1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تعزیت

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏25 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تعزیت
    تعزیت ہماری معاشرتی عمارت کا اہم ستون ہے‘ موت پر اظہارِ افسوس ہے۔کون ہے جسے میاں محمد بخش کا یہ مصرع یاد نہیں ‘دشمن مرے تے خوشی نہ کریے ‘ سجناں وی مر جانا۔ سوسائٹی کے سارے طبقات اس ضمن میں حساس ہیں بہت حساس ! گاؤں میں تو خیر معاملہ یہ ہے کہ گائے بھینس مر جائے تب بھی اظہارِ افسوس کے لیے آتے ہیں‘ یہاں تک کہ چوہدری مزارع کے گھر آتا ہے‘ فرش پر بیٹھتا ہے اور کھانے کا وقت ہو تو کھانا بھی کھاتا ہے۔شہری رہن سہن میں بھی تعزیت کے لیے آنا حد درجہ لازم ہے۔ اس میں مقامی غیر مقامی کی تخصیص نہیں۔ دور دراز کا سفر کر کے احباب و اقارب پہنچتے ہیں۔ ٹیلی فون پر تعزیت کم از کم کے درجے میں آتی ہے۔ اس معاشرے کی خوبی یہ ہے کہ موت کے موقع پر ناراضیاں‘ جھگڑے‘ کدورتیں‘ یہاں تک کہ پرانی دشمنیاں‘ قائم رہتے ہوئے بھی‘ اظہارِ افسوس میں حائل نہیں ہوتیں۔ بنیادی طور پر یہ دعا ہے جو جا کر یا فون کے ذریعے‘ کرنا ہوتی ہے کہ قادرِ مطلق مرحوم یا مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ یہ شرافت کا اور خاندانی پس منظر کا ایک لحاظ سے بیرو میٹر بھی ہے ۔ کسی کی وفات پر جو تعزیت بھی نہیں کرتا اور اپنی ہوا میں مست رہتا ہے‘ اسے ہمارے معاشرے میں جن الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے وہ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ سب کو معلوم ہے۔ پھر جھگڑا اگر خاندانی جائیداد کا ہے نہ ذاتی ‘ بلکہ سیاسی‘ مذہبی ‘ یا نظریاتی ہے تو پھر ‘ تعزیت کے دو بول نہ کہنا حد درجہ بے حسی کا مظہر ہے اور قلبی شقاوت کا۔ جو ایسے موقع پر شریک غم ہوتا ہے‘ یاد رہتا ہے ‘ جو نہیں ہوتا‘ اسے بھی نہیں بھلایا جا سکتا! گرہ سی دل میں پڑ جاتی ہے جو وقت کے ساتھ پکی ہوتی جاتی ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں