1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تسلیم فاضلی انہوں نے کم عمری میں ہی نغمہ نگارکی حیثیت سے شہرت حاصل کر لی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تسلیم فاضلی
    تسلیم فاضلی انہوں نے کم عمری میں ہی نغمہ نگارکی حیثیت سے شہرت حاصل کر لی
    [​IMG]
    عبدالحفیظ ظفر

    فلمی نغمہ نگاری کوئی آسان کام نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں بڑے شاندار نغمہ نگار پیدا ہوئے۔ ہندوستان کی فلمی صنعت کو ساحر لدھیانوی، راجندر کرشن، شکیل بدایونی، مجروح سلطانپوری، آنند بخشی، انجان، جاوید اختر اور دوسرے کئی گیت نگار ملے جن کے نغمات نے فلموں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ تنویر نقوی پہلے بھارتی فلموں کے گیت لکھتے تھے پھر پاکستان آ گئے اور یہاں بھی انہوں نے اردو اور پنجابی فلموں کیلئے لازوال گیت تخلیق کیے اور بہت شہرت حاصل کی۔پاکستان میں قتیل شفائی، سیف الدین سیف، مسرور انور، ریاض الرحمان ساغر، کلیم عثمانی اور فیاض ہاشمی، ایسے نغمہ نگار تھے جن کے بے مثل گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ان میں سیف الدین سیف وہ نغمہ نگار تھے جنہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے گیت لکھے اور اپنی فنی عظمت کا سکہ جمایا۔ 70کی دہائی میں ایک شاعر تسلیم فاضلی نے بڑے اثر انگیز نغمات تخلیق کیے اور سب کو حیران کر دیا۔ انہوں نے جو گیت لکھے وہ آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے 154فلموں کیلئے 309 گیت لکھے۔ ان کے گیتوں کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان میں نغمگی کے علاوہ سلاست تھی۔ ان کے گیتوں کی شہرت کی وجہ بھی یہ تھی کہ وہ بڑی سادہ زبان استعمال کرتے تھے۔ تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا اور وہ 1947میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1968میں سب سے پہلے انہوں نے فلم ’’عاشق‘‘ کیلئے نغمات تحریر کیے اور اس کے بعد وہ کامیابی کی منازل طے کرتے رہے۔ تسلیم فاضلی کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد بھی معروف شاعر تھے۔ فلمی نغمات کے علاوہ تسلیم فاضلی نے غزلیں، نعمتیں اور مرثیے بھی لکھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو صرف نغمہ نگاری تک محدود نہیں رکھا۔ انہوں نے اداکارہ نشو سے شادی کی۔ تسلیم فاضلی کی کئی غزلوں کو فلموں میں بھی شامل کیا گیا اور انہوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے دور کے مقبول ترین فلمی گیت نگاروں کی موجودگی میں اپنے آپ کو منوایا۔ جب کم عمری میں ہی کسی کو شہرت مل جائے تو اس کے حاسدین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ تسلیم فاضلی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور مستقل مزاجی سے اپنا کام کرتے رہے۔ تسلیم فاضلی کی یہ خوش بختی تھی کہ انہیں اعلیٰ پائے کے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں ناشاد، ایم اشرف، روبن گھوش اور نثار بزمی کے نام خاص طورپر لئے جا سکتے ہیں۔ ان باکمال موسیقاروں نے تسلیم فاضلی کے نغمات کو اپنی شاہکار دُھنوں سے امر بنا دیا۔ ان کے لکھے ہوئے نغمات کو میڈم نور جہاں، مہدی حسن، احمد رشدی، مہناز، اے نیئر، نیرہ نور اور ناہید اختر نے گایا۔ ان کے گیت زیادہ تر شبنم، محمد علی، ندیم، شاہد، غلام محی الدین اور بابرہ شریف پر عکس بند ہوئے۔ تسلیم فاضلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بڑی سادہ طبیعت پائی تھی اور وہ بڑے نرم مزاج کے مالک تھے۔ فلمی صنعت میں شاذ ہی کوئی ایسا آدمی ہوگا جس سے کبھی ان کا جھگڑا ہوا ہو۔ یہی بات ان کے بھائی صبا فاضلی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ معروف ادیب اور صحافی علی سفیان آفاقی نے کئی فلمیں بھی بنائی تھیں۔ ان میں سے ایک فلم ’’آبرو‘‘ بھی تھی جس کے نغمات انہوں نے تسلیم فاضلی سے لکھوائے تھے۔ ان میں ایک غزل بھی تھی جو میڈم نور جہاں نے گائی تھی۔ اس غزل کے مطلع کا پہلا مصرع ہی بہت مشہور ہوا تھا جو کچھ یوں تھا۔ بن ترے رات تو کیا ہم سے کٹے دن بھی نہیں علی سفیان آفاقی کے مطابق تسلیم فاضلی اپنی اس غزل کو فلم میں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جب ان سے کہا گیا کہ یہ غزل آپ کی شہرت میں اضافے کا سبب بنے گی تو فوراً مان گئے اور جب گانا ریکارڈ کیا گیا تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میڈم نور جہاں نے تو کمال کر دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں انا نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ بڑے تحمل سے دوسروں کی بات سنتے تھے اور اگر دلیل سے بات کی جائے تو فوراً مان جاتے تھے۔ ان کی مشہور فلموں میں ’’سالگرہ، انسان اور آدمی، نادان، تم ملے پیار ملا، تیری صورت میری آنکھیں، افسانہ زندگی کا، دامن اور چنگاری، شبانہ، سوسائٹی گرل، نیا راستہ، آئینہ، اناڑی، بہشت، بندش، پلے بوائے، آبرو، افشاں، من کی جیت، سہرے کے پھول، وقت، طلاق، دو ساتھی، کورا کاغذ‘‘ اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں۔ انہیں تین بار نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جن فلموں کے گیتوں کے لئے انہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ان میں ’’شبانہ، آئینہ، اور بندش‘‘ شامل ہیں۔ اب ہم اپنے قارئین کے لئے تسلیم فاضلی کے کچھ بہترین فلمی نغمات کا ذکر کر رہے ہیں۔ -1 آپ کو بھول جائیں ہم… تم ملے پیار ملا۔ -2 ہمارے دل سے مت کھیلو… دامن اور چنگاری ۔ -3 رفتہ رفتہ وہ مری … زینت۔ -4 بن ترے رات تو کیا …آبرو۔ -5 خدا کرے کہ محبت میں … افشاں۔ -6 تیرے بنا دنیا میں … شبانہ۔ -7 اگر تم مل جاؤ… ایماندار۔ -8 مجھے کر دے نہ دیوانہ… نیا راستہ۔ -9 آج تک یاد ہے وہ … سہرے کے پھول۔ -10 کل تک جو کہتے تھے… بہشت ۔ -11 دل توڑ کے مت جائیو… وقت۔ -12 تیرے قدموں میں بکھر جانے … سوسائٹی گرل۔ تسلیم فاضلی ابھی اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔ وہ اگست 1982 میں صرف 35برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے فلمی گیت ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں