1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تین ارادے

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏25 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تین ارادے
    [​IMG]
    سہیل بابر

    عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی پرانی اور پختہ عادتیں اور طرزِ عمل کو محض نئے عزائم اور نئے اہداف اپنا کر تبدیل کر سکتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ پختہ عادتیں بہت سخت جان ہوتی ہیں اور حالات تبدیل ہونے اور نیک ارادوں کے باوجود یہ عادتیں ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ اگر ایک انسان ماضی کی گرفت سے نکلنا چاہتا ہے، پرانی عادتوں اور رسم و رواج کی قوتوں سے بچنا چاہتا ہے اور مثبت تبدیلی لانا چاہتا ہے تو اسے اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ اس لیے اپنے ضروری وسائل جمع کر لیں۔ جیسا کہ ہم خلائی سفر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ زمین کی کششِ ثقل سے باہر نکلنے کے لیے طاقت ور دھکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرانی عادتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے بھی ایسے ہی طرزِ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پختہ منفی عادتوں مثلاً تنقید، زیادہ کھانا، زیادہ سونا، سستی اور تاخیر وغیرہ کو ترک کرنے کے لیے معمولی عزم و ارادے اور خواہش سے بڑھ کر کچھ اور درکار ہوتا ہے۔ محض عزم و ارادہ ہی کافی نہیں ہوتا۔ ہمیں لوگوں میں اور اپنے اندر نیا جوش، ولولہ اور نئی قوت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی زندگی میں متعدد مزاحمتی قوتیں برسرپیکار رہتی ہیں جو ہمارے نئے عزائم یا پیش رفت کو منتشر کر سکتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلے بھوک اور جذبات ہیں، پھر غرور اور تصنع اور آخر میں خواہشات اور تمنائیں ہیں۔ ان منفی مزاحمتی قوتوں پر ہم درج ذیل تین ارادوں کے ذریعے قابو پا سکتے ہیں۔ بھوک اور جذبات: بھوک اور جذبات کی مزاحمتی قوت کو شکست دینے کے لیے ہمیں یہ عزم کرنا ہو گا کہ ’’میں ہمیشہ ذاتی نظم و ضبط اور اپنی ذات کی نفی پر کاربند رہوں گا۔‘‘ اگر ہم اپنے معدوں کے اسیر بن جائیں تو جلد ہی ہمارے معدے ہمارے ذہن اور ارادوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ جانتے بوجھتے ہوئے نقصان دہ اشیا اپنے حلق میں انڈیلنا سراسر بے وقوفی ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کا میٹابولزم تبدیل ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر صحت برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے اعتدالی سے کھانا پینا، دیر سے سونا، بیکار بیٹھنا اور ورزش سے گریز ہماری ذاتی زندگی اور پیشہ ورانہ زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ غرور اور تصنع: غرور اور تصنع کی مزاحمتی قوت پر قابو پانے کے لیے یہ عزم کریں کہ ’’میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے کردار اور بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤں گا۔‘‘ بیشتر لوگ اپنی کارکردگی، کردار اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے بجائے غرور، جھوٹے اور مصنوعی دعوؤں سے دوسروں کو متاثر کرنے اور خود کو دھوکہ دینے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم جیسا نظر آنا چاہتے ہیں، ویسا بن کر دکھائیں۔ زیادہ تر لوگوں کو اپنے تاثر کے بارے میں زیادہ فکر ہوتی ہے۔ وہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کریں دوسرے ان کو اچھی نگاہوں سے دیکھیں۔ دوسروں میں ان کا تاثر اچھا بلکہ اعلیٰ ہو۔ ہمیں طاقت ور، کامیاب اور جدت پسند نظر آنے کی شدید خواہش مصنوعی زندگی گزارنے اور غرور و نخوت سے کام لینے پر آمادہ کرتی ہے، لیکن جب ہم اپنے اصولوں اور اقدار سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو بے لاگ، دیانت دار اور صاف گو ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ دھوکہ، بے ایمانی، جھوٹ اور منافقت سے کام لیتے ہیں انہیں بالآخر بہت زیادہ پریشانی اور مصائب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اگر انسان مسلسل تصنع اور اداکاری سے کام لیتا رہے اور اپنا بھرم قائم رکھے تو وہ دراصل اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ خواہش اور تمنائیں:ان انسانی کمزوریوں پر قابو پانے کیلئے یہ عزم کیا جائے کہ ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل مثبت اور نیک مقاصد کیلئے صرف کروں گا اور دوسرے انسانوں کی خدمت بجا لاؤں گا۔‘‘ کم ظرف اور لالچی انسان اپنے مفادات اور ذاتی شان و شوکت کیلئے سرگرداں رہتے ہیں۔ انہیں صرف اپنے ایجنڈے اور اہداف کے حصول کی فکر ہوتی ہے۔ وہ ہر چیز میں یہ تلاش کرتے ہیں کہ اس میں میرے لیے کیا ہے؟ ان میں نہ مروت ہوتی ہے اور نہ اعلیٰ اصولوں اور اقدار کا پاس۔ وہ خود کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں۔ ان کی نظریں ہر وقت دولت، اقتدار، طاقت، شہرت، رتبہ، حکمرانی اور ملکیت پر ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس اعلیٰ اخلاق کا حامل شخص دیانت دار، منکسرالمزاج، بامروت اور سراپا خدمت گزار ہوتا ہے۔ ایثار اور قربانی کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ جب تک ہم اپنی جبلی بھوک اور فطری کمزوریوں پر قابو نہ پا لیں، تب تک ہم اپنے جذبات اور خودسری کو سرنگوں نہیں کر سکتے۔ اس کے برخلاف ہم بڑی جلدی جذبات کا شکار ہو کر مال و دولت، غلبہ، عزت اور طاقت کے حصول میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم ان تینوں ارادوں پر قائم رہیں جو ہماری ذات کی نشوونما، جوہر، قابلیت اور کارکردگی میں اضافہ کرتے ہیں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں