1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جانشین شیخ الہند، امام ِحریت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃاللہ علیہ.

'منقبتِ اہل بیت و صحابہ رض و اولیائے کرام' میں موضوعات آغاز کردہ از پروفیسر انوار الہدی شمسی, ‏9 اپریل 2016۔

  1. پروفیسر انوار الہدی شمسی
    آف لائن

    پروفیسر انوار الہدی شمسی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2016
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا عبید اللہ سندھی 10 مارچ 1872ء کو چیانوالی سیالکوٹ میں پیدا ہوے۔ ان کا پیدائشی نام بوٹا سنگھ تھا، کفر کی ظلمتوں سے نور ِاسلام تک کے سفر میں چند کتابوں نے بنیادی کردار ادا کیا. 1884ء میں انھیں ایک آریہ سماجی طالبِ علم نے کتاب تحفتہ الہند دی،اس کتاب میں ہندو مذہب کے کئی مخفی ناقابل یقین اور شرمناک عقیدوں کا بیان ان کی بنیادی مذہبی کتابوں کے حوالے سے درج تھا، نیز اس کے اندر نو مسلموں کی فضیلتیں اور آخرت کے احوال درج تھے اس کتاب کے بار بار مطالعے سے انکے دل میں اسلام کی شمع روشن ہوگئی. اسی طر ح شاہ اسماعیل شہید کی مشہور کتاب تقویت الایمان نے توحید کی شمع ان کے دل میں روشن کر دی.انھوں نے خود ایک رسالے میں تحریر کیا میں شاہ اسماعیل شہید کو اپنا امام مانتا ہوں کے انکی کتاب تقویت الایمان میرے اسلام لانے کا ذریعہ بنی ہے۔ مولانا 16 برس کی عمر میں مسلمان ہوگئے ۔ انھوں نے اپنا نام عبیداللہ تحفتہ الہند کے مصنف کے نام پر رکھا تھا۔ اسکے بعد وہ پنجاب سے سندھ چلے گے پھر وہاں سے سکھر پہنچے، جہاں انھیں پیر جی حافظ محمد صدیق صاحب جیسے مشفق مربی و بزرگ شخص ملے، پیر جی انکے قبولِ اسلام کے جذبے سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نےاس نو مسلم کو اپنا روحانی فرزند بنا لیا. اپنے استاد کے ساتھ غایت درجہ تعلق و محبت کی وجہ سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ سندھی لکھنا شروع کردیا. اس زمانے میں انھوں نے مرکز علم و عرفان دیوبند کا تذکرہ سنا اور تحصیل علم کا شوق انہیں اکتوبر 1888ء میں دیو بند لے آیا. یہاں وہ حضرت شیخ الہند کے حلقہ درس میں داخل ہوے.

    اس وقت دارالعلوم دیو بند تحریک آزادی کا سب سے بڑا مرکز تھا جس نے انگریز سامراج کے خلاف صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں شعور اور آگہی پیدا کی۔ عمومی سطح پر مسلمانوں میں جذبہ جہاد کو فروغ بخشا. اس ادارے کی حیثیت عام تعلیمی مدرسوں جیسی نہیں تھی یہ حریت پسندوں کا بنایا ہوا مرکز تھا جس نے آزادی کے متوالے اور جہاد کے جذبے سے سرشار علماء اور رجال کی ایک بڑی تعداد پیدا کی. مولانا سندھی نے شیخ الہند کی صحبت میں رہ کر ان کے علم اور فکر کو بخوبی سمجھا اور اپنے آپ کو اپنے استاذ کے مشن کو فروغ دینے کے لیے وقف کر دیا. شیخ الہند کا یہ مقولہ زبان زد عام تھا کہ فرنگی سے نفرت جزو ایمانی ہے۔ یہی جذبہ مولانا سندھی کے رگ و پے میں سرائیت کر گیا. تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا سندھی نےامروٹ شریف کو اپنا ٹھکانہ بنا کر اپنی علمی اور سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ نے اپنے استاد شیخ الہند کی ہدایت پر امروٹ میں ایک درس گاہ کی بنیاد رکھی جسکے اندر پڑھنے والے طلباء کو حریت وطن، جہاد. اور احیاءِ دین قیم کا درس ملتا تھا. توحید و جہاد دو بنیادی چیزیں تھیں جس پر مولانا کی محنتوں کا اصل زور تھا. مولانا کی بے پناہ کوششوں سے تھوڑے عرصے میں اس درسگاہ نے سندھ میں علمی و سیاسی لحاظ سے ایک مرکزیت حاصل کر لی.

    مولانا سندھی نے دیوبند کے فارغ شدہ علماء کو جو اپنے اپنے علاقوں میں کام کر رہے تھے، اور مجموعی طور پر جن کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا، ان سب کو جمیعت الانصار نامی تنظیم و تحریک کے عنوان سے اکٹھا کر دیا، اور انہیںجہاد آزادی کے لیے تیار کیا. نیز دہلی میں نظارة المعارف القرآنیہ کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے دیوبند اور علی گڑھ کے طلبا کو ایک نیا پلیٹ فارم دیا. مولانا بڑی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے. آپ نے اپنی بے مثال ذہانت سے کام لے کر مسلسل غور و فکر کے بعد ہندوستانی معاشرے کے حقیقی سیاسی، سماجی ،اقتصادی اور فکری مسائل کا تعین کیا اور ان مسائل کا قرآنی حل پیش کیا ۔

    حضرت شیخ الہند کی تحریک اور فکر و فلسفہ کو فروغ دینے کے لیے آپ نے ایسی قربانی پیش کی جس کی نظیر آسانی سے نہیں مل سکتی. مولانا سندھی نے اپنے استاذ شیخ الہند کے نظریات اور تحریک کی ترویج کے لیے اپنی زندگی کا بیش قیمت حصہ، کل 24-25 سال جلاوطنی میں گزار دیا .1915ء سے 1939ء تک وہ جلاوطن رہے، اس دوران وہ افغانستان، سوویت یونین ، ترکی اور حجاز میں رہے ۔ انھیں اس دوران براہ راست اربابِ اقتدار سے ملنے کا موقع ملا. اس دوران انہوں نے دنیا کے بدلتے ہوے حالات کا بغور مشاہدہ کیا، اور ان بہت سے احوال پر مطلع ہوئے جن سے ان کے کئی معاصرین بےخبر رہے. یہی وجہ ہے کہ بہت سےنام نہاد دانشور اورکم ذہن جو تجربات و مشاہدات سے عاری تھے وہ مولانا کی بات نہیں سمجھ سکے اور بےجا اعتراضات کے مرتکب ہوئے،لیکن واقفان حال نے نہ صرف یہ کہ ان کے کمالات، بے شمار قربانیوں اور فکر و نظر کا کھلے دل سے اعتراف کیا بلکہ انہیں بجا طور پر شیخ الہند کا سچا جانشین قرار دیا . بیان کیا گیا ہے کہ جب ان کی جلاوطنی کی زندگی کا آغاز ہوا تو ان کی داڑھی کے بال بالکل سیاہ تھے اور جب وہ لوٹے تو داڑھی سفید ہوگئ تھی، جلاوطنی کی مشقتوں نے بہت پہلے بڑھاپے کے آثار پیدا کر دیئے تھے. اس مرد درویش نے استاذ گرامی کے اشارے پر ان کے مشن کے لیے اپنی زندگی کی 24 بہاریں قربان کر دیں. مولانا سندھی نے اپنی عملی جد و جہد کے علاوہ اپنی لکھی ہوئی اعلی علمی تصنیفات میں بھی فکر ولی اللہی اور فکر شیخ الہند کو مفصل و مدلل ذکر کیا. یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے جو انہیں شیخ الہند رحمۃاللہ علیہ کے تمام شاگردوں میں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے. طویل جلاوطنی کے بعد مولانا سندھی اگست 1939کو وطن واپس پہنچے اور اپنی جد و جہد کا سلسلہ جاری رکھا. یہ بطل حریت، بے مثال مفکر و مجاہد،استاذ کا عاشق، جانشین شیخ الہند 1944ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گیا ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں