ایک غزل آپ کی بصارتوں کی نظر ،۔ ۔ ۔ ۔ ترے واسطے ہی ستم گر رہی ہوں ہمیشہ سے میں تیرے در پر رہی ہوں سمجھتا ہے کیوں مجھ کو پتھر صنم ادھر دیکھ میں دن بہ دن مر رہی ہوں جو رہتا ہے سایہ مرا بن کے وہ تو بے درد دنیا سے کیوں ڈر رہی ہوں مجھے تو سمجھنے کی کوشش نہ کر کہ وسعت میں اپنے سمندر رہی ہوں مرے مہرباں اب تو نظر کرم کر کہ اپنی قضائیں ادا کر رہی ہوں ہے شہرت مقدم نہ دنیا کی حسرت میں بن کے ہمیشہ قلندر رہی ہوں بنا کے خدا عشق کا اب کنول اسی کی عبادت سے دل بھر رہی ہوں