(ہزج مثمن اشتر) فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن ---------------------- تیری ذات کا کچھ عرفان چاہتا ہوں میں کوئی قطرہ میرے رحمن چاہتا ہوں میں مانتا ہوں تُو ہے ہر فہم سے ہی بالا تر تیری کچھ تو پھر بھی پہچان چاہتا ہوں میں مانتا ہوں ہے میری ہی تو یہ خطا ساری اب نجات کا کچھ سامان چاہتا ہوں میں جھوٹ اور سچّائی تو ملے ہیں آپس میں جھوٹ اور سچ کی پہچان چاہتا ہوں میں پاؤں چوم لوں اُس کے اور جان دوں اُس پر رب سے جو ملا دے انسان چاہتا ہوں میں کوئی تو ہو جو لوٹائے سکونِ دل میرا اہلِ دل کی کوئی دوکان چاہتا ہوں میں جی رہا ہوں گُھٹ گُھٹ کر میں دیارِ شر میں یوں ہوں کسی کا یوسف کنعان چاہتا ہوں میں چاہتا ہے ارشد چاہت رسول کی یا رب پختہ تجھ پہ یا رب ایمان چاہتا ہوں میںاہلِ
تیرے عشق کی انتہاچاہتا ہوں میری سادگی دیکھ کیا چاہتاہوں علامہ اِقبالؔ آپ کی یہ خیال افروز اور فکرانگیز غزل پڑھ کر بے اِختیار علامہ صاحب کا شعر ذہن میں گونج اُٹھا۔آپ کی تخلیق لاجواب ہے ،٘ماشا ٔ اللہ