تشبیہ کیا ہے؟ تشبیہ عربی زبان کا لفط ہے اس کا مادہ ش۔ ب۔ ہ ہے۔ انگریزی میں اسکو سیمائل کہا جاتا ہے۔ اس کے پا نچ ارکان ہیں۔ جن میں مشبہ۔ مشبہ بہ۔ وجہ تشبیہ۔ حرفِ تشبیہ اور غرضِ تشبیہ شامل ہیں۔حواسِ خمسہ کے اعتبار سے اس کی پانچ اقسام ہیں۔جو درج ذیل ہیں۔ باصرہ باصر سے مراد دیکھنا کے ہیں۔ تشبیہ باصرہ میں ایسی مماثلت کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ جو کہ نظر سے متعلق ہو۔ جگنو۔تتلی۔ پھول۔ چاند۔ سورج۔ سمندر۔اور تمام مناظر اس میں شامل ہیں۔اس کی خوبصورت مثال ملاحظہ فرمائیں۔ یوں برچھاں تھیں چار طرف اس جناب کے جیسے کرن نکلتی ہو گرد آفتاب کے سامہ سامہ سے مراد سننا ہے۔ اس میں ایسی تشبیہ دی جاتی ہے جو سننے سے تعلق رکھتی ہو سائیں سائیں۔سرور۔ کڑک۔ ٹک ٹک۔ باجا۔ رباب کا شمار اس میں کیا جاتا ہے۔۔شاعر کا اندازِ تخیل ملاحظہ فرمائیں۔ پُور ہوں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے شامہ شامہ سے مراد سونگھنے کی حس ہے۔ لفظ سے ظاہر ہے کہ اس میں کس طرح کی تشبیہات کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ختن۔ کستوری۔ شمیم اور دیگر خوشبوئیں اس میں شامل ہیں۔اس کی عمدہ مثال ملاحظہ فرمائیں۔ گل کو محبوب ہم قیا س کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا ذائقہ اس میں شاعر حضرات اپنے ذوق کے مطابق تشبیہات کو حواسِ خمسہ کی اس صورت میں ڈھالتے ہیں۔ میٹھا۔ کھٹا۔ تلخ۔ شریں۔ کڑوا۔ کسیلا۔ مرچیلا، نمکین۔ حلاوت۔ ترش۔ قوتِ ذائقہ میں شمار ہوتے ہیں۔مثا ل طور پر۔ جوٹی شراب اپنی مجھے مرتے دم تو دے یہ آبِ تلخ شربتِ قند و نبات ہے لامسہ حواسِ خمسہ کی اس قسم میں تشبیہ کے دوران لمس کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اور یہ حس حواس میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ٹھنڈا ۔ گرم۔ سخت۔ نازک۔ ملائم۔ کھردرا وغیرہ لمس کی شناخت دیتے ہیں۔مثلا۔ نازوکی اس لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے