1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جشنِ میلاد النبی(ص) کےمقاصدواہداف (پہلا ہدف محبت)

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏16 مارچ 2008۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    [font=Arial, sans-serif]جشنِ میلاد النبی :saw: کے مقاصدواہداف[/font]
    محبت، اطاعت، دعوتِ حسنِ خُلق


    [font=Arial, sans-serif]تحریر : الشیخ محمد سعید رمضان البوطی۔۔۔۔۔۔۔ اردو ترجمہ : ڈاکٹر علی اکبر الازہری[/font]​

    مضمون نگار الشیخ محمد سعید رمضان البوطی کی شخصیت علمی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ نہ صرف عالم عرب بلکہ عالم اسلام کے نہایت متبحر اور چوٹی کے چند علماء میں سے ایک ہیں۔ طویل عرصہ دمشق یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور اب دمشق جیسے زرخیز علمی شہر میں سب سے بڑے حلقہ درس کے روح رواں ہیں۔ نہ صرف شام بلکہ مصر، اردن، لبنان اور دیگر عرب و عجم میں اپنے علم و فضل اور درجنوں انتہائی خوبصورت کتب کی وجہ سے عقیدت اور احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی تحریریں دنیا کے اعلیٰ ترین رسائل و جرائد میں چھپتی ہیں۔ زیرنظر مضمون ترکی سے شائع ہونے والے عربی سہ ماہی ’’حراء‘‘ کے صفحات کی زینت بنا۔ (مترجم)

    گذشتہسے پیوستہ (حصہ دوم)

    تجدیدِ محبت

    میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کا پہلا مقصد (جیسا کہ پہلے بیان ہوا) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق ایمانی کو مضبوط کرنے کے لیے محبت کی غذا فراہم کرنا ہے۔ میں یہ بات زور دے کر کہہ رہا ہوں کہ اس عمل کے ذریعے محبت کی تجدید اور استحکام مقصود ہے، محبت پیدا کرنا نہیں۔ اس لئے کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص دنیا میں ایسا بھی ہوگا جو اللہ تعالیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت و نبوت پر ایمان رکھتا ہو اور اس مبارک موقع پر اس کے دل کی کلی کھل نہ پائے۔ یہ اس رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا موقع ہے جس کو اللہ پاک نے پوری کائنات کا سردار اور ہمارے لئے سراپا رحمت و سعادت بنایا۔ اللہ تعالیٰ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی شان رحمت و رافت کو بیان فرماتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

    لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo

    ’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘o (التوبہ، 9 : 128)

    کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لایا ہو اور اس کے دل میں خدا اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے محبت کا جذبہ نہ ہو؟۔۔۔ نہیں یہ ممکن نہیں ہرگز نہیں۔ اس لئے ہم جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و مناقب پر مبنی تذکارِ رسالت، ان کی ذات گرامی کے ساتھ ہمارے تعلق محبت میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ گویا ہم اس اظہار مسرت کے ذریعے دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ من میں ڈوب کر اس محبت کی تجدید کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب کو اس حقیقت سے بھی آگاہ رہنا چاہئے جس کے متعلق خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

    لَا يُوْمِنُ اَحَدَکُمْ حَتّی اَکُوْنَ اَحَبَّ اليہ مِنْ مالِہ وَوَلَدِہ والناس اجمعين. (صحيح بخاری)

    ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتا جب تک میری ذات سے محبت، اس کی مال سے محبت، اس کی خونی رشتوں سے محبت اور دنیا میں موجود ہر انسان سے محبت کے مقابلے میں زیادہ نہ ہوجائے۔‘‘

    [font=Arial, sans-serif]حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی محبت کو لازم کیوں ٹھہرایا؟[/font]

    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات سے محبت کرنے کا اعلان کرکے خود پسندی یا اپنی شخصی اہمیت جتانے کی غرض سے اپنے پاس سے یہ بات نہیں فرمائی، معاذ اللہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ہمیں ہر اس چیز سے آگاہ فرمایا ہے جس کا حکم انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ آپ امت مصطفوی کو اپنی ذات سے محبت کی تعلیم دیں۔ اس لئے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہماری محبت اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا تقاضا اور اس کے ساتھ محبت کی شرائط میں سے ایک اہم شرط ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اس بنیادی ایمانی ضرورت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو آگاہ نہ فرماتے۔ (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات سے محبت کی ترغیب و تعلیم، خود پسندی، یا شخصیت پرستی کے لئے نہیں بلکہ ایمان کی مضبوطی اور تعلق باللہ میں استحکام پیدا کرنے کی غرض سے دی اور یہ آپ کے بنیادی فرائض میں سے تھا)۔ لہٰذا ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا حکم دیتے ورنہ یہ چیز کیسے ثابت ہوسکتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلاکم و کاست ہدایت کا فریضہ ادا فرمایا اور رسالت کی امانت کو اللہ تعالیٰ کے جملہ احکامات پر کما حقہ عمل کرکے ادا فرمایا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

    يَا اَيُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ اِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَاِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّہَ لاَ يَھْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَO

    ’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اﷲ کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتاo‘‘ (المائدہ، 5، 67)

    حضراتِ محترم! اپنے اپنے دلوں کے گوشوں میں جھانک کر دیکھئے اور اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس محبت کے جذبے کو ٹٹولئے نیز یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ان نفسانی اور روحانی امراض کے لئے نسخہ کیمیا ہے جن کا شکار من حیث الکل آج پوری امت مسلمہ ہوچکی ہے۔ ہاں میں پھر کہتا ہوں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہمارے مسائل کے لئے اکسیر دوا ہے بشرطیکہ ہمارے قلوب اس دولت سرمدی سے سرشار ہوجائیں اور اسی کیف میں دھڑکنا سیکھ لیں۔

    بُعد زمانی کو کم کرنے کا واحد نسخہ

    ہم وہ لوگ ہیں جو براہ راست دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادتوں سے محروم ہیں۔ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوے ہماری آنکھیں براہ راست نہیں سمیٹ سکیں۔ کیونکہ ہمارے اور ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان چودہ، پندرہ صدیوں کا زمانی فاصلہ حائل ہے۔ لہٰذا اس بُعد زمانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی دوری کو اسی طرح کم کیا جاسکتا ہے کہ ہم ان کے لئے خاص قسم کی تڑپ، ولولہ اور شوق اپنے اندر پیدا کر لیں جو ہمیں ہر وقت ان کے لئے بے تاب کئے رکھے اور ہمیں کھینچ کر ان کی قربت میں لے جائے۔ اس ذات گرامی کی قربت میں جو ہماری آرزؤں، ہمارے ولولوں اور ہمارے اشتیاق سے پہلے ہی ہماری (روحوں کی) طرف محبت اور اشتیاق سے متوجہ ہوچکے ہیں۔ کیا آپ کو وہ واقعہ یاد نہیں جب وصال مبارک سے تھوڑا پہلے آپ جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بقیع (وصال فرماجانے والے صحابہ اور شہداء) کو مخاطب کرکے سلام کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مختصر جماعت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    وَدِدتُ انی قد ريت اخواننا.
    ’’میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں‘‘۔

    صحابہ نے حیرت اور استعجاب کی حالت میں عرض کیا حضور! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ہم آپ کے بھائی بند نہیں؟ آپ نے فرمایا :

    بَل انتم اصحابی و اخوانی الذين لم ياتو بعد و انا فَرَطھم علی الحوض. (سنن النسائی)

    ’’بلکہ آپ میرے صحابی ہیں جبکہ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو آپ کے بعد والے زمانوں میں آئیں گے اور میں حوضِ کوثر پر ان کا استقبال کروں گا‘‘۔

    آپ نے دیکھا ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد میں آنے والے ہم لوگوں کے لئے کس قدر اشتیاق اور محبت کا اظہار فرمایا؟ پھر کیوں نہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اشتیاق کے بدلے میں اپنی طرف سے محبت اور اشتیاق کا اظہار کریں اور اسی محبت کے جواب میں حتی المقدور محبت کا مظاہرہ کریں۔ (تاکہ ہم بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوسکیں جن کا استقبال قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شافع یوم النشور حوض کوثر پر اپنی محبتوں کے جام پلاکر کروائیں گے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے ’’اخوان‘‘ کہلانے کی اہلیت پیدا کریں)۔

    میری سوچ، فکر اور عقیدہ یہی ہے کہ ہم حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت کی تجدید کرتے رہا کریں کیونکہ ہم اس تعلقِ خاطر کے سخت محتاج ہیں۔ یہ ہماری ایمانی اور وجدانی ضرورت ہے۔ (بعض لوگ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحیح تصور بھی نہیں سمجھتے اور بلاوجہ اس کی دینی اہمیت کو کم کرنے میں اپنی توانائیاں کھپاتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے) واضح کرتا چلوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہماری یہ محبت در اصل اﷲ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا حصہ ہے۔ یا یوں سمجھیں کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبت الٰہی کے تنے سے نکلی ہوئی شاخ ہے۔ ایسے لوگوں کی عقل کو متوجہ کرنے کے لئے کھجور کے اس خشک تنے کی مثال بڑی برموقع ہے۔ اس جامد اور بے جان خشک لکڑی کے ٹکڑے کی کہانی بھی کس قدر تعجب انگیز، حیران کن اور حیرت زدہ ہے۔۔۔ نہ اسے وہ شعور حاصل ہے جو شعور ہمارے پاس ہے۔۔۔ نہ اس کے پاس وہ دل ہے جیسا ہمارے پہلو میں ہے جو زندگی کی علامت کے طور پر دھڑکتا رہتا ہے۔ اس عقلی اور وجدانی صلاحیت کے فقدان کے باوجود قدرت نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس کے سبب وہ صلاحیت عطا کر دی کہ وہ محبوب خدا کے فراق میں تڑپ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوری کے صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور زارو قطار روپڑا۔ چہ جائے کہ وہ انسان جو غمگین دل کا مالک بھی ہوتا ہے اور اسے جذبوں کی فراوانی بھی قدرت سے ارزانی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس بے جان لکڑی کے تنے کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کے جذبات سے عاری ہے۔ کیا آپ اس بدنصیبی کا تصور کر سکتے ہیں؟

    ہاں یہ بھی یاد رہے کہ یہ واقعہ کوئی عام کہانی نہیں بلکہ امام بخاری کے علاوہ دیگر محدثین نے اسے اپنی کتب حدیث میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ آپ بھی اسے سنیں اور اپنا ایمان تازہ کریں۔ ہوا یوں کہ مسجد نبوی شریف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹھنے کے لئے آپ کی اجازت کے بعد لکڑی کا منبر رکھا گیا۔ خطبے سے پہلے جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہو کر خطاب فرماتے تھے وہاں کھجور کا خشک تنا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقفے کے دوران جب جلوس فرماتے تو اس تنے کے ساتھ اپنی پشت مبارک لگا کر تھوڑا آرام فرما لیتے تھے۔ نیا منبر جب تیار ہوگیا تو وہ اس جگہ سے تھوڑا دور رکھا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس نئے منبر پر کھڑے ہو کر پہلا خطبہ ارشاد فرمایا اور وقفے میں نیچے قیام فرما ہوئے تو اچانک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئیں جیسے کسی ہنڈیا کے ابلنے کے وقت آیا کرتی ہیں۔ یہ آوازیں اسی کھجور کے خشک تنے سے نکل رہی تھیں۔ وہ بے جان تنا جو عقل اور تصور کی حس سے (بظاہر) محروم تھا، جس کے پاس ہماری طرح محسوس کرنے والا دل بھی نہیں تھا مگر اس کے باوجود آپ کی قربت اور لمس نے اسے سراپا محبت و شوق بنادیا اور جب اسے منبر سے چند گز دور کر دیا گیا تو اس کا دردِ فراق جو ش میں آگیا۔ اس کے نالہ ہائے آہ و فراق سن کر پورے ماحول پر ایک سکوت آمیز وجد طاری ہوگیا یہاں تک کہ رسول خدا محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے اتر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مخاطب فرما کر السلام علیکم فرمایا اور اس وقت تک اپنا دستِ مبارک اس پر رکھے رکھا جب تک وہ بچے کی طرح ہچکیاں لیتے لیتے چپ نہیں ہوگیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے اس دوران پوچھ رہے ہوں گے تم کیا چاہتے ہو؟ پھر آپ نے اس سے مخاطب کرکے پوچھا اگر تم چاہتے ہو کہ تم سر سبز رہو اور تمہارے پھل قیامت تک لوگ کھاتے رہیں تو میں تمہیں زمین کے کسی بہترین حصے میں نصب کروادیتا ہوں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ تنے نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تجویز کا جواب نہیں دیا۔ گویا اسے ایسی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جو محبوب خدا کے قدموں سے دُوری کے عوض مل رہی تھی۔ بلکہ اس نے جو طلب کیا اس سے بھی اس کی محبت اور اشتیاق ہی ٹپک رہا ہے۔ عرض کیا : لَا : اُرِیْدُ قربکُ۔ ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ہری بھری دائمی زندگی قبول نہیں بلکہ (فنا ہوکر) وہ وصال چاہئے جس میں آپ کی قربت میسر رہے‘‘۔

    کیا ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے انسان اور مومن ہو کر بھی اس بے جان تنے جیسی آرزو اپنے سینے میں نہیں پال سکتے؟ افسوس صد افسوس ہمارے زمانے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے درمیان طویل زمانے حائل ہیں۔ ہماری آنکھیں ان کے جلوؤں سے مستفیض ہو سکیں اور نہ ہمیں آپ کا قربِ زمانی یا مکانی حاصل ہو سکا ہے تو کیا محرومی کے اس احساس کے بعد محبت کے دعوے دار ہونے کی بناء پر اس بے جان تنے سے بڑھ کر ہم حسن آرزو کا استحقاق نہیں رکھتے؟ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چشم تصور میں لا کر خشک کھجور کی طرح یہ عرض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ’’یا رسول اﷲ ہمیں آپ کی قربت چاہئے۔‘‘

    لوگو! محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قلب و باطن میں محسوس کیا کرو۔ اسے اپنے روح میں اتر کر تلاش کیا کرو۔ اگر آپ اپنے من میں جھانک کر دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ ہمارے نفوس پر دنیا کے مال و دولت، اہل و عیال اور دیگر دنیوی رشتوں کی محبتیں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر غالب آچکی ہیں۔ مجازی محبتوں کا حقیقی محبت پر یہی غلبہ دنیا میں ہمارے جملہ مسائل اور مشکلات کے اضافے کا سبب ہے۔ یاد رکھیں! آج اسلامی معاشرے اور اہل اسلام کی زندگیاں جن مسائل کا شکار ہیں (اس دوا کے علاوہ) ان کا کوئی حل نہیں۔ اگرچہ عقل و خرد اور فکرو علم ان مسائل کا حل پیش کرنے کی کاوش کرتے رہتے ہیں لیکن عقل اور منطق ان مشکلات کے حل کا کوئی قابل عمل فارمولا ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہاں یہ صلاحیت اور قوت حضرت دل کے پاس ہے وہ ان امراضِ امت کا حل پیش کرسکتا ہے اور ہمیشہ کرتا بھی رہا ہے۔ عقل تو زیادہ سے زیادہ رہنمائی ہی کرسکتی ہے۔ صرف اتنی رہنمائی جتنی ایک سپاہی (جو ڈیوٹی پر مامور ہوتا ہے) راستہ بھولے ہوئے شخص کو درست راستے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کرتا ہے۔ عقل کی دوڑ صرف اتنی ہے اس سے آگے نہیں لیکن کامیابی اور ہدایت کی منزل تک پہنچنے کے لیے اتنی رہنمائی کافی نہیں۔ کامل ہادی اور مخلص رہنما تو وہ ہوتا ہے جو اشارے سے راہنمائی پر اکتفا نہ کرے بلکہ انسان کی انگلی پکڑ کر حفاظت کے ساتھ اسے منزلِ مقصود تک پہنچا دے اور یہ ھادی محبت ہے۔۔۔ اور صرف محبت۔

    محبت ہی وہ طاقت ہے جو مومن کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ پاؤں کی ٹھوکر کے ساتھ دنیا اور اس کی تمام آلائشوں کو خانۂ دل سے نکال باہر کرتا ہے۔ محبت ہی مومن کو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت بخشتی ہے اور وہ اﷲ کی توفیق سے ان علائق اور مفاسد کو ٹھوکر مار کر دور کردیتا ہے جو اﷲ کے دین اور اس کی شریعت میں کسی قسم کے فساد اور تخریب کا باعث ہوسکتی ہو۔ ہاں دوستو! ہمارے نزدیک یہی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقاریب منعقد کرنے کا مقصد اولین ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ عالی میں ہم دعا گو ہیں کہ وہ ذات ہمارے قلوب کو سب سے پہلے اپنی محبت اور پھر اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت کے صاف ستھرے خزانے بنا دے۔ (جاری ہے)
     
  2. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    صلی اللہ علیہ وسلم

    جزاک اللہ
    صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
     
  3. محمدعبیداللہ
    آف لائن

    محمدعبیداللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 فروری 2007
    پیغامات:
    1,054
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ، ماشاء اللہ
    صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
     
  4. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    جزاک اللہ۔ نعیم بھائی!
     
  5. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    نعیم بھائی ۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
    آپ نے عرب عالم دین کی اتنی خوبصورت تحریر ہم سب کے استفادے اور ایمان کو پختہ کرنے کے لیے پیش کی۔ ایک مخصوص طبقہء فکر کی طرف سے عام طور پر برصغیر پاک و ہند میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سارے بلادِ عرب میں کوئی میلاد نہیں مناتا بلکہ یہ کام صرف پاک و ہند میں ہی ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
    لیکن اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب مشائخ و علما بھی حضور :saw: کا میلاد اتنی محبت سے مناتے ہیں۔ ماشاء اللہ ۔
    اللہ تعالی سب کو اپنے نبی رحمت :saw: کے آمد پر میلاد مناتے ہوئے شکرِ الہی منانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  6. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    الحمد للہ رب العالمين، والصلاۃ والسلام على نبينا محمد و صحبہ اجمعين، و بعد:
    سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے سب صحابہ كرام پر سلامتى كى دعا كے بعد:

    كتاب و سنت ميں اللہ تعالى كى شريعت اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى اور دين اسلام ميں بدعات ايجاد كرنے سے باز رہنے كے بارہ جو كچھ وارد ہے وہ كسى پر مخفى نہيں.

    اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
    {كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو پھر ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى پيروى و اتباع كرو، اللہ تعالى تم سے محبت كرنے لگے گا، اور تمہارے گناہ معاف كر دے گا} آل عمران ( 31 ).

    اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
    {جو تمہارے رب كى طرف سے تمہارى طرف نازل ہوا ہے اس كى اتباع اور پيروى كرو، اور اللہ تعالى كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى اتباع و پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو}الاعراف ۔3

    اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:
    {اور يہ كہ يہ دين ميرا راستہ ہے جو مستقيم ہے، سو اسى كى پيروى كرو، اور اسى پر چلو، اس كے علاوہ دوسرے راستوں كى پيروى مت كرو، وہ تمہيں اللہ كے راستہ سے جدا كرديں گے} الانعام ۔153

    اور حديث شريف ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    ” بلا شبہ سب سے سچى بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر ہدايت و راہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور اس دين ميں بدعات كى ايجاد ہے”

    اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
    ” جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے”
    صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 )

    اور مسلم شريف ميں روايت ميں ہے كہ:
    ” جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے”
    لوگوں نے جو بدعات آج ايجاد كرلى ہيں ان ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں ميلاد النبى كا جشن بھى ہے ( جسے جشن آمد رسول بھى كہا جانے لگا ہے ).

    يہ جشن كئى اقسام و انواع ميں منايا جاتا ہے:
    * كچھ لوگ تو اسے اجتماع تك محدود ركھتے ہيں ( يعنى وہ اس دن جمع ہو كر ) نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كا قصہ پڑھتے ہيں، يا پھر اس ميں اسى مناسبت سے تقارير ہوتى اور قصيدے پڑھے جاتے ہيں.

    * كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو كھانے تيار كرتے اور مٹھائى وغيرہ تقسيم كرتے ہيں.

    * كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يہ جشن مساجد ميں مناتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اپنے گھروں ميں مناتے ہيں.

    * كچھ ايسے بھى ہيں جو اس جشن كو مذكورہ بالا اشياء تك ہى محدود نہيں ركھتے، بلكہ وہ اس اجتماع كو حرام كاموں پر مشتمل كر ديتے ہيں جس ميں مرد و زن كا اختلاط، اور رقص و سرور اور موسيقى كى محفليں سجائى جاتى ہيں، اور شركيہ اعمال بھى كيے جاتے ہيں، مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنا، اور انہيں پكارنا، اور دشمنوں پر نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے مدد مانگنا، وغيرہ اعمال شامل ہوتے ہيں.

    جشن ميلاد النبى كى جتنى بھى انواع و اقسام ہيں، اور اسے منانے والوں كے مقاصدہ چاہيں جتنے بھى مختلف ہوں، بلاشك و شبہ يہ سب كچھ حرام اور بدعت اور دين اسلام ميں ايك نئى ايجاد ہے، جو فاطمى شيعوں نے دين اسلام اور مسلمانوں كے فساد كے ليے پہلے تينوں افضل دور گزر جانے كے بعد ايجاد كى. اس کے منانے کی وجہ یہ ہی کہ شیعہ حضرات مقطع نبوت کو مطلع امامت سمجھتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں.

    اسے سب سے پہلے منانے والا اور ظاہر كرنے والا شخص اربل كا بادشاہ ملك مظفر ابو سعيد كوكپورى تھا، جس نے سب سے پہلے جشن ميلاد النبى چھٹى صدى كے آخر اور ساتويں صدى كے اوائل ميں منائى، جيسا كہ مورخوں مثلا ابن خلكان وغيرہ نے ذكر كيا ہے.

    اور ابو شامہ كا كہنا ہے كہ:
    موصل ميں اس جشن كو منانے والا سب سے پہلا شخص شيخ عمر بن محمد ملا ہے جو كہ مشہور صلحاء ميں سے تھا، اور صاحب اربل وغيرہ نے بھى اسى كى اقتدا كى.

    حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالى ” البدايۃ والنھايۃ” ميں ابو سعيد كوكپورى كے حالات زندگى ميں كہتے ہيں:
    ( اور يہ شخص ربيع الاول ميں ميلاد شريف منايا كرتا تھا، اور اس كا جشن بہت پرجوش طريقہ سے مناتا تھا،
    انہوں نے يہاں تك كہا كہ: بسط كا كہنا ہے كہ:
    ملك مظفر كے كسى ايك جشن ميلاد النبى كے دسترخوان ميں حاضر ہونے والے ايك شخص نے بيان كيا كہ اس دستر خوان ( يعنى جشن ميلاد النبى كے كھانے ) ميں پانچ ہزار بھنے ہوئے بكرے، اور دس ہزار مرغياں، اور ايك لاكھ پيالياں، اور حلوى كے تيس تھال پكتے تھے..

    اور پھر كہا كہ:
    صوفياء كے ليے ظہر سے فجر تك محفل سماع كا انتظام كرتا اور اس ميں خود بھى ان كے ساتھ رقص كرتا اور ناچتا تھا.
    البدايۃ والنھايۃ ( 13 / 137 ).

    ” وفيات الاعيان ” ميں ابن خلكان كہتے ہيں:
    جب صفر كا شروع ہوتا تو وہ ان قبوں كو بيش قيمت اشياء سے مزين كرتے، اور ہر قبہ ميں مختلف قسم كے گروپ بيٹھ جاتے، ايك گروپ گانے والوں كا، اور ايك گروپ كھيل تماشہ كرنے والوں كا، ان قبوں ميں سے كوئى بھى قبہ خالى نہ رہنے ديتے، بلكہ اس ميں انہوں نے گروپ ترتيب ديے ہوتےتھے.
    اس دوران لوگوں كے كام كاج بند ہوتے، اور صرف ان قبوں اور خيموں ميں جا كر گھومتے پھرنے كے علاوہ كوئى اور كام نہ كرتے.

    اس كے بعد وہ كہتے ہيں:
    جب جشن ميلاد ميں ايك يا دو روز باقى رہتے تو اونٹ، گائے، اور بكرياں وغيرہ كى بہت زيادہ تعداد باہر نكالتے جن كا وصف بيان سے باہر ہے، اور جتنے ڈھول، اور گانے بجانے، اور كھيل تماشے كے آلات اس كے پاس تھے وہ سب ان كے ساتھ لا كر انہيں ميدان ميں لے آتے.

    اس كے بعد كہتے ہيں:
    اور جب ميلاد كى رات ہوتى تو قلعہ ميں نماز مغرب كے بعد محفل سماع منعقد كرتا.
    وفيات الاعيان لابن خلكان ( 3/ 274 ).

    جشن ميلاد النبى كى ابتداء اور بدعت كا ايجاد اس طرح ہوا.

    يہ بہت دير بعد پيدا ہوئى اور اس كے ساتھ لہو لعب اور كھيل تماشہ اور مال و دولت اور قيمتى اوقات كا ضياع مل كر ايسى بدعت سامنے آئى جس كى اللہ تعالى نے كوئى دليل نازل نہيں فرمائى.

    مسلمان كوچاہيے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كا احياء كرے اور جتنى بھى بدعات ہيں انہيں ختم كرے، اور كسى بھى كام كو اس وقت تك سرانجام نہ دے جب تك اسے اس كے متعلق اللہ تعالى كا حكم معلوم نہ ہو.

    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم:
    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كئى ايك وجوہات كى بنا پر ممنوع ہے:
    اول:
    كيونكہ يہ نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں سے ہے، اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلفاء راشدين كى سنت ہے. جو اس طرح كا كام ہو يعنى نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہو اور نہ ہى خلفاء راشدہ كى سنت تو وہ بدعت اور ممنوع ہے.

    اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    ” ميرى اور ميرے خلفاء راشدين مہديين كى سنت پر عمل پيرا رہو، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى و ضلالت ہے”
    احمد ( 4 / 126 ) ترمذى حديث نمبر ( 2276 )


    ميلاد كا جشن منانا بدعت اور دين ميں نيا كام ہے. يہ فاطمى شيعہ حضرات نے مقطع نبوت کو مطلع امامت سمجھتے ہوئے, خوشیاں منانے, مسلمانوں كے دين كو خراب كرنے اور اس ميں فساد مچانے كے ليے پہلے تين افضل ادوار گزر جانے كے بعد ايجاد كيا.

    جو كوئى بھى اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے ايسا كام كرے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو خود كيا اور نہ ہى اس كے كرنے كا حكم ديا ہو، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد خلفاء راشدين نے كيا ہو، تو اس كے كرنے كا نتيجہ يہ نكلتا اور اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر يہ تہمت لگتى ہے كہ ( نعوذ باللہ ) نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين اسلام كو لوگوں كے ليے بيان نہيں كيا.

    ايسا فعل كرنے سے اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان كى تكذيب بھى لازم آتى ہے:
    فرمان بارى تعالى ہے:
    {آج كے دن ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا ہے} المائدۃ ( ٣ ).
    كيونكہ وہ اس زيادہ كام كو دين ميں شامل سمجھتا ہےاور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ہم تك نہيں پہنچايا.

    دوم:
    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانے ميں نصارى ( عيسائيوں ) كے ساتھ مشابھت ہے، كيونكہ وہ بھى عيسى عليہ السلام كى ميلاد كا جشن مناتے ہيں، اور عيسائيوں سے مشابہت كرناحرام ہے.

    حديث شريف ميں بھى كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا گيا اور ان كى مخالفت كا حكم ديا گيا ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا:
    ” جس نے بھى كسى قوم كے ساتھ مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے”
    مسند احمد (2 / 50 ) سنن ابو داود ( 4 / 314 ).

    اور ايك روايت ميں ہے:
    ” مشركوں كى مخالفت كرو”
    صحيح مسلم شريف حديث ( 1 / 222 ) حديث نمبر ( 259 ).

    خاص كر ان كے دينى شعائر اور علامات ميں تو مخالف ضرور ہونى چاہيے.

    سوم:
    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بدعت اور عيسائيوں كے ساتھ مشابہت تو ہے ہى، اور يہ دونوں كام حرام بھى ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اسى طرح يہ غلو اور ان كى تعظيم ميں مبالغہ كا وسيلہ بھى ہے، حتى كہ يہ راہ اللہ تعالى كے علاوہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنے اور مانگنے كى طرف بھى لے جاتا ہے، اور شركيہ قصيدے اور اشعار وغيرہ بنانے كا باعث بھى ہے، جس طرح قصيدہ بردہ وغيرہ بنائے گئے.

    حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان كى مدح اور تعريف كرنے ميں غلو كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:
    ” ميرى تعريف ميں اس طرح غلو اور مبالغہ نہ كرو جس طرح نصارى نے عيسى بن مريم عليہ السلام كى تعريف ميں غلو سے كام ليا، ميں تو صرف اللہ تعالى كا بندہ ہوں، لھذا تم ( مجھے ) اللہ تعالى كا بندہ اور اس كا رسول كہا كرو”
    صحيح بخارى ( 4 / 142 ) حديث نمبر ( 3445 )، فتح البارى ( 6 / 551 ).

    يعنى تم ميرى مدح اور تعريف و تعظيم ميں اس طرح غلو اور مبالغہ نہ كرو جس طرح عيسائيوں نے عيسى عليہ السلام كى مدح اور تعظيم ميں مبالغہ اور غلو سے كام ليا، حتى كہ انہوں نے اللہ تعالى كے علاوہ ان كى عبادت كرنا شروع كردى، حالانكہ اللہ تعالى نے انہيں ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:
    {اے اہل كتاب تم اپنے دين ميں غلو سے كام نہ لو، اور نہ ہى اللہ تعالى پر حق كے علاوہ كوئى اور بات كرو، مسيح عيسى بن مريم عليہ السلام تو صرف اور صرف اللہ تعالى كے رسول اور اس كے كلمہ ہيں، جسے اس نے مريم كى جانب ڈال ديا، اور وہ اس كى جانب سے روح ہيں} النساء ( 171 ).

    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر ہميں اس غلو سے روكا اور منع كيا تھا كہ كہيں ہميں بھى وہى كچھ نہ پہنچ جائے جو انہيں پہنچا تھا، اسى كے متعلق بيان كرتے ہوئے فرمايا:
    ” تم غلو اور مبالغہ كرنے سے بچو، كيونكہ تم سے پہلے لوگ بھى غلو اور مبالغہ كرنے كى بنا پر ہلاك ہو گئے تھے”
    سنن نسائى شريف ( 5 / 268 ) صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 2863 )

    چہارم:
    جشن ميلاد كى بدعت كا احياء اور اسے منانے سے كئى دوسرى بدعات منانے اور ايجاد كرنے كا دروازہ بھى كھل جائے گا، اوراس كى بنا پر سنتوں سے بے رخى اور احتراز ہو گا، اسى ليے آپ ديكھيں كہ بدعتى لوگ بدعات تو بڑى دھوم دھام اور شوق سے مناتے ہيں، ليكن جب سنتوں كى بارى آتى ہے تو اس ميں سستى اور كاہلى كا مظاہرہ كرتے ہوئے ان سے بغض اور ناراضگى كرتے ہيں، اور سنت پر عمل كرنے والوں سے بغض اور كينہ و عداوت ركھتے ہيں، حتى كہ ان بدعتى لوگوں كا سارا اور مكمل دين صرف يہى ميلاديں اور جشن ہى بن گئے ہيں، اور پھر وہ فرقوں اور گروہوں ميں بٹ چكے ہيں اور ہر گروہ اپنے آئمہ كرام كے عرس اور ميلاديں منانے كا اہتمام كرتا پھرتا ہے، مثلا شيخ بدوى كا عرس اور ميلاد، اور ابن عربى كا ميلاد، اور دسوقى اور شا ذلى كا ميلاد، ( ہمارے يہاں بر صغير پاك و ہند ميں تو روزانہ كسى نہ كسى شخصيت كا عرس ہوتا رہتا ہے كہيں على ھجويرى گنج بخش اور كہيں اجمير شريف اور كہيں حق باہو اور كہيں پاكپتن، الغرض روزانہ ہى عرس ہو رہے ہيں ) اور اسى طرح وہ ايك ميلاد اور عرس سے فارغ ہوتے ہيں تو دوسرے ميلاد ميں مشغول ہو جاتے ہيں.

    اس كے علاوہ دوسرے فوت شدگان كے ساتھ اس غلو كا نتيجہ يہ نكلا كہ اللہ تعالى كو چھوڑ كر انہيں پكارنا شروع كر ديا گيا اور ان سے مراديں پورى كروائى جانے لگى ہيں.

    ان كے متعلق ان لوگوں كا يہ عقيدہ اور نظريہ بن چكا ہے كہ يہ فوت شدگان نفع و نقصان كے مالك ہيں، اور نفع ديتے اور نقصان پہنچاتے ہيں، حتى كہ يہ لوگ اللہ تعالى كےدين سے نكل كر اہل جاہليت كے دين كى طرف جا نكلے ہيں، جن كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
    {اور وہ اللہ تعالى كے علاوہ ان كى عبادت كرتے ہيں جو نہ تو انہيں نقصان پہنچا سكتے ہيں اور نہ ہى كوئى نفع دے سكتے ہيں، اور وہ كہتے ہيں كہ يہ اللہ تعالى كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں} يونس ( 18 ).

    اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
    {اور جن لوگوں نے اللہ تعالى كے علاوہ دوسروں كو اپنا ولى بنا ركھا ہے، اور كہتے ہيں كہ ہم ان كى عبادت صرف اس ليے كرتے ہيں كہ يہ بزرگ اللہ تعالى كے قرب تك ہمارى رسائى كرا ديں} الزمر ( 3 ).

    جشن ميلاد منانے والوں كے شبہ كا مناقشہ:
    اس بدعت كو منانے كو جائز سمجھنے والوں كا ايك شبہ ہے جو مكڑى كے جالے سے بھى كمزور ہے، ذيل ميں اس شبہ كا ازالہ كيا جاتا ہے:

    1 - يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم و تكريم كے ليے منايا جاتا ہے:
    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم يہ ہے كہ
    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كى جائے.
    رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے.
    رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرامين پر عمل پيرا ہوا جائے.
    جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے اس سے اجتناب كيا جائے.

    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سب سے زيادہ تعظيم اور عزت كرنے والے صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين تھے جيسا كہ عروۃ بن مسعود نے قريش كو كہا تھا:
    ( ميرى قوم كے لوگو! اللہ تعالى كى قسم ميں بادشاہوں كے پاس بھى گيا ہوں اور قيصر و كسرى اور نجاشى سے بھى ملا ہوں، اللہ كى قسم ميں نے كسى بھى بادشاہ كے ساتھيوں كواس كى اتنى عزت كرتے ہوئے نہيں ديكھا جتنى عزت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى كرتے ہيں، اللہ كى قسم اگر محمد صلى اللہ عليہ وسلم تھوكتے ہيں، تو وہ تھوك بھى صحابہ ميں سے كسى ايك كے ہاتھ پر گرتى ہے، اور وہ تھوك اپنے چہرے اور جسم پر مل ليتا ہے، اور جب وہ انہيں كسى كام كا حكم ديتے ہيں تو ان كے حكم پر فورا عمل كرتے ہيں، اور جب محمد صلى اللہ عليہ وسلم وضوء كرتے ہيں تو اس كے ساتھى وضوء كے پانى پر ايك دوسرے سے جھگڑتے ہيں، اور جب اس كے سامنے بات كرتے ہيں تو اپنى آواز پست ركھتے ہيں، اور اس كى تعظيم كرتے ہوئے اسے تيز نظروں سے ديكھتے تك بھى نہيں”
    صحيح بخارى شريف ( 3 / 178 ) حديث نمبر ( 3127 ) ( 2732 )، فتح البارى ( 5 / 388 ).

    اس تعظيم كے باوجود محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھيوں نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے يوم پيدائش كو جشن اور عيد ميلاد كا دن نہيں بنايا، اگر ايسا كرنا مشروع اور جائز ہوتا تو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كبھى بھى اس كو ترك نہ كرتے.

    2 - بہت سے ملكوں كے لوگ يہ جشن مناتے ہيں:
    حجت اور دليل تو وہى ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو عمومى طور پر بدعات كى ايجاد اور اس پر عمل كرنے كى نہى ثابت ہے يہ جشن بھى اس ميں شامل ہوتا ہے.

    جب لوگوں كا عمل كتاب و سنت كى دليل كے مخالف ہو تو وہ عمل حجت اور دليل نہيں بن سكتا چاہے اس پر عمل كرنے والوں كى تعداد كتنى بھى زيادہ كيوں نہ ہو:

    فرمان بارى تعالى ہے:
    {اگر آپ زمين ميں اكثر لوگوں كى اطاعت كرنے لگ جائيں تو وہ آپ كو اللہ تعالى كى راہ سے گمراہ كر ديں گے}الانعام ( 116 ).

    اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ الحمد للہ ہر دور ميں بدعت كو ختم كرنے اور اسے مٹانے اور اس كے باطل كو بيان كرنے والے لوگ موجود رہے ہيں، لہذا حق واضح ہو جانے كے بعد كچھ لوگوں كا اس بدعت پر عمل كرتے رہنا كوئى حجت اور دليل نہيں بن جاتى.

    اس جشن ميلاد كا انكار كرنے والوں ميں
    شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى شامل ہيں جنہوں نے اپنى معروف كتاب” اقتضاء الصراط المستقيم” ميں اور
    امام شاطبى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب” الاعتصام” ميں اور
    ابن الحاج نے ” المدخل” ميں اور
    شيخ تاج الدين على بن عمر اللخمى نے تو اس كے متعلق ايك مستقل كتاب تاليف كى ہے، اور
    شيخ محمد بشير السھوانى ھندى نے اپنى كتاب ” صيانۃ الانسان” ميں اور
    سيد محمد رشيد رضا نے بھى ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور
    شيخ محمد بن ابراہيم آل شيخ نے بھى اس موضوع كے متعلق ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور
    جناب فضيلۃ الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى اور ان كے علاوہ كئى ايك نے بھى اس بدعت كے بارے ميں بہت كچھ لكھا اور اس كا بطلان كيا ہے، اور آج تك اس كے متعلق لكھا جا رہا ہے، بلكہ ہر برس اس بدعت منانے كے ايام ميں اخبارات اور ميگزينوں اور رسلائل و مجلات ميں كئى كئى صفحات لكھے جاتے ہيں.

    3 - جشن ميلاد منانے ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد كا احياء ہوتا ہے.
    رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد ہر مسلمان ہر وقت كرتا رہتا ہے اور اس سے ہر وقت مرتبط رہتا ہے.
    جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام اذان ميں آتا ہے يا پھر اقامت ميں يا تقارير اور خطبوں ميں، اور وضوء كرنے اور نماز كى ادائيگى كے بعد جب كلمہ پڑھا جاتا ہے، اور نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتے وقت بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد ہوتى ہے.

    جب بھى مسلمان كوئى صالح اور واجب و فرض يا پھر مستحب عمل كرتا ہے، جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كيا ہے، تو اس عمل سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ ہوتى ہے.
    اس طرح مسلمان شخص ہر وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ كرتا رہتا ہے، اور پورى عمر ميں دن اور رات كو اس سے مربوط ركھتا ہے جو اللہ تعالى نے مشروع كيا ہے، نہ كہ صرف جشن ميلاد منانے كے ايام ميں ہى ، اور پھر جبكہ يہ جشن ميلاد يا جشن آمد رسول منانا بدعت اور ناجائز ہے تو پھر يہ چيز تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہميں دور كرتى ہے نہ كہ نزديك اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اس سے برى ہيں.

    اللہ تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم كے ليے وہ كام مشروع كيے ہيں جن ميں ان كى عزت و توقير ہوتى ہے، جيسا كہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
    {اور ہم نے آپ كا ذكر بلند كر ديا} الشرح ( 4 ).
    تو جب بھى اذان ہو يا اقامت يا خطبہ اس ميں جب اللہ تعالى كا ذكر ہوتا ہے تو اس كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ذكر لازمى ہوتا ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت و تعظيم اور ان كى عزت و تكريم اور توقير كى تجديد كے ليے اور ان كى اتباع و پيروى كرنے پر ابھارنے كے ليے كافى ہے.

    اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد فرقان حميد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بعثت كو احسان اور انعام قرار ديا ہے.

    ارشاد بارى تعالى ہے:
    {يقينا اللہ تعالى نے مومنوں پر احسان اور انعام كيا جب ان ميں سے ہى ايك رسول ان ميں مبعوث كيا}آل عمران ( 164 ).
    اور ايك مقام پر اس طرح ارشاد فرمايا:
    {اللہ وہى ہے جس نے اميوں ميں ان ميں سے ہى ايك رسول مبعوث كيا} الجمعۃ ( 2).

    4 - ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا جشن منانے كى ايجاد تو ايك عادل اور عالم بادشاہ نے كى تھى اور اس كا مقصد اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنا تھا!
    بدعت قابل قبول نہيں چاہے وہ كسى سے بھى سرزد ہو، اور اس كا مقصد كتنا بھى اچھا اور بہتر ہى كيوں نہ ہو، اچھے اور بہتر مقصد سے كوئى برائى كرنا جائز نہيں ہو جاتى، اور كسى كا عالم اور عادل ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ معصوم ہے.

    5 - جشن ميلاد النبى بدعت حسنۃ ميں شمار ہوتى ہے، كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وجود پر اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے كى خبر ديتى ہے.
    بدعت ميں كوئى چيز حسن نہيں ہے بلكہ وہ سب بدعت ہى شمار ہوتى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    ” جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے ”
    صحيح بخارى ( 3/ 167) حديث نمبر ( 2697) فتح البارى ( 5/ 355).

    اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
    ” يقينا ہر بدعت گمراہى ہے”
    امام احمد مسند احمد ( 4/ 126) امام ترمذى جامع ترمذى حديث نمبر ( 2676).

    رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب بدعتوں پر گمراہى كا حكم صادر كر ديا ہے. سارى بدعتيں گمراہى نہيں بلكہ كچھ بدعتيں حسنہ بھى ہيں.

    حافظ ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى شرح الاربعين ميں كہتے ہيں:
    ( رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: ” ہر بدعت گمراہى ہے” يہ جوامع الكلم ميں سے ہے، اس سے كوئى چيز خارج نہيں، اور يہ دين كے اصولوں ميں سے ايك عظيم اصول ہے، اور يہ بالكل نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے اسى قول كى طرح اور شبيہ ہے:
    ” جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں ايسا كام ايجاد كر ليا جو اس ميں سے نہيں تو وہ عمل مردود ہے”
    بخارى ( 3/ 167) حديث نمبر ( 2697) فتح البارى ( 5/ 355).

    جس نے بھى كوئى ايجاد كركے اسے دين كى جانب منسوب كر ديا، اور دين اسلام ميں اس كى كوئى دليل نہيں جس كى طرف رجوع كيا جا سكے تو وہ گمراہى اور ضلالت ہے، اور دين اس سے برى ہے دين كے ساتھ اس كا كوئى تعلق اور واسطہ نہيں، چاہے وہ اعقادى مسائل ميں ہو يا پھر اعمال ميں يا ظاہرى اور باطنى اقوال ميں ہو ).
    جامع العلوم والحكم صفحہ نمبر ( 233).

    اور ان لوگوں كے پاس بدعت حسنہ كى اور كوئى دليل نہيں سوائے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا نماز تراويح كے متعلق قول ہى ہے، جس ميں انہوں نے كہا تھا:
    ( نعمت البدعۃ ھذہ ) يہ طريقہ اچھا ہے. اسے بخارى نے تعليقا بيان كيا ہے.
    صحيح بخارى شريف ( 2/ 252) حديث نمبر ( 2010) فتح البارى ( 4/ 294).

    6 - كچھ ايسى نئى اشياء ايجاد كى گئى جن كا سلف نے انكار نہيں كيا تھا: مثلا قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنا، اور حديث شريف كى تحرير و تدوين.

    ان امور كى شريعت مطہرہ ميں اصل ملتى ہے، لہذا يہ كوئى بدعت نہيں بنتے.
    اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ” يہ طريقہ اچھا ہے” ان كى اس سے مراد لغوى بدعت تھى نہ كہ شرعى، لہذا جس كى شريعت ميں اصل ملتى ہو تو اس كى طرف رجوع كيا جائے گا.

    جب كہا جائے كہ: يہ بدعت ہے تو يہ لغت كے اعتبار سے بدعت ہو گى نہ كہ شريعت كے اعتبار سے، كيونكہ شريعت ميں بدعت اسے كہا جاتا ہے جس كى شريعت ميں كوئى دليل اور اصل نہ ملتى ہو جس كى طرف رجوع كيا جا سكے.

    اور قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنے كى شريعت ميں دليل ملتى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قرآن مجيد لكھنے كا حكم ديا كرتے تھے، ليكن قرآن جدا جدا اور متفرق طور پر لكھا ہوا تھا، تو صحابہ كرام نے اس كى حفاظت كے ليے ايك كتاب ميں جمع كر ديا.

    اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو چند راتيں تراويح كى نماز پڑھائى تھى، اور پھر اس ڈر اور خدشہ سے چھوڑ دى كے كہيں ان پر فرض نہ كر دى جائے، اور صحابہ كرام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں عليحدہ عليحدہ اور متفرق طور پر ادا كرتے رہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد بھى اسى طرح ادا كرتے رہے، يہاں تك كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں ايك امام كے پيچھے جمع كر ديا، جس طرح وہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے تھے، اور يہ كوئى دين ميں بدعت نہيں ہے.

    اور حديث لكھنے كى بھى شريعت ميں دليل اور اصل ملتى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كچھ احاديث بعض صحابہ كرام كو ان كے مطالبہ پر لكھنے كا حكم ديا تھا.

    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں احاديث عمومى طور پر اس خدشہ كے پيش نظر ممنوع تھيں كہ كہيں قرآن مجيد ميں وہ كچھ نہ مل جائے جو قرآن مجيد كا حصہ نہيں، لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ ممانعت جاتى رہى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے قبل قرآن مجيد مكمل ہو گيا اور لكھ ليا گيا تھا، اور اسے احاطہ تحرير اور ضبط ميں لايا جا چكا تھا.

    تو اس كے بعد مسلمانوں نے سنت كو ضائع ہونے سے بچانے كے ليے احاديث كى تدوين كى اور اسے لكھ ليا، اللہ تعالى انہيں اسلام اور مسلمانوں كى طرف سے جزائے خير عطا فرمائے كہ انہوں نے اپنے رب كى كتاب اور اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كو ضائع ہونے اور كھيلنے والوں كے كھيل اور عبث كام سے محفوظ كيا.

    تمہارے خيال اور گمان كے مطابق اس شكريہ كى ادائيگى ميں تاخير كيوں كى گئى، اور اسے پہلے جو افضل ادوار كہلاتے ہيں، يعنى صحابہ كرام اور تابعين عظام اور تبع تابعين كے دور ميں كيوں نہ كيا گيا، حالانكہ يہ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت زيادہ اور شديد محبت ركھتے تھے، اور خير و بھلائى كے كاموں اور شكر ادا كرنے ميں ان كى حرص زيادہ تھى، تو كيا جشن ميلاد كى بدعت ايجاد كرنے والے ان سے بھى زيادہ ہدايت يافتہ اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے والے تھے؟ حاشا و كلا ايسا نہيں ہو سكتا.

    7- جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ظاہر كرتا ہے، اور يہ اس محبت كے مظاہر ميں سے ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا اظہار كرنا مشروع اور جائز ہے !

    بلاشك و شبہ ہر مسلمان شخص پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت واجب ہے، اور يہ محبت اپنى جان، مال اور اولاد اور والد اور سب لوگوں سے زيادہ ہونى چاہيے- ميرے ماں باپ نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر قربان ہوں - ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ ہم ايسى بدعات ايجاد كر ليں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے مشروع بھى نہ كى ہوں بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو يہ تقاضا كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے اور ان كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كے مظاہر ميں سے سب عظيم ہے، كسى شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے:

    اگر تيرى محبت سچى ہوتى تو اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا، كيونكہ محبت كرنے والا اپنے محبوب كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا ہے.

    لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا تقاضا ہے كہ ان كى سنت كا احياء كيا جائے، اور سنت رسول كو مضبوطى سے تھام كر اس پر عمل پيرا ہوا جائے، اور افعال و اقوال ميں سے جو كچھ بھى سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كا مخالف ہو اس سے اجتناب كرتے ہوئے اس سے بچا جائے.

    اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ جو كام بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے خلاف ہے وہ قابل مذمت بدعت اور ظاہرى معصيت و گناہ كا كام ہے، اور جشن آمد رسول يا جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم وغيرہ بھى اس ميں شامل ہوتا ہے.

    چاہے نيت كتنى بھى اچھى ہو اس سے دين اسلام ميں بدعات كى ايجاد جائز نہيں ہو جاتى، كيونكہ دين اسلام دو اصلوں پر مبنى ہے اور اس كى اساس دو چيزوں پر قائم ہے: اور وہ اصول اخلاص اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى ہے.
    فرمان بارى تعالى ہے:
    {سنو! جو بھى اپنے آپ كو اخلاص كے ساتھ اللہ تعالى كے سامنے جھكا دے بلا شبہ اسے اس كا رب پورا پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو كوئى خوف ہو گا، اور نہ ہى غم اور اداسى} البقرۃ ( ١١٢ ).
    تو اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا اللہ تعالى كے ليے اخلاص ہے، اور احسان نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى اور سنت پر عمل كرنے كا نام ہے.
    9 - جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے احياء اور اس جشن ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت پڑھنے ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و پيروى پر ابھارنا ہے !


    مسلمان شخص سے مطلوب تو يہ ہے كہ وہ سارا سال اور سارى زندگى ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت كا مطالعہ كرتا رہے، اور يہ بھى مطلوب ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى بھى ہر وقت اور ہر كام ميں كرے.
    اب اس كے ليے بغير كسى دليل كے كسى دن كى تخصيص كرنا بدعت شمار ہو گى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    ” اور ہر بدعت گمراہى ہے ”
    احمد ( 4/ 164) ترمذى حديث نمبر ( 2676)

    اور پھر بدعت كا ثمر اور نتيجہ شر اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دورى كے سوا كچھ نہيں ہوتا.


    جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم ہو يا جشن آمد رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس كى سارى اقسام و انواع اور اشكال و صورتيں بدعت منكرہ ہيں مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ اس بدعت سے بھى باز رہيں اور اس كے علاوہ دوسرى بدعات سے بھى اجتناب كريں، اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا احياء كريں اور سنت كى پيروى كرتے رہيں، اور اس بدعت كى ترويج اور اس كا دفاع كرنے والوں سے دھوكہ نہ كھائيں، كيونكہ اس قسم كے لوگ سنت كے احياء كى بجائے بدعات كے احياء كا زيادہ اہتمام كرتے ہيں، بلكہ اس طرح كے لوگ تو ہو سكتا ہے سنت كا بالكل اہتمام كرتے ہى نہيں. لہذا جس شخص كى حالت يہ ہو جائے تو اس كى تقليد اور اقتدا كرنى اور بات ماننى جائز نہيں ہے، اگرچہ اس طرح كے لوگوں كى كثرت ہى كيوں نہ ہو، بلكہ بات تو اس كى تسليم جائے گى اور اقتدا اس كى كرنى چاہيے جو سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرتا ہو اور سلف صالحين كے نھج اور طريقہ پر چلنے والا ہو، اگرچہ ان كى تعداد بہت قيل ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ حق كى پہچان آدميوں كے ساتھ نہيں ہوتى، بلكہ آدمى كى پہچان حق سے ہوتى ہے.

    رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    ” بلاشبہ تم ميں سے جو زندہ رہے گا تو وہ عنقريب بہت زيادہ اختلافات كا مشاہدہ كرے گا، لہذا تم ميرى اور ميرے بعد ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ كى پيروى اور اتباع كرنا، اسے مضبوطى سے تھامے ركھنا، اور نئے نئے كاموں سے اجتناب كرنا، كيونكہ ہر بدعت گمراہى ہے”
    مسند احمد ( 4/ 126) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2676).

    اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ بتا ديا ہے كہ اختلاف كے وقت ہم كسى كى اقتدا كريں، اور اسى طرح يہ بھى بيان كيا كہ جو قول اور فعل بھى سنت كے مخالف ہو وہ بدعت ہے، اور ہر قسم كى بدعت گمراہى ہے.

    جب ہم جشن ميلاد النبى كو كتاب و سنت پر پيش كرتے ہيں، تو ہميں اس كى نہ تو كوئى دليل سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ملتى ہے اور نہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ ميں، تو پھر يہ كام نئى ايجاد اور گمراہ بدعات ميں سے ہے.

    اس حديث ميں پائے جانے والے اصول كى دليل كتاب اللہ ميں بھى پائى جاتى ہے.
    فرمان بارى تعالى ہے:
    {اور اگر تم كسى چيز ميں اختلاف كر بيٹھو تو اسے اللہ تعالى اور رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر اور انجام كے اعتبار سے بہت اچھا ہے} النساء ( 59).
    اللہ تعالى كى طرف لوٹانا يہ ہے كہ كتاب اللہ كى طرف رجوع كيا جائے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹانے كا مطلب يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد اسے سنت پر پيش كيا جائے.

    اس طرح تنازع اور اختلاف كے وقت كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف رجوع كيا جائے گا، لھذا كتاب اور سنت رسول صلى اللہ عليہ ميں جشن ميلاد النبى كى مشروعيت كہاں ملتى ہے، اور اس كى دليل كہاں ہے؟

    لہذا جو بھى اس فعل كا مرتكب ہو رہا ہے يا وہ اسے اچھا سمجھتا ہے اسے اللہ تعالى كے ہاں اس كے ساتھ ساتھ دوسرى بدعات سے بھى توبہ كرنى چاہيے، اور حق كا اعلان كرنے والے مومن كى شان بھى يہى ہے، ليكن جو شخص متكبر ہو اور دليل مل جانے كے بعد اس كى مخالفت كرے اس كا حساب اللہ تعالى كے سپرد.

    اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں روز قيامت تك كتاب و سنت پر عمل كرنے اور اس پر كاربند رہنے كى توفيق بخشے، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اوران كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
     
  7. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    سورۃ البلد

    1. لَا اُقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِO
    2. وَاَنتَ حِلٌّ بِھَذَا الْبَلَدِO
    3. وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سورۃ الضحیٰ
    11. وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْO
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سورۃ آل عمران۔
    164۔ لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سورۃ یونس
    58۔قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سورۃ مریم
    15۔وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سورہ مریم
    33۔وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    محترم نیا آدمی صاحب۔ براہ کرم ذرا مندرجہ بالا آیات کریمہ کا ترجمہ و تفسیر پیش فرمائیے۔ شکریہ
     
  8. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    لگتا ہے نئے آدمی صاحب کو کاپی پیسٹ کے کارتوسی و باذوقی خزانوں میں سے ان آیات کا معنی و مفہوم نہیں ملا۔

    یا اگر مل گیا ہے تو میلاد النبی :saw: کی حقانیت ثابت ہوجانے کے ڈر سے ان آیات کا ترجمہ و مختصر تفسیر یہاں پیش کرنے کی جراءت نہیں کرسکے۔

    الحمد للہ رب العلمین
     
  9. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    محترم اراکین ، میں آپ کے ہاں نیا ہوں ، اگر میں آپ صاحبان کے اس موضوع پر کچھ عرض کروں تو کیا آپ صاحبان کھلے دل سے اسے قبول فرمائیں گے ؟
    اور میں ابھی یہ بھی نہیں جانتا کہ یہاں کی انتظامیہ کا کیا طریقہ ہے اکثر جگہ تو تھوڑی سے بات کچھ رنگ بحث اختیار کر جائے تو لڑی بند کر دی جاتی ہے ۔و السلام علیکم ۔
     
  10. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    علیکم السلام محترم عادل سہیل صاحب !
    ہماری اردو کی انتظامیہ اس فورم کو ہر طرح کے فرقہ وارانہ مباحث و تکرار سے بچا کر خوشگوار ، دوستانہ ماحول کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہے۔ امید ہے اس کوشش میں آپ بھی ہمارے ساتھ اتفاق و تعاون فرمائیں گے اور آپ اپنے پیغامات کے ذریعے اس کا اظہار فرمائیں گے۔ انشاءاللہ تعالی
     
  11. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    علیکم السلام محترم عادل سہیل صاحب !
    ہماری اردو کی انتظامیہ اس فورم کو ہر طرح کے فرقہ وارانہ مباحث و تکرار سے بچا کر خوشگوار ، دوستانہ ماحول کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہے۔ امید ہے اس کوشش میں آپ بھی ہمارے ساتھ اتفاق و تعاون فرمائیں گے اور آپ اپنے پیغامات کے ذریعے اس کا اظہار فرمائیں گے۔ انشاءاللہ تعالی[/quote:2hn9iexb]
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    بہن زاھرا ، فرقہ واریت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، پس میں اس کام کا حامی نہیں ، جی ہاں ، کسی بات کا علمی اور تحقیقی جواب دینا دینی واجبات میں سے ہے پس اس پر عمل کرتا ہوں ، اور اللہ کی توفیق کے مطابق جواب عرض کرتا ہوں ، کسی پر کوئی فتویٰ نہیں لگاتا ، کیونکہ اس کا اہل نہیں ہوں ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات سامنے لاتا ہوں ، جسے اللہ توفیق دے مان لے اور جسے نہ دے نہ مانے کسی کا کسی پر زور نہیں ،
    پس بہن ، اس موضوع پر ان شا اللہ تعالی چند دنوں میں وقتا فوقتا کچھ علمی بات چیت پیش کرتا ہوں ، جو یقینا فرقہ واریت نہ ہو گی ، اور اس موضوع پر بھائیوں اور بہنوں کی باتوں کا قران اور صحیح حدیث میں سے جواب ہو گا ، ان شا اللہ ، تا کہ حق بات سامنے آئے ، و اللہ یھدی من یشاء ، و السلام علیکم ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں