1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تفسیر۔۔۔۔۔۔۔سورة عَبَسَ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏15 اپریل 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    سورة عَبَسَ
    بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

    عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿٢﴾

    وه ترش رو ہوا اور منھ موڑ لیا (1) (صرف اس لئے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا (2)

    تفسیر


    ٢۔١اس کی شان نزول میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کے بارے میں نازل ہوئی ۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اشراف قریش بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ابن ام مکثوم جو نابینا تھے، تشریف لے آئے اور آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی باتیں پوچھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ ناگواری محسوس کی اور کچھ بےتوجہی سی برتی۔ چنانچہ تنبیہ کے طور پر ان آیات کا نزول ہوا (ترندی، تفسیر سورہ عبس صحیحہ الالبانی )
    2 ابن ام مکتوم کی آمد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر جو ناگواری کے اثرات ظاہر ہوئے تھے ، اسے عبس سے اور توجہی کو تَوَلٰی سے تعبیر فرمایا۔
    وَمَا يُدْرِ‌يكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ ﴿٣﴾

    تجھے کیا خبر شاید وه سنور جاتا (3)

    تفسیر

    ٣۔١ یعنی وہ نابینا تجھ سے دینی رہنمائی حاصل کر کے عمل صالح کرتا، جس سے اس کا اخلاق و کردار سنور جاتا، اس کے باطن کی اصلاح ہو جاتی اور تیری نصیحت سننے سے اس کو فائدہ ہوتا۔
    أَوْ يَذَّكَّرُ‌ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَ‌ىٰ ﴿٤﴾ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ﴿٥﴾

    یا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائده پہنچاتی (4) جو بے پرواہی کرتا ہے (5)

    تفسیر

    ٥۔١ ایمان سے اور اس علم سے جو تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ یا دوسرا ترجمہ جو صاحب ثروت و غنا ہے۔
    فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ﴿٦﴾

    اس کی طرف تو تو پوری توجہ کرتا ہے (6)

    تفسیر

    2 اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذید توجہ دلائی گئی ہے کہ مخلصین کو چھوڑ کر معرضین کی طرف توجہ مبذول رکھنا صحیح بات نہیں ہے ۔
    وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ﴿٧﴾

    حاﻻنکہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر کوئی الزام نہیں (7)

    تفسیر

    3 کیوں کہ تیرا کام تو صرف تبلیغ ہے ۔ اس لیے اس قسم کے کفار کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
    وَأَمَّا مَن جَاءَكَ يَسْعَىٰ ﴿٨﴾

    اور جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے (8)

    تفسیر

    ٨۔١ اس بات کا طالب بن کر آتا ہے کہ تو خیر کی طرف اس کی رہنمائی کرے اور اسے واعظ نصیحت سے نوازے
    وَهُوَ يَخْشَىٰ ﴿٩﴾

    اور وه ڈر (بھی) رہا ہے (9)

    تفسیر

    ٩۔١ یعنی اللہ کا خوف بھی اس کے دل میں ہے، جس کی وجہ سے یہ امید ہے کہ تیری باتیں اس کے لیے مفید ہوں گی اور وہ ان کو اپنائے گا اور ان پر عمل کرے گا
    فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ ﴿١٠﴾


    تو اس سے بےرخی برتتا ہے (10)

    تفسیر

    ١٠۔١ یعنی ایسے لوگوں کی تو قدر افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ ان سے بےرخی برتنے کی۔ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے، اللہ تعالٰی جس کو چاہے گا اپنی حکمت بالغہ کے تحت ہسایت سے نوازے گا
    كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَ‌ةٌ ﴿١١﴾

    یہ ٹھیک نہیں قرآن تو نصیحت (کی چیز) ہے (11)

    تفسیر

    ١١۔١ یعنی غریب سے یہ اعراض اور اصحاب حیثیت کی طرف خصوصی توجہ، یہ ٹھیک نہیں۔ مطلب ہے کہ، آئندہ اس کا اعادہ نہ ہو۔
    فَمَن شَاءَ ذَكَرَ‌هُ ﴿١٢﴾

    جو چاہے اس سے نصیحت لے (12)

    تفسیر

    ١٢۔١ یعنی جو اس میں رغبت کرے، وہ اس سے نصیحت حاصل کرے، اور اسے یاد کرے اور اس کے موجبات پر عمل کرے اور جو اس سے اعراض کرےاور بے رخی برتے، جیسے اشراف قریش نے کیا، تو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
    فِي صُحُفٍ مُّكَرَّ‌مَةٍ ﴿١٣﴾

    (یہ تو) پر عظمت صحیفوں میں (ہے) (13)

    تفسیر

    ١٣۔١ یعنی لوح محفوظ میں، کیونکہ وہیں سے یہ قرآن اترتا ہےیا مطلب ہے کہ یہ صحیفے اللہ کے ہاں بڑے محترم ہیں کیونکہ وہ علم و حکم سے پر ہیں۔
    مَّرْ‌فُوعَةٍ مُّطَهَّرَ‌ةٍ ﴿١٤﴾

    جو بلند وباﻻ اور پاک صاف ہے (14)

    تفسیر

    1مَرفُوعَۃِ اللہ کے ہاں رفیع القدر ہیں یا شہبات اور تناقض سے بلد ہیں مطھرۃ وہ بلکل پاک ہیں کیوں کہ انہیں پاک لوگوں (فرشتوں )کے سوا کوئی چھوتا ہی نہیں ہے ۔ یا کمی بیشی سے پاک ہے ۔
    بِأَيْدِي سَفَرَ‌ةٍ ﴿١٥﴾

    ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے (15)

    تفسیر

    ١٥۔١ سفرۃ سَافِر کی جمع ہے یہ سفارت سے ہے ۔ مراد یہاں وہ فرشتے ہیں جو اللہ کی وحی اس کے رسولوں تک پہنچاتے ہیں یعنی اللہ اور رسول کے درمیان سفارت کا کام کرتے ہیں۔ یہ قرآن سفیروں کے ہاتھوں میں ہے جو اسے لوح محفوظ سے نقل کرتے ہیں۔
    كِرَ‌امٍ بَرَ‌رَ‌ةٍ ﴿١٦﴾

    جو بزرگ اور پاکباز ہے (16)

    تفسیر

    ١٦۔١ یعنی خلق کے اعتبار سے وہ کریم یعنی شریف اور بزرگ ہیں اور افعال کے اعتبار سے وہ نیکوکار اور پاکباز ہیں۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حامل قرآن (حافظ اور عالم )کو بھی اخلاق و کردار اور فعال و اطوار میں کِرَام بَرَرَۃِ کا مصداق ہونا چاہیے ۔ (ابن کثیر) حدیث میں بھی سَفَرَۃِ کا لفظ فرشتوں کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا ماہر ہے ، وہ السفرۃ الکرام البررۃ (فرشتوں )کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن پڑھتاہے ، لیکن مشفقت کے ساتھ (یعنی ماہرین کی طرح سہولت اور روانی سے نہیں پڑھتا )اس کے لیے دو گنااجر ہے ۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۃ عبس مسلم ، کتاب الصلوٰۃ ، باب فضل الماھر بالقرآن ۔۔)
    تِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَ‌هُ ﴿١٧﴾

    اللہ کی مار انسان پر کیسا ناشکرا ہے (17)

    تفسیر

    4 اس سے وہ انسان مراد ہے جو بغیر کسی سند اور دلیل کے قیامت کی تکذیب کرتا ہے، قُتِلَ بمعنی لُعنَ اورمَااکفَرَہُ ! فعل تعجب ہے کس قدر ناشکرا ہے ۔ آگے اس انسان کفور کو غور و فکر کی دعوت دی جا رہی ہے کہ شاید وہ اپنے کفر سے باز آجائے ۔
    مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿١٨﴾ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَ‌هُ ﴿١٩﴾

    اسے اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا (18) (اسے) ایک نطفہ سے، پھر اندازه پر رکھا اس کو (19)

    تفسیر

    ١٩۔١ یعنی جس کی پیدائش ایسے حقیر قطرہ آب سے ہوئی ہے، کیا اسے تکبر زیب دیتا ہے؟۔
    6 اس کا مطلب ہے کہ اسکے مصالح نفس اسے مہیا کیے اس کو دو ہاتھ دو پیر دو آنکھیں اور دیگر آلات و خواص عطا کیے
    ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَ‌هُ ﴿٢٠﴾


    پھر اس کے لئے راستہ آسان کیا (20)

    تفسیر

    ٢٠۔١ یعنی خیر اور شر کے راستے اس کے لئے واضح کر دیئے، بعض کہتے ہیں اس سے مراد ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
    ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَ‌هُ ﴿٢١﴾

    پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا (21)

    تفسیر

    8 یعنی موت کے بعد اسے قبر میں دفنانے کا حکم دیا تاکہ اس کا اخترام برقرار رہے ورنہ درندے اور پرندے اس کی لاش کو نوچ نوچ کر کھاتے جس سے اس کی بے حرمتی ہوتی ۔
    ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَ‌هُ ﴿٢٢﴾ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَ‌هُ ﴿٢٣﴾

    پھر جب چاہے گا اسے زنده کر دے گا (22) ہرگز نہیں۔ اس نے اب تک اللہ کے حکم کی بجا آوری نہیں کی (23)

    تفسیر


    ٢٣۔١ یعنی معاملہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ کافر کہتا ہے۔
    فَلْيَنظُرِ‌ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ﴿٢٤﴾

    انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کو دیکھے (24)

    تفسیر

    ٢٤۔١ کہ اسے اللہ نے کس طرح پیدا کیا، جو اس کی زندگی کا سبب ہے اور کس طرح اس کے لئے اسباب معاش مہیا کئے تاکہ وہ ان کے ذریعے سعادت آخروی حاصل کر سکے
    أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا ﴿٢٥﴾ ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْ‌ضَ شَقًّا ﴿٢٦﴾ فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا ﴿٢٧﴾ وَعِنَبًا وَقَضْبًا ﴿٢٨﴾ وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا ﴿٢٩﴾ وَحَدَائِقَ غُلْبًا ﴿٣٠﴾ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا ﴿٣١﴾

    کہ ہم نے خوب پانی برسایا (25) پھر پھاڑا زمین کو اچھی طرح (26) پھر اس میں سے اناج اگائے (27) اور انگور اور ترکاری (28) اور زیتون اور کھجور (29) اور گنجان باغات (30) اور میوه اور (گھاس) چاره (بھی اگایا) (31)

    تفسیر

    3 ابا وہ گھاس چارہ جو خودرو ہو اور جسے جانور کھاتے ہیں
    مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ﴿٣٢﴾فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ﴿٣٣﴾

    تمہارے استعمال وفائدے کے لئے اور تمہارے چوپایوں کے لئے (32) پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی (قیامت) آجائے گی (33)


    تفسیر

    ٣٣۔ ١ قیامت کو صَاخۃ (بہرا کر دینے والی )اس لیے کہا کہ وہ ایک نہایت سخت چیخ کے ساتھ واقع ہوگی جو کانوں کو بہرہ کر دے گی۔
    يَوْمَ يَفِرُّ‌ الْمَرْ‌ءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ امْرِ‌ئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴿٣٧﴾

    اس دن آدمی اپنے بھائی سے (34) اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے (35) اور اپنی بیوی اور اپنی اوﻻد سے بھاگے گا (36) ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامنگیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی (37)

    تفسیر

    ٣٧۔١ یا اپنے اقربا اور احباب سے بےنیاز اور بےپروا کر دے گا حدیث میں آتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب لوگ میدان محشر میں ننگے بدن ننگے پیر، پیدل اور غیر مختون ہوں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ، اس طرح شرم گاہوں پر نظر نہیں‌پڑے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےجواب میں یہی آیت تلاوت فرمائی یعنی لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ (الترمذی تفسیر سورۃعبس ،النسائی ، کتاب الجنائز ، باب البعث )اس کی وجہ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ انسان اپنے گھر والوں سے اس لیے بھاگے گا تاکہ وہ اس کی وہ تکلیف اور شدت نہ دیکھیں جس میں وہ مبتلا ہو گا ۔ بعض کہتے ہیں‌اس لیے کہ انہیں‌علم ہوگا کہ وہ کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور ان کے کچھ کام نہیں آسکتے
    #24
    irum


    وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَ‌ةٌ ﴿٣٨﴾ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَ‌ةٌ ﴿٣٩﴾

    اس دن بہت سے چہرے روشن ہوں گے (38) (جو) ہنستے ہوئے اور ہشاش بشاش ہوں گے (39)

    تفسیر

    ٣٩۔١ یہ اہل ایمان کے چہرے ہونگے، جنہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے، جس سے انہیں اپنی آخروی سعادت و کامیابی کا یقین ہو جائے گا، جس سے ان کے چہرے خوشی سے تمتمارہے ہوں گے۔
    وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَ‌ةٌ ﴿٤٠﴾ تَرْ‌هَقُهَا قَتَرَ‌ةٌ ﴿٤١﴾

    ور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے (40) جن پر سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی (41)

    تفسیر

    ٤١۔١ یعنی ذلت اور معائینہ عذاب سے ان کے چہرے غبار آلود، کدورت زدہ اور سیاہ ہوںگے، جیسے محزون اور نہایت غمگین آدمی کا چہرہ ہوتا ہے ۔
    أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَ‌ةُ الْفَجَرَ‌ةُ ﴿٤٢﴾

    وه یہی کافر بدکردار لوگ ہوں گے (42)

    تفسیر

    ٤٢۔١ یعنی اللہ کا، رسولوں کا اور قیامت کا انکار کرنے والے بھی تھے اور بدکردار بداطوار بھی۔الھم لا تجعلنا منھم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں