجد ۔ اور جہاں تک اِس کے جواز کا فتوی دینے والے شخص کانام ہے، تو وہ ہے: ابوالخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن دحیہ کلبی متوفی ۶۳۳ھ۔

    حافظ ابن حجر  لکھتے ہیں:

    بن نجار کہتے ہیں کہ میں نے تمام لوگوں کو اسکے جھوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا ۔

    وہ ائمہ دین اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرنے والا اور خبیث زبان والا تھا ۔ بڑا احمق اورمتکبر تھا اور دین کے کاموں میں بڑا بے پرواہ تھا۔

    یہ وہ شخص تھا جس نے ملک ِ اربل کو جب محفل ِ میلاد منعقد کرتے دیکھا تو نہ صرف اس کے جواز کا فتوٰی دیا بلکہ اس کے لئے مواد جمع کر کے ایک کتاب بنام التنویر في مولد السراج المنیر بھی لکھ ڈالی ۔ اسے اُس نے بادشاہِ اربل کی خدمت میں پیش کیا تواس نے اس کے صلہ میں اس کو ایک ہزار اشرفیوں کا انعام دیا ۔

    اِن تمام حقائق سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ کی ولادتِ باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز آنحضورﷺ کی وفات کے تقریباً چھ سو سال بعد کیا گیا ۔ لہٰذا آپ ذرا غور کریں کہ جب اِس جشن کا نہ قرآن وحدیث میں ثبوت ملتا ہے ، نہ صحابہ کرام کے طرزِ عمل میں اِس کا وجود نظر آتا ہے ، نہ قرونِ اولیٰ کی پوری تاریخ میں اِ س کا تصور پایا جاتا ہے اور نہ ائمہ دین اِس کے قائل تھے تو پھر آج کے مسلمان اِس کے منانے پر کیوں بضد ہیں ؟ کیا اُن سب حضرات کو نبی کریمﷺ سے محبت وعقیدت نہ تھی جس کا دعوٰی اِس دور کے لوگ کر رہے ہیں؟ اگر تھی اور یقینا اِن لوگوں سے کہیں زیادہ تھی تو انھوں نے آپﷺ کا یومِ ولادت کیوں نہ منایا؟

    یہاں ایک اور بات نہایت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے جو کام بطورِ عبادت نہیں کیا وہ قطعًا دین کا حصہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اسے دین سمجھ کر یا کارِ خیر تصور کرتے ہوئے سر انجام دے ۔ مثلاً آپ ﷺ نے نمازِ عیدین اور نمازِ جنازہ کےلئے اذان نہیں کہلوائی اور نہ ہی صحابہ کرام کے ہاں اِس کا کوئی وجود تھا ۔ جب آپﷺ نے نہیں کہلوائی اور صحابہ کرام کے ہاں اِس کا کوئی وجود نہ تھا تو قیامت تک کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اِسے دین کا حصہ یا عبادت تصور کرے ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا اذان میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور ذکر اللہ نہیں ہے ؟ یقیناً اذان اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی بڑائی پر مشتمل ہے لیکن نمازِ عیدین اور نمازِ جنازہ سے پہلے مشروع نہیں ہے ۔ اسی طرح 'جشن میلاد' کا مسئلہ ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے یہ جشن نہیں منایا اور نہ ہی آپ ﷺ کے خلفاے راشدین نے منایا تو قیامت تک اسے دین کا حصہ یا کارِ ثواب تصور کرنا درست نہیں ہے ۔

    اسی لئے حضرت حذیفہ کہتے تھے :

    «کُلُّ عِبَادَةٍ لَمْ یَتَعَبَّدْهَا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَلاَ تَعْبُدُوْهَا»

    ہر وہ عبادت جو صحابہ کرامؓ نہیں کرتے تھے اُسے تم بھی عبادت سمجھ کر نہ کیا کرو۔


    اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے تھے :

    «اِتَّبِعُوْا وَلاَ تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفِیْتُمْ، عَلَیْکُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِیْقِ»

    " تم اتباع ہی کیا کرو اور (دین میں ) نئے نئے کام ایجاد نہ کیا کرو، کیونکہ تمھیں اِس سے بچا لیا گیا ہے ۔ اور تم اُسی امر کو لازم پکڑو جو پہلے سے ( صحابہ کرام کے زمانے سے ) موجود تھا ۔

    ہم نے اب تک جو لکھا ہے اگرچہ یہ ایک سنجیدہ اور دیانتدار آدمی کو سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ شریعت میں مروّجہ عید میلا النبیﷺ کی کوئی حیثیت نہیں ۔ تاہم اِس کی مزید وضاحت کے لئے اب ہم کچھ ایسے اصول بیان کرنا چاہتے ہیں جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور ان کی بنا پر اِس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہ ہو گا کہ مروّجہ عید میلاد النبی دین میں ایک نیا کام (بدعت) ہے
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    1. اسلام ایک مکمل دین ہے :

    اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیّت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق واضح تعلیمات موجود ہیں ۔ اس لئے شارع نے اس میں کمی بیشی کرنے کی کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی...لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمان نہ صرف اسلام کی ثابت شدہ تعلیمات سے انحراف کرتے جا رہے ہیں بلکہ غیر ثابت شدہ چیزوں کو اس میں داخل کرکے انہی کو اصل اسلام تصور کر بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ جب دین مکمّل ہے اور اس کی ہدایات واضح ، عالمگیر اور ہمیشہ رہنے والی ہیں تو نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے اُنھیں اس کا حصہ بنا دینا کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ ارشادِ باری ہے :

    ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣﴾... سورة المائدة

    آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔

    سو اللہ ربّ العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارا دین ہمارے لئے مکمل کردیا ، ورنہ اگر اسے نامکمل چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور یوں دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔ اللہ ربّ العزت کے اس عظیم احسان کی قدروقیمت کا اندازہ آپ صحیحین کی ایک روایت سے کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ایک یہودی عالم حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیر الموٴمنین ! کتاب اللہ (قرآن مجید ) میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو بطورِعید مناتے۔ حضرت عمر نے پوچھا : وہ آیت کونسی ہے ؟ تو اس نے کہا :

    ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣﴾... سورة المائدة

    تو حضرت عمر نے کہا : یہ آیت عید کے دن ہی نازل ہوئی تھی جب رسول اللہﷺ عرفات میں تھے اور وہ دن جمعۃ المبارک کا دن تھا۔

    تو یہودی عالم نے یہ بات کیوں کہی تھی کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو یومِ عید تصور کرکے اس میں خوشیاں مناتے ؟ اس لئے کہ وہ دین کے مکمل ہونے کی قدروقیمت کو جانتا تھا جبکہ بہت سارے مسلمان اس سے غافل ہیں اور ایسے ایسے اُمور میں منہمک اور مشغول ہو کر رہ گئے ہیں کہ جنھیں وہ دین کا حصہ تصور کرتے ہیں حالانکہ دین ان سے قطعی طور پر بری ہے ۔

    2. نبی کریمﷺ نے ہر خیر کا حکم دے دیا تھا

    یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ اللہ کا یہ مکمل دین رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوا اور بلا ریب آپﷺ نے اسے اپنی اُمّت تک مکمل طور پر پہنچا دیا تھا۔ارشادِ نبوی ﷺہے :

    «مَا تَرَکْتُ شَیْأً یُقَرِّبُکُمْ إِلَى اللهِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلاَّ أَمَرْتُکُمْ بِه، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئاً یُقَرِّبُکُمْ إِلَى النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللهِ إِلَّا وَنَهَیْتُکُمْ عَنْهُ»

    " میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کردے ، اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کردے۔ "

    اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے :

    «مَا بَقِيَ شَیْئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلاَّ وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ»

    " ہر وہ چیز جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اسے تمھارے لئے بیان کردیا گیا ہے ۔ "

    نیز فرمایا :

    «مَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا أَمَرَکُمُ اللهُ بِه إِلاَّ قَدْ أَمَرْتُکُمْ بِه، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا نَهَاکُمْ عَنْهُ إِلاَّ قَدْ نَهَیْتُکُمْ عَنْهُ»

    " اللہ تعالیٰ نے تمھیں جن کاموں کا حکم دیا ہے میں نے بھی ان سب کا تمھیں حکم دے دیا ہے ۔ اور اللہ تعالی نے تمھیں جن کاموں سے منع کیا ہے میں نے بھی ان سب سے تمھیں منع کردیا ہے ۔ "

    ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خیر وبھلائی کا کوئی ایساکام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے اُمّت کو حکم نہ دیا ہو۔ اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے اُمّت کو روک نہ دیا ہو ۔ لہٰذا یہ جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ ہر وہ عمل جو لوگوں کے نزدیک خیر وبھلائی کاعمل تصور کیا جاتا ہو وہ اس وقت تک خیر وبھلائی کا عمل نہیں ہو سکتا جب تک رسول اللہﷺ سے اس کے متعلق کوئی حکم یا ترغیب ثابت نہ ہو ۔ اسی طرح برا عمل ہے کہ جب تک رسول اللہﷺ سے اس کے متعلق کوئی فرمان ثابت نہ ہو وہ برا تصور نہیں ہوگا ۔ گویا خیر وشر کے پہچاننے کا معیار رسول اللہﷺ ہیں ،کسی کا ذوق و رغبت نہیں کہ جس کا جی چاہے دین میں اپنے زُعم کے مطابق خیر کے کام داخل کرتا رہے یا اپنی منشا کے مطابق کسی عمل کو برا قرار دے دے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں