1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جسمانی ورزش اور وزن میں کمی ۔۔۔۔ تحریر: گریچن رینالڈ

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    جسمانی ورزش اور وزن میں کمی ۔۔۔۔ تحریر: گریچن رینالڈ

    کیا ہم ورزش سے اپنا وزن کم کر سکتے ہیں؟ موٹے مردوں اور خواتین پر کی جانے والی ایک نئی مگر دلچسپ سٹڈی سے پتا چلا ہے کہ جسمانی ورزش کرنے سے ہمیں وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ اس سے بھوک لگانے والے ہارمونز کی ری ماڈلنگ ہو جاتی ہے مگر یہ فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں کافی زیادہ ورزش کرنا پڑے گی جس میں ایک ہفتے میں تین ہزار کیلوریز استعمال ہو جائیں۔ اس کے لئے ہفتے میں کم از کم چھ گھنٹے یا روزانہ ایک گھنٹہ ورزش کرنا پڑے گی۔

    جسمانی ورزش اور ہماری کمر کے سائز میں ایک براہِ راست تعلق ہوتا ہے‘ یعنی ہم ورزش کر تے ہیں اور اپنی کیلوریز خرچ کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہمارے میٹابولزم کی وجہ سے انرجی کی کمی ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر ہمارے جسم میں جمع شدہ چکنائی جسمانی افعال انجام دینے کے لئے استعمال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ چکنائی کا استعمال ہونے سے ہمارا جسم پتلا ہو جاتا ہے مگر ہمارے جسم ہر وقت تعاون پر آمادہ نہیں ہوتے۔ خوراک کی کمی کی صورت میں ہمارا جسم انرجی سٹور کر نے کا عادی ہو جاتا ہے، اس لئے جب ہم وزن کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض اوقات ہمیں اس میں کامیابی نہیں ملتی۔ ہم جونہی جسمانی ورزش شروع کرتے ہیں تو ہماری بھوک میں اضافہ ہو جاتا ہے؛ چنانچہ ہم اس کمی کو پورا کرنے کیلئے زیادہ کیلوریز لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ماضی کی کئی سٹڈیز کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ یہ جانے بغیر کہ وہ روزانہ کیا کھاتے ہیں‘ جسمانی ورزش شرو ع کر دیتے ہیں‘ وہ اپنا وزن کم کرنے میں اتنا کامیاب نہیں رہتے جتنا وہ توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ الٹا ان کا وزن مزید بڑھ جاتا ہے۔

    یونیورسٹی آف کینٹکی میں نیوٹریشن کے پروفیسر کائل فلیک نے جب اس موضوع پر ماضی میں کی گئی سٹڈیز کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو وہ حیرا ن تھے کہ کیا ایسا ہی نتیجہ ناگزیر ہوتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ورزش کرنے والے افراد کی کیلوریز لینے کی طلب کی بھی ایک حد ہو گی یعنی اگر وہ اپنے ورزش کرنے والے گھنٹے بڑھا دیتے ہیں تو ایک سطح پر جا کر ان کی کیلوریز کی طلب کی بھی آخری حد آ جائے گی اور پھر ان کا وزن کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر 2018ء میں شائع ہونے والی اپنی ایک سٹڈی کے ذریعے اس تعلق کا پتا چلایا تھا۔ا س سٹڈی میں موٹے اور کاہل خواتین و حضرات سے کہا گیا تھا کہ وہ روزانہ اتنی ورزش کریں کہ ایک ہفتے میں وہ 1500 سے 3000 تک کیلوریز خرچ کریں۔ تین مہینے کے بعد ریسرچرز نے ہر فرد کے وزن میں کمی کا تجزیہ کیا اور یہ پتا چلایا کہ ہر شخص میں ورزش سے ہونے والی تھکاوٹ کے بعد کتنی کیلوریز کی طلب پیدا ہوئی ہے۔ انہیں پتا چلا کہ ہر فرد نے خواہ کتنی بھی ورزش کی تھی‘ ان میں فی ہفتہ کیلوریز کی طلب میں اوسطاً 1000 کیلوریز کا فرق دیکھنے میں آیا۔ ایسے خواتین و حضرات‘ جن میں ہر ہفتے 1500 کیلوریز کی طلب ہوتی تھی‘ وہ 500 کیلوریز پر آ گئے اور جو ہر ہفتے 3000 کیلوریز خرچ کرتے تھے ان میں کیلوریز کی طلب کم ہو کر 2000 کیلریز تک آ گئی۔ (ان کے مجموعی میٹابولک ریٹ میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی)۔ حیران کن طور پر جس گروپ نے زیادہ وقت کے لئے جسمانی ورزش کی‘ ان کے وزن میں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ دوسروں کے وزن میں کوئی کمی نہیں ہوئی مگر ڈاکٹر فلیک نے محسوس کیاکہ یہ سٹڈی بہت سے سوالا ت کا جواب دینے سے قاصر رہی ہے۔ سٹڈی کے تمام شرکا نے نگرانی میں ایک جیسی ورزش ہی کی تھی جس میں وہ ہفتے میں پانچ بار 30 سے 60 منٹ کے لئے واک کرتے تھے۔ ورزش کے ان ا وقات میں فرق سے لوگوں کی کیلوریز کی طلب پر بھی فرق پڑتا ہے؟ کیا لوگوں کے ورزش کے اوقات میں فرق کی وجہ سے ان کے بھوک پیدا کرنے والے ہارمونز بھی اسی کے مطابق متاثر ہوتے ہیں۔

    اس بات کو جاننے کے لئے پروفیسر فلیک نے اپنے گزشتہ تجربے کو دوسری مرتبہ دہرایا مگر اس مرتبہ ایک نئے اور انوکھے ورزش شیڈول کے ساتھ۔ اس مرتبہ ایک نئی سٹڈی کے لئے جو نومبر میں‘ میڈیسن اینڈ سائنس اِن سپورٹس اینڈ ایکسرسائز میں شائع ہوئی تھی۔ انہوں نے 44 موٹے مگر کاہل خواتین و حضرات کو جمع کیا، ان کی جسمانی ساخت کا معائنہ کیا اور ان میں سے نصف کو کہہ دیا کہ وہ ہفتے میں دو مرتبہ 90 منٹ کی ورزش کریں اور ایک سیشن میں 750 کیلوریز یا دو مرتبہ کی ورزش میں 1500 کیلریز خرچ کیا کریں۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق یہ ورزش کر سکتے تھے۔ زیادہ تر نے واک کرنے کو ترجیح دی مگر کچھ نے دیگر سرگرمیوں کا انتخاب کیا۔ اس دوران انہوں نے اپنی ورزش کو ٹریک کرنے کے لئے ہارٹ ریٹ مانیٹر بھی پہنے رکھا۔ باقی نصف نے ہفتے میں چھ دن چالیس سے ساٹھ منٹ کے لئے ورزش کے شیڈول کا انتخاب کیا جس میں انہیں ایک سیشن میں 500 کیلوریز اور ہفتے میں 3000 کیلوریز خرچ کرنے کا ہدف دیا گیا۔ ریسرچرز نے بھوک پیدا کرنے والے ہارمونز چیک کرنے کے لئے ان کے جسم سے خون کے سیمپل بھی لئے۔

    12 ہفتے کی ایکسر سائز کے بعد یہ تمام لوگ لیب میں آئے جہاں ریسرچرز نے ان کے جسموں کی ساخت کا دوبارہ معائنہ کیا۔ ان کے جسموں سے خون لیا اور ان کے اندر بھوک کی طلب کی کیلکو لیشن کی۔ انہیں دوبارہ یہی معلوم ہوا کہ ان سب کی کیلوریز کی طلب میں 1000 کیلوریز کا فرق ہی دیکھنے میں آیا۔ البتہ جن خواتین و حضرات نے ہفتے میں چھ دن ورز ش کر کے 3000 کیلوریز خرچ کی تھیں ان کے جسموں سے چار پونڈ چکنائی کم ہوئی۔ ریسرچرز نے ان دونوں گروپوں میں ایک دلچسپ اور غیر متوقع فرق بھی دیکھا۔ جس گروپ نے ہفتے کی جسمانی ورزش کے ذریعے 3000 کیلوریز خرچ کی تھیں ان کے اندر لیپٹین کی سطح بھی کم ہو گئی۔ یہ بھوک کا ہارمون ہوتا ہے جو بھوک میں کمی لاتا ہے۔ ان تبدیلیوں سے پتا چلتا ہے کہ ورزش نے اس گروپ کے لوگوں میں ہارمونز کے ساتھ حساسیت کو بڑھا دیا اور وہ اپنی کچھ کھانے کی خواہش کو بہتر طریقے سے ریگولیٹ کرنے کے قابل ہو گئے۔ کم وقت کے لئے ورزش کرنے والے خواتین و حضرا ت کے ہارمونز میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ ڈاکٹر فلیک کہتے ہیں کہ دوسرے تجربے سے بھی پہلی ریسرچ کے نتائج کو ہی تقویت ملی کہ اگر ہم کوئی ایکسرسائز کریں گے تو ہم زیادہ کھائیں گے مگر یہ ہفتے میں ایک ہزار کیلوریز سے زیادہ نہیں ہو گا۔

    اگر ہم ورزش کی مدد سے اس سے زیادہ مقدار میں کیلوریز خرچ کرتے ہیں تو ہمارے وزن میں کمی بھی آئے گی مگر ڈاکٹر فلیک کہتے ہیں ’’ہفتے کی جسمانی ورزش کے ذریعے ہزاروں کیلوریز کم کرنا خطرناک ہے‘‘۔ مزید یہ کہ یہ سٹڈی محض کچھ مہینے کے لئے تھی اور ہمیں نہیں بتا سکتی کہ اس کے بعد ہمارے جسموں میں بھوک یا میٹابولزم میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور ہمارے جسموں کی چربی میں اضافہ ہو گا یا کمی ہو گی۔ میرے دوست یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ آئندہ چھٹیوں کے دوران ان کی کمر پتلی ہو جائے گی مگر یہ ریسرچ سٹڈی بتاتی ہے کہ ہم جتنا پیدل چلیں گے‘ اتنا ہی بہتر ہو گا۔

    (بشکریہ: نیویارک ٹا ئمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)


     

اس صفحے کو مشتہر کریں