1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تیریوں ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان پہلا گولڈ میڈل جیتنے میں سرخرو

'کھیل کے میدان' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تیریوں ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان پہلا گولڈ میڈل جیتنے میں سرخرو
    upload_2019-12-3_2-2-2.jpeg
    لاہور: (ویب ڈیسک) شاہدہ عباسی کی عمدہ کارکردگی کی بدولت پاکستان نے 13 ویں ساؤتھ ایشین گیمز میں پہلا گولڈ میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل کر لیا۔
    تفصیلات کے مطابق 13 ویں ساؤتھ ایشین گیمز کے مقابلے کھٹمنڈو میں جاری ہیں اور قومی والی بال ٹیم کے فائنل میں پہنچنے کے ساتھ ہی شاہدہ عباسی نے کراٹے کے مقابلوں میں کامیابی حاصل کر کے پاکستان کو پہلا گولڈ میڈل دلا دیا۔

    ساؤتھ ایشین گیمز میں 7 ملکوں کی ٹیمیں شریک ہیں جہاں میزبان نیپال 4 گولڈ میڈل سمیت 6 تمغے جیت کر سرفہرست ہے۔

    ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں شوٹر گلفام جوزف نے پاکستانی پرچم تھام کر قومی دستے کی قیادت کی۔ کاتے کراٹے کے مقابلوں میں پاکستان کی شاہدہ عباسی نے گولڈ میڈل جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کردیا اور نیپالی حریف کے خلاف میچ میں باآسانی 25-42 کے اسکور سے کامیابی حاصل کی۔

    اس کے ساتھ ساتھ کاتا کراٹے کی مردوں کی انفرادی کیٹیگری میں پاکستان کے نیامت اللہ نے چاندی کا تمغہ جیتنے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ پاکستان کی ٹیم اب تک ایونٹ میں 1 سونے، 4 چاندی اور ایک کانسی کے تمغوں سمیت 4 میڈل جیت چکی ہے۔
    upload_2019-12-3_2-3-27.jpeg
    ایونٹ میں پاکستان کا ایک اور میڈل یقینی ہے جہاں والی بال کے مقابلوں میں پاکستان کی ٹیم کا مقابلہ منگل کو بھارت سے ہو گا۔ ساؤتھ ایشین گیمز میں 7 سونے، 7 چاندی اور 14 کانسی کے تمغوں کے لیے 7 ملکوں کے 94 کھلاڑی مدمقابل ہیں۔

    میچ کے بعد بات کرتے ہوئے شاہدہ عباسی کا کہنا تھا کہ گولڈ میڈل جیتنے پر بے حد خوشی ہوں، یہ میرا پہلا گولڈ میڈل ہے اور میں بہت زیادہ خوش ہوں۔

    یاد رہے کہ شاہدہ کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔ انہوں نے پہلی دفعہ کراٹے 2005 میں کھیلنا شروع کیے تھے۔
    upload_2019-12-3_2-4-37.jpeg
    شاہدہ کا کہنا تھا کہ ان کی کامیابی میں انکی فیملی اور اساتذہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ فیملی نے مجھے ہمیشہ سپورٹ کیا ہے خاص طور پر میرے ابو نے لیکن ارد گرد کے لوگوں بالخصوص رشتہ داروں اور محلے والوں کا رویہ شاہدہ کے لیے بہت مایوس کن تھا۔ مجھے بہت باتیں سننا پڑتی تھیں کہ لڑکی کو دیکھو کراٹے کھیل رہی ہے۔ اور مجھ پر طرح طرح سے زور ڈالا گیا کہ میں یہ کھیل چھوڑ دوں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے ابو، امی اور بہن بھائیوں کی سپورٹ کی وجہ سے میں نے ہمت نہ چھوڑی۔ لوگوں کی باتوں کا جواب مزید محنت اور کام سے دیا، نہیں چاہتی کہ کسی بھی لڑکی کی کہانی اس طرح سے پڑھی جائے کہ اس نے دباؤ میں آ کر چھوڑ دیا۔ ہمیشہ یہی سوچا کہ میں کچھ بن کر دکھاؤں گی اور یہی میرا لوگوں کو جواب ہو گا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں