1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جام نندو: سندھ پر مثالی حکمرانی کرنے والا سردار

'متفرق تصاویر' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏21 نومبر 2016۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:

    بشکریہ ابوبکر شیخ صاحب ۔۔۔۔میں اگر تاریخ کی 530 برسوں تک پھیلی ایک پگڈنڈی بنالوں اور اُس پر چلنا شروع کروں تو اس پگڈنڈی کے آخری کنارے پر میں ننگر ٹھٹھہ اور مکلی پہنچ جاؤں گا۔ ایک ایسے زمانے میں جب لوگ بے خوف ہو کر چین کی نیند سوتے تھے کہ ان پر کوئی یلغار نہیں ہوگی، زمینوں میں فصلیں لہلہاتی تھیں اور انہیں جلا دیے جانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔
    آئیں 530 برس پہلے کا ٹھٹھہ دیکھتے ہیں۔ ننگر ٹھٹھہ کی تعمیر نو ہوچکی ہے، محلوں کے نکڑوں پر مختلف علوم پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ علم کی تشنگی عالموں کو دور دراز ملکوں سے کھینچ کر یہاں لے آتی ہے کیوں کہ سندھ کے دارالحکومت 'ساموئی' میں جام نظام الدین سمہ، جنہیں لوگ پیار سے 'جام نندو' بلاتے ہیں، تخت پر بیٹھے ہیں۔
    پتہ نہیں اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ 325 قبل مسیح میں جب سکندراعظم 'پٹالہ' (زیریں سندھ) آیا تھا تو اُس وقت اِس علاقے پر جو حاکم ’سامبس‘ تھا وہ سمہ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر یہ حقیقت سے قریب تر ہے کیوں کہ چودھویں صدی سومرا سرداروں کی حکومت کے زوال کے دن تھے۔ محمد تغلق کے زمانے میں سومرو اپنی حیثیت کو نمک کی ڈلی کی طرح وقت کے پانی میں گھول چکے تھے۔
    [​IMG]
    مقبرہ جام نندو
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    مقبرہ جام نندو
     
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چل جائے گا کہ سیاسی حوالے سے تو موسم کوئی اچھا نہیں تھا بلکہ فطرت کا بھی غصہ اپنے عروج پر تھا۔ بارشوں کی کمی اور قحط نے سارا منظرنامہ بے رنگ سا کر دیا تھا۔
    سندھ میں سومرا قبیلے کے بعد سمہ خاندان کی حکومت کی ابتدا ہوئی۔ 1351 میں جام اُنڑ سموں نامی وہ پہلا حاکم تھا، جس نے سمہ دور کی بنیاد رکھی تھی۔ سترہ کے قریب حاکموں نے 1519 تک تقریباً 170 برس تک حکمرانی کی۔ اس حکومت کے آخری 50 برس اگر ہم نکال دیں تو یہ بھی کوئی اتنی پُرسکون حکومت نہیں رہی، کیوں کہ ’ہنوز دلی دور است‘ کا جملہ یہاں بالکل برعکس کام کرتا تھا، یہاں اکثر ’دلی قریب است‘ والی صورتحال ہی رہی۔
    1388 میں فیروز شاہ تغلق کی موت کی وجہ سے دہلی سلطنت منتشر ہونے لگی تھی۔ اسی صورتحال میں سندھ کے جلاوطن شہزادے جام بابینو، جام تماچی اور جام صلاح الدین دہلی سے واپس لوٹے۔ ان کو فیروز شاہ ننگر ٹھٹھہ سے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ جام بابینو کی راستے میں وفات واقع ہوئی، اور جام تماچی واپس ننگر ٹھٹھہ لوٹ آیا اور تخت نشیں ہوا۔
    اگر آپ مکلی پر بالکل آخر میں شمال میں نشیبی علاقے تک چلے جائیں تو یہ وہ زمین کا ٹکڑا ہے، جہاں سمہ سرداروں نے اپنا دارالخلافہ بنایا تھا اور نام 'ساموئی' دیا تھا۔ اب یہاں بڑی تگ و دو کے بعد بھی آپ کو دیکھنے کے لیے کچھ نہیں ملے گا۔
    [​IMG]
    مقبرہ جام نندو
     
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    مقبرہ جام نندو
     
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    مگر یہاں کے وقت کا آسمان، ننگر ٹھٹہ کے ویران خستہ مدارس، خانقاہیں اور گلیاں، طغرل آباد کا قلعہ اور قلعے میں مسجد کی دیواریں اس بات کی گواہ ہیں کہ سمہ سرداروں میں ایک حاکم ایسا بھی آیا جس کے متعلق مغل دور کے فارسی مصنف عبدالباقی نہاوندی اپنی کتاب 'ماثر رحیمی' میں رقم طراز ہیں کہ "سندھ کیا، بلک پورے ہندوستان میں اس جیسا دیندار، مُتقی اور صاحبِ فضیلت بادشاہ پھر نہیں ہوا۔ اس کے زمانے میں عالم، صالح، بزرگ و فقیر سارے خوش و خرم، رعیت خواہ سپاہی فارغ البال تھے۔"
    یہ یقیناً ایک اعزاز تھا جو ’جام نندو‘ کے لیے ہی ہو سکتا تھا۔ میر معصوم بکھری ’تاریخ معصومی‘ میں رقم طراز ہیں ’’سلطان کو تخت پر بٹھانے کے لیے سارے لوگ، عالم، رعیت اور سپاہی متفق تھے، اس نے خود مختار ہو کر سر بلندی کا جھنڈا بلند کیا۔‘‘
    یہ شدید ترین سردیوں کے دن تھے، جب آسمان نیلا، دن چھوٹے اور راتیں طویل ہو جاتی ہیں، تب ساموئی سے خبر آئی کہ وقت کے بادشاہ ’جام سنجر‘ اپنی آٹھ برس کی حکمرانی کر کے اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ پھر ان ہی سردیوں میں اتوار کے دن 29 دسمبر 1461 میں جام نظام الدین کو سندھ کے تخت پر بٹھایا گیا۔
    [​IMG]
    جام نندو کے مقبرے پر سنگ تراشی کا کام نہایت ہی نازک اور دلکش ہے
     
  6. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    محقق غلام محمد لاکھو لکھتے ہیں کہ ’’سُلطان جام نظام الدین انتہائی بخت والی گھڑی میں سندھ کے تخت پر بیٹھا۔ جنگ و جدل کا موسم جیسے گذر چکا تھا۔ چاروں اطراف معتبر سیاستکار حکومتیں چلا رہے تھے، ان کو اندرونی استحکام حاصل تھا۔ ان کو نہ کسی بغاوت کے کچلنے کی پریشانی تھی اور نہ ہی ہمسائے پر حملہ کر کے قبضہ جمانا تھا۔ تاریخ نے یہ خوش بخت یکسوئی بڑی محنت اور مشکل سے پیدا کی ہوگی۔ اُس وقت گجرات میں محمود بیگڑہ، کشمیر میں سلطان زین العابدین، اور مارواڑ جودھپور میں راجا جودھ آزادی، اطمینان اور وقار کے ساتھ حکومت کر رہے تھے۔"
    سندھ کے لیے یہی وہ زمانہ تھا جب عوامی زندگی میں سکون لوٹ آیا تھا. حکومت نے زرعی زمینوں کو وسعت دینے کے لیے نئی نہریں کھدوائیں۔ جس سے فصلوں میں بہتری آئی تجارت میں اضافہ ہوا اور معاشی استحکام پیدا ہوا۔ اس لیے جام نندو کے دور حکومت کو سر سبز اور خوشحال سندھ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔
    تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ 1495 میں سندھ کے سلطان نے ٹھٹھہ کو نئے سرے سے تعمیر کروایا اور یہ شہر تہذیب و تمدن کا بین الاقوامی مرکز بنا۔ جب امن، راحت، فراغت و خوشحالی کی خبریں دُور دراز علاقوں اور ملکوں تک پہنچیں تو عالموں اور علم کے پیاسوں نے یہاں کا رُخ کیا۔
    ایران، خراسان، سمرقند و بخارا سے اتنی کثیر تعداد میں عالم، فاضل و شعرا پہنچے کہ ان کو آباد کرنے کے لیے جام نندو کو ننگر ٹھٹھہ میں الگ الگ محلے مخصوص کرنے پڑے۔ یہاں کئی خانقاہیں، مکتب اور مدرسے تعمیر ہوئے جہاں تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، عقائد، اُصول تعلیم، صرف و نحو، منطق، علم عروض، علم نجوم پر تعلیم دی جاتی اور کتابیں تصنیف ہوتیں۔
    مختلف محلوں کی تعمیر و ترویج ہوئی، کئی نئے باغات تعمیر ہوئے۔ اس زمانے میں جب سندھ میں ننگر ٹھٹھہ اوج پر پہنچا تب گجرات میں احمد آباد، مرکزی ایشیا میں ہرات، شمال میں ملتان اور ہند میں دہلی اپنے عروج پر تھے۔
    کہتے ہیں کہ، سندھ کا سلطان ہر ہفتے اپنے گھوڑوں کے اصطبل میں جاتا اور گھوڑوں کی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر کہتا: "اے بختاورو، دعا کرو کہ کبھی ناحق حملے کے لیے تم پر سواری نہ کروں، کیوں کہ چاروں سرحدوں پر اسلام کے حاکم ہیں۔ نہ کبھی مجھے شرعی سبب کے سوا کہیں جانا پڑے اور نہ کوئی اس طرف آئے، میں نہیں چاہتا کہ کسی کا ناحق خون بہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے شرمندہ ہونا پڑے۔‘‘
    [​IMG]
    مقبرے کا اندرونی منظر
     
  7. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    مقبرہ جام نندو پر موجود سنگ تراشی کا ایک نمونہ
     
  8. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    مقبرے کے اوپر نزاکت سے تراشے ہوئے پتھروں کی مدد سے جھروکہ بنایا گیا ہے

     
  9. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جام نندو کی پاکبازی اور زہد و تقویٰ کی کئی باتیں مشہور ہیں۔ سید حسام الدین راشدی ’مکلی نامہ‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ، ’’قاضی عبداللہ جو اپنے وقت کے بڑے عالم تھے، اُن کی جنازہ نماز جام نظام الدین نے اس لیے پڑھائی کہ وہ ساری عمر باوضو رہے۔ ٹھٹھہ میں کتنے پیر، فقیر، صوفی اور بزرگ موجود تھے مگر یہ اوصاف فقط سندھ کے سلطان میں موجود تھے۔ اس تقویٰ و پرہیزگاری کے سبب پیر مراد شیرازی کی جنازہ نماز بھی وقت کے حاکم جام نندو نے پڑھائی تھی۔ تاریخ کے صفحات میں ایسی مثالیں بڑی مشکل سے ہی ملتی ہیں۔"
    جام نے آدھی صدی تک ایک مثالی حکومت کی بلکہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کی، اور جب جام نندو کا جاری کردہ سکہ ہم دیکھتے ہیں تو اس دور کے مثالی ہونے میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔
    مگر جیسے سندھ کے اس سلطان کی عمر ڈھلی تو منظرنامہ بھی بدلنا شروع ہوا۔ 1502 میں شاہ اسماعیل نے ایران میں صفوی بادشاہت کی بنیاد رکھی، اس واقعے نے بڑی دور دور تک اپنے اثرات مرتب کیے۔ مغلوں نے سندھ کا راستہ دیکھ لیا تھا۔ آخری ایک برس سلطان کی طبیعت نے ساتھ نہیں دیا۔ آخر 1508 کے سرد دنوں میں سندھ کے اس سلطان نے آنکھیں موُند لیں۔ یہ آنکھیں کیا بند ہوئیں جیسے شفقت کی چھاؤں سندھ سے روٹھ گئی۔
    کمال کا سورج مکلی کی پہاڑیوں کے پیچھے ڈوب گیا۔ اور زوال کی خاردار جھاڑیاں اُگ پڑیں۔ اس زوال کے متعلق سید حسام الدین راشدی ’مکلی نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ "جام نظام الدین سمہ خاندان اور آزاد سندھ کا آخری تاجدار تھا جس نے 48 برس تک لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے جام فیروز اور خاندان کے ایک دوسرے شہزادے جام صلاح الدین کے درمیان تخت و تاج کے لیے خانہ جنگی شروع ہوئی۔
    914 سے لے کر 927 تک کبھی صلاح الدین گجرات سے لشکر لے کر آتا تو کبھی فیروز سبی اور قندھار سے ارغونوں کو بلا لیتا۔ اسی کشمکش کے نتیجے میں ارغونوں نے پہلے صلاح الدین کو فیروز کے مقابلے میں ختم کیا اور اس کے بعد فیروز اپنے آخری ایام کو پہنچا۔‘‘
    [​IMG]
    مقبرے کے اوپر گنبد نہیں ہے —
     
  10. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    مقبرہ جام نندو
     
  11. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    مقبرے پر موجود نقاشی کا منفرد کام
     
  12. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    سندھ کے اس سلطان کی آخری آرامگاہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہینری کزنس، پیر حسام الدین راشدی اور ڈاکٹر احمد حسین دانی جب اس نامکمل مقبرے کے متعلق بات کرتے ہیں تو ان سب کی متفق رائے یہ ہے کہ "یہ ایک یادگار اور خوبصورت ترین سنگتراشی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، جس میں قدیم جین، گجراتی فنِ تعمیر، مقامی لوگوں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور اسلامی فنِ تعمیر کا ملا جلا ایک ایسا شاندار شاہکار ہے جو مکلی پر بنی ساری عمارات سے مختلف، انوکھا اور خوبصورت ہے۔
    آپ دیکھتے جائیں تو آپ کی آنکھیں نہیں تھکیں گی۔ سامنے والی دیوار پر پرندوں کی قطار، سورج مُکھی اور کنول کے پھولوں کی قطار، انتہائی خوبصورت خط میں قرآن شریف کی آیات اور پھر بالکل نیچے پھولوں کی قطار جس کے ہر پھول کی بناوٹ دوسرے پھول سے الگ ہے۔
    جھروکوں کو انتہائی نزاکت، نفاست اور خوبصورتی سے تراشا گیا ہے۔ ڈاکٹر دانی تو یہاں تک متاثر ہیں کہ لکھتے ہیں کہ "مقبرے کے اندر کا کام بھی حیرت انگیز ہے۔ یہ تعمیر 1509 کی ہے۔ یہاں سنگتراشی کا کام بھی اتنے اعلیٰ معیار کا اور نازک ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کام پہلے لکڑی یا عاج پر کیا گیا ہے جسے بعد میں ان پیلے پتھروں پر منتقل کیا گیا ہے۔ ہم جب گجراتی فن تعمیر کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو قدیم جین اور ہندی کاریگروں کی مہارت کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں، مگر یہ مقبرہ سندھی کاریگری کی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ اس مقبرے کے تعمیراتی کام نے گمشدہ فن کے خزانوں سے پردہ اُٹھایا ہے جو اسلام سے پہلے یہاں جوان ہوا ہوگا۔"
    [​IMG]
    جام نندو کے مقبرے پر مختلف جیومیٹریکل ڈزائن کے ساتھ قرآنی آیات بھی کنندہ ہیں
     
  13. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    جام نندو کی سادہ قبر

    ---------------------------
    جب آپ اس مقبرے کے آنگن میں پہنچتے ہیں تو چاہے سورج طلوع ہو رہا ہو، تپتی دوپہر ہو، یا سورج غروب ہو رہا ہو، آپ پر ایک ہی کیفیت طاری ہوتی ہے، ایک عجیب سا سکون آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ جیسے مقبرے میں داخل ہوتے ہیں تو پہلی سادہ سی قبر اُس انسان کی ہے۔ جس نے اپنی ساری عمر سادگی کے ساتھ علم کی ترویج اور انصاف کی فراہمی کے لیے وقف کر دی تھی۔

    http://www.dawnnews.tv/news/1047123
     

اس صفحے کو مشتہر کریں