1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تذکرۃ الخواتین

'کتب کی ٹائپنگ' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏27 اگست 2020۔

  1. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    تذکرۃ الخواتین
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 3 تذکرۃ الخواتین صفحہ1

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اگر بہ نظر غور و تعمق دیکھا جائے تو شاید یہ بات غلطی سے دور ہو گی کہ زمانۂ موجودہ میں تذکرہ لکھنا ایک قسم کی تحصیل حاصل ہے۔ اس لئے کہ لکھنے والوں نے اس فن شریف کو معراج کمال پر پہونچا دیا ہے۔ اتنے اتنے اور ایسے ایسے تذکرے لکھے گئے کہ اس کے بعد تذکرہ لکھنا ایک حک تک منہ چڑانا ہے۔ مگر غور سے دیکھنے پر بھی ایک بات دل میں تیر بن کر کھٹکتی ہے۔ وہ یہ کہ تذکروں میں جوہر تنقید کی کمی پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔ یہ کمی ایک ایسی سخت کمی جس کی تلافی غیر ممکن اور دشوار ہے بجز اس کے کہ کچھ نہ کچھ ایسے ایسے تذکرے لکھے جائیں جن میں نقد و بحث ہو۔
    دوسرے یہ کہ اتفاق سے جس قدر تذکرے دیکھے گئے ان میں زیادہ تر حصہ مردوں کے کلام کا ہوتا ہے بلکہ زیادہ کیا تمام
    ------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 4 تذکرۃ الخواتین صفحہ 2

    تذکروں کی بنا اسی پر ہے۔ مگر حقیقتاً یہ ایک قسم کی نا انصافی ہے۔ کوئی سبب نہیں معلوم ہوتا کہ اس دور ترقی میں جب ہر شے برابر ترقی پذیر ہے اس خیال کو صرف دماغ تک محدود رکھا جائے یقینی یہ ایک صریحی ظلم ہو گا۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ صنف نازک جس کے جذبات مردوں سے زیادہ نازک اور دلکش، جن کی زبان صاف شستہ، بے تصنع اور محفوظ ہے۔ جن کے اکثر خیالات حیا کے عطروں سے مہک رہے ہیں۔ جن کے پہلوؤں میں مردوں سے زیادہ دردمند اور جلد سے جلد متأثر ہونے والا دل ہے۔ جن کی صورت، خو، بو، آواز، چال، ڈھال، رفتار۔ سب میں فطرتی اور خلقی دل کشی ہے۔ ان کے کلام میں کیوں نہ دل کشی ہو گی۔ ہو گی اور ضرور ہو گی۔ کیوں کہ دل کشی کلام کے لئے چند چیزوں کی ضرورت ہے جو مستورات میں بصورت احسن موجود ہیں۔
    (1) زبان صاف شستہ ہو، بامحاورہ ہو، تصنع اور حشو و زوائد سے دور ہو۔
    (2) مقفّے اور مسجّع نہو۔ تاکہ آورد نہ معلوم ہو اور آمد کا لطف
    -----------------------------------------------------------------------
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 13 تذکرۃ الخواتین صفحہ11

    زاں شدہ شہرہ آفاق بہ شیریں رطبی
    سب سے پہلے کیا پیدا اتارا اللہ نے نور
    پردہ ذات میں اس نور کو رکھا مستور
    اور اس نور کا اظہار ہوا جب منظور
    ذات پاک تو دریں ملک عرب کردہ ظہور
    زاں سبب آمدہ قرآں بہ زبان عربی
    ہے ترے نور سے پر نور زمیں میں دشت بدشت
    گلشن چرغ تیرے ہی پئے گلگشت
    تیرے ہی واسطے ہیں جنات مہشت
    شب معراج عروج توز افلاک گذشت
    بہ مقامے کہ رسیدی نہ رسد ہیج نہیں
    قدسیاں آنکھیں بچھاتے ہیں ترے زیر قدم
    خاک پا تیری ہی ہے سرمہ چشم عالم
    بخشد یجیو مری تقصیر برائے شاہ امم
    نسبت خود بہ سگ کردم و بس منقلعم
    زانکہ نسبت بہ سگ کوے تو شد بے ادبی
    سختی حشر سے گھبرائیگی جن مخلوقات
    اور نہ بن آئیگی اے ابرکرم کوئی بھی بات
    انبیا سب تجھے کہوینگے اے ابر نجات
    اہمہ تشنہ لبا نیم توئی آب حیات
    لطف فرما کہ زحدمی گزر دتشنہ لبی
    ہوگئی لہو ولہب ہی میں مری عمر بسر
    یاد خالق میں نہ مصروف ہوئی میں دم بھر
    گھستی ہوں ناصیہ عجز کو تیرے در پر
    چشم رحمت بکشا سوی انداز نظر
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 5 تذکرۃ الخواتین صفحہ 3

    اس میں موجود ہو۔
    (3) فضول بلند خیالیوں اور کوہ کندن کاہ برآوردن سے پاک ہو۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہر وہ شاعر جو اسی فکر میں رہے گا کہ میں ایسی نئی بات کہوں جو اب تک کسی نے نہ کہی ہو تو وہ یقینی مہمل گو ہو گا اور اس کے اکثر مضامین قابل مضحکہ ہوں گے اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی آدمی ایسی بات کہے کہ جو کسی نے نہ کہی ہو۔ کیوں کہ انسان میں فطرتاً قوت ابداع نہیں رکھی گئی وہ تراش خراش کر سکتا ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ کوئی نئی بات پیدا کر سکے۔
    (4) خیالات صاف ہوں۔ الجھے ہوئے الفاظ بھی نہ ہوں۔ پیچیدہ بندشیں بھی نہ ہوں۔
    (5) جذبات درد و اثر سے لبریز ہوں۔
    (6) عامیانہ اور سوقیانہ خیالات نہ ہوں۔
    اور ایسی ہی ایسی چند باتیں شاعری کی خوبیوں کی جان کہی جا سکتی ہیں۔ یہ سب باتیں طبقۂ نسواں میں اعلٰی درجہ پر موجود ہیں۔
    ان کی زبان میں تصنع نہیں۔ ضلع جگت تشبیہہ اور استعاروں وغیرہ
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 6 تذکرۃ الخواتین صفحہ 4

    کی بھرمار سے زیادہ تر ان کا کلام پاک و صاف ہے مقفی اور مسجع نہیں ہے وہ یہ کوشش نہیں کرتیں کہ آن ہوئی بات کہی جائے ان کے خیالات صاف ہیں۔ وہ رقیق القلب اور نازک دل ہوتی ہیں اس لیے کوئی سبب نہیں ہے کہ ان کے کلام میں درد و اثر نہ ہو۔ عامیانہ اور سوقیانہ بندشیں بھی ان کو پسند نہ ہو سکتی ہیں اور نہ میسر آ سکتی ہیں۔ اس لیے کہ فطرت نے حیا کو ان کے خیال کی بے راہ روی کا محافظ اور ان کی یاوہ گوئی کا زبردست نگہبان بنایا ہے۔ وہ جعفرزٹلی اور چرکین وغیرہ کی یاوہ گوئی سے غالباً ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں۔
    بہر حال یہ سب قدرتی مواد جمع ہے کوئی سبب نہیں کہ ان کے کلام کو جمع نہ کیا جائے۔ ہاں میرے لئے سب سے زیادہ مایوس کن یہ بات ہے کہ نہ تو سوائے دو تین چھوٹے چھوٹے تذکروں کے کوئی تذکرہ ملتا ہے۔ اور نہ یہی ممکن ہے کہ خط و کتابت کر کے کلام حاسل کیا جائے۔ ان سے خط و کتابت کرنا جانبین کی الجھنوں اور مصیبتوں میں ڈال دینا ہے۔ اسی طرح ان کے صحیح صحیح حالات ملنا دشوار تر ہیں۔ چونکہ نہ وہ خود بتا سکتی ہیں نہ کوئی اور نہ دل کے راز معلوم
    ------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 7 تذکرۃ الخواتین صفحہ 5

    کرنے کا ابھی تک کوئی ایسا آلہ دریافت ہوا جو گھر بیٹھے ہر شاعرہ کا ھال ہم پر آئینہ کر دے۔ اور اگر فے المثل کوئی راز معلوم ہو بھی جائے تو افشاے راز نہایت ہی سفیہانہ حرکت اور بےہودگی ہے۔ لہذا میں اول تو صرف نام وغیرہ پر ہی اکتفا کروں گا اور جہاں کہیں ضرورت ہو گی تو معمولی حالات لکھ دوں گا۔ البتہ جہاں تک ممکن ہو گا ان کے کلام کے انتخاب کی بہترین کوشش کروں گا۔
    چونکہ فن شعر گوئی ایک وہبی فن اور عطیۂ قدرت ہے اس واسطے اس میں ہر قوم اور ہر فرقہ کے آدمی شامل ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ہم اس سے مجبور ہیں کہ جس صنف میں ایک عالی خاندان شریف مستورہ عفت نشین یا ایک نوجوان دوشیزہ مہ جبین والا دودمان کا ذکر ہو۔ وہیں ایک حسین بازاری بھی ہو مگر کیا کیا جائے۔

    بندۂ عشق شدی ترک نسب کن جامی
    کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست

    پھر بھی اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ ہر ایک طوائف یا اسی قسم کی شاعرہ کے نام کے ساتھ ہی (ط) کا نشان دے دیا گیا ہے۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 8 تذکرۃ الخواتین صفحہ 6

    حالات کم ہوں گے اور مجھے کم ہی دستیاب بھی ہوئے۔ البتہ ضرورت اور محل کے موافق اس میں لطائف شامل کرتا جاؤں گا تاکہ ناظرین کی دلچسپی کا ایک خاص ذریعہ نکل آئے۔
    غزلوں، نظموں، قصیدوں وغیرہ غرضیکہ ہر قابل انتکاب چیز کا انتخاب ہو گا۔ صرف ایک شے پر انحصار نہ ہو گا۔
    چونکہ تذکرہ کم۔ حالات کی فراہمی اور بہم رسانی میں دشواریاں تحقیق میں مصیبتیں ہیں لہذا ممکن ہےکہ کہیں کوئی غلطی ہو جس کے لئے میں پہلے ہی معافی مانگتا ہوں۔
    یہ تذکرہ ردیف وار ہو گا تاکہ ترتیب بے کار نہ ہو۔ اور کسی تخلص کو ڈھونڈنے میں تمام کتاب کی ورق گردانی کی زحمت بے جا گوارا نہ کرنی پڑے۔
    ہر جگہ یہ ترتیب ملحوظ رہتی ہے کہ پہلے ان عفت مآب خواتین کا کلاج درج ہوتا جو اعلی طبقوں اور والا خاندانوں سے متعلق ہیں۔ اس کے بعد دوسرے فرقہ کو درج کیا جاتا۔ تجیح ملا مرجح سممجھ کر اس خیال کو چھوڑ دیا۔
    جن کا کلام اردو میں دستیاب نہ ہو گا ان کا جس زبان میں
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 9 تذکرۃ الخواتین صفحہ 7

    کلام دستیاب ہوا ہے وہی لکھ دیا جائے گا۔ اور جس صنف میں کلام ملے گا اسی کو داخل تذکرہ کیا جائے گا۔ مگر جہاں تک ممکن ہو گا اردو کی غزل کو بنظر توجیح دیکھا جائے۔
    (مؤلّف)

    الف

    اچپل۔
    ہینگن جان طوائف کا تخلص تھا۔ جو اپنے زمانہ کی ہم پیشہ عورتوں میں نہایت ہی مشہور تھی۔ موسیقی میں اس کو کامل مہارت تھی یہاں تک کہ جب شب کو تعلیم لیتی تھی تو گویا راستہ چلنے والوں کو عشق و عاشقی کی تعلیم دیتی تھی۔ برآمدہ کے نیچے ایک ہجوم عام ہوتا تھا۔ اکثر عاشقان رنگین مزاج اس کے ہاتھ سے تباہی کی حدوں میں جا پہنچے تھے ہر قسم کے لوگوں کا مجمع رہتا تھا۔ صورت پرست شاعر بھی جاتے تھے اپنا اپنا کلام اس کو دیتے اور موسیقی کے ساتھ سنتےتھے۔ انہیں کے فیض صحبت نے بمصداق۔ کہ رنگ ہمنشیں در من اثر کرد۔ شاعر بھی بنا دیا تھا۔ وگرنہ من ہمان حکم
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 10 تذکرۃ الخواتین صفحہ 8

    کہ ہستم۔ کا مضمون تھا۔ بارہ سو ساٹھ کے بعد انتقال ہوا۔
    مصنف تذکرۂ چمن انداز۔ و تذکرۃ الشاعرات نے صرف ایک شعر نقل کیا ہے۔

    ہے عیش اس کے جی کو اجی غم بہت ہے یاں
    شادی وہاں رچائی ہے ماتم بہت ہے یاں

    مگر میری معلومات کا ذریعہ اس سے کچھ زیادہ وسیع ہے مجھ سے جن بزرگ نے یہ حالات بیان کیے وہ آج ہزاروں من خاک کے نیچے سو رہے ہیں۔ وہ مدتوں خود اس کے مکان پر گئے اس کا گانا سنا۔ اس کا کلام سنا۔ اکثر یاد کیا کرتے تھے۔ کبھی ہنس ہنس کر یہ شعر بھی پڑھتے تھے اور آپ ہی آپ مزہ لیتے ھے۔

    آپ سے بات بھی کرے کوئی
    یہ بھلا کیا مجال ہے صاحب
    جان کوئی خوش سے دیتا ہے
    کیا نِرالا سوال ہے صاحب
    خاک سے ٹُک اٹھائیے اُس کو
    دل مرا پائمال ہے صاحب

    احمدی۔
    سونی پت جو نواح دہلی میں مشہور و معروف مردم خیز قصبہ ہے اس میں یہ شاعرۂ نادرہ پیدا ہوئی۔ اولاً تعلیم و تعلم کی طرف
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 11 تذکرۃ الخواتین صفحہ 9

    طبیعت راغب رہی۔ اس کے بعد شعر و شاعری کی طرف طبیعت کھنچ آئی۔ ایک شریف گھرانے سے تھی اور ایک تعلیم یافتہ امیرزادہ کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔ پورا دیوان مرتب کر لیا تھا مگر چونکہ ان کے شوہر کو شاعری کی طرف میلان نہ تھا۔ نہ اس زمانہ میں شریف مستورات کی شاعری کچھ استحسانی نظر سے دیکھی جاتی تھی اس واسطے سنا گیا ہے کہ ان کا دیوان غائب کر دیا گیا۔ اور اسی غم میں احمد بیگم بیمار ہوئی غم کی فراوانی سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہمیشہ تپ رہنے لگی۔ ہوتے ہوتے انجام وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ دِق ہوئی اور انتقال کر گئیں۔ دو شعر موجود ہیں جو لکھے دیتا ہوں۔

    اُسے اس خطا پر پشیماں کیا
    محبت نے انساں کو انساں کیا
    چمن میں بھی مجنون نے احمدی
    گلوں کی طرح چاک داماں کیا

    اختر۔
    نواب اختر محل کا تخلص ہے۔ جو خاندان تیموریہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ نہایت ہی ذکی ذہین طباع نیک مزاج تھیں۔ اکثر نعت و منقبت وغیرہ میں شاغل رہتی تھیں۔ اسی صنف میں کلام ملتا ہے مگر شاید تفنن طبع کے خیال سے کبھی کبھی غزل بھی
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 12 تذکرۃ الخواتین صفحہ 10

    کہتی تھیں۔ 1292 ھ تک بقید حیات تھیں اس وقت تذکرۂ مرآت خیالی میں یہ کلام درج کیا گیا ہے۔ لفظ لفظ سے مشق کلام کا پتہ چلتا ہے۔ کلام ملاحظہ ہو۔ قدسی کی اُس غزل کو جس کا ایک ایک مصرع مشہور خاص و عام ہے تضمین کر کے داد خوش گوئی دی ہے۔

    تجھ پہ قربان ہوں اے ہاشمی و مطلبی
    کہ ہے مشہور دو عالم میں تری عالی نسبی
    دیکھ رتبہ کو ترے شوکتِ افلاک دبی
    مرحبا سیدِ مکی مدنی العربی

    وہ ترا نور ہے ماہ فلک و مہر و کرم
    تیرے جلوے سے منور ہوئے دونوں عالم
    تاب یوسف کو کہاں ہے کہ ترے دیکھے قدم
    من بدل بجمال تو عجب حیرانم
    اللہ اللہ چہ جمال ست بدیں بو العجبی

    واہ کیا درجہ ہے کیا شاہ ہے اور کیا رتبہ
    خالق ارض و سما خود ہی ترا مدح سرا
    انبیا کہتے ہیں سب صلی علیٰ صل علیٰ
    نسبتے نیست بذاتِ تو بنی آدم را
    بر تر از آدم و عالم تو چہ عالی نسبی
    تو ہے نیسان کرم اور سحابِ اکرام
    بھر دیا موتیوں سے دامن امیدِ انام
    بار آور ترے باعث سے ہے نخلِ اسلام
    نخل بستانِ مدینہ ز وت سر سبز مدام
    ----------------------------------------------------------------------
     
  5. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 23 تذکرۃ الخواتین صفحہ 21

    سب بے سود اور بے کار ثابت ہوئیں آخر کار ایک خنجر آبدار سے اپنا کام تمام کر لیا۔ اور خون کی سرخ چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لئے محو خوابِ عدم ہو گئے۔ مگر عشق صادق کا جذب کامل آخر کار رنگ لایا۔ اور بنّو بھی اس واقعہ سے آشفتہ رہنے لگی۔ ہر وقت کے رنج فراق اور سوز جگر نے رفتہ رفتہ حرارت قائم کر دی۔ تپ لازم ہو گئی اور رفتہ رفتہ دِق پر نوبت پہنچی اسی میں کام تمام ہو گیا۔ 1256 ھ یا 57 ھ میں یہ سانحۂ جانگداز پیش آیا۔ شاہ عالم اکبر ثانی کے عہد م یں بنّو اور آشفتہ دونوں زندہ تھے۔ محققین کی رائے ہے کہ بنّو کو صرف آشفتہ کے فیض صحبت نے شاعر بنا دیا تھا۔ بہر حال بنّو کے چند شعر سن لیجئے اور اندازہ کیجئے کہ عشق صادق کس طرح پتھر کو موم بنا دیتا ہے۔ یہ وہ شعر ہیں جو آشفتہ کے مرثیہ میں بطریق نوحہ خوانی بنّو نے کہے تھے۔

    چھوڑ کر مجھ کو کہاں او بت گمراہ چلا
    تو چلا کیا کہ یہ دل بھی ترے ہمراہ چلا
    چھٹ گیا غم سے مرا کشتۂ ابرد مر کر
    اک چھری میرے گلے پر بھی مری آہ چلا
    ولہ
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 24 تذکرۃ الخواتین صفحہ 22

    موت آتی ہے نہ ہے زیست کا یارا مجھ کو
    ہاے آشفتہ ترے مرنے نے مارا مجھ کو
    موت پر بس نہیں چلتا ہے کروں کیا ورنہ
    تو نہیں ہے تو نہیں زیست گوارا مجھ کو
    اب کسے چین کہاں عیش کدھر بستر خواب
    نہیں مخمل بھی کم از بستر خارا مجھ کو
    ہے غضب وہ تو مرے اور جیوں میں بنّو
    موت آ جائے تو ہو عمر دوبارا مجھ کو
    ولہ
    نعش آشفتہ کو بے رحموں نے پھونکا آگ سے
    آتش غم ہی جوانا مرگ کی کچھ کم نہ تھی

    بعض تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ جیسے ہی بنّو نے مقتول آشفتہ کی جان دہی کا حال سنا دیوانوں کی طرح بے سروپا ہو کر آشفتہ کا یہ شعر پڑھتی ہوئی آشفتہ کے دیکھنے کے لئے بھاگی۔

    بچتا نہیں ہے کوئی بھی بیمار عشق کا
    یا رب نہ ہو کسی کو یہ آزار عشق کا
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 25 تذکرۃ الخواتین صفحہ 23

    مگر گھر کے لوگوں نے دیوانہ سمجھ کر جانے نہ دیا۔ پھر بھی بنّو پر یہ اثر پڑا کہ اسی دن ممنوعات و منہیات سے توبہ کر کے بیٹھ گئی اور چھ مہینہ کے عرصے کے بعد ہمیشہ کے لئے آشفتہ کی روح کو وصال دائمی سے مسرور کر دیا۔

    بہو۔
    معروف بہ بہو بیگم صاحبہ مرحومہ مغفورہ محل خاص یوسف علی خاں صاحب بہادر مرحوم و مغفور سابق والی رامپور متخلص بہ ناظم نہایت خوب فرماتی تھیں۔ یہ دو شعر تذکرۂ چمن انداز سے نقل کیے جاتے ہیں۔ جو خوب صورت قطعہ ہیں۔

    شب بزم ملاقات میں ہر چند یہ چاہا
    آنکھیں تو لڑاؤں ذرا اس رشک قمر سے
    پر خوف مرے دل میںیہی آیا کہ ہے ہے
    نازک ہے نہ دب جائے کہیں تارِ نظر سے

    بیگم۔
    میر تقی میر کی دختر نیک اختر کا تخلص ہے جو شادی کے چند ہی روز بعد دنیا سے رخصت ہوئیں اور جن کی جوانا مرگی پر میرے ایسے مستغنی المزاج شاعر کو خون کے آنسو بہا کر یہ شعر کہنا پڑا۔

    اب آیا دھیان اے آرام جاں اس نا مرادی میں
    کفن دینا تمھیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 26 تذکرۃ الخواتین صفحہ 24

    بعض لوگ اس واقعہ کی طرف اس شعر کو بھی منسوب کرتے ہیں۔ اور یہ شعر بھی میر صاحب کے دیوان میں موجود ہے۔

    دریں حدیقہ بہار و خزاں ہم آغوش است
    زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش است

    مگر مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ شعر کسی ایرانی شاعر کے یہاں دیکھا ہے۔ حافظہ یاری نہیں کرتا کہ لکھوں معلوم نہیں کہ میری تحقیقات اور معلومات صحیح ہے یا عقیدت مندوں نے میر صاحب کے لئے اس شعر کو طغرائے امتیاز بنایا ہے۔ بہر حال مرحومہ کے شعر یہ ہیں۔ ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ یہ صاحب دیوان تھیں۔ مگر افسوس کہ اب صرف یہ تین شعر ملتے ہیں۔

    برسوں خم گیسو میں گرفتار تو رکھا
    اب کہتے ہو کیا تم نے مجھے مار تو رکھا
    کچھ بے ادبی اور شبِ وصل نہیں کی
    ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا
    اتنا بھی غنیمت ہے تری طرف سے ظالم
    کھڑکی نہ رکھی روزنِ دیوار تو رکھا

    بیگم۔
    تارا بیگم نام تھا اور یہ نمونۂ کلام تھا اور کچھ حال معلوم نہیں۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 27 تذکرۃ الخواتین صفحہ 25

    کیوں وصل میں چھپاتا ہے تو ہم سے یار پیٹ
    رکھتا ہے سو بہار کی اک یہ بہار پیٹ

    بیگم۔
    یہ ایک پنجابن باکمال رقاصہ کا تخلص ہے جو اپنے ہنر اور اپنے حسن و صورت و سیرت سے سودھ کے عیاش مزاج نیک دل سلطان واجد علی شاہ مرحوم کے محل تک پہنچی اور ان کی ممتوعہ ہو کر رشک محل کا خطاب پایا۔ لکھنئو اور کلکتہ دونوں جگہ بادشاہ کے ساتھ رہی مرتے مرتے حق رفاقت ادا کیا۔ شاعری سے ذوق خاص تھا اور لطف یہ کہ وہ اپنی اصلی بول چال میں شاعری کرتی تھی یعنی اول اول ریختی گوئی کا شوق تھا۔ بعد کو نہ معلوم کیوں اس شاعری کو چھوڑ کر مردانہ شاعری کی طرف مائل ہوئیں۔ یہ شعر مصنف تذکرۃ الشاعارت کے پاس بھیجے تھے اور اب تک اس تذکرہ میں درج ہیں۔

    ہے منظور باجی ستانا تمھارا
    گلا کرتی ہے جو دُگانا تمھارا
    نہ بھیجوں گی سسرال میں تم کو خانم
    نہیں مجھ کو دو بھر ہے کھانا تمھارا
    مری کنگھی چوٹی کی لیتی خبر ہو
    یہ احساں ہے سر پر دُگانا تمھارا
    ----------------------------------------------------------------------
     
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 28 تذکرۃ الخواتین صفحہ 26
    ہوا بال بیکا جو مرزا ہمارا
    تو پھر سنگ ہے اور شادا تمہارا
    گھر سہ گا نہ کے دوگانا مری مہمان گئی
    میں یہ انگاروں پہ لوٹی کہ مری جان گئی
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بائے فارسی
    پارسا __ تخلص ہے نواب میرزا محد تقی خاں ہوس کی دختر نیک اختر کا ۔ جو اپنے وقت کے نہایت ہی مشہور و معروف شاعر تھے ۔ بعض تذکرہ والے لکھتے ہیں کہ یہ نواب آصف الدولہ کے عزیز قریب تھے اور رمزہ مصاحبین میں ایک ممتاز درجہ رکھتے تھے ۔ صاحب دیوان تھے ۔ مثنوی لیلی مجنون کے مصنف ہیں جو مطبع منشی نو لکشور لکھنو میں شائع ہوچکی ہے ۔ بعض غلط نویسوں نے لکھ دیا ہے کہ ان کا
    کوئی شعر لیلی مجنوں کے واقعات سے خالی نہیں ہوتا ۔ مگر یہ سراسر غلط ہے ۔ ان کے سینکڑوں شعران دونوں ناموں سے خالی ہیں ۔ مگر ہاں بحر متقارب اور متدارک میں ان کا کلام بیشتر ہے
    چمن انداز کا مصنف ایک عجیب و غریب روایت بیان کرتا ہے
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 29 تذکرۃ الخواتین صفحہ 27
    کہ پارسا کی شادی عمر بھر اس خیال سے نہیں کی گئی تھی کہ ان کے والد یعنی میر تقی ہوس اس بات کو عار سمجھتے تھے کہ کوئی داماد آئے ۔ نمومہ کلام
    تن صورت حباب بنا اور بگڑ گیا
    یہ قصر لاجواب بنا اور بگڑ گیا
    چلتا نہیں ہے ابلق ایام ایک چال
    اکثر یہ بدر کاب بنا اور بگڑ گیا
    پٹہ باز __ کہا جاتا ہے کہ غدر سے پہلے یہ ناظورہ عصمت فروش سہارن پور میں موجود تھی ۔ اور خوبیون میں اس کی شاعری نے اضافہ کردیا تھا
    کرتیاں جالی کی پہنے ہیں جوانان حسین
    حسن کی فوج میں دیکھے یہ زرہ پوش نئے
    پرویں __ عزیزہ عابدہ خانم نام ہے ۔ اکثر گلدستوں میں نظمیں وغیرہ شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ نظموں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ نہایت اچھا شعر کہہ سکتی ہیں ۔ 1927ء جب کہ میں تذکرہ میں آپ کا ذکر کررہا ہوں اس وقت تک اپنی سخن سنجی سے سامعہ نوازی کا اہل ذوق کو موقع دیتی ہیں ۔ زمانہ حال کی خوش گو شاعرہ ہیں ۔ تفصیل کے ساتھ حال معلوم نہ ہوسکا ۔ چند رباعیاں جو سرما کے متعلق ہی لکھتا ہوں ۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 30 تذکرۃ الخواتین صفحہ 28

    ورود سرما

    رباعی

    برسات گئی تو فصل سرما آئی
    با دامنِ تر نسیم دریا آئی
    اللہ ری سرد مہری وادی نجد
    بردِ یمنی میں چھپ کے لیلٰی آئی

    باغوں میں وہ لطف سیر کا بھی نہ رہا
    برفاب کا ذوق جانفزا بھی نہ رہا
    سردی نے نشاط صبح پانی کر دی
    جمنا پہ نہانے کا مزا بھی نہ رہا

    گرما میں وہ سرگرمی احباب کہاں
    وہ جلوۂ بحر و موج و سیماب کہاں
    آسودگیٔ لحاف رنگیں معلوم
    نظارۂ تاج و شب مہتاب کہاں

    دل سرد ہے جا بادۂ عنابی لا
    سونے کے لئے حسین مہتابی لا
    دس بجنے کو آئے نیند کا نام نہیں
    اے اوّل شب لباس شب خوابی لا

    اب غزل کے چند اشعار درج کرتا ہوں جو میرے اندازہ میں
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 31 تذکرۃ الخواتین صفحہ 29

    حد مشق شاعری کا پتہ دیتے ہیں۔

    خبر میری نہ لی برباد کر کے فتنہ گر تو نے
    میں تکتی رہ گئی اور پھیر لی اپنی نظر تو نے
    پتا ہے اے صبا میرا نہ گلشن میں نہ مدفن میں
    نہ جانے میری مٹی پھینک دی ظالم کدھر تو نے
    سزا ملتی ہے لیکن بے وفا ایسی نہیں ملتی
    ذرا سے جرم الفت پر ستایا عمر بھر تو نے
    فریبِ کامیابی اے دلِ مضطر مبارک ہو
    اک امید اثر پر آہ کھینچی رات بھر تو نے
    تجھے تو صبحِ محشر کی گرانجانی سے لرزہ ہے
    ابھی میری مصیبت کی کہاں دیکھی سحر تو نے
    ابھی اک تیر سا سینہ میں آ کر کر گیا زخمی
    کیا تھا کیا خدا معلوم سینہ تان کر تو نے
    لطائف رہگذار برج کے کچھ تو سنا پرویںؔ
    علی گڑھ سے کیا ہے خوب متھرا کا سفر تو نے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 32 تذکرۃ الخواتین صفحہ 30

    غالباً نومبر 24 ء کی کے رسالۂ پیمانہ میں ساغر صاحب ایڈیٹر پیمانہ نے اپنی ایک تصویر (ساغر عالم رنگ و بوم) کے عنوان سے شائع کی تھی جس کو دیکھ کر پروین نے یہ نظم کہی۔ نظم نقل کرنے سے پہلے مجھے یہ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آج کل ملک کے موقر رسالے جو خواتین ہند کی عریاں نویسی کے عنوان سے متواتر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ان کی بانی ایسی ہی نظمیں ہو سکتی ہیں جو بلا شک صنف نازک کے لئے مخرب اخلاق کہی جا سکتی ہیں۔

    پہلا رخ

    یہ وقار یہ متانت یہ ترا کم صباحت
    یہ جبین صبح طلعت یہ تلاطم لیاقت
    یہ حسین وضع و تمکین یہ نظر کی دل فریبی
    یہ تناسب مؤثر یہ فسون جامہ زیبی
    لب رنگ آفریں میں یہ چھپا ہوا تبسم
    یہ دہان غنچہ پیرا یہ تراوش تکلم

    دوسرا رخ

    یہ لگاوتیں یہ شوخی یہ ادائے بے ہجابی
    کسی کنج گل میں جیسے ہو پڑا کوئی شرابی
    یہ غدار بوس کاکل یہ نمایش پریشاں
    کہ شراب جیسے اڑ کر بنے آتش گلستاں
    ------------------------------------------------------------------
     
  9. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 33 تذکرۃ الخواتین صفحہ 31

    یہ کھلا ہوا گریباں یہ نمود جوشِ مستی
    یہ خمار ریز آنکھیں یہ شباب مے پرستی
    تری مستیاں وہ سمجھے جو خراب رنگ و بو ہو
    ارے او جوان ساغر یہ جہاں ہو اور تو ہو

    پری (ط) ۔
    بی سیرہ نام عرف بی میجو۔ کلکتہ کی ایک یہودن تھی۔ خوش صورت۔ خوش سیرت تھی۔ انگریزی بھی جانتی تھی۔ اردو فارسی میں بھی مہارت رکھتی تھی۔ تھوڑی بہت عربی سے بھی باخبر تھی۔ کبھی کبھی اردو میں فکر شعر کرتی 1299 ھ میں زندہ موجود تھی۔
    نمونۂ کلام یہ ہے۔

    سن کے میرا غصۂ و غم ہنس کے کہتا ہے وہ شوخ
    ہم نہ سمجھے کچھ کہ اس قصہ کا حاصل کیا ہوا
    اب کسی کے پاؤں میں ایسے کڑے پڑتے نہیں
    بعد میرے ناز و اندازِ سلاسل کیا ہوا
    ہم ہیں اور آپ ہیں خلوت میں کوئی غیر نہیں
    کیا عجب چین سے ہو جائے بس وصل کی رات

    پری (ط) ۔
    بچن جان نام اکبر آباد کی ایک شاہد بازاری کا تخلص تھا۔منشی فدا حسین امیر (جن کا کہیں تذکروں میں پتا نہیں چلا)
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 34 تذکرۃ الخواتین صفحہ 32

    کی شاگرد تھیں۔ انھیں سے مشق سخن کرتی تھیں اور اردو میں اکثر فکر شعر کرتی تھیں۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    گیسو پُر پیچ جاناں کے حضور
    پیچ کی لیتا ہے تو سنبل عبث
    سلسلہ زنجیر کا اچھا نہیں
    ہے خیال گیسو و سنبل عبث

    پکھراج (ط) ۔
    پکھراج بیگم نام تھا۔ اکبر آباد مولد اور اٹاوہ مسکن تھا۔ اردو میں شعر کہتی تھیں۔ شعروں سے پتہ چلتا ہے کہ بہت عمدہ طبیعت پائی تھی۔ آمد کا کلام میں خاص خیال رکھتی تھیں۔

    ہمیں ہر طرح ٹھہرتے ہیں خطاوار ان کے
    جب بگڑتی ہے کوئی بات بنا دیتے ہیں
    خواب میں سیر کیا کرتی ہیں آنکھیں ان کی
    جب و سوتے ہیں تو جادو کو جگا دیتے ہیں

    ولہ

    ساتھ لے جاتے غم یار نہ کیونکر پس مرگ
    ایسے بیزاد سفر قصدِ سفر کیا کرتے
    بار اٹھ سکتا نہیں موئے کمر کا ان سے
    پھر وہ شمشیر گراں زیب کمر کیا کرتے
    یہ ملاحت رخ دل کش کی کہاں سے لاتے
    ہمسری تجھ سے بھلا شمس و قمر کیا کرتے
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 35 تذکرۃ الخواتین صفحہ 33

    ساتھ ہم لے گئے سرمایہ عدم کو اپنا
    درد دل دیتے کسے سوز جگر کیا کرتے

    جدا نہ غم سے رہا زیر آسماں کوئی
    بچا نہ ہاتھ سے اس پیر کے جواں کوئی

    دنیا میں مثل خواب ہماری حیات ہے
    کیونکر خیال یار نہ پیش نظر رہے
    تاریکی عمل سے کیا گور میں مقام
    منزل میں شب ہوئی تو سرا میں اتر رہے
    پکھراجؔ بعد مرگ بھی غم ساتھ لے چلو
    بہتر ہے پاس اپنے جو زادِ سفر رہے

    پنہاں ۔
    تخلص ہے سپہر آرا خاتون نام ہے۔ رابعہ خطاب ہے۔ آپ بریلی کے ایک معزز خاندان سے ہیں۔ مولوی عبدالاحد خاں صاحب جو الہ آباد کے سر رشتہ تعلیم سے تعلق رکھتے تھے اور جن کی ادبی خدمات ہر طرح قابل توجہ ہیں۔ ان کی صاحبزادی ہیں۔ زمانۂ موجودہ کی بہترین شاعرہ ہیں۔ نظم و نثر میں کافی مہارت رکھتی ہیں۔ بلکہ نظم و نثر کے علاوہ آپ زبان فارسی میں بھی نہایت اچھے شعر کہتی ہیں۔ زنانہ رسالوں کے علاوہ بھی کوئی ادبی رسالہ آپ کے فیض سخن سے محروم نہیں ہے۔ میں جملہ اقسام کلام کا کچھ نمونہ پیش کرتا ہوں۔ غزل کا نمونہ
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 36 تذکرۃ الخواتین صفحہ 34

    سینہ ہے ایک یاس کا صحرا لیے ہوئے
    دل رنگ گلستان تمنا لیے ہوئے
    ہے آہ درد و سوز کی دنیا لیے ہوئے
    طوفان اشک خون ہے گریا لیے ہوئے
    اک کشتۂ فراق کی تربت پہ نوحہ گر
    داغ جگر میں شمع تمنا لیے ہوئے
    جانا سنبھل کے اے دل بے تاب بزم میں
    ہے چشم یار محشر غمزہ لیے ہوئے
    سوزاں نہ یہ چمن ہو مرے نور آہ سے
    او گلشن جمال کا جلوہ لیے ہوئے
    مجنوں سے تو حقیقت صحرائے نجد پوچھ
    ہے ذرہ ذرہ جلوۂ لیلٰی لیے ہوئے
    عشق جنوں نواز چلا بزم ناز میں
    اک اضطراب و شوق کی دنیا لیے ہوئے
    میری تو ہر نگاہ ہے وقف عبودیت
    وہ ہر ادا میں حسن کلیسا لیے ہوئے
    مرہم سے بے نیاز ہے پنہاںؔ یہ زخمِ دل
    کیا کیا فسوں ہے چشمِ دل آرا لیے ہوئے

    ایک نظم کے دو چار شعر لکھتا ہوں جو انھوں نے اپنے والد جناب مولوی عبدالاحد خاں صاحب مروحوم کے انتقال کے صدمہ سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ تمام و کمال نظم لکھ دوں مگر چونکہ بہت طویل ہے اس لئے دو چار شعر منتخب کر کے لکھتا ہوں۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 37 تذکرۃ الخواتین صفحہ 35

    آہ وہ ایام عشرت ہاے وہ لیل و نہار
    واپس آ سکتے نہیں اس زندگی میں زینہار
    نالے آتش ریز آہیں خون میں ڈوبی ہئی
    آنکھ غم آگیں نگاہیں خون میں ڈوبی ہوئی
    سوزشِ پنہاں سے پڑتے ہیں زباں میں آبلے
    ہونٹ تھر تھر کانپتے ہیں گفتگو کرتے ہوئے
    کیا خبر تھی اس طرح لٹ جائے گا یہ کارواں
    کیا خبر تھی در پۓ آزار ہو گا آسماں
    اے اجل کیوں تو نے لوٹے میرے اسباب نشاط
    ابر غم سے ہو گیا بے نور مہتاب نشاط
    آ نہیں سکتا پھر اب وہ وقت اے پنہاں کبھی
    صبح دم بستر سے اٹھتی ہوں با صد خرمی
    پڑھ رہے ہیں تخت پر وہ میرے ابا جاں نماز
    اور جبین نور افشاں سے ٹپکتا ہے نیاز
    چھاؤں میں تاروں کی بے فکری سے ہیں لیٹے ہوئے
    گرد سب بچے ہیں ان کے شادماں بیٹھے ہوئے
    ہائے ابا جان اک دم اس طرح پھیری نگا
    اس جہاں میں اف ہمیں چھوڑا تڑپتا آہ آہ
    رابعہ صدقے گئی یہ بند آنکھیں کھولئے
    آہ ان معجز نما ہونٹوں سے کچھ تو بولئے
    ہائے سینہ سے لگا لیجیے ہمیں پھر ایک بار
    ہو رہے ہیں دیکھئے ہم لوگ کتنے بے قرار
    اے اجل تجھ کو مبارک ہوں یہ ظلم آرائیاں
    لوٹ لے دل کھول کر ظالم یہ گلزار جہاں
    ہے مزین اپنی ہستی سے ترے دریاے ظلم
    ہے ہمارے خون سے لبریز یہ مینے ظلم
    میری بربادی میں مضمر ترا راز زندگی
    سوز ہے مظلوم کا ظالم کا ساز زندگی
    آہ ہو جاے شکستہ کاش یہ تار نفس
    ہو کہیں آزاد یہ مرغ گرفتار قفس
    ------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 38 تذکرۃ الخواتین صفحہ 36

    کر دے اے باد اجل گل اب میری شمع حیات
    میری روزِ زندگی کی کاش اب ہو جاے رات

    ایک فارسی غزل کے اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے۔ خسرو کی نکالی ہوئی زمین پر آپ نے بھی نہایت عمدہ طریقہ سے طبع آزمائی کی ہے۔

    جمالش زینت دل بود شب جائیکہ من بودم
    بہ چشمم دہر باطل بود شب جائیکہ من بودم
    زفیض جنبش ابروے آں شوخ کماں سازی
    دل من نیم بسمل بود شب جائیکہ من بودم
    نگاہم بر تجّلائے رخ آئینہ رخسارے
    سرم بر پائے قاتل بود شب جائیکہ من بودم
    بپرس از رہرو کامل طریق عشق و الفت را
    سر تلوار منزل بود شب جائیکہ من بودم
    خودش را من ندا نستم چہ دانم صد دراصونی
    گل صد برگ محفل بود شب جائیکہ من بودم
    دلم پرداخت با بادِ جمال دوست و او با من
    وجود غیر باطل بود شب جائیکہ من بودم
    چساں دل محو میساز و زیادم کیف دو شنبہ
    دلم نخچیر قاتل بود شب جائیکہ من بودم
    زفیض نرگس مستان ساقی شد بپا محشر
    جہان بیخبر دل بود شب جائیکہ من بودم
    خط رنگیں کہ بر پیشانی بسمل کشیدہ تیغ
    نشان عشق کامل بود شب جائیکہ من بودم
    خم زلف نگارے کرد پنہاںؔ طرفہ اعجازے
    خیالم در سلاسل بود شب جائیکہ من بودم

    پیاری ۔ تخلص (ط) ۔
    پیاری جان نام تھا۔ وادہواں رنگ محل متعلقہ گجرات کی رہنے والی تھیں۔ شاہد بازاری اور بازار کی زینت افزا تھیں۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 39 تذکرۃ الخواتین صفحہ 37

    1299 ھ میں غالباً زندہ تھیں۔ ایک شعر تذکرۂ شمیم سخن میں ملا ہے۔ جو درج تذکرہ ہے۔

    کچھ نہ پوچھو اشتیاق وقت نزع
    دو قدم جاتی ہے پھر آتی ہے روح

    تائے قرشت

    تسلّی ۔
    تخلص۔ مناجان نام۔ کرنال کی ایک پردہ نشین عصمت فروش تھی۔ اسی برس کے قریب انتقال کو زمانہ گزر چکا ہے مگر یہ شعر اب تک یادگار ہے۔

    اے تسلی ترا دل چھین لیا ہے کس نے
    ہاتھ سینے پہ دھرے گور میں کیوں جاتی ہے

    تصویر ۔
    گلستان بنخیراں * میں بغیر نام و بغیر نشان وغیرہ کے صرف دو شعر لکھے ہیں۔ انداز کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی یا اطراف و نواح دہلی کی رہنے والی تھی۔ اور کم از کم میر و مصحفی کا زمانہ پایا۔

    چل ہوا کھا نہ صبا اس دل دلگیر کو چھیڑ
    کیا مزہ پائے گی تو غنچۂ تصویر کو چھیڑ
    محب اب تلک رکھتی ہے یہ تاثیر مجنوں کی
    کہ بن لیلٰی نہیں کھنچتی کہیں تصویر مجنوں کی

    مصنف تذکرۂ چمن انداز نے اپناقیاس بیان کیا ہے کہ شاید یہ شاعرہ مصنف
    --------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 40 تذکرۃ الخواتین صفحہ 38

    گلستان بینخزاں * کی شاگرد ہو مگر یہ قرین قیاس نہیں ہے۔ اس لیے کہ کتاب مذکورۂ بالا گلشن بیخار کے جواب میں لکھی گئی تھی اور غرض اس کی تدوین و ترتیب سے اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ نواب مصفطے خاں شیفتہ نے جو گلشن بیخار میں نظیر اکبر آبادی کو ایک عامیانہ بازاری شاعر بتایا ہے اسی وجہ سے گلستان بیخزاں میں مشاہیر دہلی مثل غالب و مومن پر اعتراج کئے گئے ہیں۔ اگر یہ شاعرہ مصنف گلستان بیخزاں کی شاگرد ہوتی تو غالباً ازراہ تفاخر یہ اس کا ذکر کر دیتے۔

    تائے ہندی

    ٹھٹولی ۔
    صرف تخلص اور ایک شعر جو درج تذکرہ میں ملتا ہے دوسرے تذکروں میں ملتا ہے اور نہ نام کا پتا ہے نہ مسکن کا نہ حالات کا نہ خیالات کا۔

    ٹھٹول باز کہتے تھا یہ کل ٹھٹولی سے
    کہ مان میرا کہا آ اتر کے ڈولی سے

    ثاے مثلثہ

    ثریا ۔
    تخلص ۔ نبڑی بیگم ۔ مرزا علی خاں وظیفہ خوار شاہ دہلی کی
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 41 تذکرۃ الخواتین صفحہ 39

    اہلیہ کا تھا۔ غدر 1857 ء میں بیوہ ہو کر اپنے کسی عزیز کے پاس اکبر آباد چلی گئی تھیں۔ اور وہیں عمر بھر رہیں۔ اس ہنگامہ اور اپنی بیوگی کی وجہ سے دل کچھ ایسا متاثر ہو گیا تھا کہ شعر و شاعری کو بھی خیر باد کہہ دیا اور بقول میر حسن

    گیا جب کہ اپنا ہی جیورا نکل
    کہاں کی رباعی کہاں کی غزل

    سب باتیں چھوڑ کر ایک فقیرانہ وضع میں زندگی گزارتی تھیں۔ نمونہ کلام یہ ہے۔

    بتا دیں ہم تمھارے کاکل شبگوں کو کیا سمجھے
    سیہ بختی ہم اپنی یا اسے کالی بلا سمجھیں
    جدھر دیکھا اٹھا کر نیم بسمل کر دیا اس کو
    تری مژگاں کو ہم سو فار پیکان قضا سمجھے

    ثنا ۔
    آگرہ کی ایک خوش کلام شاعرہ طبقۂ شرفاء سے تھیں۔ ایک شعر یاد گار ہے۔

    زاہدا توبہ کی جلدی کیا ہے
    یہ بھی کر لیں گے جو فرصت ہو گی
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 42 تذکرۃ الخواتین صفحہ 40

    جیم تازی

    جان تخلص (ط) ۔
    اور صاحب جان نام تھا۔ فرخ آباد کی رہنے والی تھیں۔ حسین صاحب جمال تھیں۔ مگر حسن صرف زینت بازار رہا چند روز بازار دہلی کی بھی افزایش زینت کا باعث ہوئی تھیں۔دو چار شعر محفوظ تھے جو درج کرتا ہوں۔

    حال جانبازی کا میں کس سے کہوں
    جس سے کہتی ہوں وہ ہی ہنستا ہے
    جان و دل بیچتے ہیں ہم اپنا
    ایک بوسہ پہ لے لو سستا ہے

    جانی ۔
    نواب قمر الدین خاں مرحوم کی دختر نیک اختر موسوم بہ بیگم جان المعروف بہ بہو بیگم کا تخلص تھا۔ یہ شاعرۂ گرامی اودھ میں نہایت مشہور و معروف گزری ہیں۔ نواب آصف الدولہ بہادر کی حرم تھیں۔ عمر بھر داد و دہش اور نیک نامی ان کا شعار تھا۔ آخر وقت میں جب عالم نزع تھا ایک خواجہ سرا ہمدم نامی عیادت کے لئے آیا۔ اور آپ سے آپ کا مزاج پوچھا۔ کرب و تکلیف کے عالم میں یہ شعر فی البدیہہ نظم کر کے ارشاد فرمایا

    کیا پوچھتا ہے ہم اس جان ناتواں کی
    رگ رگ میں نیش غم ہے کہئیے کہاں کہاں کی
    ----------------------------------------------------------------------
     
  10. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 43 تذکرۃ الخواتین صفحہ 41

    دو چار شعر نمونتاً ہدیۂ ناظرین کئے جاتے ہیں۔
    بیاں میں کس سے کروں جا کے اب گلا دل کا
    یہ دل کا دل ہی میں ہووے گا فیصلہ دل کا

    دل جس سے لگایا وہ ہوا دشمن جانی
    کچھ دل کا لگانا ہی ہمیں راس نہ آیا

    نہیں ٹانکے میرے زخم جگر پر
    یہ اس کا خندۂ دنداں نما ہے
    نہیں ٹلتی کسی عنوان سر سے
    شب غم بھی کوئی کالی بلا ہے
    وہاں پر تیرے تھا ہم کو توہم
    یہ ہم پر آج ہی عقدہ کھلا ہے

    جعفری ۔
    تخلص تھا۔ کاملہ بیگم نام تھا ۔ شاہ نصیر استاد ذوق کی شاگرد تھیں۔ اپنے زمانہ کی مشہور خوش گو تھیں عہد شاہ عالم بادشاہ میں زندہ تھیں۔ کلام یہ ہے۔

    ساقیا مجھ کو ترا ساغر پلانا یاد ہے
    کلمۂ لا تقنطوا سے دل چھکانا یاد ہے

    کہا منصور نے سولی پہ چڑھ کر عشق بازوں سے
    یہ اس کے بام کا زینا ہے آئے جس کا جی چاہے
    غرور حسن پر ہم سے وہ ناحق جھانجھ کرتا ہے
    یہ نوبت چند روزہ ہے بجائے جس کا جی چاہے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 44 تذکرۃ الخواتین صفحہ 42

    تصور اس صنم کا دل میں لائے جس کا جی چاہے
    ہماری بات سن کر آزمائے جس کا جی چاہے
    محبت کے محل میں عاشق جانباز رہتا ہے
    نہیں خالہ کا گھر اس میں جو آئے جس کا جی چاہے

    جعفری ۔
    یہی نام بھی تھا یہی تخلص بھی تھا۔ لکھنؤ کی ایک مشہور طوائف تھی۔ منشی فدا حسین فضا سے اصلاح لیتی تھی مدتوں لکھنؤ میں رہی آخر کلکتہ چلی گئی 1289 ھ میں زندہ تھی۔ انداز کلام دیکھئے۔

    منھ کو آ جائے کلیجہ ضبط کی طاقت نہو
    گر ہمارا دل رہے دم بھر کسی کے دل کے پاس

    جمال ۔
    بلقیس نام ہے جمال و جمالی تخلص ہے۔ زمانۂ موجودہ کی خوش فکر شاعرہ ہیں۔ نظم و نثر دونوں پر قادری ہیں۔ متفرق گلدستوں اور رسالوں میں کلام شائع ہوتا ہے۔ نمونتاً کچھ کلام نذر ناظرین ہے۔ یہ کلام 1924 ء کا ہے

    در حبیب سے اپنی نظر ہٹا نہ سکے
    لبوں پہ دم تھا مگر آنکھ ہم چرا نہ سکے
    وہ کیا چڑھائیں گے پھول آ ک میرے تربت پر
    جو جیتے جی کبھی بالیں پہ میری آ نہ سکے
    کریں گے قیدِ قفس سے وہ کیا رہا ہم کو
    قفس کی تیلیوں سے جو چمن دکھا نہ سکے
    کئیے جو درد سے نالے اسیر بلبل نے
    کچھ ایسی اوس پڑی پھول مسکرا نہ سکے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 45 تذکرۃ الخواتین صفحہ 43

    ارے وہ بار امانت اٹھا لیا میں نے
    کہ آسماں و زمیں بھی جسے اٹھا نہ سکے
    بوقت قتل میرے شوق بے قرار کو دیکھ
    ہوا ہے ان کو تحیر کہ ہاتھ اٹھا نہ سکے
    وہ رعب حسن تھا غالب بوقت دید جمال
    ہم اپنا حال اشاروں سے بھی سنا نہ سکے
    چلے تلاش میں اس کی رہ طلب میں مگر
    کچھ ایسے کھوئے کہ اپنی خبر بھی پا نہ سکے
    جفاے اہلِ وطن کی یہ انتہا ہے جمال
    قسم تک اپنے وطن کی ہم آہ کھا نہ سکے

    سوداے خام سر سے کافور کر دیا ہے
    دل ان کی یاد نے کیا مسرور کر دیا ہے
    ہر سانس اک لہو کا دریا بنی ہوئی ہے
    دل میں کسی نے ایسا ناسور کر دیا ہے
    اے چشم مست جاناں تیری ہی مستیوں نے
    نرگس کو یوں چمن میں مخمور کر دیا ہے
    ایمن کے جانے والے ہاں اک نظر ادھر بھی
    جلوہ فروشیوں نے دل طُور کر دیا ہے
    پہلے وفا پہ کب تھا آمادہ وہ جفا جُو
    میری ستم کشی نے مجبور کر دیا ہے
    ہستی سے میری پہلے واقف نہ تھا زمانہ
    اس بت کی اک نظر نے مشہور کر دیا ہے
    خوش باش اے تصور اک حسن خود نما نے
    جلووں سے خانۂ دل معمور کر دیا ہے
    ہوں بے نیاز صہبا تا حشر اے جمالیؔ
    ساقی کی اک نظر نے مخمور کر دیا ہے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 46 تذکرۃ الخواتین صفحہ 44

    جمعیت ۔
    دن مسیحی کی پیرو تھی۔ اس کی ماں یا نانی ہندوستانی تھیں۔ باپ انگریز تھا۔ میجر آرجسٹن سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ آگرہ میں قیام تھا۔ میجر آرجسٹن سے کئی اک لڑکیاں بھی پیدا ہوئیں جو سب کی سب یورپین اصحاب سے منسوب ہوئیں۔ جمعیت ایک نہایت ذکی اور طباع عورت تھیں۔ برج بھاکھا میں ان کی ہولیاں، واورے، ٹھمریاں، ٹپہ بھی موجود ہیں۔ فارسی میں بھی اچھا خاصہ دخل رکھتی تھیں۔ موسیقی میں کامل مہارت تھی۔ اردو کے شعر بھی خوب کہتی تھیں۔ نمونہ کلام یہ ہے۔

    روٹھا ہے ہمارا جو وہ دلبر کئ یدن سے
    اس واسطے رہتی ہوں میں مضطر کئی دن سے
    مقسوم کی خوبی ہے یہ قسمت کا ہے احساں
    رہتا ہے خفا مجھ سے جو دلبر کئی دن سے

    خدا کے روبرو جانا ندامت مجھ کو بھاری ہے
    کوئی نیکی نہ بن آئی اسی کی شرمساری ہے

    جنیا بیگم ۔
    مرزا بابر مغفور کی دختر نیک اختر کا نام تھا۔ جہاندار شاہ بہادر ولی عہد بادشاہ دہلی کی خاص محل تھیں۔ کبھی کبھی شعر بھی کہتی تھیں جو زبان کی خوبیوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے ھے۔ مصنف چمن انداز کا بیان ہے کہ مرزا رفیع سودا کی شاگرد تھیں۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔
    ------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 47 تذکرۃ الخواتین صفحہ 45

    یا الہی یہ کس سے کام پڑا
    دل تڑپتا ہے صبح و شام پڑا

    روٹھنے کا عبث بہانا تھا
    مدعا تم کو یاں نہ آنا تھا

    یہ کس کی آتشِ غم نے جگر جلایا ہے
    کہ تا فلک مرے شعلے نے سر اٹھایا ہے

    ڈبڈبائی آنکھ آنسو تھم رہے
    کانسۂ نرگس میں جوں شبنم رہے

    آیا نہ کبھی خواب میں بھی وصل میسر
    کیا جانئیے کس ساعتِ بد آنکھ لگی تھی

    نہ دل کو صبر نہ جی کو قرار رہتا ہے
    تمہارے آنے کا نِت انتظار رہتا ہے

    جیم فارسی

    چندا ۔
    تخلص بھی یہی ہے نام بھی یہی ہے۔ 1799 ء میں جب کہ صوبہ دار ارسطو جاہ کے رفعت و صولت کا بازار دکن میں گرم تھا وہی
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 48 تذکرۃ الخواتین صفحہ 46

    زمانہ تھا کہ چندا کی شاعری آفتاب نصف النہار بن کر دکن کے آسمان شہرت پر چمک رہی تھی۔ ظاہرا یہ ایک شاہد بازاری تھی مگر دولت و حشمت عزت و رفعت میں اپنے زمانہ کے رؤسا سے بڑھی ہوئی تھی۔ قریب پانچ سو سپاہیوں اور برق اندازوں کے ہر وقت دروازے پر مستعد رہتے تھے۔ خوبصورتی کے علاوہ خوش سیرت بھی تھی۔ سیکڑوں شعراء وقت اس کی مدح و ثنا کرتے تھے اور گوہر مقصود سے اپنا دامن بھر کر لے جاتے تھے۔ فن موسیقی میں اس کو کمال مہارت تھی۔ اس کے علاوہ گھوڑے کی سواری کا بھی شوق تھا اور اس میں بھی ایک کامل شہسوار کی طرح اپنے جوہر دکھاتی تھی۔ فنون جنگ بھی سیکھے تھے تیر اندازی میں اپنا نظیر نہ رکھتی تھی۔ ورزش کیا کرتی تھی۔ اور پہلوانی کا دم بھرتی تھی۔ ان سب باتوں کے علاوہ بڑی فوقیت جو شاعرہ ہونے کی حیثیت سے اس کو حاصل تھی وہ یہ تھی کہ جیسے ریختہ گوؤں میں فرقۂ ذکور میں ولی کو سب سے پہلے ترتیب دیوان کا شرف حاصل ہے اسی طرح طبقۂ اناث میں ریختہ کی سب سے پہلی صاحب دیوان یہی گزری ہے۔ کلام میں جملہ اصناف سخن پر قادر تھی۔ شیر محمد خاں متخلص بہ ایمان جو حیدر آباد کے ایک نہایت مشہور اور اپنے وقت کے مستند
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 49 تذکرۃ الخواتین صفحہ 47

    ریختہ گو تھے۔ اس کے استاد تھے۔ مصنف طبقات الشعراء لکھتے ہیں کہ 1799 ء عہد عالمگیری ثانی میں اپنا مرتب شدہ دیوان ایک ذی شان انگریز کو نذر دیا تھا۔ جو نہایت قدر کے ساتھ لے لیا گیا اور اب تک لندن کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ افسوس اور تعجب ہے کہ اس ماہرۂ فن کا صرف ایک شعر تذکروں میں ملتا ہے جو نقل کیا جاتا ہے۔

    اخلاق سے تو اپنے واقف جہان ہیگا
    پر آپ کو غلط کچھ اب تک گمان ہیگا

    چھوٹے صاحب ۔
    لکھنؤ کی ایک شاہد بازاری تھی۔ الور کے دربار میں نوکر تھی ایک شعر یادگار ہے جو مصنف چمن انداز نے کسی بیاض سے نقل کیا تھا اور تذکرۂ مذکور سے نقل کرتا ہوں۔

    کرتیان جالی کی پہنے ہیں جوانان حسین
    حسن کی فوج میں دیکھے یہ زرہ پوش نئے

    حاے حطی

    حاتم ۔
    یہ ایک پردہ نشین دہلوی کا تخلص تھا جو 1293 ھ تک یقیناً زندہ تھی۔ زیادہ حال معلوم نہیں ہوا۔ کلام یہ ہے۔
    ----------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 50 تذکرۃ الخواتین صفحہ 48

    مجھ کو کدورتوں سے ملاتے ہو خاک میں
    کہہ دیجیے جو آپ کے دل میں غبار ہو
    دشمن کا شکوہ تم نہیں سنتے نہیں سہی
    میرا ہی غم سنو نہ اگر ناگوار ہو

    حبیب ۔
    ایک پردہ نشین عفت مآب دہلی کی خاتون کا تخلص تھا۔ جو 1860 ء تک زندہ تھی۔ ایک مرتبہ اپنے چچا کو جو نابھہ میں مقیم تھے یہ شعر لکھ کر بھیجا۔

    رکھیں ہم نے بٹ کر باریک سویاں
    چچا آ کے نابھہ سے چٹ کر سویاں

    حجاب ۔
    تخلص تھا۔ عسکری بیگم نام تھا۔ یہ عفت مآب ملا محمد زماں اصفہانی کی پوتی۔ محمد علی خاں مسیحا کی شاگرد۔ لکھنؤ کی رہنے والی تھی۔ شعر و شاعری سے ایک فطری ذوق و شوق تھا۔ اکثر مشاعرہ اپنے مکان پر کرتی اور کبھی کبھی ان کی غزل بھی پڑھی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ پوری غزل شائع ہوئی تھی اب صرف ایک شعر یاد ہے۔

    رات کو آئیں گے ہم صاف معمّا یہ ہے
    وعدۂ وصل کیا اس نے دکھا کر گیسو

    حجاب ۔
    ایک کشمیری عفت مآب خاتون کا تخلص تھا جو 1293 ھ میں اپنے شوہر کے ساتھ بمبئی میں مقیم تھی۔ اردو کی شاعری میں بھی مشق تھی اور فارسی کے شعر بھی کہتی تھی۔ اسی کا یہ شعر ہے۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 51 تذکرۃ الخواتین صفحہ 49

    کیا جانے بھلا لذت دیدار کو اپنی
    جب تک کوئی بادیدۂ خوںبار نہووے

    حجاب ۔
    تخلص تھا نواب بیگم نام۔ چھوٹی بیگم عرف تھا۔ نواب اعظم علی خان فرزند نواب معتمد الدولہ بہادر برادر غازی الدین حیدر بادشاہ اودھ کی صاحبزادی تھیں۔ نہایت خلیق نیک نہاد شریف پرور تھیں۔ 1259 ھ میں پیدا ہوئیں اور اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ بادشاہ اودھ سے نکاح ہو کر بیگمات میں داخل ہوئیں آخر میں بحالت نظر بندی بادشاہ کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں۔ شعر و شاعری سے نہایت ذوق تھا۔ بلکہ بعض تذکرہ نویس لکھتے ہیں کہ صاحب دیوان تھیں۔ ایک شعر یاد گار ہے۔

    بن کے تصویر حجابؔ اس کو سراپا دیکھو
    منہ سے بولو نہ کچھ آنکھوں سے تماشا دیکھو

    تذکرۂ چمن انداز کے مصنف نے لکھا ہے کہ دیوان اختر یعنی واجد علی شاہ بادشاہ کے یہاں ایک خمسہ ان کے نام سے موجود ہے ۔ نمونہ یہ ہے۔

    کہیں کیا اے حجاب آخر یہ دیکھا آنکھ سے ہم نے
    کیا طوفاں بپا بحرِ سرشک چشمِ پُر نم نے
    اڑا دی نیند اس کی جب فراقِ یار کے غم نے
    گزاری رات ساری تارے گن گن کے ہے عالم نے
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 52 تذکرۃ الخواتین صفحہ 50

    ہوا شب کو جو دھوکا اپنے اختر کا ستاروں میں

    حجاب ۔
    فخر النساء بیگم نام ہے۔ زمانۂ حال کی ایک مشہور شاعرہ ہیں۔ شاہجہاں پور وطن ہے۔ اکثر مشاعروں میں شریک ہوئیں اور شعراء کو اپنا کلام سنایا۔ قنات وغیرہ کی آڑ میں پڑھتی ہیں اور اہل کمال سے داد لیتی ہیں۔ نہایت خوب شعر فرماتی ہیں اب کوئی 45 یا پچاس برس کی عمر ہے۔ اب تک بقید حیات ہیں۔ میں ایک غزل نقل کرتا ہوں جو سید التفات رسول مرحوم تعلقدار سندیلہ کے مشاعرہ میں پڑھی تھی۔ نہایت خوب غزل ہے اب غالباً ایک دیوان جمع ہو گیا ہو گا۔ آج کل شاید مشاعروں میں شرکت نہیں فرماتیں۔

    کہاں ممکن ہے پوشیدہ غم دل کا اثر ہونا
    لبوں کا خشک ہو جانا بھی ہے آنکھوں کا تر ہونا
    غضب مل کر جدا مجھ سے ترا او فتنہ گر ہونا
    ستم نالوں کا پر تاثیر ہو کر بے اثر ہونا
    جگر میں درد لب پر نالۂ وحشت اثر ہونا
    عیاں کرتا ہے اک رشک پری کا دل میں گھر ہونا
    -------------------------------------------------------------------
     
  11. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 53 تذکرۃ الخواتین صفحہ 51

    غضب نالہ کشی اک صاحب عصمت کے کوچہ میں
    ستم اے دل کسی پردہ نشیں کا پردہ در ہونا
    وہ ان کا چپکے چپکے مسکرانا خون رونے پر
    وہ میرا دل ہی دل میں واصفِ رنگ اثر ہونا
    نہیں علت سے خالی پیش دشمن او ستم پیشہ
    یہ منھ میری طرف ہونا تری نظریں اُدھر ہونا
    غضب ہے دل کا رہ رہ کر تڑپنا میرے پہلو میں
    کیے دیتا ہے ظاہر بسمل تیر نظر ہونا
    بہت کچھ ہو چکی ہے پوچھ کچھ ارباب محفل کی
    ذرا او انجمن آرا مخاطب اب ادھر ہونا
    جو تنہا پاس منزل دل کو شایاں ہے محبت میں
    تو آنکھوں کو ہے لازم دیدۂ حسرت نگر ہونا
    جو تجھ کو اپنے چشم شوق کی پتلی سمجھتا ہے
    ستم ہے اس سے پوشیدہ ترا مثل نظر ہونا
    قیامت تھا ستم تھا قہر تھا خلوت میں او ظالم
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 54 تذکرۃ الخواتین صفحہ 52

    وہ شرما کر ترا میری بغل میں جلوہ گر ہونا
    ستم کی جور کی بیداد کی کافی شہادت ہے
    جدائی میں مرا بیتاب بے خود بے خبر ہونا
    وہ تڑپانا کسی بے درد کا مجھ کو نڈر ہو کر
    وہ میرا ڈرتے ڈرتے شاکی دردِ جگر ہونا
    جو اک سوتے ہوئے فتنے کو چونکائیں گے غفلت سے
    ان آنکھوں میں مناسب ہے قیامت کا اثر ہونا
    حجابؔ آ کر سندیلہ میں جو شاعر جمع ہوتے ہیں
    مزا دیتا ہے کیا کیا مجمع اہل ہنر ہونا

    حجاب (ط) ۔
    تخلص۔ منی بائی نام۔ منجھلی لقب۔ کلکتہ بازار کولو ٹولہ کی ایک طوائف تھی۔ مولوی عصمت اللہ صاحب جو پہلے مجبور اور بعد ازاں انسخ تخلص کرتے اور مولوی عبدالغفور صاحب نساخ مصنف تذکرۂ سخن شعراء کے شاگرد قصبۂ پنڈوہ ضلع ہگلی کے رہنے والے تھے۔ اس کے شعروں پر اصلاح کرتے تھے۔ یہ شاعرہ اولاً کلکتہ میں رہی اور پھر رامپور بھی آئی۔ موسیقی میں اس کو کمال تھا۔ 1299 ھ میں عالم شباب تھا۔
    --------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 55 تذکرۃ الخواتین صفحہ 53

    مرزا داغ دہلوی اور حجاب کے بہت سے افسانے مشہور ہیں۔ کلام کا نمونہ یہ ہے۔

    عدو کے کہنے سے مجھ کو ذلیل و خوار کیا
    سزا یہ اس کی ہے میں نے جو تم کو پیار کیا
    کہوں گا داور محشر کے آگے حشر میں بھی
    کہ عمر بھر اسی کافر کو میں نے پیار کیا
    ہم اور بیچ میں آتے ہیں ان کی باتوں کے
    انہوں نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
    بتا تو چرخ بھلا اس سے تجھ کو کیا حاصل
    کسی کا شیوۂ ذاتی جو اختیار کیا
    مزا یہی ہے کہ طرفین سے ہو بے تابی
    مرے تڑپنے نے ان کو بھی بے قرار کیا
    ایک دم بھی کسی کروٹ نہیں ملتا آرام
    ہائے بے چین ہیں ہم درد جگر سے کیا کیا

    ان سے کہہ دو کہ ہمیں تم سے یہ امید نہ تھی
    وعدہ ہم سے ہو رہو غیر کے گھر وصل کی رات

    حال حجاب قابل شرح و بیاں نہیں
    آنسو نہ ٹپکے سن کے یہ وہ داستاں نہیں
    وہ اور میرے گھر میں چلے آئیں خود بخود
    سر پر مرے حجاب مگر آسماں نہیں

    رقیب نے اسے رسوا کیا سر محفل
    غضب تو ہے کہ اس پر بھی شرمسار نہیں
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 56 تذکرۃ الخواتین صفحہ 54

    گلستاں میں آج بہر سیر یار آنے کو ہے
    مژدہ بار اے بلبلو فصل بہار آنے کو ہے
    دھوم ہے گھر میں ہمارے یار آتا ہے حجاب
    بہر استقبال لب پر جان زار آنے کو ہے

    کیا تماشا ہے کہ لے کر آئینہ کو ہاتھ میں
    دیکھ کر زلفیں وہ اپنی آپ بل کھانے لگے
    پھر تصور کاکلِ جاناں کو مجھ کو آ گیا
    سینۂ محزوں میں پھر دو سانپ لہرانے لگے
    شوخ ہو، بےباک ہو، سفّاک ہو، چالاک ہو
    کیوں شب وصلت میں مجھ سے آپ شرمانے لگے

    حجاب ۔ (ط)
    بنّی جان طوائف ساکن ہاپوڑ ضلع میرٹھ کا تخلص ہے جو اچھی خاصی شاعرہ تھی۔

    نکلے نہ کیوں کر بھلا منہ سے سدا واہ واہ
    نام خدا اے صنم تیری ادا واہ واہ

    حُسن (ط) ۔
    تخلص گنّا جان نام دربھنگہ کی رہنے والی ایک طوائف تھی۔ ہُنر بھی تخلص کرتی تھی۔ 1299 ھ میں زندہ تھی۔

    یا الہی کیا ہوے وہ میرے داغ آرزو
    کچھ اندھیرا سا نظر آتا ہے مجھ کو دل کے پاس
    قاصد لیلی بنا تھا نجد میں شور جرس
    قیس آیا بے طلب کب پردۂ محمل کے پاس

    حُسن (ط) ۔
    وزیر جان نام۔ پاٹا نالہ لکھنؤ کی رہنے والی طوائف کی تخلص ہے جو کبھی کبھی شعر بھی کہتی تھی۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 57 تذکرۃ الخواتین صفحہ 55

    نالۂ سوزاں جو کھینچے میں نے رو کے ہجر میں
    رشک سے بجلی گری شرمندہ اشک تر ہوا
    وہ مریض غم ہوں میں جس کو دوا آئی نہ راس
    سر پہ جب صندل لگایا اور دردِ سر ہوا

    حسین (ط) ۔
    تخلص۔ اختر جان نام۔ بازار آگرہ کی زینت بڑھانے والی شاہد بازاری کا تھا۔ یہ آگرہ میں عارضی طریقہ سے مقیم تھی دراصل جے پور کی رہنے والی تھی اب سے 50 برس پہلے کی شاعرہ ہے کلام کے حسن کا نمونہ دیکھئیے۔

    جس وقت تک وہ بزم میں پیش نظر رہے
    ہم اپنا دونوں ہاتھ سے تھامے جگر رہے
    صحرا نوردیوں کو بہانہ تو خوب ہے
    اچھا ہے سر میں زلف کا سودا اگر رہے
    جلاد تیغ ناز کو جسد علم کرے
    شرط نیاز یہ ہے کہ قدموں پہ سر رہے

    حشمت (ط) ۔
    تخلص مہر جان نام۔ شاہد بازاری تھی۔ پہاڑ گنج دہلی میں سکونت رکھتی تھی اور سخنواران باکمال کا چونکہ اس کے یہاں مجمع رہتا تھا اس واسطے شاعرہ بھی بن گئی تھی۔ غدر سے پہلے زندہ تھی اور سید احمد صاحب معروف بہ چھوٹے صاحب متخلص بہ نگہت دہلوی سے اصلاح لیتی تھی۔
    -----------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 58 تذکرۃ الخواتین صفحہ 56

    کلام یہ ہے۔

    منہ کہیں پھرتا ہے اے قاتل تری تلوار کا
    خون بہہ جائے نہ جب تک بے گنہ دو چار کا
    لامکاں تک جا چکی ہے بارہا آہِ رسا
    پھاندنا مشکل نہیں کچھ آپ کی دیوار کا
    میں وہ صابر ہوں کیا شکوہ نہ میں نے آج تک
    چرخ کے ہاتھوں سے کیا کیا کچھ نہ مجھ پر ہو گیا
    لے گیا پیغام اپنا بن کے قاصد یار تک
    مرغ دل ہی بارہا اپنا کبوتر ہو گیا

    حِنا ۔
    محمد جان طوائف مرزا پور کی رہنے والی کا تخلص ہے جس کو شعر و سخن سے ایک خاص ذوق تھا اور سید الطاف حسین صاحب شیدا مرزا پوری سے اصلاح لیتی تھی نمونۂ کلام یہ ہے۔ 1288 ھ تک زندہ تھی۔

    جو تھا میں عاشقِ ابرو تو تیغ قاتل کی
    ہلال بن کے لپٹنے لگی گریباں سے
    لڑی ہیں اشک کے قطروں سے اس لیے آنکھیں
    گہر نکال لے کوئی نہ جیب و داماں سے
    ------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 59 تذکرۃ الخواتین صفحہ 57

    جلو میں لاش کی قاتل بھی ہے پیادہ پا
    کٹا کے سر کو چلے ہیں ہزار ساماں سے

    حور ۔
    منا جان نامی طوائف شہر لکھنؤ کا تخلص تھا۔ جو محمد رضا صاحب طور خلف مرزا اعظم بیگ قوم افشار باشندۂ لکھنؤ شاگرد برق سے اصلاح لیتی تھی اس طریقہ سے برق کا اور اس کا زمانہ ایک ہی سمجھنا چاہیے۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    جو پہنا پاؤں میں سونے کا توڑا اے پری تو نے
    مسلسل پاے دیوانہ ہوا زنجیر آہن سے
    بدی کی جس نے ہم سے ہم نے اس کے ساتھ نیکی کی
    ہماری خو یہ ہے ہم دوستی کرتے ہیں دشمن سے

    حور (ط) ۔
    بسّی بیگم نام ایک مستورہ عصمت فروش دہلی میں تھی۔ ریختی گوئی کی طرف متوجہ تھی نمونۂ کلام ی ہے۔ 1270 ھ میں زندہ تھی

    باغ میں جاؤ گے کب کیونکہ جہانگیر کہو
    تم نے ٹھہرائی ہو جو مجھ سے وہ تدبیر کہو
    اپنے خواہندوں کو ان سب نے کیا دیوانہ
    نہ مجھے شیریں نہ لیلٰی نہ ملاگیر کہو

    دوسرے شعر کے مصرعۂ ثانی کا ملاگیر قصہ طلب ہے۔ دلی میں میر مداری نام ایک زنانہ تھا جس نے دو چار نوچیاں رکھی تھیں اور
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 60 تذکرۃ الخواتین صفحہ 58

    پیشہ عام جاری کر دیا تھا۔ اسی کی نوچیوں میں ایک نوچی کا نام ملاگیر بھی تھا۔ جو نہایت حسین بے رحم اور سفاک مشہور تھی۔ اکثر رؤسا اس کے ہاتھ سے تباہ ہوئے۔ بعض کو اسی کی وجہ سے مجبوراً تارکِ وطن ہونا پڑا۔

    حور (ط) ۔
    نوروز جان طوائف کا تخلص تھا جو 1289 ھ میں کلکتہ میں مقیم تھی ایک شعر یادگار ہے۔

    بعد میرے رحم آیا بھی تو کیا اے بے وفا
    میں نے مانا قبر پر آئے تو کیا حاصل ہوا

    حیا ۔
    چھوٹی طوائف۔ شاگرد سید الطاف حسین سید مرزا پوری کا تخلص تھا اس سے پہلے بھی ان کی ایک شاگرد کا ذکر ہو چکا ہے۔ وہیں سے ان کے سال حیات کو دیکھنا چاہیے یہاں صرف کلام دیکھیے۔

    ہوا ہے ابر کا دم بند چشم گریاں سے
    جلی ہے برق بھی کیا کیا نہ آہِ سوزاں سے
    حیا سے رات کے پردے میں منہ چھپا بیٹھے
    مقابلہ کو اٹھے وہ جو ماہِ تاباں سے

    حیا ۔
    خورشید اقبال نام ہے۔ زمانۂ موجود کی خوش گو خوش خیال شاعرہ ہیں۔ شعر و شاعری سے ذوق و شوق ہے اور بعض رسالوں میں آپ کی غزلیں شایع ہوتی ہیں۔ غزلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری کی مشق اچھی ہے۔ زیادہ حالات معلوم نہیں ہو سکے لہذا صرف ایک غزل پر اکتفا
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 61 تذکرۃ الخواتین صفحہ 59

    کی جاتی ہے۔

    پھر چمن میں آج غنچے چاک داماں ہو گئے
    پھر مرے جوش جنوں کے راز عریاں ہو گئے
    قبر میں کافور تاریکی کے ساماں ہو گئے
    داغ ہائے دل شکست رنگ عصیاں ہو گئے
    اس زمیں میں سیکڑوں گلزار پنہاں ہو گئے
    آج شاید وہ سوے گورِ غریباں ہو گئے
    تو نے شاید کھو دیا شانہ دل صد چاک کا
    میں ترے قربان کیوں گیسو پریشاں ہو گئے
    منتشر ہیں رخ پر اور بکھرے ہوئے ہیں دوش پر
    آپ کے گیسو مرا حال پریشاں ہو گئے
    اے حیاؔ کہتے ہیں اس کو امتزاج حسن و عشق
    ان کے جلوے میری آنکھوں سے نمایاں ہو گئے

    حیا ۔
    تخلص۔ بھورا بیگم عرف۔ حیات النساء نام تھا۔ شاہ عالم بادشاہ دہلی کی صاحبزادی اور شاہ نصیر مرحوم کی شاگرد تھیں۔ شعر و شاعری کا ابتداے عمر سے ذوق و شوق تھا اور اسی شوق کی بدولت مزاج میں اس درجہ وابستگی پیدا ہو گئی تھی کہ عمر بھر ناتکخدا رہیں اور بچپن، جوانی، بڑھاپا۔ ایک عالم میں گزارا۔ غدر کےہنگامہ سے پہلے عہد بہادر شاہ ظفر
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 62 تذکرۃ الخواتین صفحہ 60

    میں انتقال کیا۔ اب ایک شعر یاد گار ہے۔

    نہ کیوں حیرت ہو یا رب وہ زمانہ آ گیا ناقص
    حیا ڈھونڈے نہیں ملتی براے نام سو سو کوس

    حیدری ۔
    تخلص ۔ حیدری خانم نام تھا۔ بشارت اللہ خاں دہلوی مصاحب خاص بادشاہ دہلی کی اہلیہ تھیں۔ شعر و سخن کا ذوق تھا۔ اور طباع تھیں۔ ستر برس کی عمر پا کر عالم فانی سے غدر 1857 ء سے کچھ پہلے راہی عالم باقی ہوئیں۔ ایک شعر چمن انداز وغیرہ میں ملتا ہے۔

    حیدری نام ہے ترا کیا خوب
    جو کہ تجھ سے پھرا وہ حیدر سے

    خاء معجمہ

    خاکساری ۔
    ایک پردہ نشین عفت گزین کا تخلص تھا۔ دہلی میں کشمیری دروازہ کے قریب رہتی تھی تخلص سب نے سنا تھا مگر نام کسی کو معلوم نہیں ہوا۔ اس کے شعروں سے پتہ چلتا ہے کہ نہایت ہی عمدہ شعر کہتی ہو گی 1293 ھ تک زندہ تھی۔

    مصیبتوں سے کوئی کام آ نہیں سکتا
    کہ اپنے درد کو دل بھی مٹا نہیں سکتا
    --------------------------------------------------------------------
     
  12. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 14 تذکرۃ الخواتین صفحہ 12
    اے قریشی لقبی ہاشمی و مطلبی
    درد عصیاں کے سبب سے ہی میری جان چلی گئی
    اور بچنے کی نہیں سوجھتی تدبیر کوئی
    عرض اختر کی بھی قدسی کی طرح سے ہے یہی
    سیدی انت حبیبی و طیب قلبی
    آمدہ سوے تو قدسی پے درماں طلبی
    غزل کے میدان میں بھی ذہانت اور خداداد طبعیت کی روانی کے جوہر دکھائے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔
    لکھ کر جو میرا نام زمیں پر مٹا دیا
    ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا
    اک آہ شعلہ بار سے دل کو جلا دیا
    لو آج ہم نے اس کا بھی جھگڑا مٹا دیا
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آستاں پر ترے پیشانی کو گھستے گھستے
    سر ہی غائب ہوا جس میں کہ ترا سودا تھا
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    خط لے کے نامہ بر سے جو ٹکرے اڑا دیے
    غیروں نے آج ان کے تئیں کچھ پڑھا دیا
    تقصیر یار کی نہ قصور عدو ہے کچھ
    اختر ہمارے دل ہی نے ہم کو جلا دیا
    ایک زمانے میں ایک ماہوار رسالہ حدیث قدسی نکلا کرتا تھا اس میں اختر کا اکثر کلام ملتا ہے ۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 15 تذکرۃ الخواتین صفحہ 13
    آرایش { ط ] دہلی کی ایک شاندار بازاری تھی مگر پردہ نشینوں کو بھی مات کردیا کہ مصنف تذکرہ چمن انداز کو اس کا حال اس کا نام اس کے زمانے میں بھی معلوم نہ ہوسکا ۔ بالفاظ دیگر صرف یہی لکھ کر سبکدوش ہوگئے کہ بازاری تھیں اب خانہ نشین ہیں ۔ کبھی زیب بازار تھیں اب آرائش خانہ ہیں ۔ صرف ایک شعر مل سکا ہے اسی کو بطریق یادگار یا خانہ پری درج کرتا ہوں ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایک شعر کے لکھنے سے نہ تسلی ہوئی ۔ اور نہ شعر لکھنے کے قابل تھا ۔ مگر پھر بھی سچی اور دل کو لگنے والی بات کہی ہے مجبورا سنیے ۔۔
    جوانی میں بھلی معلوم ہوتی تھی یہ آرایش
    بڑھاپے میں تو منھدی مسی کی ہے خاک زیبایش
    اسیر __ امیر بیگم نام تھا ۔ شاہ فخر الدین صاحب قدس سترہ { جو دلی کے ایک مشہور و معروف بزرگ تھے } کی شاگرد تھیں ۔ بیگم چغتائیہ میں تھیں ۔ حاضر جواب بذلہ سنج لطیفہ گو خوش مذاق شاعرہ تھیں ۔
    کسی دن ایک شخص نے ان کو یہ مصرع سنایا ع
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 63 تذکرۃ الخواتین صفحہ 61

    لکھا نصیب کا کوئی مٹا نہیں سکتا
    کسی کے درد کو ہمدم مٹا نہیں سکتا

    خفی
    تخلص تھا۔ بادشاہ بیگم نام تھا۔ یوسف والی کے نام سے شہرت رکھتی تھی۔ چھوٹی بیگم کی لڑکی تھی اور محمد یوسف سادہ کار کشمیری کی نواسی تھی۔ چھوٹی بیگم بلاک صاحب سے منسوب تھیں انھیں سے بادشاہ بیگم پیدا ہوئی تھیں اور پھر اس کی بھی کسی مشہور و معروف انگریز سے شادی ہوئی۔ مگر میاں بیوی میں نباہ نہ ہوا۔ یہ شاعرہ انگریزی فارسی دونوں زبانیں نہایت اچھی طرح جانتی تھی۔ نہایت اچھی خوش نویس تھی اور بہت سے لوگوں کو اصلاح بھی دیتی تھی مگر انہی کو جن سے اس کو بذات خود کوئی خاص تعلق ہوتا تھا اصلاح کا پیشہ عام نہ تھا۔ مصنف چمن انداز لکھتے ہیں کہ میں نے اس کے ہاتھ کی انگریزی تحریر دیکھی نہایت عمدہ تھی۔ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت وہ یہاں موجود نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تذکرہ کی تصنیف تک وہ زندہ اور بخیریت تھی۔ لہذا یہ کہنا نامناسب نہیں کہ 1293 ھ میں وہ زندہ تھیں اب خدا معلوم ہیں یا نہیں۔

    خود شوق اسیری سے پھنسے دام میں صیاد
    شرمندہ ترے ایک بھی دانہ کے نہیں ہم
    ------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 64 تذکرۃ الخواتین صفحہ 62

    جن سے ہم آشنائی کرتے ہیں
    ہم سے وہ بے وفائی کرتے ہیں
    اے خفیؔ اپنے اشک بے تاثیر
    مفت میں جگ ہنسائی کرتے ہیں

    خورشید ۔
    تخلص اور غالباً یہی نام بھی تھا۔ دہلی کی ایک عصمت مآب سید زادی تھی۔ ناکتخدا تھی اور مرثیہ وغیرہ بھی بہت خوب کہتی تھی۔ ایک شعر اس کا تذکروں میں ملتا ہے مگر اس کے متعلق مصنف چمن انداز شبہ میں ہے کہ خدا معلوم اسی کا کلام ہے یا اور کسی کا ہے۔ بہر حال نقل بعد نقل ہے۔

    اے جذبۂ دل کیونکہ اجازت دوں میں تجھ کو
    ہے سخت کشش تیری وہ ایسا نہ ہو ڈر جائے

    خورشید (ط) ۔
    خورشید جان طوائف کانپور کی رہنے والی کا تخلص ہے۔ محمد امین امید کانپوری کی شاگرد تھی۔ یہ دو چار شعر اس سے یادگار ہیں۔

    اس بت کمسن کی شوخی بھی ادا سے کم نہیں
    لے کے دل کو پوچھتا ہے کیوں ترا دل کیا ہوا
    خون تو میرا گریباں گیر ہے اے بےخودی
    چھٹ گیا گر ہاتھ سے دامان قاتل کیا ہوا
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 65 تذکرۃ الخواتین صفحہ 63

    ہم تڑپتے ہیں تو ہنس ہنس کے یہ فرماتے ہیں
    کیا ہوا تھا یہ ترا درد جگر وصل کی رات

    دال مہملہ

    دلبر (ط) ۔
    چھوٹی بیگم نام اکبر آبادی طوائف کا تخلص ہے۔ تذکرۃ الشاعرات کے مصنف نے اس کو نہ اس فرقہ سے لکھا ہے اور نہ اکبر آباد کی رہنے والی کہا ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ وہ حیدر آباد کی رہنے والی تھی مگر مصنف تذکرۂ چمن انداز اور تذکرہ شمیم سخن دونوں اسی بات پر متفق ہیں کہ وہ فرقۂ بازاری سے تعلق رکھتی تھی۔ کچھ ہو یہ شاعرہ شعر کہتی تھی اور اس کے شعر زبان کی حد میں اچھے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

    ہر روز جو تم روٹھ کے تیوری بدلتے ہو
    بیجا تو ہمیں ناز اٹھانا نہیں آتا

    قسمت میں ہماری نہ ہوا ہاے صد افسوس
    اک روز لپٹ کر شب مہتاب میں سونا

    جو اک دن آپ پھر تشریف لائیں
    رقیبوں کے گلے تم سے کہوں سب

    دل ہمیں دو چار دن گر اپنا دو تم مستعار
    اس کو سکھلائیں وفا ایسی کہ ہووے بے قرار
    -----------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 66 تذکرۃ الخواتین صفحہ 64

    ہے چوکھٹ آپ کی اور سر ہمارا
    قیامت تک یہیں ٹکرائیں گے ہم

    اپنے آنے کی جو سناتے ہو
    شیخی ناحق یہ تم جتاتے ہو
    اس پہ قسمیں جو تم یہ کھاتے ہو
    مدعا یہ کہ دل لبھاتے ہو
    لفظ رخصت زباں پہ لاتے ہو
    جان کو میری تم کڑھاتے ہو
    رات کو گاہ گاہ آتے ہو
    اپنے کشتہ کو آ جلاتے ہو

    دلبرؔ مجھے اس واسطے لکھتی ہے یہ سب خلق
    تا مجھ کو تو دلبر ہی سمجھ کر کبھی آئے

    دُلھن ۔
    نواب انتظام الدولہ کی صبیہ اور نواب آصف الدولہ سابق حکمران اودھ کی اہلیہ تھیں۔ تذکرۂ سراپائے سخن کی تیاری کے وقت فیض آباد میں تھیں نہایت نیک دل نیک مزاج مردانہ صفات خاتون تھیں۔ شعر و شاعری سے ایک خاص دلچسپی تھی۔ چند شعر انتخاباً درج تذکرہ کئے جاتے ہیں۔

    بیاں میں کس سے کروں جا کے اب گلا دل کا
    یہ دل کا دل ہی میں ہووے گا فیصلہ دل کا
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 67 تذکرۃ الخواتین صفحہ 65

    بہا ہے پھوٹ کے آنکھوں سے آبلہ دل کا
    تری کی راہ سے جاتا ہے قافلہ دل کا

    جہاں کے باغ میں ہم بھی بہار رکھتے ہیں
    مثال لالہ کے دل داغدار رکھتے ہیں

    ایسے کم ظرف نہیں ہیں جو بہکتے جائیں
    گل کی مانند جدھر جائیں مہکتے جائیں

    مت کرو فکر عمارت کی کوئی زیر فلک
    خانۂ دل جو گرا ہو اسے آباد کرو

    دن کٹا فریاد سے اور رات زاری سے کٹی
    عمر کٹنے کو کٹی پر کیا ہی خواری سے کٹی

    ذال معجمہ

    ذلیل ۔
    مرزا سلیماں شکوہ بہادر کی کنیز تھی۔ اگرچہ نام اس کا نوبہار تھا۔ مگر تخلص کو ملحوظ رکھتے ہوئے اشعار نہایت فحش کہتی تھی۔ دو شعر حاضر ہیں۔

    میں فرشتہ کی بھی سنتی نہیں ناصح کیا ہے
    اپنے کرتوت پہ جس دم کہ میں آ جاتی ہون

    تم سے اللہ رکھے اپنی اماں میں تم تو
    ہم سی پریوں کو بھی دیوانہ بنا لیتے ہو
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 68 تذکرۃ الخواتین صفحہ 66

    رائے مہملہ

    رابعہ ۔
    ایک خاتون ک ا نام ہے یہ شاعرہ کسی ڈاکٹر کی صبّیہ اور کسی حکیم کی اہلیہ تھی۔ کشیدہ کاری میں درک تامہ رکھتی تھی۔ نام و مقام کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ اسی وجہ سے صرف ایک شعر پر اکتفا کرتا ہوں۔ مگر تعجب ہے کہ بالکل یہی شعر راویہ کے یہاں ہے۔ نہیں معلوم ان کا کہا ہوا ہے یا اُن کا۔

    ہوتی نہ محبت تو یہ آزار نہ ہوتا
    دل عشق کے صدموں سے خبردار نہ ہوتا

    رعنائی ۔
    قدسیہ بیگم ایک عورت دہلی کی رہنے والی تھی ایک شعر ریختی کے انداز میں ملا جو درج ذیل ہے۔

    میں جانتی تھی آنکھ لگی دل کو سکھ ہوا
    کم بخت کیسی آنکھ لگی اور دکھ ہوا

    راویہ ۔
    دلی سیتا رام کے بازار میں کوئی چھیپی رہتا تھا اس کی لڑکی کا تخلص تھا۔ نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔

    ہوتی نہ محبت تو یہ آزار نہ ہوتا
    دل عشق کے صدموں سے خبر دار نہ ہوتا

    ولہ

    دے اپنی محبت مجھے اے یار خدایا
    کر دور دلِ زار کا آزار خدایا

    ولہ

    الہی سب گنہہ سے پاک کر کر
    مجھے لے جائیو جنت کے در پر

    زاے معجمہ

    زہرہ (ط) ۔
    شاہ دہلی کی گاؤں میں ایک عورت باکمال
    -------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 69 تذکرۃ الخواتین صفحہ 67

    نصیبن نامے تھی جس کو بادشاہ کے یہاں سے زہرہ کا خطاب ملا۔ چونکہ شعر و شاعری سے ایک ذوق فطری تھا اس نے اسی تخلص کا کام لیا۔ غدر کے قبل زندہ تھی۔ اب ایک دو شعر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ سنیے۔

    بوسہ دیں گے نہ وہ تجھے زہرہ
    منہ لگاتا ہے کون سائل کو

    دل کہے میں ہو تو کاہے کو کوئی بے تاب ہو
    ساغر خوں کس لیے یہ دیدۂ پُر آب ہو
    باغ ہو آب رواں ہو اور شب مہتاب ہو
    ساقی مہوش ہو مے ہو جلسۂ احباب ہو

    زہرہ (ط) ۔
    انبالہ کی ایک محبوبۂ بازاری تھی جو بعد غدر دہلی میں آ کر رہی تھی۔ اپنی ایک غزل ترتیب چمن انداز کے وقت مصنف کو خود ہی مرحمت کی تھی۔ نقلاً بعد نقل میں بھی لکھتا ہوں۔

    آؤ جی آؤ خدا کے واسطے
    رحم فرماؤ خدا کے واسطے
    زلفیں سلجھاؤ خدا کے واسطے
    جی نہ الجھاؤ خدا کے واسطے
    یہ تمھارا جاں نثار اب مر چلا
    دیکھتے جاؤ خدا کے واسطے
    جب گئے گھر ان کے تو کہنے لگے
    جاؤ جی جاؤ خدا کے واسطے
    جان جاتی ہے تمھارے ہجر میں
    اب لپٹ جاؤ خدا کے واسطے
    غیر سے مل کر نہ چار آنکھیں کرو
    کچھ تو شرماؤ خدا کے واسطے
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 70 تذکرۃ الخواتین صفحہ 68

    چال پکڑانے کی اے جاں مت چلو
    راہ پر آؤ خدا کے واسطے
    لو وہ آتے ہیں کوئی کہتا نہیں
    اب نہ گھبراؤ خدا کے واسطے
    کیوں ہو زہرہؔ سے خفا اے ماہرو
    کچھ تو بتلاؤ خدا کے واسطے

    زہرہ (ط) ۔
    تخلص۔ منی نام تھا۔ حسن فروشی پیشۂ عام تھا۔ اصل وطن کشمیر تھا مگر آب و دانہ کلکتہ کے بازار میں کھینچ لایا تھا۔ نہایت خوبصورت خوش سیرت تھی۔ اپنی موزونی طبع کی وجہ سے کبھی کبھی شعر بھی موزوں کرتی تھی۔ اور مولوی عبدالغفور نساخ مولف تذکرۂ سخن شعرا سے اصلاح لیتی تھی۔
    1291 ھ تک زندہ تھی۔ کلام یہ ہے۔

    دیکھ کر چو رنگ دل ہے عاشق دل گیر کا
    سبزۂ رخسار سبزہ ہے مگر شمشیر کا
    دل ہمارا درد کا پتلا بنا اے برہمن
    ہے تصور دم بہ دم جو اس بتِ بے پیر کا

    ہے جو غنا و رقص کا چرچا بسنت میں
    ہنڈوں کی بہار ہے ہر جا بسنت میں
    اب نغمۂ بہار جو ہوتا ہے گوش خورد
    جوشِ جنوں ہوا ہے زیادہ بسنت میں
    ----------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 71 تذکرۃ الخواتین صفحہ 69

    کیا کسی مہوش کا زہرہؔ اس کو بھی ہے انتظار
    دیدۂ عاشق کی صورت ہے جو بیدار آئینہ

    ولہ

    درد و غم فراق سے شب کو ہوئی جو بے کلی
    دل کی کشش کشاں کشاں اس کی گلی میں لے چلی
    روتے ہیں سر پٹکتے ہیں زندگی اک عذاب ہے
    جب نہ ملے وہ جانِ جاں کیوں نہو دل کو بے کلی
    ہر میں تیرے گلبدن وقف الم ہے جان و تن
    بستر خار سے فزوں مجھ کو ہے فرش مخملی

    زہرہ (ط) ۔
    مسماۃ لطیفن کرنال کی رہنے والی طوائف کا تخلص تھا۔ یہ ایک نہایت ذکی عورت تھی۔ فارسی کا مذاق اس میں نہایت اچھا تھا۔ شعر دل کش کہتی تھی۔ نثر کے فقرے بھی خوب تراشتی تھی۔ منشی ظہور علی ظہورؔ جو ریواڑی ضلع گوڑگانوہ کے کسی اسکول میں مدرس تھے۔ اس کے استاد تھے۔ 1875 ء میں انتقال کیا۔ مولوی ذوالفقار حسین غنیؔ نے اس کی تاریخ وفات لکھی ہے جس میں میں بھی لکھتا ہوں۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 72 تذکرۃ الخواتین صفحہ 70

    کم از کم اس سے اس کے علم پر ایک ہلکی سی روشنی پڑتی ہے اور شاعر کی بذلہ سنجی بھی ظاہر ہوتی ہے۔

    لطیفاً آن زن علامۂ دہر
    شنیدستم کہ مُردآن ماہ ثانی
    سخن فہم و سخن سنج و سخن ور
    بہ مفتوناں نمودی مہربانی
    لطیفہ گاہ بذلہ گاہ شعری
    چناں میداد داد زندگانی
    دریغا آں گلِ گلزار خوبی
    دریغا آں گل باغ جوانی
    بہ ٹیری کوہ مرگ او کشیدہ
    اجل قطعش نمودہ زندگانی
    ہزار افسوس بر تنہائی او
    ہزار افسوس بر بے خانمانی
    بیا مرزادا و را رحمتِ حق
    مبادا و را عذابِ آنجہانی
    غنیؔ می جست از یر خرد سال
    ندا آمد دریغا 1293 ھ از جوانی

    اس قطعہ سے بہت کچھ اس کے حالات پر روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے سخن ور بھی اس کی قدر کرتے تھے۔ اب کچھ نمونۂ کلام ملاحظہ فرمائیے۔

    دو پر تو کیا تھے ہوتے اگر دو ہزار پر
    پروانہ کرتا شمع پہ سارے نثار پر

    ولہ

    وہ رقیب روسیہ بیٹھا ہے کیا دلبر کے پاس
    ہے مگر مارہِ سیہ یارو یہ گنجِ زر کے پاس
    ----------------------------------------------------------------------
     
  15. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 73 تذکرۃ الخواتین صفحہ 71

    پاس ممسک کے دھرا ہے کیسۂ زر اس طرح
    جس طرح پتھر دھرا ہووے کسی پتھر کے پاس

    اشک یوں ہر گز نہ نکلے جب تلک ہووے نہ درد
    ہے کسی کے غم میں تو آخر یہ گوہر بار شمع

    نہ بزم میں کوئی دل سوز ہو اگر اپنا
    جلے وہ بزم لگے ایسی انجمن میں آگ
    غضب ہے طعن کیا اس نے آج اے زہرہؔ
    لگے الہی دل و جان طعنہ زن میں آگ

    زہرہ (ط) ۔
    امراؤ جان نام تھا۔ بازار چوک لکھنؤ میں قیام تھا۔ میرا آغا علی شمس شاگرد قاضی محمد صادق خان اختر کی شاگرد تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آغا علی شمس کامشتری۔ اور زہرہ کی والدہ سے تعلق تھا۔ اسی وجہ سے ان دونوں کی تعلیم و تعلم میں کافی حصہ لیتے تھے بلکہ بعض تذکروں میں لکھا ہے کہ ان دونوں کی وجہ سے آغا علی شمس کے دوسرے شعراے معاصرین سے جھگڑے بھی ہوئے جنہیں میں بوجہ اختصار نظر انداز کرتا ہوں۔ اور صرف زہرہ کا کلام لکھتا ہوں۔

    حیا سے نہیں وہ جو آنے کے قابل
    تو ہم خوب سے کب ہیں جانے کے قابل
    کرو خون سے میرے تم ہاتھ رنگیں
    یہ مہندی ہے صاحب لگانے کے قابل
    رہے عمر بھر قید کنجِ قفس میں
    کہاں بال و پر ہم ہلانے کے قابل
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 74 تذکرۃ الخواتین صفحہ 72

    سکندر کو دی آبرو تم نے صاحب
    ہوا آئینہ منہ دکھانے کے قابل
    رقیبِ سیہ رو کو نامہ نہ لکھو
    وہ حرفِ غلط ہے مٹانے کے قابل
    لہو میں ہیں تر شرم سے دستِ مرجاں
    نہیں تم سے پنجہ ملانے کے قابل
    عبث وصل جاناں کے بھوکے ہیں عاشق
    غم و رنج فرقت ہے کھانے کے قابل
    مفصل کہوں ماجرا حاسدوں کا
    جو ہوں جمع سارے زمانے کے قابل
    نہ کہہ زہرہؔ اس کی غزل پر غزل تو
    کہ سوزاں نہیں منہ دکھانے کے قابل

    سوزاںؔ منشی حسیب الدین صاحب سے مراد ہے جو نہایت ہی مشہور و معروف لکھنوی شاعر تھے۔ آغا علی شمس نے زہرہ و مشتری دونوں سے ان کی اکثر غزلوں پر غزلیں کہلائیں جو بہت سی اودھ اخبار میں شائع بھی ہوئیں اور اور جگہ بھی چھپیں۔
    زہرہ ایک باوضع اور حاضر جواب معشوقۂ طرار تھی۔ ایک مرتبہ لکھنؤ کے ایک رئیس متخلص بمحزوں اس کے مکان پر گئے تو زہرہ نے چھیڑنے کے طریق پر یہ مصرع پڑھا
    سیرِ فلک کو ہم کبھی تنہا نہ جائیں گے
    یہ بھی شاعر تھے سن کر چپ نہ رہا گیا فوراً دوسرا مصرع لگایا
    زہرہ کے ساتھ جائیں گے یا مشتری کے ساتھ
    ----------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 75 تذکرۃ الخواتین صفحہ 73

    حاضر جواب بذلہ سنج زہرہ سن کر اچھل پڑی اور محزوں صاحب کا منہ چوم لیا۔ آخر میں سنا ہے کہ زہرہ نے اس پیشہ کو چھور کر کسی شریف کے ساتھ نکاح کر لیا تھا۔ زہرہ کا کلام ملاحظہ فرمائیے۔

    دل میں تجھ کو پری لقا سمجھا
    زلف کو تیری میں بلا سمجھا
    تو نےہر ایک کی سنیں باتیں
    میرا مطلب بھی کچھ بھلا سمجھا
    اپنی اپنی ہر ایک کہتا ہے
    کوئی میرا نہ مدعا سمجھا
    تیرے آنے کو اے صنم واللہ
    درد کی اپنے میں دوا سمجھا
    سب مرا حال سن کے ہیں پر غم
    نہ تو کچھ یار بے وفا سمجھا
    میں نے واللہ دی دعا تجھ کو
    تو خدا جانے دل میں کیا سمجھا
    ہائے بے فائدہ خراب ہوا
    عشق کی میں نہ انتہا سمجھا
    بدگماں تجھ سے یار ہے زہرہؔ
    شکر کو تیرے وہ گلا سمجھا

    ہم سے سخنِ عجز سنایا نہیں جاتا
    ہم سے کسی روٹھے کو منایا نہیں جاتا
    صد شکر کہ طفلی سے جوانی کا سِن آیا
    اب ہم سے ترا ناز اٹھایا نہیں جاتا
    ہوتا نہیں کچھ کام بھی اس پردہ نشیں سے
    آیا نہیں جاتا تو بلایا نہیں جاتا
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 76 تذکرۃ الخواتین صفحہ 74

    ہم معرکۂ عشق میں شیرانہ کھڑے ہیں
    میدان سے اب پاؤں ہٹایا نہیں جاتا
    دیوانہ ہو جو کوئی مرے حسن پری پر
    ناجنس سے دل اپنا لگایا نہیں جاتا
    کچھ آج عجب حال ہے سینہ میں جگر کا
    سامان اب اچھا ہمیں پایا نہیں جاتا
    کیا روز قیامت میں زباں اپنی میں کھولوں
    بگڑی ہوئی باتوں کو بنایا نہیں جاتا
    میں بندۂ ناچیز وہ ہیں حسن کے سلطان
    زہرہؔ انہیں گھر اپنے بلایا نہیں جاتا

    سو بوسے گرد دیے ہیں تو دس اور دیجیے
    تسبیح میں ضرور ہیں دانے شمار کے

    زینت (ط) ۔
    بگن طوائف لکھنؤ کی رہنے والی تھی جو آخر میں کلکتہ جا رہی تھی۔ میر اصغر علی صاحب اصغر سے اصلاح لیتی تھی اور بہر صورت خوب کہتی تھی۔ چند شعر حاضر ہیں۔

    کیا کہوں چپ چپ ہوں میں شہر خموشاں کے مقیم
    کوئی بتلاتا نہیں منزل بمنزل کیا ہوا
    ہم ہیں ناواقف نہ ہم سے اٹھ سکی سختی ہجر
    تجربہ کاروں سے پوچھو وقت مشکل کیا ہوا

    اجل جو حسرت بوس و کنار میں آئی
    چمٹ کے لاش کو قاتل نے خوب پیار کیا
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 77 تذکرۃ الخواتین صفحہ 75

    جنوں کے ہاتھ سے دامن بچا کے رکھا تھا
    لپٹ کے دشت میں کانٹوں نے تار تار کیا

    زینت (ط) ۔
    تخلص۔ زینت بیگم نام دہلی کی ایک شاہد بازاری تھی۔ مرزا ابراہم بیگ مقتول کی محبوبہ تھی۔ اور انہیں کے ساتھ دہلی سے لکھنؤ چلی گئی تھی۔

    شبِ مہتاب میں تا صبح زینتؔ
    خیالِ ماہرو ہے اور ہم ہیں

    ولہ

    ہے نالہ و زاری کا مرے شور فلک پر
    پردۂ بتِ مغرور کوئی کان دھرے ہے

    زاے فارسی

    ژاژ ۔
    اس تخلص کی کوئی بازاری عورت تھی۔ ایک شعر اس کا موجود ہے۔

    ژاژ گوئی تو پیارے باز آ
    ورنہ پچھتائے گا سن کہتی ہے ژاژؔ

    سین مہملہ

    سائرہ ۔
    یہی تخلص ہے اور یہی نام معلوم ہوتا ہے زمانۂ حال کی
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 78 تذکرۃ الخواتین صفحہ 76

    خوش فکر شاعرہ ہیں۔ ایک نظم بہ عنوان تحّیر منفعل ہماری نظر سے گزری جو نہایت عمدہ ہے۔ اسی کو نقل کئے دیتے ہیں۔

    ستم ہے شرط آئینِ محبت میں نہ سمجھی تھی
    ارے ان حسن والوں کی شریعت میں نہ سمجھی تھی
    مجھے روئے گی اک دن شام فرقت میں نہ سمجھی تھی
    مجھے دنیا سے کھو دے گی محبت میں نہ سمجھی تھی
    تمہاری سادگی تصویر خاموش مسرت تھی
    جوانی آئے گی بن کر قیامت میں نہ سمجھی تھی
    پشیماں ہو رہی ہوں شکوۂ جور و وفا کر کے
    کوئی ہو گا پشیمانِ شکایت میں نہ سمجھی تھی
    اسے جانے نہ دیتی جذب کر کے دل میں رکھ لیتی
    بہارِ باغ کا رنگِ طبیعت میں نہ سمجھی تھی
    سمجھ لیتی تو پھر کیوں عاشقی میں دقتیں ہوتیں
    یقیناً دل کا انداز محبت میں نہ سمجھی تھی
    رموزِ عاشقی حسنِ دل افزا نے سکھائے ہیں
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 79 تذکرۃ الخواتین صفحہ 77

    نہ سمجھی تھی محبت کی حقیقت میں نہ سمجھی تھی
    تری گلیوں میں مٹ کر موت کے دن کاٹ دیتی ہیں
    تری گلیوں سے اٹھے گی قیامت میں نہ سمجھی تھی
    سمجھ رکھا تھا میں نے اختیاری ولولہ دل کا
    تمہارے ہاتھ میں ہے میری قسمت میں نہ سمجھی تھی
    شبِ خلوت ستاروں نے بہت لوٹے ترے جلوے
    ترے حسن شب آرا کی حقیقت میں نہ سمجھی تھی
    محبت تھی نشاط زندگانی وہ بھی کیا دن تھے
    کہ آفت تم نہ سمجھے تھے مصیبت میں نہ سمجھی تھی
    نظر ملتے ہی کچھ محجوب ہے وہ بے وفا مجھ سے
    نگاہوں سے بھی ہوتی ہے شکایت میں نہ سمجھی تھی
    کسی کو خواب میں بے چین کر ڈالا خیالوں نے
    خیالوں میں بھی ہوتی ہے یہ قوت میں نہ سمجھی تھی
    گنہ کیوں سپر پہ لیتی سائرہؔ حسن تماشا کا
    مجھے یوں مست کر دے گی محبت میں نہ سمجھی تھی
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 80 تذکرۃ الخواتین صفحہ 78

    ستم (ط) ۔
    بگّا طوائف بنارس کی رہنے والی کا تخلص تھا۔ حسن خود نما کی امنگیں بنارس سے پٹنہ لے گئی تھیں۔ کبھی کبھی شعر بھی کہتی تھی۔ ملاحظہ فرمائیے۔

    کشتنی کون ہے اے دل نگہِ یار میں آج
    تیغ سنتا ہوں کہ ہے دست ستم گار میں آج
    صعف کہتا ہے قدم یاں سے نہ آگے رکھنا
    شوق کہتا ہے کہ رہ کوچۂ دلدار میں

    سردار ۔
    سردار بیگم نام۔ لکھنؤ کی رہنے والی تھیں۔ ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ غدر کے بعد بیوہ ہو کر پہلے کانپور اور پھر قنوج چلی گئیں اور پھر اٹاوہ گئیں اور وہیں عمر بھر رہیں۔ مگر معلوم نہیں کہ کیا افتاد پڑی کہ اپنی بیٹی مسماۃ کاظمی بیگم کو ناچ اور گانے کی تعلیم دینی شروع کی اور باقاعدہ ایک ڈیرہ دار بن کر وہ سب باتیں شروع کر دیں جو ایک طوائف کر سکتی تھی۔ عجیب لطف یہ ہے کہ خود بالکل ناخواندہ تھی مگر موزونی طبع کی بدولت شعر کہتی تھی اور چونکہ خود لکھ نہ سکتی تھی اس لئے اپنے کہے ہوے شعر دوسروں سے لکھوا لیتی تھی۔ ایک شخص کے ساتھ دہلی چلی آئی تھی۔ مصنف تذکرہ چمن انداز لکھتے ہیں کہ میں نے اس کو دیکھا تھا یہ ایک نہایت ہی بات کی پکی اور سچی عورت تھی اور جو کچھ زبان سے کہہ دیتی تھی اس کو ہمیشہ پورا کرنے کی
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 81 تذکرۃ الخواتین صفحہ 79

    کوشش کرتی تھی کچھ نہ کچھ اس آوارگی میں بھی شرافت کی بو اس میں موجود تھی۔ یہ شعر اسی کے ہیں۔

    لگایا میں نے جو تم سے دل کو تمہارے دل پر نہاں نہ ہوگا
    اٹھائے صدمے ہیں جتنے میں نے جہاں میں کس پر عیاں نہ ہو گا
    ہے خوف مجھ کو اکیلے گھر کا کہ ہو گا واں پر گزارہ کیوں کر
    مدد کو میری جو لطف یزداں ندیم و ہمدم وہاں نہ ہوگا
    لگایا گل سے جو دل کو تو نے سمجھ لے دل میں یہ اپنے بلبل
    ہیں چند روز بہار کے دن یہ گل تو روزِ خزاں نہ ہوگا
    بہت کتابیں پڑھی ہیں تم نے یہ مانا ہم نے بھی شیخ صاحب
    چھپاؤ ہم سے نہ حال دل کو نہاں یہ عشق بتاں نہ ہو گا
    یہ کیا ہے سردارؔ تجھ کو دہشت شفیع ہو گے رسول داور
    جو زلزلہ سے بروزِ محشر زمیں نہ ہوگی زماں نہ ہو گا

    وہ تو ہمارا لے گئے بیٹھے بٹھائے دل
    ہر گز نہ کوئی آپ سے اپنا پھنساے دل
    آتی نہیں ہے نیند شب ہجر میں مجھے
    ہے کوئی ایسا اس سے مرا پھیر لائے دل
    فریاد کر رہا ہوں میں گھڑیال کی طرح
    یا رب وہ خود جلے جو ہمارا جلائے دل
    ----------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 82 تذکرۃ الخواتین صفحہ 80

    بے جرم مجھ کو یار نے مارا ہے دوستو
    اب دل ہی دل میں کہتا ہوں فریاد ہائے دل
    سردارؔ روز حشر کو اٹھ کر کہے گی یہ
    عاشق کہاں سے سنگ کا اپنا بنائے دل

    دل مرا اتھا گیا زمانہ سے
    موت آئے کسی بہانہ سے

    نہ لگی پھر آنکھ سحر تلک مجھے یاد اپنی دلا گئے
    مرے پاس سے وہ چلے گئے، مرے دل کو لے کے ہلا گئے

    بیاں میں کیا کروں تم سے نہایت بے قراری ہے
    پھنسا ہے دل مرا اس سے مجھے اب زیست بھاری ہے
    کڑی منزل بہت ہیگی مجھے اب زیست بھاری ہے
    وہاں کیوں کر گزر ہو گا یہاں اب اشک جاری ہے
    اندھری گور ہووے گی نہ کوئی دوسرا ہو گا
    ملے گا وہ صنم کیوں کر مجھے اب انتظاری ہے
    فرشتے آ کے پوچھیں گے کہو سردارؔ سوتی ہو
    پڑھو کلمہ محمد ص کا چلو اب فضل باری ہے

    سطلان ۔
    تخلص اور سلطان بیگم نام تھا۔ نواب معتمد الدولہ بہادر لکھنوی
    ----------------------------------------------------------------------
     
  16. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 83 تذکرۃ الخواتین صفحہ 81

    کی صاحبزادی تھیں۔ سنا ہے کہ صاحب دیوان تھیں۔ مگر مصنف تذکرۃ الشاعرات کو اس کے متعلق ایک شک ہے۔ مصنف چمن انداز نے کلام بھی زیادہ دیا ہے اور کوئی شک بھی ظاہر نہیں کیا۔ یہ عفیفہ قبل غدر زندہ تھیں۔ اب صرف اتنا سا کلام زندہ ہے۔

    کب تک یہ تیرے ہجر کے صدمے اٹھائے دل
    ڈر ہے یہی کہ جان سے اپنی نہ جائے دل
    قاتل نے کب کہا تھا کہ آنکھیں لڑائے دل
    آخر یہ میری جان پہ آئی بلائے دل
    تھی وہ نگاہ یا کوئی ناوک کا تیر تھا
    ملتے ہی آنکھ رہ گیا میں کہہ کے ہائے دل
    سینہ اگر ہے داغوں سے معمور کیا ہوا
    خالی ہے تیرے واسطے عِشرت سرائے دل
    سلطاںؔ غزل اک اور بدل کر ردیف لکھ
    پر شرط ہے کہ لفظ گل آئے بجائے دل

    ہم تو عاشق اسی کے ہو بیٹھے
    دل سے صبر و قرار کھو بیٹھے
    صورت اس کی نظر نہ آئے گی
    دل ہی دل میں کڑھا کرو بیٹھے

    لگایا گل سے جو دل کو تو نے سمجھ لے دل میں یہ اپنے بلبل
    ہیں چند روز بہار کے دن یہ گل تو روز خزاں نہ ہو گا 1

    نہ لگی پھر آنکھ سحر تلک مجھے اپنی یاد دلا گئے
    مرے پاس سے وہ چلے گئے مرے دل کو لے کے ہلا گئے
    ۔۔۔۔۔۔
    1۔ یہ شعر سردارؔ کے یہاں بھی ہے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 84 تذکرۃ الخواتین صفحہ 82

    سُومی ۔
    خاندان تیموریہ کی ایک معزز خاتون تھی۔ مصنف تذکرۂ جمیل کا بیان ہے کہ قبل غدر شباب کا عالم تھا اور نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ غدر کے بعد بھی ایک عرصۂ دراز تک زندہ و سلامت رہی۔ دو ایک شعر یاد گار ہیں جو درج کیے جاتے ہیں۔

    شور ہے اس کی بے وفائی کا
    بس نہیں چلتا کچھ رسائی کا
    دام زلف سیہ ارے توبہ
    نہ بنا ڈھب کوئی رسائی کا

    شین معجمہ

    شباب (ط) ۔
    تخلص۔ حسین باندی نام تھا۔ محمد جان حنا کی چھوتی بہن تھی۔ سیف الطاف حسین شیدا مرزا پوری کی شاگرد تھی جن سے اس کا ذکر پہلے اسی تذکرہ میں آ چکا ہے۔

    اللہ رہے اشتیاق کسی کا پسِ فنا
    آنکھٰ کھلی ہیں دیدۂ بیدار کی طرح
    تیور ادھر چڑھے تو ادھر ہم ہوئے فنا
    نازک مزاج ہم بھی ہیں سرکار کی طرح

    شباب (ط) ۔
    محمد جان طوائف باشندۂ کلکتہ کا تخلص تھا۔ خوش رو اور خوش خو تھی۔ طبیعت میں جودت اور ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ 1889 ء تک زندہ تھی۔ یہ شعر یادگار ہیں۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 85 تذکرۃ الخواتین صفحہ 83

    آج کس کی دلربائی نے دیا تجھ کو فریب
    ہو گیا ہے بے خودی میں محو اے دل کیا ہوا

    ہو گئی ہے زندگی آخر گناہوں میں مری
    ہاتھ خالی ہے مرا زادِ سفر کچھ بھی نہیں

    ان کی باتوں میں خدا کے لئے آنا نہ شبابؔ
    یہ حسینان جہاں کس سے وفا کرتے ہیں

    حسرتیں دل میں رہیں خواب میں ہے وہ دمِ وصل
    یا خدا میں اسے بیدار کروں یا نہ کروں
    بولے شوخی سے دکھا کر مجھے زلفیں اپنی
    اس میں میں تجھ کو گرفتار کروں یا نہ کروں
    سر سے پا تک جو ہو نور کے سانچے میں ڈھلا
    اے شبابؔ اس کو بھلا پیار کروں یا نہ کروں

    عشق میں جان کے دشمن کو مسیحا سمجھے
    اور پھر دل میں سمجھتے ہیں ہم اچھا سمجھے
    بھیج دے گر ملک الموت کو بالیں پہ کوئی
    تیرا بیمار اسے رشک مسیحا سمجھے

    کچھ رحم کرتی ہے شبِ فرقت میں تیری یاد
    کچھ مہربان ہجر میں تیرا خیال ہے
    ہنس کر رلا دیا کبھی رو کر ہنسا دیا
    اے فتنہ ساز دونوں میں تیرا کمال ہے

    شبنم ۔
    زمانۂ حال کی ایک خوش بیان کا تخلص ہے۔ جس کے نام اور وطن کا مجھے کوئی پتہ نہیں۔ کلام میں جودت طبع کے آثار موجود ہیں۔ بعض رسائل میں آپ کی غزلیں شائع ہوا کرتی ہیں اور ایک غزل نقل کرتا ہوں۔

    تاثیر تجھے جذبۂ دل ہے یہ دکھانی
    اقرارِ محبت وہ کریں اپنی زبانی
    جو دل میں امنگیں تھیں ہوئیں غم سے وہ مدھم
    بجھتا ہوا شعلہ ہے مرا عہد جوانی
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 86 تذکرۃ الخواتین صفحہ 84

    دل چسپ ہیں اس درجہ یہ قدرت کے مناظر
    وہ صبح کی نیرنگیاں وہ شام سہانی
    تر آنسوؤں سے یونہی رہے گا مرا دامن
    کم ہو گی نہ ہر گز یہ مری اشک فشانی
    کیا جانے خیال آ گیا کس بات کو ہم کو
    روکے سے جو رکتی نہیں اشکوں کی روانی
    اللہ اٹھائے نہ کوئی ایسی مصیبت
    جو راہ محبت میں پڑی مجھ کو اٹھانی
    وہ تازگی باقی نہیں اب طبع رواں میں
    پھر جائے گا کیا مری تمناؤں پہ پانی
    جذبات کا ہنگامہ ہے برپا مرے دل میں
    کیوں آج تلاطم میں ہیں یہ بحر معانی
    گھبرائے گا ہمدم مرے افسانۂ غم سے دل جس سے بہلتا ہے نہیں وہ یہ کہانی
    جب تک نہ گزر جائیں گے ہم جان سے اپنی
    تو ظلم کو چھوڑے گا نہ اے ظلم کے بانی
    یاد آتی ہیں اس حسن کی سرسائیں مجھ کو
    پوشاک کسی کی نظر آتی ہے جو دھانی
    پھرتی ہیں مری آنکھوں میں ہر وقت وہ آنکھیں
    شبنمؔ مجھے مشکل ہوئی اب جان بچانی

    شرارت (ط) ۔
    تخلص۔ اللہ دی نام ہے۔ غازی آباد ضلع میرتھ مولد تھا۔ مسکن دہلی ہے۔ یہ ایک ڈیرہ دار طوائف ہے۔ نہایت مشہور و معروف حسین اور خلیق ہےراقم الحروف نے تقریباً 1908 ء میں اس کو دیکھا تھا وہ زمانہ اس کے شباب کا تھا۔ اور اس زمانہ میں بابو چندی پرشاد
    ----------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 87 تذکرۃ الخواتین صفحہ 85

    شیدا دہلوی کو غزلیں دکھاتی تھی۔ اس کے بعد 1910 ء و 1911 ء میں رسالۂ جلوۂ یار میرٹھ میں بھی اس کا کلام نظر سے گزرتا رہا۔ زبان کے شعر خوب ہوتے ہیں ملاحظہ فرمائیے۔ اللہ دی کی عمر تخمیناً اب چالیس برس کی ہو گی ۔

    خدا گواہ ہے سب جو جتائے دیتے ہیں
    ہم ان کی چاہ میں خود کو مٹائے دیتے ہیں
    نشیلی آنکھیں ہی کافی ہیں مجھ کو اے ساقی
    یہ دو پیالہ ہی بے خود بنائے دیتے ہیں
    شبِ وصال میں غیروں کا چھیڑ کر قصہ
    ہنسی ہنسی میں وہ مجھ کو رلائے دیتے ہیں
    وہ آئیں بے سرو سامانیوں کے صدقے میں
    ہم ان کے واسطے آنکھیں بچھائے دیتے ہیں
    بری ہوئی یہ نقاہت ہے زور گریہ میں
    ہمارے اشک ہی ہم کو بہائے دیتے ہیں
    بڑھے ہیں سسز جگر سے وہ نالہائے دل
    شرر فشاں ہیں یہ شعلے جلائے دیتے ہیں
    جلے بھنے ہیں شرارتؔ وہ اپنے نالۂ دل
    کہ مہر حشر کو لو کا لگائے دیتے ہیں

    نذر قاتل ہو گئی ساری کی ساری زندگی
    اس لئے روز ازل سے تھی ہماری زندگی
    وصل نا ممکن ہوا اٹھتا نہیں ہے ہجر یار
    ہو گئی ہے ان دنوں بے اختیاری زندگی
    ہو گیا ہے سرداب بازار سودائے جنوں
    مل گئی قسمت کو اک غفلت شعاری زندگی
    کٹ رہے ہیں آج کل روتے تڑپتے رات دن
    اشک باری زندگی ہے بے قراری زندگی
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 88 تذکرۃ الخواتین صفحہ 86

    واہ کیا لذت ہے تجھ میں مرحبا اے شوق قتل
    تیغ جاناں کی محبت ہے پیاری زندگی
    اک گل خوبی کی الفت نے دکھایا یہ اثر
    داغ دل سے بن گئی پھولوں کی کیاری زندگی
    خواب ہے سونے کا اے غافل ترا عہدِ شباب
    نوجوانی کی ہے اک بادِ بہاری زندگی
    دیکھیے انجام کیا ہو ہجر جاناں میں مرا
    موت کی گھڑیاں گراں ہیں مجھ کو بھاری زندگی
    اے شرارتؔ ابرو جاناں کی ہے الفت ہمیں
    کٹتی ہے تیغ دو دم پر اب ہماری زندگی

    دوائے درد سر یا رب ملے گر یوں تو بہتر ہو
    کسی بے درد کا در ہو کسی کم بخت کا سر ہو
    چلن تلوار سے بڑھ کر ہو فتنے پاؤں پڑتے ہوں
    بپا ہر ہر قدم پر آپ کی ٹھوکر سے محشر ہو
    تبسم کی خضر کی آبرو پر پھیر دو پانی
    ہوائے جنبش لب میں نسیم روح پرور ہو
    وہ ہنستے کھلکھلاتے فاتحہ پڑھنے کو آ نکلیں
    بجا ہے تربتِ عاشق پہ ان پھولوں کی چادر ہو
    بہم دست و گلو ہوں یار سے پیتے پلاتے ہوں
    ---------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 89 تذکرۃ الخواتین صفحہ 87

    جلائیں گھی کے ہم اس رات گر یہ دن میسر ہو
    بنا رکھا ہے پتلا جور کا اس حسن ظالم نے
    جفا پرور جفا گستر جفا جو ہو ستمگر ہو
    کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے عجب نیرنگ دنیا ہے
    شرارتؔ جان کر یہ کس لیے پھر تم مکّدر ہو

    شرارت (ط) ۔
    تخلص۔ امیر جان نام۔ چھوٹے خان کنچن دہلی کے رہنے والے کی لڑکی تھی۔ گانے ناچنے میں اچھا خاصہ کمال حاصل کر لیا تھا۔ میاں امیر خاں متخلص بہ منیر اکبر آبادی سے تلمذ رکھتی تھی۔ متھرا۔ آگرہ۔ ٹونک وغیرہ میں بھی رہی تھی۔ چند شعر اس کے درج کیے جاتے ہیں۔ جن سے اس کی ذہانت اور طباعی کا پتا چلتا ہے۔

    ایسی مجھ پر رات مشکل فرقت قاتل نے کی
    ساتھ میرے صبح مر مر کر مری مشکل نے کی
    آرزوے بوسہ گر دل میں کسی سائل نے کی
    ہو گئی تدبیر در پردہ لب اس کے سلنے کی
    سیکڑوں منزل عدم سے آگے وحشت لے گئی
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 90 تذکرۃ الخواتین صفحہ 88

    خاک اب عنقا کرے گا فکر میرے ملنے کی
    دور تھی لیکن ہمارے ضعف پر کچھ رحم کر
    پیشوائی سیکڑوں منزل مری منزل نے کی
    بس نہیں چلتا ہے یا رب کیا کریں مجبور ہیں
    جو نہ کرنی تھی ہمارے ساتھ وہ اس دل نے کی
    ایسے دریائے بلا میں غرق ہے کشتی میری
    توبہ جس کے نام سے اے ناخدا ساحل نے کی
    اس کو تم جوہر نہ سمجھو اپنے رہنے کے لئے
    تیغِ قاتل نے جگہ خون رگِ بسمل نے کی
    گرمیِ سوزِ جگر سے ہو گیا ہوں جل کے خاک
    یہ شرارت آتشیں رخسار سے قاتل نے کی

    شرم ۔
    تخلص تھا اور شمس النساء بیگم نام۔ حکیم قمر الدین خاں صاب (جو خواجہ وزیر کے شاگرد تھے) کی دختر نیک اختر تھیں۔ بنارس مولد تھا مگر چونکہ ان کے والد لکھنؤ میں چلے آئے تھے اور یہیں سکونت رکھتے تھے اس لئے یہ بھی یہاں رہتی تھیں۔ شعر و شاعری کا نہایت ذوق رکھتی تھیں۔
    ------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 91 تذکرۃ الخواتین صفحہ 89

    مگر کبھی کسی مشاعرہ میں شریک ہوئیں اور نہ اس کے ذریعہ سے شہرت کا خیال کیا۔ ممکن ہے کہ ان کے کلام پر اصلاح ان کے والد کرتے ہوں۔ بہر حال جو کلام دستیاب ہوا اس سے مشق سخن گوئی کا پتہ لگتا ہے۔

    جو تیری کاکلِ مشکیں کی بو صہبا لائی
    دماغ عرش پہ اس خاکسار کا پہنچا
    پڑے جو عکس گل تر ہزار بن جائیں
    کہ شاخ گل سے بھی نازک ہے یار کا پہنچا
    مثال غنچہ تو کیوں دل گرفتہ ہے اے شرمؔ
    خوشی ہو خط ترے اب گلغدار کا پہنچا

    پہلے ثابت کریں اس وحشی کی تقصیریں دو
    کیوں میرے پاؤں میں پہناتے ہیں زنجیریں دو
    دونوں زلفوں کا تری آیا جو وحشت میں خیال
    پڑ گئیں پاؤں میں میرے وہیں زنجیریں دو
    کہا قاصد نے کہ لایا ہوں میں پیغام وصال
    آج خلعت مجھے پہناؤ کہ جاگریں دو
    دردِ دل دور ہوا سینہ کی سوزش بھی گئی
    شربتِ وصل میں تیرے ہیں تاثیریں دو
    یا بہانہ سے بلائیں اسے یا خط ہی لکھیں
    شرمؔ کیا خوب یہ سوجھیں ہمیں تدبیریں دو
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 92 تذکرۃ الخواتین صفحہ 90

    جیتے جی نہ آیا اسے کچھ دھیان ہمارا
    مر جانے پہ کیا نکلے گا ارمان ہمارا

    گر پڑوں یار کے قدموں پہ اگر پی ہے شراب
    ہاتھ آیا ہے بہانہ مجھے بے ہوشی کا

    کوئی نا آشنا نہیں ایسا
    ملے ہیں آپ آشنا کیا خوب

    وصل میں شرم و حیا شرم کو مشکل ہے بہت
    کثرت شوق سے ہو جاتا ہے دشوار لحاظ

    دشمن ہوا وہ جان کا کی جس سے دوستی
    سچ ہے مثل کسی کا کوئی آشنا نہیں
    سو طرح کی جفا تری اے نازنیں سہی
    اس پر بھی تجھ کو قدر نہیں تو نہیں سہی
    فرمائیے تو آپ کے پہلو میں بیٹھ جائیں
    پیارے بجاے تکیۂ پہلو ہمیں سہی

    شرم (ط) ۔
    چھوٹے صاحب طوائف لکھنؤ کی رہنے والی تھی۔ کلکتہ میں بھی گئی تھی۔ مولوی عبدالغفور خاں صاحب نساخ نے لکھا ہے کہ میں نے اس کو دیکھا ہے۔ شعر یہ ہیں۔

    مردہ زندہ ہو گئے پازیب کی جھنکار سے
    ہر قدم پر حشر برپا ہے تری رفتار سے
    ----------------------------------------------------------------------
     
  17. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 93 تذکرۃ الخواتین صفحہ 91

    یہ کس رشک مہ کا نظارا ہوا ہے
    کہ خورشید آنکھوں کا تارا ہوا ہے
    ملے غیر سے یار آنکھوں کے آگے
    مری جاں یہ کس کو گوارا ہوا ہے

    شرم (ط) ۔
    امامی جان طوائف کا جو لکھنؤ میں اکبری دروازہ کے قریب رہتی تھی، تخلص تھا۔ کبھی کبھی شعر بھی کہتی تھی۔

    جو خوش ہوے تو بغیر التجا ہے وعدۂ وصل
    جو ضد پہ آئے تو پھر کیا ہزار بار نہیں

    اثر خاک لحد یہ ہے کہ چھو جانے سے
    مرض ہجر کے بیمار شفا پاتے ہیں

    شرفن (ط) ۔
    صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ کانپور کی ایک رقاصہ کا نام تھا اور یہی تخلص تھا۔ کلام کا نمونہ یہ ہے۔

    رات کو ایسا چڑھا نالہ فلک سے مل گیا
    کیا کہوں عرش معلی تک بھی سارا ہل گیا
    یاد رکھنا خود بخود طبقہ الٹ دوں گا وہیں
    کوچۂ سفاک میں مجھ سا اگر بسمل گیا
    ڈھونڈتا کب سے ہوں دل کو کچھ پتا لگتا نہیں
    اشک کے ریلے میں شاید دل بھی اپنا رِل گیا
    دور سے قاصد پھرا ناشاد وہ آیا نہ ہاتھ
    کیا کرے قاصد بچارا تو کئی منزل گیا
    سوجھتا کچھ بھی نہیں تجھ کو بھلا کیا کیجیے
    جس کو سمجھا تھا بُرا شرفنؔ اسی پر دل گیا

    شریر (ط) ۔
    تخلص۔ جگن نام۔ بندا طوائف قصبۂ جلسیر ضلع متھرا کی
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 94 تذکرۃ الخواتین صفحہ 92

    رہنے والی تھی۔ مگر علی گڈھ میں قیام رہتا تھا۔ شعر و شاعری کا ذوق تھا۔ مرزا امیر بیگ صاحب متخلص بہ میرزا کی نشست اس کے یہاں زیادہ رہتی تھی اور انہیں سے اصلاح لیتی تھی ایک مقطع لکھا ہوا تھا جو چمن انداز سے نقل کیا جاتا ہے۔

    شریرؔ ایسا کچھ افسوں پڑھ کہ شوخی قید ہو جائے
    غزالانِ حرم سے اڑ کے چشم یار میں آئے

    شریر ۔
    مس میری فلورا سارکس صبیہ جناب بزم اکبر آبادی کا نام ہے۔ جو رامپور میں پہنچ کر اختر جہاں بیگم کے خطاب سے مخاطب ہوئیں۔ حاضر جواب بذلہ سنج خوش مذاق شاعرہ ہیں۔ آخر پھر رامپور سے کہیں اور چلی گئیں۔ رامپور میں منا صاحب بہادر ہوم سیکریٹری والی رامپور دام اقبالہ سے اصلاح لیتی تھیں۔ 1911 ء میں رامپور میں تھیں۔ اس وقت سولہ برس کی عمر تھی اور اسی وقت کا یہ کلام ہے۔ حضور نواب صاحب دام اقبالہ کی ایک غزل کو تضمین کیا ہے۔

    یہ جو ہے ملنے میں عار دیکھیے کب تک رہے
    دشمن جاں وہ نگار دیکھیے کب تک رہے
    قلب میں اس کے غبار دیکھیے کب تک رہے
    ہم سے خفا ہے جو یار دیکھیے کب تک رہے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 95 تذکرۃ الخواتین صفحہ 93

    غیر کا یہ اعتبار دیکھیے کب تک رہے

    پہلوِ عاشق سے جب تم نے نکالا تھا دل
    ہم نے بھی اے دلربا خوب سنبھالا تھا دل
    ہاے مگر کیا کریں جانے ہی والا تھا دل
    پہلے تڑپتا رہا نازوں کا پالا تھا دل
    ہو گیا بے اختیار دیکھیے کب تک رہے

    موسم گل کی بہار دیتی ہے کیا کیا مزے
    سارے درختوں نے بھی بدلے ہیں کپڑے نئے
    شاخوں پہ پھر بلبلیں کرنے لگیں چہچہے
    غنچے چٹکنے لگے پھول مہکنے لگے
    جوش پہ فصلِ بہار دیکھیے کب تک رہے

    پہلے تو معلوم بھی مجھ کو نہیں تھی یہ شے
    مست یکا یک ہوا بات نصیحت کی ہے
    ایک نظر نے مگر کر دیا قصہ ہی طے
    آنکھیں تری دیکھ کر پی ہے محبت کی مے
    عشق کا ہم کو خمار دیکھیے کب تک رہے

    قلب ہے بے کل یہاں آپ کا ملنا ہے دور
    رحم کی دیکھوں نظر کرتے ہیں کب تک حضور
    ہو گیا اس کا یقیں مجھ کو یہ اے رشک حور
    صدمۂ فرقت سے جان جائے گی اک دن ضرور
    سینہ میں دل بے قرار دیکھیے کب تک رہے

    ہو کے جگر خون یاں آتے ہی رنگ شباب
    رشک سے اغیار کے جل کے ہوا دل کباب
    سر پہ ہے ناحق لیا ہجر بتاں کا عذاب
    عشق ہے ایسی بلا جل کے ہوا دل کباب
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 96 تذکرۃ الخواتین صفحہ 94

    اپنے گلے کا یہ ہار دیکھیے کب تک رہے

    مست ہیں سب بلبلیں باغ ہے پھولا پھلا
    سبزۂ تر نے جدا فرش ہے اپنا کیا
    ساتھ ہو وہ غنچہ لب سیر کا جب ہے مزہ
    آئی چمن میں بہار چلتی ہے بادِ صبا
    شاخ کا گل ہے سنگھار دیکھیے کب تک رہے

    سبز شجر دیکھ کر خوش ہے ہر اک باغباں
    ایسا بھلا بار بار ملتا ہے موقع کہاں
    دیکھنے کا باغ کے آج ہی کل ہے سماں
    حسن عروس بہار پھولوں کی نیرنگیاں
    بلبل شیدا نثار دیکھیے کب تک رہے

    ہم کو نہیں اعتبار اس کے کسی قول کا
    دیکھو یہ تم اے شریرؔ پر وہ نہیں باز آئے گا
    دیکھے ہو تم اس کی راہ جھوٹا ہے وہ پر دغا
    وعدہ ہو ان کا وفا رشک تمہیں کیا ہوا
    وصل کا یہ انتظار دیکھیے کب تک رہے

    شمشیر (ط) ۔
    تخلص۔ شمشیر جان نام جے پور کی رہنے والی طوائف کا ہے جو کبھی کبھی شعر بھی کہتی ہے۔ زمانۂ موجود کی ایک شاعرہ ہے۔

    کچھ دیکھ بھی تو لطف ہے جا کر سفر میں کیا
    شمشیرؔ چھوڑ گھر کو تو بیٹھا ہے گھر میں کیا
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 97 تذکرۃ الخواتین صفحہ 95

    شمیم ۔
    تخلص ہے۔ بی بیگم صاحبہ نام ہے۔ لکھنؤ کی کوئی پردہ نشین خاتون ہیں۔ ان کی ایک غزل نظر سے گزری جس کی پیشانی پر لکھا ہوا تھا کہ آپ نشتر صاحب سندیلوی سے اصلاح سخن لیتی ہیں۔ کلام اچھا ہے مگر افسوس ہے کہ کلام میں نسائیت کی جھلک بھی نہیں۔ غزل حاضر ہے۔
    قول ہے شمشیر قاتل کا مجھے دل چاہیے
    دل یہ کہتا ہے مجھے شمشیر قاتل چاہیے
    مشکلیں غم کی خوشی سے کاٹ دے انساں ہے وہ
    کچھ نہیں پہلو میں اک ہنستا ہوا دل چاہیے
    کشتی حسرت کو کر دے غرق اے باد مراد
    ڈوبنے والے جو ہیں کیا ان کو ساحل چاہیے
    دیدۂ بسمل کا آئینہ تری زینت ہوا
    اب تجھے کیا اور اے تصویر قاتل چاہیے
    اے حناے دست قاتل رنگ جمنے کا نہیں
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 98 تذکرۃ الخواتین صفحہ 96

    کچھ لہو بھی کشتۂ حسرت کا شامل چاہیے
    دل کا آئینہ دکھایا بڑھ کے جذب شوق نے
    تھا تقاضا حسن کا مدِ مقابل چاہیے
    خنجر قاتل تڑپ کر کروٹیں لینے لگا
    ہاں اثر اتنا تو خونِ گرم بسمل چاہیے
    سیر ہے بزم حسینان جہاں سے دل شمیمؔ
    تو جہاں جلوہ نما ہو اب وہ محفل چاہیے

    شوخ ۔
    ممولا جان طوائف کا تخلص تھا۔ کانپور کی رہنے والی تھی۔ بعد کو کلکتہ میں جا رہی تھی۔ تذکرۂ شمیم سخن کے مصنف نے لکھا ہے کہ شعر کہتی بھی خوب تھی اور پڑھتی بھی خوب تھی۔ منشی عبدالرحیم ابدؔ سے کلام پر اصلاح لیتی تھی۔ 1289 ھ میں زندہ تھی اب کا حال خدا جانے۔

    غش مجھے آیا تو گھبرا کر یہ کہتا ہے وہ شوخ
    میرے عاشق میرے شیدا میرے بسمل کیا ہوا

    کس کی حیرت کا تصور بندھ گیا
    آج کیوں چپ صورت تصویر ہو
    کہتے ہیں ملنا تو کچھ مشکل نہیں
    ہاں تمہاری آہ میں تاثیر ہو
    بے بلائے وہ چلے آئیں یہاں
    دوستو ایسی کوئی تدبیر ہو
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 99 تذکرۃ الخواتین صفحہ 97

    شوخ ۔
    گنّا بیگم اہلیۂ نواب عماد الملک غازی الدین خاں بہادر نظام وزیر عالمگیر ثانی کا تخلص تھا۔ نہایت حاضر جواب شوخ بذلہ سنج تھیں۔ وقت پر ایسا جواب دیتی تھیں کہ سننے والے کے منہ سے آفریں کی صدا نکلتی تھی۔ شعر و شاعری کا فطری ذوق و شوق تھا۔ میر قمرالدین منت سے اصلاح سخن لیتی تھیں۔ اکثر غزلیں فے البدیہہ کہتی تھیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے گنا بیگم اپنے پائیں باغ میں بیٹھی ہوئی ایک گلاب کے پھول کی بہار دیکھ کر کچھ سوچ رہی تھیں۔ اتنے میں نواب غازی الدین آئے۔ بیگم کو یوں محو پایا۔ کچھ دیر دیکھا اور اس کے بعد ہی کہا کہ چلو اندر بارہ دری میں چلو۔ بیگم نے کہا چلیے میں ابھی حاضر ہوتی ہوں۔ نواب صاحب سن کر چلے گئے اور بارہ دری میں مسہری پر آرام فرمانے لگے۔ بہار کی ہوا کی موجیں آنکھوں کو مست و مخمور کیے دیتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بیگم جب اندر پہونچیں تو نواب صاحب سو چکے تھے۔ بیگم نواب کو محو راحت دیکھ کر باہر آنے لگیں۔ مگر پاؤں کی آواز نے نواب صاحب کو بیدار کر دیا۔ بیگم جا رہی تھیں کہ نواب نے فوراً یہ مصرع موزوں کر کے پڑھا۔

    آکر ہماری نعش پہ کیا یار کر چلے
    --------------------------------------------------------------------

    نوٹ : تذکرۃ الخواتین کا صفحہ 98 تا 99 موجود نہیں

    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 100 تذکرۃ الخواتین صفحہ 100

    آیا نہ کبھی خواب میں بھی وصل میسر
    کیا جانیے کس ساعت بد آنکھ لگی تھی

    ابر چھایا ہے مینہ برستا ہے
    جلد آ جا کہ جی ترستا ہے

    لے اڑی طرزِ فغاں بلبل نالاں ہم سے
    گل نے سیکھی روش چاک گریباں ہم سے

    شمع کی طرح کون رو جانے
    جس کے جی کو لگی ہو سو جانے

    رقیبوں سے وہ جس دم ہنس رہے تھے رو برو میرے
    مری ہر مژہ اے دردِ جگر موتی پروتی تھی

    ترے منہ کی تجلی دیکھ کر کل رات حسرت سے
    زمیں پر لوٹتی تھی چاندنی اور شمع روتی تھی

    جس طرح لگی دل کو مرے چاہ کسی کی
    اس طرح نہ لگیو مرے اللہ کسی کی
    اس زلف دراز اپنی کو ظالم نہ کتر دے
    کیا فائدہ ہو عمر جو کوتاہ کسی کی
    نے نامہ و پیغام زبانی نہ نشانی
    حالت سے کوئی کیونکہ ہو آگاہ کسی کی

    عندلیبوں کو وہ گلزار مبارک ہووے
    ہم یہ سایۂ دیوار مبارک ہووے
    رات دن جس لئے روتے ہو سو اللہ کرے
    ایک دن تم کو وہ دیدار مبارک ہووے

    جھوٹھ کہتا ہے تو قاصد یہ زبانی پیغام
    مجھ کو باور نہیں جب تک نہ نشانی آوے

    جی تک بھی اگر چاہو تو وسواس نہیں ہے
    کچھ اور جو ڈھونڈو تو مرے پاس نہیں ہے
    اب خواب میں ہی وصل ترا ہووے تو ہووے
    ظاہر میں تو ملنے کی ہمیں آس نہیں ہے
    --------------------------------------------------------------------
     
  18. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 16 تذکرۃ الخواتین صفحہ 14
    بیقراری قرار ہے اپنا
    اس حاضر جواب شوخ مزاج نے فورا اس پر یہ مصرع لگایا ۔ اور سنایا ۔ بدقسمتی سے اس وقت میں صرف وہی دو شعر پیش کرسکتا ہوں جو فی البدیہ کہے گئے تھے ۔
    عشق دارومدار ہے اپنا
    بیقراری قرار ہے اپنا
    خاک میں مل گئی ہوں جسپہ اسیر
    اسی دل میں غبار ہے اپنا
    دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو ہوا چلتی ہے اس کے اثر سے کوئی محفوظ نہیں رہتا ۔ پردہ نشین ہیں مگر یہ بھی صنعت مرعات النضیر کے جال میں الجھی ہوئی ہیں ۔ دوسرا شعر صاف اس کی گواہی دیتا ہے
    اشک دلی کی ایک عالی قدر سخن سنج شہزادی کا تخلص تھا جو بارہ سو ترانوے ہجری میں زندہ تھیں زیادہ حال معلوم نہ ہوسکا مصنف تذکرہ مرات خیالی و چمن انداز نے دو شعر نقل کئے ہیں اگرچہ یہ شعر اس سے پہلے بھی میرے حافظہ میں تھے مگر وہ اور کسی شاعر کے تھے ۔ آج سمجھا ہوں کہ یا میری یاد اور میرا خیال غلط تھا یا مصنف مذکور کی تحقیقات نے دھوکا دیا ۔ بہرحال شعر ملاحظہ فرمائیے ۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 17 تذکرۃ الخواتین صفحہ 15
    نہ بوسہ دینا آتا ہے نہ دل بہلانا آتا ہے
    تجھے تو او بت کافر فقط ترسانا آتا ہے
    کسی عاشق کا بےشک استخواں ہے میں نہ مانونگا
    کہ شانہ تیرے رخ تک اتنا بےباکانہ آتا ہے
    امراؤ __ حسینی بیگم نام تھا ۔ خاک پاک دہلی میں قیام تھا ۔ عہد بادشاہ بہادر شاہ ظفر میں بقید حیات تھیں بادشاہ کی غزل پر غزل کہی تھی جس کے دو شعر اہل تذکرہ کی مہربانی سے دستبرد زمانہ سے ابھی تک محفوظ ہیں وہی میں بھی لکھے دیتا ہوں ۔
    باغ عالم میں چھڑانا تھا اگر اپنوں سے
    پہلے ہی سبزہ بیگانہ بنایا ہوتا
    گرچہ منظور نہ تھی خانہ نشینی میری
    تو مجھے ساکن دیرانہ بنایا ہوتا
    خود ظفر مرحوم کی غزل بھی مسلسل ہے جو اکثر نظروں سے گزری ہوگی ۔ بالکل اسی انداز میں انھوں نے بھی غزل کہی ہے ۔ آخری شعر میں اگر کی بجائے اگرچہ لکھا ہے ۔ جو صحیح نہیں ہے ۔ مگر عورتوں کی شاعری اور ان کی زبان کے لئے سب معاف ہے ۔
    امراؤ { ط } لکھنو کی ایک شاہد بازاری تھی جس کا یہی تخلص ہے
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 101 تذکرۃ الخواتین صفحہ 101

    یار پردہ میں ہے اور عیش سے مایوسی ہے
    نقش پا تک بھی مرے در پئے جاسوسی ہے

    مجھ سے کرتی ہی رہی زلف کجی کیا کیجے
    دل مرا لے کے یہ کہتی ہی رہی کیا کیجے
    بن ترے دیکھے ہوے اب تو نہیں رہتی چشم
    اس کی تدبیر کہو اب تو اجی کیا کیجے

    شوکت دلھن ۔
    یہی تخلص کرتی ہیں۔ سعیدہ خاتون نام ہے۔ للت پور میں پیدا ہوئیں اور بچپن سے شادی کے زمانہ تک اپنے والد حکیم مولوی سجاد حسین صاحب کے ساتھ مین پوری میں رہتی تھیں۔ بعد شادی لکھنؤ میں چلی آئیں اور اب لکھنؤ میں اپنی سسرا ہی میں قیام ہے۔ محمد عمر صاحب شوکت تہانوی (جو ایک نہایت ہی خوش فکر خوش گو خوش سیرت نوجوان ہیں۔ اور راقم الحروف سے مشورۂ سخن کرتے ہیں) کی اہلیہ ہیں اور انھیں کو اپنا کلام بھی بنظر اصلاح دکھاتی ہیں۔ شوکت دلھن کی غزلیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ شعر و شاعری سے انھیں ایک قدرتی لگاؤ ہے اور اگر وہ برابر کہتی رہیں تو ایک زبردست شاعرہ ہوں گی۔ اب بھی ان کے کلام میں متانت۔ سنجیدگی۔ علو مضامین کے بہت سے نمونے ملتے ہیں۔ چند اشعار انتکاب کر کے لکھتا ہوں۔

    دم نہ نکلا انتظار یار میں
    نیند کیسی دیدۂ بیدار میں
    نبض ناحق دیکھتے ہو بار بار
    جان بھی باقی ہے جسم زار میں
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 102 تذکرۃ الخواتین صفحہ 102

    تختۂ گلریز چھلنی ہو گیا
    بجلیاں اتنی گریں گلزار میں
    کھنچ گئی مقتل میں مجھ کو دیکھ کر
    آ گئی نخوت تری تلوار میں
    اے سعیدہؔ 1 گریۂ شبنم پہ پھول
    تا سحر ہنستے رہے گلزار میں

    کہاں کی بھیڑ ہے یا رب عدالت گاہ محشر میں
    کبھی آبادیاں اتنی نہ تھیں دنیا کے منظر میں
    مرے نالوں سے شان ضبط غم مجروح ہوتی ہے
    نہیں تو میں پلٹ دیتی نظام دہر دم بھر میں
    شب فرقت کی بیتابی سے میں واقف نہیں لیکن
    کسی نے جیسے کانٹے رکھ دیے ہیں آج بستر میں
    تخیل ہے کہ وحشت ہے سمجھ میں کچھ نہیں آتا
    خدا کیونکر نظر آتا ہے ہر خاموش منظر میں
    نہیں معلوم اس کے بعد کتنے انقلاب آئے
    جنوں کے ساتھ اک صحرا بھی آیا تھا مرے گھر میں

    دل بہلنے کا ہمارے خوب ساماں ہو گیا
    لیجیے بیٹھے بٹھائے گھر بیاباں ہو گیا
    اللہ اللہ آج وہ آئے ہیں قشقہ بر جبیں
    ہم غریبوں کی بھی تربت پر چراغاں ہو گیا

    شوق ۔
    تخلص۔ کریم بخش نام۔ پیشہ کسب عام تھا۔ ضلع امراوتی برار میں تعلقہ۔ مرتضے پور کی رہنے والی تھی۔ بسم اللہ کاں بسمل کی شاگرد تھی۔ ایک شعر ملتا ہے جو نقل کیا جاتا ہے۔

    فرقت یاد صنم میں اس قدر روتا رہا
    اشک چشم تر سے بہہ کر سیل دریا ہو گیا
    ۔۔۔۔
    1 ۔ یہ دونوں تخلص ہیں۔ کبھی اس تخلص سے اور کبھی اُس تخلص سے غزل کو ختم کرتی ہیں۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 103 تذکرۃ الخواتین صفحہ 103

    شیریں (ط) ۔
    تخلص تھا۔ بیگا نام تھا۔ لکھنؤ کے چوک کی رہنے والی تھی۔ اور اپنے معاصرین طوائفوں میں ایک درجہ امتیازی رکھتی تھی۔ شعر و شاعری سے ایک فطری ذوق تھا اور نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ خندہ پیشانی خوبصورت۔ خوش سیرت۔ شاعر دوست تھی۔ اول اول میں میر محمدی سپہر سے مشورۂ سخن کیا بعد ازاں شیخ امداد علی بحر کو غزل دکھانے لگی۔ اور وہی اس کا زمانۂ شباب و حیات سمجھنا چاہیے۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    سنتا ہے کون کس سے کہوں ماجرائے دل
    بہتر یہ ہے نہ کوئی کسی سے لگائے دل
    کیونکر رہیں حواس جو قابو سے جائے دل
    اے کاش موت آئے کسی پر نہ آئے دل
    باتین وہ دلفریب ادائیں وہ دلربا
    ایسی پری خصال پہ کیونکر نہ آئے دل
    کیونکر اسے نکال کے سینہ سے پھینک دیں
    زلفوں میں پھر کسی کی نہ مجھ کو پھنسائے دل
    الفت بھی چاہیے پہ ذرا دیکھ بھال کر
    ہر شعلہ رو کو چاہے تو چولھے میں جائے دل
    بے مہر و بے مروت و نا آشنا ہو تم
    تم سے خدانخواستہ کوئی لگائے دل
    شیریںؔ کا یہ کلام ہے ہر وقت ہر گھڑی
    جس کو خدا خراب کرے وہ لگائے دل

    پری زادوں میں تم مشہور میں مشہور دیوانہ
    اگر تم شمع محفل ہو تو یہ بندہ ہے پروانہ
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 104 تذکرۃ الخواتین صفحہ 104

    اگر جو ہاتھ سے ساقی کے شیشہ ہو گیا ثابت
    ہماری زندگانی کا ہوا لبریز پیمانہ
    کہیں عشق حقیقی ہے کہیں عشق مجازی ہے
    کوئی مسجد بناتا ہے کہیں بنتا ہے بت خانہ
    ہو میدانِ قیامت میں بھی دورہ ساغر مل کا
    رہے آباد یا رب حشر تک ساقی کا میخانہ
    نہیں مسند تو کیا پروا خدا پر اپنا تکیہ ہے
    فقیری میں بھی اے شیریںؔ مزاج اپنا ہے شاہانہ

    کچھ متفرق اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے

    اس نے جب مسی لگائی اور جوبن ہو گیا
    برگ گل اعجاز لب سے برگ سوسن ہو گیا

    آنکھ اتھا کر ادھر ادھر دیکھا
    ہر طرف تجھ کو جلوہ گر دیکھا
    لخت دل آئے شاخ مژگاں پر
    نخل الفت کا یہ ثمر دیکھا

    دہن یار کا بوسہ نہیں ملتا دل کو
    چشمۂ آب بقا پر ہے سکندر بے تاب
    دل میں جگہ بنائی ہے رہنے کی آپ نے
    حیراں ہوں مثل آئینہ آئے کدھر سے آپ

    ہوئی ہے ہمیں زلف و ابرو کی الفت
    مقدر میں تھی سانپ و بچھو کی الفت
    چمکتے ہیں گیسو پہ افشاں کے ذرے
    ہوئی شاخ سنبل کو جگنو کی الفت

    خاک پا جان کر مجھے اپنا
    دل میں رکھو غبار کیا باعث

    وہ عالم ہے ترے گورے بدن میں
    جو دیکھے چاند آ جائے گہن میں

    خدا جانے کیا دل میں ہے بد گمانی
    مرے ہاتھ کا پان کھاتے نہیں ہیں
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 105 تذکرۃ الخواتین صفحہ 105

    شریں (ط) ۔
    تخلص۔ وحید نام۔ لکھنؤ کی رہنے والی عصمت فروش شاہد بازاری تھی۔ رسالہ سیر سیاح سے معلوم ہوا کہ یہ عورت ناچنے گانے میں انتہائی کمال رکھتی اور 1293 ھ تک زندہ و بخیریت تھی۔ غزل کہتی تھی اور اس میں بھی اک گونہ کمال حاسل تھا۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    فصل گل آتی ہے اے دست جنوں دھیان رہے
    ٹکڑے دامن ہو سلامت نہ گریبان رہے
    دل پسا جاتا ہے قدموں کے تلے صاحب
    پاؤں آہستہ سے رکھنے کا ذرا دھیان رہے
    تیری صورت پہ نظر ہو ترے قدموں پہ ہو سر
    تیری الفت میں مروں یہ میرا ایمان رہے
    خانۂ جسم سے یہ کہہ کے سدھاری مری روح
    اپنے گھر جاتے ہیں تھوڑے یہاں مہمان رہے
    اب یہ خالق سے شب و روز دعا ہے شیریںؔ
    کہ سدا دین محمد ص مرا ایمان رہے
    آرزو کوئی نہ بن آئی فلک کے ہاتھوں
    دل بے تاب میں لاکھوں مرے ارمان رہے

    شیریں (ط) ۔
    یہ تخلص ہے اور شیریں جان نام ہے۔ رتلام کی ایک عفت فروش معشوقۂ بازاری ہے جو اب سے بیس برس پہلے یعنی 1910 ء یا گیارہ میں رتلام ہی میں ایک مشاعرہ بھی کرتی تھی۔ مشاعرہ کسی انجمن موسوم بہ عروس نو بہار سے متعلق تھا اور خود اس کی مہتمم یا سیکرٹری تھیں۔ ایک غزل رسالۂ جلوۂ یار سے نقل کرتا ہوں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ فطری ذوق شاعری کے زبان نہایت صاف ہے جس کی رتلام کے رہنے والے سے تقریباً امید ہی نہیں کی جا سکتی۔ ملاحظہ فرمائیے۔
    --------------------------------------------------------------------
     
  21. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 106 تذکرۃ الخواتین صفحہ 106

    وہ جو بالیں پہ ہمارے نہیں آنے والے
    ہم بھی ہیں اب عدم آباد کو جانے والے
    دیکھنا سایۂ خورشید نہ ہو جائے کہیں
    بال کھولے ہوے او بام پہ جانے والے
    جان من چھور کے زلفوں کو ذرا دیکھ تو لو
    خود بخود دام میں آ جائیں گے آنے والے
    پھیک اک تیر نظر اپنی کماں کا صدقہ
    اے مرے دل کے نشانے کو اڑانے والے
    اپنے جانباز کو تم جا کے ذرا وقت اخیر
    دیکھ لو جاتے ہیں یوں جان سے جانے والے
    کیوں نہ کہلائیں زمانہ میں بھلا رشک مسیح
    کشتۂ ناز کو ٹھوکر سے جلانے والے
    خوب مصرع ہے کہا ہے جو کسی نے شیریںؔ
    کبھی بھوکے نہ رہے رنج کے کھانے والے

    شیریں (ط) ۔
    یہی نام تھا اور یہی تخلص تھا۔ بازار چوک لکھنؤ کی ایک شاہد رعنا تھی آخر میں کلکتہ چلی گئی تھی۔ یہ اس کا کلام ہے۔

    دیر سے ہم سر جھکائے منتظر ہیں تیغ کے
    دست و بازو کو ترے اس وقت قاتل کیا ہوا

    رات باقی ہے ٹھہر جا ابھی جلدی کیا ہے
    دل شیدا مجھےبے تاب نہ کر وصل کی رات

    شیریں ۔
    تخلص۔ عالی جناب نواب شاہجہاں بیگم صاحبہ سابق فرماں روائے ریاست بھوپال مخاطب بہ رئیس دلاور اعظم طبقۂ اعلاے ہند و کرون آف انڈیا زمرۂ ریاستہائے ہند۔ آپ نہایت ذی حوصلہ قدر دان فن حکمراں تھیں۔ 1254 ھ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی 1263 ھ میں بعمر 9 سال بحکم
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 107 تذکرۃ الخواتین صفحہ 107

    گورنمنٹ خلعت ریاست پایا اور غرۂ شعبان المعظم 1285 ھ کو زینت افزائے مسند حکومت ہوئیں۔ علوم ضروریہ سے اچھی طرح آگاہ تھیں اور علما و فضلا کی نہایت عزت افزائی فرماتی تھیں۔ شعر و شاعری سے بھی فطری ذوق تھا۔ خود بھی فارسی و اردو میں کبھی کبھی کچھ فرماتی تھیں۔ فارسی میں شاہجہاں تخلص فرماتی تھیں، اردو میں شیریں۔ پہلا دیوان اردو کا 1288 ھ میں مطبع نظامی کانپور میں طبع ہوا تھا۔ آخر کار اس دنیاے فانی کو خیر باد کہا اور نہایت ہی قابلہ جانشین کو مسند حکومت تفویض فرما دی جو اشعار یادگار باقی ہیں وہ یہ ہیں۔

    خالق ہے خداے سحر و شام ہمارا
    مشہور اسی نے یہ کیا نام ہمارا
    پیدا ہوئے ہم امت محبوب خدا میں
    برتر نہ ہو کیوں رتبۂ اسلام ہمارا
    آتی ہے ہوا سرد گھٹا اٹھی ہے گھنگھور
    منگواؤ صراحی و مۓ و جام ہمارا
    بے تابی دل ان کے بھی دل میں تو اثر کر
    مدت سے یہی تجھ سے ہے پیغام ہمارا
    ہم کرتے ہیں حج کوچۂ دلدار کا اپنے
    ہے چادرِ تن جامۂ احرام ہمارا
    فرقت میں تری ساتھ دیا اپنا اسی نے
    کام آیا بہت یہ دلِ ناکام ہمارا
    کافر کیا مجھ کو تری اس زلف نے کافر
    اس لام نے کھویا ترے اسلام ہمارا
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 108 تذکرۃ الخواتین صفحہ 108

    دنیا میں بڑا شور ہے شکر شکنی کا
    شیریںؔ جو تخلص میں ہوا نام ہمارا

    قابل پابوس کیا ہم بھی نہیں ہیں آپ کے
    کیا خطا کی ہم نے گر چوما قدم کو کیا ہوا
    عرش تک جاتا تھا یا اب کان تک جاتا نہیں
    ہم نشینو میرے نالے کے اثر کو کیا ہوا

    درد فراق میں ہی سدا مبتلا رہے
    دنیا میں اس طرح بھی رہے ہم تو کیا رہے

    شیشہ خانہ میں جو آئینہ عذار آئے نظر
    چشم مشتاق کو حیرت کی بہار آئے نظر
    نیند میں زلف تری دیکھی زہے میرے نصیب
    گنج تعبیر ہے گر خواب میں مار آئے نظر

    لطف کیا پاؤ گے تنہا دل شیدا لے کر
    دیکھیے سیر بھی کچھ یاس و تمنا لے کر
    غم سے مرتا ہوں نہ شرمائے اجل بالیں پر
    کوئی زندہ نہ کرے نام تمھارا لے کر
    جھوٹی قسموں سے دلاسے تو نہ دو شیریںؔ کو
    دل بھی پھیرا ہے کبھی تم نے کسی کا لے کر

    صاد مہملہ

    صاحب (ط) ۔
    یہ تخلص تھا اور امۃ الفاطمہ نام تھا۔ لکھنؤ کی ایک مشہور شاہد بازار یا کوئی عفت نا آشنا پردہ نشین تھی۔ غدر 1857 ء سے پہلے اتفاقاً دہلی گئی تھی وہاں جا کر بیمار ہو گئی اور حکیم مومن خاں مومن کی طرف
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 109 تذکرۃ الخواتین صفحہ 109

    رجوع کر کے علاج و معالجہ کرنا شروع کیا۔ مومن خود ایک حسن پرست شخص تھے۔ بجائے مسیحائی کے اور الٹے مریض عشق ہو گئے۔ اور اس مرض نے یہاں تک ترقی کی کہ ضبط نہ ہو سکا ایک منثوی مسمّیٰ بہ قول غمیں جو اب تک ان کی کلیات میں موجود ہے اس غم میں لکھ ڈالی۔ آخر کار حکیم صاحب ہی کی صحبت و مہربانی نے اس کو شاعر بنا دیا۔ چنانچہ اشعار کے دیکھنے سے سراسر حکیم مومن خاں کا طرز بیان معلوم ہوتا ہے۔ وہی شوخی، وہی سوز، وہی رنگ۔ بات میں بات نکالنا۔ چنانچہ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

    رقیبوں کا جلنا کہاں دیکھتا تو
    سماں یہ مرے گھر میں آیا تو دیکھا
    گنہ کیا صنم کے نظارہ میں زاہد
    یہ جلوہ خدا نے دکھایا تو دیکھا

    کھولے ہیں اس نے پیرہن یوسفی کے بند
    طے کر رکھو نسیم سے کہہ دو قبائے گل

    نظر ہے جانب اغیار دیکھیے کیا ہو
    پھر ہے کچھ نظر یار دیکھیے کیا ہو

    جو خط جبیں کا مرے کاتب ہے اسی کو
    دکھلانا مرے نامۂ اعمال الہی
    صاحبؔ جو بنایا ہے تو مانند زلیخا
    یوسف سا غلام اک مجھے دے ڈال الہی

    صدر ۔
    نواب صد محل لکھنؤی کا تخلص ہے جو آخری تاجدار اودھ کی سینت شبستان اقبال تھیں۔ صاحب دیوان تھیں۔ سنا ہے کہ ایک دیوان
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 110 تذکرۃ الخواتین صفحہ 110

    موسوم بہ بادشاہ نامہ اور ایک نامۂ اسم ان کی تصنیف سے ہے۔ 1293 ھ تک زندہ تھیں۔ ایک غزل بطور نمونۂ کلام درج کرتا ہوں۔

    جوش جنوں میں رات دن سب سے رہا الگ الگ
    میں ہوں جدا الگ الگ لوگ جدا الگ الگ
    میں نے بلائیں لینے کو ہاتھ بڑھائے جب ادھر
    منہ کو پھرا کے یار نے مجھ سے کہا الگ الگ
    شمع جلانے آئے ہیں آج وہ میری قبر پر
    چلیو خدا کے واسطے باد صبا الگ الگ
    خاک ہو زندگی بھلا تیرے مریض عشق کی
    میں ہوں دوا سے دور دور مجھ سے دوا الگ الگ
    ہجر میں خوب خاک اڑی ان کو ہوا نہ کچھ اثر
    نالے گئے الگ الگ آہِ رسا الگ الگ
    حسرت و آرزوے وصل درد و مصیبت فراق
    سب کا ہے لطف الگ الگ سب کا مزا الگ الگ
    صدرؔ وہ کم نصیب ہو ہجر میں گر اٹھاؤں ہاتھ
    باب قبول سے رہے میری دعا الگ الگ
    --------------------------------------------------------------------
     
  22. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 111 تذکرۃ الخواتین صفحہ 111

    صندل ۔
    ایک شریف عورت کا تخلص تھا جو بلند شہر کے ضلع کی رہنے والی تھی۔ مگر بدقسمتی نے آوارہ کر کے آوارہ وطن بھی کیا اور آخر میرٹھ میں آ گئی۔ غدر کے بہت بعد تک زندہ رہی۔ حسن و شباب کے رخصت ہوتے ہی عشاق کی بھیڑ چھنٹ گئی اور دریوزہ گری پر نوبت پہونچی۔ اس کے بعد یہ حالت ہوئی کہ بغیر بھیک کے ٹکڑے ملے ہوے فاقہ کشی بھی محال تھی۔ دو شعر ایام شباب کے کہے ہوئے مجھ تک بھی پہونچے۔ اور یہ اس شخص سے سنے جو عرصے تک اس کی صبحت بے تکلفانہ میں شریک رہے۔

    کل رات اندھیری میں مجھ تک جو وہ آ پہنچا
    گھبرا کے میں یہ سمجھی اب چاند نکل آیا

    ہمیں بھی سب ترے مانند یہ انداز آتے تھے
    کبھی ہم بھی جواں تے اے ستمگر دہر فانی میں

    صنم ۔
    درگا نامی ایک ہندو پاتر کا تخلص تھا جو اکبر آباد میں رہتی تھی اور درگا بائی کے نام سے مشہور تھی۔ کسی راجہ کے یہاں مجرا کرنے والیوں میں ملازم تھی۔ نہایت متمول تھی اور اس حالت تمول میں بھی نہایت خوش اخلاق مہذب ملنسار عورت تھی۔ ایک صاحب نے مصنف تذکرۂ چمن انداز سے اسی عورت کا تخلص القط بتایا تھا مگر مصنف کے نزدیک
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 112 تذکرۃ الخواتین صفحہ 112

    وہ صحیح نہیں تھا۔ ایک شعر یادگار ہے۔

    چھپایا گر رخ پر نور اپنا
    جیے گا طالب دیدار کیونکر

    صنم ۔
    فہیمن نام ایک پنجابی شاہد بازاری کا تخلص تھا۔ جو کلکتہ میں مقیم تھی۔ غلام بھیک خاں سے اصلاح لیتی تھی۔

    چھاگلیں یار کی کرتی ہیں قیامت برپا
    سیکڑوں بار بجاتی ہیں گجر وصل کی رات

    صنوبر (ط) ۔
    یہ تخلص چھوٹی طوائف کا تھا جو جالندھر کی رہنے والی تھی مگر سیر بازار کی ہوس دہلی کے شاہدان بازاری کی صف میں لے آئی تھی۔ عمر بھر یہیں رہی اور یہیں فوت بھی ہوئی۔ سال فوت 1219 ھ ہے۔ دہلی قدم شریف میں مدفون ہے۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    زندگی تک کے یار ہیں یہ لوگ
    مر گئے پر یہ آشنا کس کے
    دل نہ دے ان کو تو خدا کو مان
    اے صنوبرؔ یہ بت بھلا کس کے

    ضاد منقوطہ

    ضرورت ۔
    تخلص۔ شرف النسا نام۔ اہلیہ مرزا کوچک جو دہلی کے ایک بزرگ نسل تیموریہ سے تھے۔ یہ عفیفہ اکثر نعتیہ اشعار کہتی تھیں۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 113 تذکرۃ الخواتین صفحہ 113

    سر سبز رہے باغ سدا دین نبی کا
    مکی مدنی ہاشمی و مطلبی کا
    یا رب رہے شاداب ہمیشہ چمن دیں
    مکی مدنی ہاشمی و مطلبی کا

    ضیاء ۔
    تخلص تھا۔ ضیائی بیگم نام تھا۔ لکھنؤ کی رہنے والی تھیں۔ حکیم انور علی صاحب لکھنؤ کے ایک مشہور طبیب کی اہلیہ تھیں۔ صاحب تذکرہ بہار کا قول ہے کہ نہایت فاضلہ تھیں۔ عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں پر قدرت تھی اور تینوں میں شعر کہتی تھیں۔ چند شعر اردو کے لکھتا ہوں۔

    تمہارا ہم سے ہمارا تم سے نہ اٹھ سکے گا عتاب ہر گز
    اٹھے تو کیونکہ اٹھے بتاؤ کہ تم ہو نازک میں ناتواں ہوں

    میں ہوں وہ ننگ خلق کہ کہتی ہے مجھ کو خاک
    اس کو بنا کے کیوں مری مٹی خراب کی

    میں نے پوچھا قتل مجھ کو کیجیے گا کس طرح
    بولے غفلت سے کبھی گاہے نگاہ تیز سے

    سوتے میں شب جو پیچ کھلے زلف یار کے
    دعوے دروغ ہو گئے مشکِ تتار کے
    شمشاد گردِ سایہ قامت چمن میں ہیں
    خورشید و مہ شعاع ہیں رخسار یار کے
    بے وجہ بو شراب کی منہ میں نہیں ضیاءؔ
    چوسے ہیں ہونٹ تم نے کسی بادہ خوار کے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 114 تذکرۃ الخواتین صفحہ 114

    ضیا ۔
    تخلص تھا اور سکندر جہاں بیگم نام تھا۔ اگرچہ یہ نہ معلوم ہو سکا کہ اصل سکونت کس جگہ تھی مگر ضمیمۂ تذکرۂ ماہ درخشاں سے یہ پتا چلا کہ میر امیر علی صاحب سابق کوتوال ریاست جاورہ کی دختر نیک اختر تھیَ شعر و شاعری کا شوق تھا۔ میری نظر سے ان کا ایک معتد بہ کلام گزرا۔ جس کے دیکھنے کے بعد میں نے اپنی راے ان کے کلام کی بابت نہایت اچھی قائم کی ہے۔ چند غزلوں کا انتخاب حاضر ہے۔

    ایک قاتل سے دوستی کی ہے
    موت سے ہم نے دل لگی کی ہے
    کون کہتا ہے ہم کو دیوانہ
    یہ نشانہ تو اک پری کی ہے
    خود دل خشک ہو گیا شاید
    اشک نے آنکھ میں کمی کی ہے
    کب تلک ظلم اے ستم ایجاد
    انتہا بھی ستمگری کی ہے
    فیض استاد مہرباں ہے ضیاؔ
    دھوم جو تیری شاعری کی ہے

    کون دے اس بے وفا ظالم کو دل
    مفت کی ایسی کسی کی جاں نہیں
    بخیہ گر دستِ جنوں سے تنگ ہوں
    جیب میں کچھ باقی ہے تو داماں نہیں
    میری بےتابی پہ روتے ہیں عدو
    دوست میرے حال پر خنداں نہیں
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 115 تذکرۃ الخواتین صفحہ 115

    جینے دیتی ہے نہ مرنے دیتی ہے
    تیری ظالم ہر گھڑی کی ہاں نہیں
    ہے کوئی آتش کا پرکالہ ضیاؔ
    سینے میں اپنے دل سوزاں نہیں

    ہوا اک آفت جاں پر فدا دل
    نہ دے دشمن کو بھی ایسا خدا دل
    کہاں ڈھونڈوں کدھر گم ہو گیا دل
    ابھی تو پاس میرے تھا مرا دل
    پئے مشقِ جفا لاؤں کہاں سے
    تمہیں تو چاہیے روز اک نیا دل
    دلِ ناکام لے کر کیا کرو گے
    نہیں ہے یہ تمہارے کام کا دل
    بت کافر سوا تیرے خدا سے
    نہیں رکھتا ہے کوئی التجا دل
    بتوں نے کر دیا اب غیرتِ دَیر
    کبھی مشہور تھا بیتِ خدا دل

    یوں جو ہم نوجوان مرتے ہیں
    ان کی یاد شباب ہے دل میں

    مندرجۂ بالا شعر مومن کے اس شعر سے ماخوذ ہے

    یو کبھی نوجواں نہ مرتا میں
    تیرے عہد شباب نے مارا

    بےوفاؤں کو باوفا جانا
    ہاے کم بخت دل نے کیا جانا
    وہ ری نارسائی قسمت
    اس کے در تک نہ ہو سکا جانا
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 116 تذکرۃ الخواتین صفحہ 116

    دیکھی گئی نہ ہم سے ہنسی اس کی غیر سے
    روکا گیا نہ گریۂ بے اختیار چشم
    لا چار ساز سرمۂ خاکِ درِ نگار
    اکسیر ہے یہ نسخہ براے غبار چشم
    نظارۂ حبیب سے خوش ہو کے دل نے آج
    لخت جگر نکالے ہیں بہر نثار چشم
    آنکھیں بھی نذر گریۂ فرقت ہوئیں ضیاؔ
    ماتم تھا پہلے دل کا ہوں اب سوگوار چشم

    رباعی

    گم کردہ رہ غریب ہوں منزل سے دور ہوں
    طوفاں زدہ سفینہ ہوں منزل سے دور ہوں
    ظالم اب اپنے در سے اٹھاتا ہے کس لئے
    کیا کم ہے یہ ستم کہ ترے دل سے دور ہوں

    کوئی غم خوار نہ ہمدم ہے شب فرقت میں
    اک تری یاد ہے یا بے کس و مضطر میں ہوں
    عشق کو دین سمجھتا ہوں وفا مذہب ہے
    اے صنم تجھ سے جو پھر جاؤں تو کافر میں ہوں
    نہ کیا بخت نے اس در کا گدا بھی مجھ کو
    اے ضیاؔ نام کو ہر چند سکندر میں ہوں

    جی میں ہو فکر بتاں اور لب پہ ہو ذکر خدا
    اے دل بے تاب تجھ سے پارسائی ہو چکی

    یہ کہتے ہیں ٹھکرا کے وہ نعش عاشق
    یہ فتنہ نہیں ہے جگانے کے قابل
    بھلا خاکساروں سے اتنی کدورت
    نہ تھے خاک میں ہم ملانے کے قابل
    بجا ہے وفادار کوئی نہیں ہے
    مرا عشق ہے آزمانے کے قابل
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 117 تذکرۃ الخواتین صفحہ 117

    طاے مہملہ

    طاہرہ ۔
    یہی نام ہے اور یہی تخلص ہے۔ دہلی کی ایک پردہ نشین عفت مآب خاتون ہے۔ زمانۂ حال کی شاعرہ ہے۔ مگر کبھی اپنا کلام کسی گلدستہ یا رسالہ وغیر میں نہیں دیتیں۔ میرے لیے بھی صرف ایک دو شعروں کے چھاپنے کی اجازت ہے۔ اگرچہ مجھے اس سے زیادہ حال معلوم ہے مگر لکھنامیرے اختیار میں نہیں ہے۔ شعر یہ ہیں۔

    ظلم صیاد کا گلشن سے عیاں ہوتا ہے
    پتے پتے کی زباں سے وہ بیاں ہوتا ہے

    جب تک رہے جہاں میں جگر چاک ہی رہا
    مانند گل کے ہم بھی بڑے بد نصیب ہیں

    مرنے پہ مرے دل کو پریشان نہ کرنا
    پھولوں کی طرح چاک گریبان نہ کرنا
    فرماتے ہیں ہر بات پہ دل توڑ کے میرا
    انسان ہو تو اب کوئی ارمان نہ کرنا

    طلب ۔
    صاحب تذکرۂ چمن انداز کا بیان ہے کہ ایک مجہول الحال عورت کا تخلص ہے۔ مگر مصنف ماہ درخشاں کہتا ہے کہ یہ دہلی کی ایک پردہ نشین تھیں۔ انہوں نے طالب تخلص لکھا ہے مگر شعر پر خیال کیا جاتا تو طلب تخلص صحیح معلوم ہوتا ہے۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 118 تذکرۃ الخواتین صفحہ 118

    طلب کو تھی طلب جو دیدار کی
    کھلی رہ گئی آنکھ بیمار کی

    ظاے معجمہ

    ظرافت ۔
    صاحب گلستان سخن نے لکھا ہے کہ یہ ظرف ایک پردہ نشین عورت ہے۔ پہلے شاید شاہد بازاری تھی مگر تائب ہو کر نکاح کر لیا۔ شاعرۂ خوش گو تھیں۔ یہ ان کا کلام ہے۔

    اس کے لب ہیں شراب سے بہتر
    حسن ہے آفتاب سے بہتر

    ظریفہ ۔
    باوجود تلاش نام و حالات مسکن وغیرہ کے پتا لگانے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ البتہ یہ معلوم ہو گیا کہ دور موجودہ کی ایک نازک خیال شاعرہ ہیں۔ شعروں سے مشق شعر کا پتا چلتا ہے۔ مگر جیسا کہ تخلص ہے ویسے اشعار نہیں ہیں بلکہ شعروں سے سوز و ساز کے ساتھ ایک متانت ظاہر ہوتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے

    بہتر تو یہی تھا کہ مجھے پیار نہ کرتے
    کرتے بھی تو رسوا سر بازار نہ کرتے
    میں آپ دکھاتی تمہیں سو رنگ کے جلوے
    تم حسرت دیدار کا اظہار نہ کرتے
    جذبات کی رو میں مجھے معبود بنا کر
    اے کاش تم اپنے کو گنہگار نہ کرتے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 119 تذکرۃ الخواتین صفحہ 119

    دل میں چھپا رکھتے ہیں گر رازِ محبت
    اس دکھ کا علاج آپ ہی دشوار نہ کرتے
    دیوانگیٔ عشق ہے سرمایۂ راحت
    تم پھول میں پیدا خلشِ زار نہ کرتے
    اتنا بھی نہ تھا مادۂ ضبط جو تم میں
    بہتر تو یہی تھا کہ مجھے پیار نہ کرتے

    یہ غزل نذر عشق کے عنوان سے آئینہ اگست 1923 ء میں چھپی تھی۔ تلمیح طلب معلوم ہوتی ہے۔ مگر محتسب را درون خانہ چہ کار۔

    عین مہملہ

    عابدہ ۔
    تخلص۔ نواب امراؤ بیگم صاحبہ مرحومہ مغفورہ کا ہے جو نواب محمد یوسف علی خاں صاحب بہادر مرحوم سابق حکمران رامپور کی دختر بلند اختر تھیں اور نواب محمد زین العابدین کی جو جے پور میں فوجدار تھے محل خاص تھیں۔ علم و فضل میں یکتاے زمانہ اور اپنے عہد کی یگانہ تھیں۔ ایک دیوان فارسی، ایک اردو اور ایک مثنوی متعلق شکار ان سے یادگار ہے۔ مگر افسوس کہ کلام نہ مل سکتا مجبوراً دو شعر تذکرۂ چمن انداز سے نقل کرتا ہوں جو مرحومہ کی تاریخ
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 120 تذکرۃ الخواتین صفحہ 120

    وفات 1286 ھ ظاہر کرتے ہیں۔ جو یا مرحوم نے انہیں کے مصرعہ کو تضمین کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

    یہ کرامت اس کی ہے جو یا کہ خود فرما دیا
    تا قیامت رحمت خلاق باری قبر کو
    کشہ ہیں اے لاغری ہم رنگ گندم گوں کے جو
    ہے شکن گندم کی بس کافی ہماری قبر کو

    عالم ۔
    یہ تخلص زوجۂ واجد علی شاہ بادشاہ اودھ متخلص بہ اختر کا تھا جو آخر میں کلکتہ میں رہیں۔ نہایت عمدہ شعر کہتی تھیں۔ ستار بجانے میں بھی مہارت تامہ رکھتی تھیں۔ ان سے ایک مثنوی اور ایک دیوان یادگار ہے۔ مصنف تذکرۃ الشاعرات کی نظر سے وہ دیوان گزرا ہے اور انہوں نے انتخاب کلام درج کیا ہے۔ میں بھی اسی انتخاب کو بجنسہ نذر ناظرین کرتا ہوں۔

    گیسو خمدار اس کے رخ پہ بل کھانے لگا
    سینۂ عشاق پر بس سانپ لہرانے لگا
    بے قراری کیا بیاں ہو اس دل بےتاب کی
    شور و افغاں سے ہمارے عرش تھرانے لگا

    اجاڑے دیکھیے کس کس کے آشیانے کو
    یہی چمن میں ہے اب چار سو فغاں صیاد

    اے باغبان چمن میں یہ کہہ دے پکار کے
    لو بلبلو چلو کہ دن آئے بہار کے
    وحشی وہ ہوں کہ قیس نے بھی بس تبرکاً
    گنڈے بنا کے پہنے گریباں کے تار کے
    --------------------------------------------------------------------
     
  23. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 121 تذکرۃ الخواتین صفحہ 121

    عالمؔ وہ طلب گار ترے ہوں گے اسی دن
    جب تازہ ستم کوئی بھی ایجاد کریں گے

    گزاری رات ساری تارے ہی گن گن کے عالمؔ نے
    ہوا شب کو جو دھوکا اپنے اختر کے ستاروں کا

    عزت ۔
    مظفر نگر کی ایک لائق فائق خاتون ہیں۔

    میں اپنی آہ کی تاثیر کے فدا عزتؔ
    کہ بزم غیر سے یاں اس کو کھینچ لاتی ہے

    قافیہ تنگ نہ ہو اہل سخن کا کیونکر
    ہے مرے شعر میں مضموں کمر و کاکل کا

    عزیز (ط) ۔
    عزیز جان طوائف دہلی کی رہنے والی کا تخلص جو سعادت یار خاں رنگیں سے اصلاح لیتی تھی۔ نہایت شوخ چنچل عورت تھی۔ شعر و شاعری کو تفنن طبع نہ سمجھتی تھی بلکہ اس کو بھی منجملہ دیگر فنون کے ایک مستقل فن سمجھ کر کرتی تھی۔

    جبہ باغ و بہار دیکھیں گے
    ایک گل کیا ہزار دیکھیں گے
    تم نہ دیکھو گے گو ہمیں اک بار
    ہم تمہیں بار بار دیکھیں گے

    عشرت ۔
    نواب عشرت محل واجد علی شاہ مرحوم سابق شاہ اودھ کی حرم عالیہ کا تخلص تھا۔ بادشاہ کے ساتھ کلکتہ چلی گئی تھیں اور آخر تک وہیں رہیں۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 122 تذکرۃ الخواتین صفحہ 122

    گرمی عشق مانع نشو و نما ہوئی
    میں وہ نہال تھا کہ اگا اور جل گیا

    عصمت ۔
    ایک عصمت مآب خاتون ساکنۂ دہلی کا تخلص تھا جو 1289 ھ میں مدرسہ تعلیم مستورات میں لڑکیوں کو پڑھاتی تھیں۔ ان کی قابلیت مسلمہ تھی اس کے بارے میں زیادہ لکھنا تحصیل حاصل ہے۔

    لعلِ لب جاں بخش ہے گویا ورق گل
    اور رخ پہ پسینہ ہے ترا جوں عرق گل
    یوں نرمۂ گوش اس کا لچکتا ہے گہر سے
    شبنم سے لچک جاتا ہے جیسے ورق گل

    لب ہوے بند نام احمد سے
    اور مشکل کشا نے کھول دیے

    عفت ۔
    تخلص۔ نجم النساء بیگم نام تھا۔ مولوی مقصود عالم مقصودؔ ساکن پہانی کی شاگرد تھیں۔ نہایت قابل تھیں۔ صاحب دیوان گزری ہیں۔

    ہم جو اے جان جہاں تم سے بچھڑ جاتے ہیں
    صدمے ہوتے ہیں قلق ہوتے ہیں گھبراتے ہیں

    عفت ۔
    زمانۂ حال کی ایک شاعرہ کا تخلص ہے جو رنگ جدید میں شعر فرماتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ اصل یہ ہے کہ جدید رنگ جس کی بنیاد بعض ناعاقبت اندیشوں کے دماغ نے ڈالی ہے صرف الفاظ کا گھروندہ ہے۔ کہیں کہیں نہ بحر سمجھ میں آتی ہے اور نہ طبع سلیم کو صحیح صحیح یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعر کا مطلب کیا ہے اور وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 123 تذکرۃ الخواتین صفحہ 123

    ترقی ہے۔ اگر یہ ترقی ہے تو اردو کی یہ ترقی معکوس دیکھ کر اردو کا ماتم کرنا چاہیے۔

    وقت نماز این ست حسن نیاز این است
    تارا دمک رہا ہے۔ کہرہ مسک رہا ہے
    بادل سرک رہا ہے ۔ بلبل چہک رہا ہے
    غنچہ چٹک رہا ہے ۔ جلو ٹپک رہا ہے
    سبزہ لہک رہا ہے ۔ بیلا مہک رہا ہے
    پتا لچک رہا ہے ۔ قطرہ ڈھلک رہا ہے
    ساغر چھلک رہا ہے ۔ شیشہ جھلک رہا ہے
    وقت نماز این ست ۔ حسن نیاز این است

    شفاف آسماں ہے ۔ دریا سا اک رواں ہے
    باد صبا دواں ہے ۔ کیسا حسیں سماں ہے
    غنچہ ہر اک جواں ہے ۔ ہر پھول گلستاں ہے
    جلوہ ترا عیاں ہے ۔ ہر گل میں تو نہاں ہے
    کیا جوش طائراں ہے ۔ ہر ایک تر زباں ہے
    دریا صحیفہ خواں ہے ۔ موجوں میں اک اذاں ہے
    وقت نماز این ست ۔ حسن نیاز این است

    غرض کہ پانچ چھ اسی قسم کے بند نظر سے گزرے الفاظ کے انبار کے انبار ہیں۔ معنی ندارد۔ اور وہ مصرع جو آخر میں رکھا ہے خدا معلوم کیا ہے ۔ میں کچھ نہیں سمجھا

    عفت ۔
    یہ تخلص معلوم ہے مگر نام معلوم نہیں۔ ترک علی شاہ
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 124 تذکرۃ الخواتین صفحہ 124

    منصب دار ریاست حیدر آباد۔ حیدر ظہیر دہلوی کی شاگرد ہیں۔ 1910 ۓ کے ایک رسالہ میں آپ کی یہ غزل چھپی تھی جو درج کرتا ہوں۔ آپ کی شاعری سے زبان دانی کا پتا چلتا ہے۔

    مرتا ہوں کوئی ہاے مددگار نہیں ہے
    دل جس نے لیا وہ بتِ عیار نہیں ہے
    بوسے کی طلب پر نہ کہو پھیر کے منہ ہاں
    انکار کا پہلو ہے یہ اقرار نہیں ہے
    لاکھوں ہیں حسیں دیکھنے کو حسن میں لیکن
    تم سے تو کوئی بڑھ کے طرح دار نہیں ہے
    سنتا نہیں احوال کوئی کس کو سنائیں
    ہمدرد نہیں ہے کوئی غمخوار نہیں ہے
    ہم تجھ پہ فدا ہوتے ہیں اور ہم سے یہ کھنچنا
    لازم تجھے اے خنجرِ خونخوار نہیں ہے
    رونے کے لئے میرے جنازہ پہ اب عفتؔ
    جز یاس و الم کوئی بھ غمخوار نہیں ہے

    عیدو ۔
    دہلی کی ایک شاہد عفت فروز عصمت نا آشنا کا تخلص تھا۔ آخر میں کسی شریف سے نکاح کر لیا تھا۔

    غنچہ کو برگ گل کو دکھا مانی سے کہہ دو
    تصویر میں کھینچے دہن ایسا کمر ایسی
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 125 تذکرۃ الخواتین صفحہ 125

    غین معجمبہ

    غریب ۔
    یہ تخلص تھا۔ اصلی نام امیرالنساء تھا۔ میر برکت علی ساکن پٹنہ کی منکوحہ تھیں۔ شعر و شاعری سے قدرتی دلچسپی تھی۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    لو اور وہ تو جلنے لگا میرے نام سے
    دل سرد اب تو آہ شرر بار نے کیا
    کھلتا نہ تا بمرگ مرا یہ یہ معاملہ
    رسوا اے شہر مجھ کو دلِ زار نے کیا

    دل کو درپردہ جلایا مثل شمع کیوں غریبؔ
    وہ جو پروانہ ہو غیروں پر تو ہو کچھ غم نہ کر
    گر صبا دل میں جگہ اس کے نہیں کرتی تو خیر
    اس قدر بھی مجھ سے اس محبوب کو برہم نہ کر

    غزالہ ۔
    تخلص۔ میمونہ خاتون نام۔ زمانۂ حال کی ایک خوش مذاق خوش فکر شاعرہ ہیں۔ رابعہ خاتون پنہاں کی حقیقی چھوٹی بہن ہیں۔ بریلی آپ کا دولت خانہ ہے۔ جب سے آپ کی شادی ہوئی ہے آپ غزالہ مسز احسان کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کی بعض بعض غزلیں نظر سے گزریں۔ ایک نظم بطریق نمونہ حاضر ہے جس سےان کی جودت طبع کا اندازہ ہوتا ہے

    ندی کنارے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 126 تذکرۃ الخواتین صفحہ 126

    دہقان کی پیاری لڑکی ندی پہ جلوہ زار ہے
    ساری کا سبز آنچل سر سے ڈھلک رہا ہے
    چتون کی سادگی میں اک برق شعلہ زا ہے
    جس پر نظر پڑی وہ شعلہ بنا ہوا ہے
    ہونٹوں پہ ہے تبسم نظریں جھکی ہوئی ہیں
    معصوم حسن بے خود انگڑائی لے رہا ہے
    ہاتھوں میں چوڑیوں کی رنگین لہریاں ہیں
    ماتھے کا سرخ ٹیکا چھپکا بنا ہوا ہے
    مژگاں میں مست پتلی رقصاں ہے یا ستمگر
    ان پیاری انکھڑیوں میں ساغر چھلک رہا ہے
    بجلی تڑب رہی ہے ہر ہر نظر میں قاتل
    ہر اک ادا میں ظالم شعلہ بھڑک رہا ہے
    معصومیت کی پتلی دیوی نزاکتوں کی
    تیری اداے سادہ جنت نہیں تو کیا ہے

    فاء
    فاطمہ ۔
    تخلص تھا۔ اللہ داد کے نام سے مشہور اور موسوم تھی۔ مدرسۂ زنانہ دہلی میں فارسی پڑھاتی ھی۔ 1289 ھ تک زندہ تھی۔ ایک شعر مل سکا۔

    آپ کی مرضی ہم نے پا لی ہے
    پھر یہ کیوں لیت و لعل ڈالی ہے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 127 تذکرۃ الخواتین صفحہ 127

    یہ شعر بعض تذکرہ نویسوں نے اس کے نام سے لکھ دیا۔ مگر یہ تلمیح طلب ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک صاحب جو فاطمہ کے استاد تھے ایک روز یہ مصرعۂ اولیٰ پڑھ رہے تھے۔ حاضر جواب فاطمہ نے فوراً دوسرا مصرع لگا دیا۔

    فاطمہ ۔
    یہی تخلص تھا اور نام بھی یہی تھا۔ آگرہ کی رہنے والی تھیں۔ خوب شعر کہتی تھیں۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔

    نازک دماغ وہ ہیں تو یاں بھی ہے تمکنت
    ہم خود بھی ایسے ہیں کہ منایا نہ جائے گا

    ماہ درخشاں کے مصنف نے یہ شعر غلطی سے فاطمہ دہلوی کے نام سے موسوم کر دیا ہے۔

    فرحت (ط) ۔
    فرحت بیگم نام تھا۔ فیض آباد کی ایک حسین شاہد بازاری تھی۔ غدر میں زندہ تھی۔ خوب شعر کہتی تھی۔ موسیقی میں بھی دستگاہ رکھتی تھی۔

    میں جلوں اور کرے غیر سے یوں بغل گرم
    دل میں ٹھنڈک ہو مرے تو بھی بنے جب مجھ سا

    دل لگایا ہے تری زلف رسا سے کچھ ہو
    سانپ کو چھیڑ لیا اب تو بلا سے کچھ ہو
    میں نہ چھوڑوں گی سر زلف بتاں اے واعظ
    میری کیا تجھ کو پڑی تیری بلا سے کچھ ہو

    فّرُخ (ط) ۔
    تخلص ایک شاہد بازاری کا ہ ے جو کانٹھہ کی رہنے والی تھی۔ ایک مطلع محفوظ ہے جو سپرد قلم کیا جاتا ہے ۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 128 تذکرۃ الخواتین صفحہ 128

    ہمارے قتل کی تدبیر بے تقصیر ہوتی ہے
    نگاہِ پاک کی شاید یہی تاثیر ہوتی ہے

    فریدن (ط) ۔
    میرٹھ کی ایک نامی طوائف تھی۔ دہلی میں بھی عرصہ تک رہی تھی۔ مالدار بھی تھی اور با مروت بھی تھی۔ کبھی کبھی فکر شعر کرتی تھی۔ حافظ عبدالرحمن خاں احسان سے اصلاح لیتی تھی۔ اب سے تقریباً 80-90 برس پہلے زندہ تھی۔ ایک شعر اس کا تذکروں میں ملتا ہے جو درج کیا جاتا ہے۔

    ایک ہی زبان رکھو تو ہم کو زبان دو
    کرتی ہے روسیاہ قلم کو زبان دو

    قاف

    قاتل (ط) ۔
    یعنی عجوبہ جان طوائف فیروز آباد ضلع آگرہ کی رہنے والی تھی۔ مہذب اور خوش مذاق تھی۔ طبیعت موزوں پائی تھی۔ جب چاہتی شعر بھی کہہ لیا کرتی تھی۔ یہ شعر اسی کے ہیں۔

    صدا جو جھانجھ کی پہونچی ہمارے کانوں میں
    تو شوق دل نے نکالا مزار سے ہم کو
    فقیر عشق ہیں قاتلؔ خدا کے بندے ہیں
    امید وصل ہے پروردگار سے ہم کو
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 129 تذکرۃ الخواتین صفحہ 129

    قادری ۔
    قادری بیگم نام تھا۔ کاملہ بیگم متخلص بہ جعفری بیگم دہلی کی رہنے والی کی چھوٹی بہن تھیں اور شاہ نصیر مرحوم کی شاگرد تھیں۔ یہ غزل جو درج کی جاتی ہے۔ انہیں کی فکر کا نتیجہ ہے۔
    شرط وفا یہ نہ تھی غیر کے گھر جائیے
    کچھ تو حیا کیجیے جی میں تو شرمائیے
    ترس خدا چاہیے اے بت ترسا تجھے
    عاشق رنجور کو اتنا نہ ترسائیے
    لب سے بہم کیجیے اپنے لب لعل کو
    شرم نہ کچھ کیجیے چھاتی سے لگ جائیے
    میں ہوں فقط اور تم نام نہیں غیر کا
    پاؤں مری گود میں شوق سے پھیلائیے
    ہجر میں اے قادریؔ سخت ہے مضطر یہ دل
    ایک دن اس سے ضرور ملنے کی ٹھہرائیے

    قمر ۔
    تخلص۔ حیدری بیگم نام۔ ماہ طلعت عرف۔ مرزا ہمایوں بخت کی صاحبزادی مرزا محبوب علی قوس کی ہمشیرہ، واجد علی شاہ آخری تاجداری اودھ کی حرم محترم تھیں۔ بے حد ذہین۔ طبیعت دار۔ خوش مزاج۔ حاضر جواب۔ بذلہ سنج۔ ظریفہ۔ لطیفہ گو تھیں۔ موسیقی میں بھی حسب ضرورت دستگاہ بہم پہونچائی تھی۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بہترین شعر کہتی تھیں۔ بادشاہ کے ساتھ کلکتہ بھیج دی گئی تھیں۔ آکر عمر تک وہیں رہیں سنہ
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 130 تذکرۃ الخواتین صفحہ 130

    بارہ سو اکیاسی 1281 ھ میں داعلی اجل کو لبیک کہا۔ یہ شعر ایک تذکرہ کے واسطے خود ہی عنایت فرمائے تھے۔

    دلِ ناشاد کو تم نے نہ کبھی شاد کیا
    بھول کر بیٹھے ہمیں پھر نہ کبھی یاد کیا
    مر گے بھی خو نہ گئی بادہ کشی کی زاہد
    حشر میں ساقی کوثر کا نہ داماں چھوٹا
    روز و شب کرتی ہے بلبل یہ قفس میں فریاد
    ہاے کیا فصل بہاری میں گلستاں چھوٹا
    لے گیا قیس پہ بھی فوق تمہارا وحشی
    مر کے بھی دست جنوں سے نہ گریباں چھوٹا
    دعویٰ تھا عبث یار مسیحائی کا تم کو
    اچھا نہ ہو ایک بھی بیمار تمہارا
    داغ سودا سر پہ ہے پاؤں میں زنجیر شعاع
    ہے پری رو تیری الفت میں یہ حال آفتاب
    گر مقابل ہو تمہارے روے آتش رنگ کے
    بدر کی صورت گھٹے ہر دم کمال آفتاب
    سوزشِ داغِ دلِ بےتاب سے پایا فروغ
    آئیے ایسا بھلا کب تھا جلال آفتاب
    عشق خطِ صنم کا تھا اللہ یہ گناہ
    بہرِ عذاب آئے ہیں مرقد میں مار سبز
    گر آب زندگی بھی تو برسائے اے فلک
    کشت امید وصل نہ ہو زینہار سبز
    اے مے کشو تکلف ساقی تو دیکھنا
    شیشے ہیں سرخ جام مئے خوشگوار سبز
    شیدا ہیں چشم پرفن آہو شکار کے
    گلشن میں کب ہی نرگس بیمار سے غرض
    ہوں وہ سرگشتہ کہ بعد مرگ اے جوش جنوں
    لوح مرقد کے لئے سنگ فلاخن چاہیے
    --------------------------------------------------------------------
     
  24. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 131 تذکرۃ الخواتین صفحہ 131

    تیرے جانبازوں کو بس کافی ہے شمشیر نگاہ
    قتل عاشق کے لئے کیا تیغ آہن چاہیے

    گل سودا شگفتہ ہیں یہ فیض اشک باری ہے
    نسیم آہ کا جھونکا یہاں باد بہاری ہے
    نہ پوچھ اے ہم نشیں ہم سے شب فرقت کی بے تابی
    الم ہے درد و حسرت ہے فغاں ہے آہ و زاری ہے
    گرے اتنے ستارے کفش سے تیرے مہ تاباں
    روش گلزار کی ہر ایک فرش زرنگاری ہے

    قمر ۔
    تخلص۔ قمرالنساء نام۔ اشریف علی خاں مسرورؔ کی اہلیہ تھیں۔ زن و شوہر میں نہایت محبت و اخلاص تھا۔ اسی محبت و اخلاص کی وجہ سے ایک کو دوسرے کی جدائی اتنی گوارا نہ تھی کہ زندہ رہ سکے اور اسی وجہ سے تین روز کے فاصلہ سے ایک دوسرے کا انتقال ہوا۔ مجھے افسوس ہے کہ ان جملوں کے سواے سکونت وغیرہ کا کسی تذکرہ سے پتا نہ چل سکا۔ مجبوراً نقل پر اکتفا کی۔ نہ یہ معلوم ہو سکا کہ یہ شاعرہ کب اپنی سخن سنجی سے اہل ذوق کے لئے سامان ضیافت طبع بہم پہونچاتی تھی۔ بہر حال جو شعر م لے وہ درج کرتا ہوں۔

    جسے لوگ کہتے ہیں خورشید رخشاں
    ستارہ ہے اک میرے سوز نہاں کا
    مری آہ کی کارفرمائیاں ہیں
    پتہ لامکاں تک نہیں آسماں کا

    وہاں حضرت دل تم کو زیست ہو جاتی
    جو تم سے لفظ سر زلف مو بمو کہتی
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 132 تذکرۃ الخواتین صفحہ 132

    ہوئی ہوں تشنۂ جام شراب نزع کے وقت
    اٹھوں گی حشر میں ساقی سبو سبو کہتی

    کریں کہہ دو منہ بند غنچے سب اپنا
    میں لکھتی معما ہوں اس کے وہاں کا

    قمر ۔
    صرف تخلص ہی معلوم ہے۔ جناب سید حسین صاحب کی صاحبزادی ہیں۔ ایک نظم ساون کے عنوان سے نظر سے گزری نہایت اچھی نظم ہے۔ اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ بعد کو معلوم ہوا کہ آپ دیوے شریف کی رہنے والی ہیں۔

    اتھی انگڑائیاں لیتی جو گھٹا ساون کی
    چلی بل کھاتی ہوئی باد صبا ساون کی
    تیرے بیمار محبت کو سلانے کے لئے
    رات بھر لوریاں دیتی ہے ہوا ساون کی
    جھولا پھولوں کو جھالتی ہے گلستاں میں بہار
    جوش مستی سے مگر تن کے ہوا ساون کی
    ہو گئے زخم مرے دل کے ہرے آپ سے آپ
    ٹھنڈی ٹھنڈی چلی کچھ ایسی ہوا ساون کی
    میں تھا وہ تفتہ جگر قبر پہ میری اب تک
    چادر برق چڑھاتی ہے گھٹا ساون کی
    مانگ لو بھائی سے انعام سنا کر یہ غزل
    مجھ سے کہتی ہے قمرؔ اٹھ کے گھٹا ساون کی
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 133 تذکرۃ الخواتین صفحہ 133

    کاف تازی

    کافر ۔
    فرخ جمال شاید نام ہے۔ جہان آباد پیلی بھیت کی رہنے والی ہیں۔ عربی و فارسی کتابیں پڑھی ہیں۔ مسلم گرلس اسکول علی گڈھ میں بھی تعلیم پائی ہے۔ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا ہے۔ اب آپ کا شغل صرف بچیوں کو تعلیم دینا اور مطالعۂ کتب کرنا ہے۔ ایک نظم یا غزل نظر سے گزری۔ درج کرتا ہوں۔

    بدمستی شبینہ کار شباب الٹا
    جس میکدہ میں پہونچے جام شراب الٹا
    ساقی سے کر رہا ہے شکوے شباب الٹا
    کشتی مے میں کب تک جام شراب الٹا
    شرم و حیا نے اتھ کر خود آئینہ دکھایا
    بیتابیوں نے بڑھ کر طرف نقاب الٹا
    اٹھتی نہیں نگاہیں شرم اے گناہ الفت
    ہم ان سے کر رہے ہیں کافرؔ حجاب الٹا

    کامل ۔
    زمانۂ حال کی ایک تعلیم یافتہ نوجوان مسلمان سنی المذہب خاتون پردہ نشین کا تخلص ہے جس نے اپنا کلام اس تذکرہ کے لئے عنایت کرتے ہوئے اپنے نام وطن وغیرہ کے چھپانے کی خاص تاکید کر دی ہے۔ اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ نام لکھ کر یا مسکن و مولد کا پتہ دے کر ہمیشہ کے لئے ان کو اپنی طرف سے بدگمان کریں۔ شعر جو دیے گئے ہیں۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 134 تذکرۃ الخواتین صفحہ 134

    وہ حاضر ہیں۔

    کہتے جاتے ہیں مریں دل کے لگانے والے
    ہم نے دیکھے ہی نہیں ایسے ستانے والے
    پی چکے جام ترے ہاتھ سے جو اے ساقی
    حشر تک اب وہ نہیں ہوش میں آنے والے
    چاہیے تجھ کو بھی ہو لاش اٹھانے میں شریک
    دفن ہوتے ہیں ترے ناز اٹھانے والے
    دوست کا نام لیں آ کر سر بالیں دم بھر
    وقت آخر مجھے یٰسین سنانے والے
    قتل کرنے کی ضرورت ہو تو کر قتل ہمیں
    او شب و روز کے تلوار دکھانے والے
    دل دہی عاشق بسمل کی نہیں کرتے ہیں
    شب وعدہ بھی ہیں وہ روٹھ کے جانے والے
    آج جو عہد کیا کل اسے توڑیں گے ضرور
    کیسے جھوٹے ہیں یہ قرآن اٹھانے والے
    ناز سے ہم تو بتوں ہوئے تنگ اے کاملؔ
    کعبہ کی سمت ہیں اب ہند سے جانے والے

    جو کچھ کہ عہد ہے ترا پورا بھی کر اسے
    او بےوفا تجھے ترے ایمان کی قسم
    جب تک کہ دم میں دم ہے کہوں گا میں بس یہی
    دیتا ہوں تجھ پہ جان تری جان کی قسم

    کلثوم ۔
    کسی شریف خاتون کا تخلص ہے۔ جس پر نام کادھوکا ہوتا ہے مگر یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ نام کچھ اور ہے۔ ایک نظم ایک جڑے دل کی فریاد کے نام سے رسالۂ عصمت دہلی میں دیکھی جس کو نقل دیے دیتا ہوں۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 135 تذکرۃ الخواتین صفحہ 135

    اگرچہ طویل نظم ہے مگر پڑھنے سے دل میں کیفیت لطیف پیدا ہوتا ہے اور ایک جذبۂ غم کی مجسم تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ یہ خاتون خاص دہلی یا نواح دہلی کی رہنے والی معلوم ہوتی ہیں۔ زبان اور کلام کا طرز اس کا شاہد ہے۔

    کثرت سے گم کی سینہ و دل داغ داغ ہے
    یاس پسر سے اپنا پریشاں دماگ ہے
    ناکامیوں سے خانۂ دل بے چراغ ہے
    ایسے بھی ہوں گے جن کو کہ غم سے فراق ہے
    اپنی تو ہاے زیست مصیبت میں کٹتی ہے
    رنج و الم میں غم میں اذیت میں کتتی ہے

    سو سو مصیبتوں سے میں پالا بشیر تھا
    اس بد نصیب گھر کا اجالا بشیر تھا
    صورت میں خو میں سب سے نرالا بشیر تھا
    میرے چمن کا سرود و بالا بشیر تھا
    چڑھتی جوانی ہی میں قضا اس کو کھا گئی
    برچھی لگا گئی مجھے زخمی بنا گئی

    بیٹھے بٹھائے مجھ پہ تو بپتا سی پڑی گئی
    برچھی غموں کی ہائے کلیجہ میں گڑ گئی
    افسوس یک بیک مری قسمت بگڑ گئی
    کیسی ہری بھری مری کھیتی اجڑ گئی
    دکھیاری غم کی ماری نہ روئے تو کیا کرے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 136 تذکرۃ الخواتین صفحہ 136

    کثرت سے غم کی جان نہ کھوئے تو کیا کرے

    چین آئے کیوں کہ سینہ سے قلب و جگر گیا
    دیکھوں جہاں میں کیا مرا نور نظر گیا
    افسوس میرا لاڈلا اک دم میں مر گیا
    ہے ہے مٹا گیا مجھے برباد کر گیا
    ہے بے قرار دل مرا سیماب کی طرح
    تڑپوں ہوں غم سے ماہی بے آب کی طرح

    وہ دن کہاں گئے کہ وہ تھا شمع آرزو
    گھر میں اجالا ہو رہا تھا جس سے چار سو
    ہے ہے یہ کیسی چل گئی بے وقت گرم لو
    نغمہ کے بدلے باغ میں ہے شور ہاے و ہو
    افسوس جڑ سے نخل تمنا اکھڑ گیا
    دم میں ہرا بھرا مرا گلش اجڑ گیا

    آنکھوں میں میری آج سیاہ ہو گیا جہاں
    اٹھتا ہے دل سے حسرت و ارمان کا دھواں
    نکلے نہ کیونکہ دل سے مرے نالہ و فغاں
    افسوس لٹ گیا مرا بستی میں کارواں
    کچھ رحم آیا مجھ پہ نہ اے آسماں تجھے
    جل جل کے کیوں بھلانہ میں دوں گالیاں تجھے

    جب بھولی بھولی شکل کا آتھا ہے مجھ کو دھیان
    گودی میں لیٹ کر وہ سنانا کہانیاں
    وہ دھیمی دھیمی گفتگو اور توتلی زبان
    دن رات میرے دل میں چبھوتی ہیں برچھیاں
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 137 تذکرۃ الخواتین صفحہ 137

    وہ لڑکھڑا کے بھاگنا جب یاد آتا ہے
    میرے جگر پہ سانپ سا ک لوٹ جاتا ہے

    میری کمائی لوٹ لی تو نے جو اے قضا
    برباد میں ہوئی ترے کیا ہاتھ آ گیا
    مجھ دل جلی کے گھر میں فقط اک چراغ تھا
    بے درد تو نے ہائے اسے بھی بجھا دیا
    اے موت لے گئی تو کلیجہ نکال کر
    اس غم سے کیونکہ ہووے نہ ٹکڑے مرا جگر

    یہ مانا حکم حق سے تو بے اختیار ہے
    بندوں کی جان لینے میں مصروف کار ہے
    موت و حیات مرضی پروردگار ہے
    راہ گریز اور نہ جاے فرار ہے
    پر دل کے ہاتھوں تنگ ہوں صدمہ کا جوش ہے
    بے بس ہوں فرط رنج سے بے جا خروش ہے

    نظم بہت طویل ہے مگر نمونۂ کلام اس سے زیادہ بے طلف سا معلوم ہوتا ہے اس لیے اس کو یہیں پر ختم کرتا ہوں۔

    کمن (ط) ۔
    یہ بھرت پور کے بازار کی ایک بھنگیڑن تھی۔ کبھی کبھی نشہ میں شعر بھی کہہ گزرتی تھی۔ یہ شعر خوب کہا ہے ریختی کا انداز ہے۔

    آہ میں ہوتی اگر حضرت شبیر کے ساتھ
    مارتی شمر موے کو کسی تدبیر کے ساتھ
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 138 تذکرۃ الخواتین صفحہ 138

    کنیز۔
    تخلص تھا فاطمہ بیگم نام تھا۔ نصرت الدولہ بہادر لکھنؤی کی دختر کی ایک لونڈی کا ۔ جو نہایت ہی حاضر جواب قابل شوخ اور طباع تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں تحصیل علوم ضروری سے فراغت حاصل کر چکی تھی۔ کبھی کبھی شعر بھی کہتی تھی۔ مگر فلک کج رفتار کسی کے علم و کمال کو کبھی سیدھی نگاہوں سے نہیں دیکھتا۔ ابھی یہ نوجوان کنیزہ پوری بیس برس کی بھی نہ ہوئی تھی کہ پیک اجل سے دو چار ہو کر جان آفریں کو جان سپرد کرنا پڑی۔ یہ شعر اسی کے ہیں۔

    جانتے بھی ہو پری رو تم کہا کرتے ہو کیا
    مارتے ہو زندہ کرتے ہو قیامت کرتے ہو

    نقاش نے اس بت کا مرے نقش جو کھینچا
    ساعد پہ نہ پہونچا تھا کہ جو ہاتھ کو کھینچا

    وسل کی شب ہو گا کیا حاصل ہمیں جو ناز سے
    جب تلک تم بند کھولو گے سحر ہو جائے گی

    کنیز ۔
    یہ تخلص ہے اور کنیز فاطمہ نام ہے۔ سریر کابری جو زمانۂ حال کی ایک نکتہ رس سخن سنج ہیں ان کو اصلاح بھی دیتی ہیں اور تعلیم و تعلم میں وہی ان کے استاد ہیں۔ 1910 ء میں پھّرا ڈالی گنج میں رہتی تھیں اب بھی شاید وہیں ہوں۔ کچھ صحیح معلوم نہیں۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    رضواں تری جنت مجھے درکار نہیں ہے
    طیبہ کا ترے باغ میں اک خار نہیں ہے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 139 تذکرۃ الخواتین صفحہ 139

    سر پر جو ترا سایۂ دیوار نہیں ہے
    شاہا مجھے فردوس بھی درکار نہیں ہے
    کس دل میں تری حسرت دیدار نہیں ہے
    خواہاں ترا کون اے شہِ ابرار نہیں ہے
    جس رمز کو اللہ نے فرمایا نبی سے
    جبریل بھی کچھ اس سے خبردار نہیں ہے
    یا شاہ ٹھکانا ہے مرا آپ کے ہاتھوں
    پچھتائے گا جو شخص گنہگار نہیں ہے
    ہم داغ غم عشق نبی سے ہیں توانگر
    پروا نہیں رکھتے ہیں جو دینار نہیں ہے
    بے چین ہوں بلوا لو مدینہ میں خدارا
    بے تاب ہوں قابو میں دل زار نہیں ہے
    روشن ہیں چراغوں کی طرح داغ محبت
    تربت میں اندھیرا مری زنہار نہیں ہے
    اس دل کو کنیزؔ اہل وفا کہتے ہیں پتّھر
    جس دل میں ولاے شہِ ابرار نہیں ہے

    کنیز ۔
    تخلص۔ کنیز فاطمہ نام۔ چودھری نعمت اللہ صاحب ایڈوکیٹ لکھنؤ کی صاحبزادی ہیں۔ دورہ موجودہ کی ایک خوش گو شاعرہ ہیں۔ رسالوں میں غزلیں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ یہ غزل رسالۂ آئینہ اگست 1923 ء سے نقل کی جاتی ہے۔ کلام سے حسن بندش وغیرہ کا پتہ چلتا ہے۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 140 تذکرۃ الخواتین صفحہ 140

    حاصل کرے زمانہ میں اعزاز آئینہ
    بن جائے حسن والوں کا انداز آئینہ
    کہہ دے گا صاف صاف سر بزم حسن و عشق
    رکھتا ہے اپنے سینہ میں جو راز آئینہ
    پنہاں ہیں اس میں برق تجلی و شوق دید
    گویا ہے حسن و عشق کا ہم راز آئینہ
    حسن و جمال یار کا دنیاے عشق میں
    پوشیدہ رکھ سکا نہ کوئی راز آئینہ
    کہتا رہا فسانۂ ظلم و ستم کنیزؔ
    آیا نہ دھمکیوں سے کبھی باز آئینہ

    کیفی ۔
    ایک شاہزادی کا تخلص تھا جو نسل تیموریہ سے تھی۔ غدر سے پہلے وفات پائی۔ ایک خمسہ جو قدسی کی غزل پر کہا ہے ان سے یادگار ہے۔ دو ایک بند لکھتا ہوں۔
    کس کا منہ ہے جو کرے مدح تری میرے نبی
    نعت اطہر میں ہے جب شخص ذکی محض غبی
    جندا * ذات تری مایۂ حاجت طلبی
    مرحبا سیّد مکی مدنی العربی
    دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

    حق تعالیٰ نے کیا آپ کو ابرِ اکرام
    تجھ سے خندان ہے لب غنچۂ امید انام
    ہیں شجر اور حجر غرق سحاب انعام
    نخل بستان مدینہ ز تو سر سبز مدام
    زاں شدہ شہرۂ آفاق بہ شیریں لقبی
    --------------------------------------------------------------------
     
  25. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 141 تذکرۃ الخواتین صفحہ 141

    کاف فارسی

    گُل (ط) ۔
    نواب جان طوائف آرہ کی رہنے والی تھی۔ شعر کہتی تھی۔ موسیقی میں بھی کمال حاصل تھا۔ گویا کہ ایک مے دو آتشہ کر کے پلاتی تھی۔ اور ارباب ذوق کو مست بناتی تھی۔ ایک شعر نذر ناظرین ہے۔

    کیوں شب ہجر کا دھوکا نہ ہو میرے دل کو
    کھل کے زلف آئی ترے رخ پہ اگر وصل کی رات

    گلزار (ط) ۔
    عباسی جان طوائف مراد آبادی کا تخلص ہے جس کی اکثر غزلیں میری نظر سے گزری ہیں۔ زمانۂ حال کی ایک شاعرۂ عصمت فروش ہے۔ دو غزلیں اس وقت موجود ہیں وہی درج کرتا ہوں۔

    عاشق تمھارا اور تو کیا بد دعا کرے
    میرے طرح سے تم بھی ہو بے کل خدا کرے
    بے چین تو نے یار کیا مجھ کو جس طرح
    یوں ہی تجھے بھی چین نہ آئے خدا کرے
    روشن ہو عکس روئے منور سے گھر مرا
    کالا ہو منہ ترا شب ہجراں خدا کرے
    گلزارؔ یہ دعا ہے کہ گلزارِ دہر میں
    میرے بھی دل کا پھول شگفتہ خدا کرے

    میرے قلق و رنج سے اس بت کو خوشی ہے
    کس کافر بد کیش پہ آیا مرا جی ہے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 142 تذکرۃ الخواتین صفحہ 142

    رہتی ہے شب غم مرے دل میں جو کھٹک ہے
    یا مژدہ یار ہے یا پھانس چبھی ہے
    کیا تم کو خبر ہے شب غم کٹتی ہے کیونکر
    کیا تم کو ہے معلوم کہ کیا دل کی لگی ہے
    دل تم سے لگانے کا نتیجہ تھا یہی کیا
    انصاف تو کیجے نظر لطف یہی ہے
    آئے نہ مجھے نیند شب غم تو اسے کیا
    جو چین سے سوتا ہو اسے کس کی پڑی ہے
    بے یار کے گلزارؔ نہیں لطف چمن کا
    افسردہ مرا دل ہے کہ منہ بند کلی ہے

    گنّا (ط) ۔
    تخلص اور گّنا جان نام تھا۔ لکھنؤ کی ایک شاہد بازاری تھی۔ دو شعر تذکروں میں ملتے ہیں جو لکھے جاتے ہیں۔

    یقین کیجیے دولت سرا میں یار نہیں
    دل طپیدہ کو پہلو میں جو قرار نہیں
    بنایا مجھ کو زمانہ نے آخرش چو رنگ
    کیا ہے کون سا یاروں نے مجھ پہ وار نہیں

    گوہر ۔
    تخلص۔ گوہر بیگم نام۔ ایک کابلی رسالدار کی لڑکی کا تھا۔ جب سدوزئی اور بارک زائی کے قبیلے قابل سے ہندوستان چلے آئے تو یہ خاتون بھی یہیں آئی جو امرتسر اور بقول مصنف ماہ درخشاں لدھیانہ میں رہتی تھی۔ فارسی اور پستو ان کی زبان تھی مگر اردو میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔ چنانچہ ان شعروں سے پتہ چلتا ہے۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 143 تذکرۃ الخواتین صفحہ 143

    ستم کر جور کر ظلم و جفا کر
    پر اے ظالم کبھی مجھ سے ملا کر
    لجا کر شرم کھا کر مسکرا کر
    دیا بوسہ مگر کچھ منہ بنا کر
    ہمارے دل میں ہے تصویر جاناں
    جو چاہا دیکھ لی گردن جھکا کر
    مچل جائیں گے طفل اشک میرے
    نہ حاصل ہو گا کچھ مجھ کو رلا کر

    عشق کیسا بلا ہوا صاحب
    کس سے کہیے یہ ماجرا صاحب
    غیر اچھا ہی ہو گا اپنے لئے
    ہم کو کہتے ہو کیوں برا صاحب

    آپ کے جاں نثار ہم بھی ہیں
    عاشق و دل فگار ہم بھی ہیں
    مہوش و گلغدار ہم بھی ہیں
    اک بت نو بہار ہم بھی ہیں
    زاہدو ہم سے کیوں تنفر ہے
    تم بھی ہو اور یار ہم بھی ہیں
    درد کہتا ہے مجھ سے غربت میں
    تم نہ گھبراؤ یار ہم بھی ہیں

    بس اٹھ گئی رسم دل لگی کی
    روئے وہ جو بات کی ہنسی کی
    ابرو کو جو تیرے تیغ باندھا
    یہ بات تھی اک روا روی کی
    چھلنی داغوں سے دل ہے گوہرؔ
    انگیا ملی ہم کو سوزنی کی
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 144 تذکرۃ الخواتین صفحہ 144

    آئیے اے جانِ عالم آئیے
    اپنے بندہ پر کرم فرمائیے
    عید آئی اور گیا ماہِ صیام
    چاند سا منہ آج تو دکھلائیے
    سال بھر گزرا امید وصل میں
    عید کا دن ہے گلے مل جائیے
    اک گھڑی بھی بیٹھنا دو بھر ہوا
    دل کو سمجھا لیں گے اچھا جائیے
    وسل کو کہتا ہوں جب گوہرؔ سے میں
    ہنس کے کہتے ہیں کہ منہ بنوائیے

    گوہر (ط) ۔
    یہی تخلص تھا۔ اور یہی نام تھا۔ ایک طوائف لکھنی الاصل تھی جو یہاں سے گوالیار چلی گئی۔ یہ شعر اسی کے ہیں اس کو لال بی بھی کہتے تھے۔

    اے فلک اس ظلم سے بڑھ گیا تیرا عروج
    خاک میں ہم کو ملایا تجھ کو حاصل کیا ہوا
    ہے تجاہل خونِ ناحق کے چھپانے کے لئے
    اپنے بسمل سے جو خود لپٹا ہے قاتل کیا ہوا

    گوہر (ط) ۔
    پرتاب گڈھ کی رہنے والی ایک شاہد بازاری تھی۔ صحبت احباب نے شاعر بھی بنا دیا تھا۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 145 تذکرۃ الخواتین صفحہ 145

    واعظو ہم سے کیوں تنفر ہے
    صنع پروردگار ہیں ہم بھی
    آبرو کیوں نہ ہو عزیز ہمیں
    گوہرِ آبدار ہیں ہم بھی

    گوہر (ط) ۔
    تخلص۔ لعل بے بہا نام۔ لکھنؤ کی رہنے والی۔ تذکرہ نویسوں نے اس میں شبہ کیا ہے کہ خدا معلوم یہ وہی ہے جو لکھنؤ سے گوالیار میں چلی گئی یا کوئی دوسری ہے۔ بہر حال اس کے نام سے جو شعر منسوب ہیں وہ یہ ہیں۔

    تھا ابھی ذکر تمھارا کہ ابھی تم آئے
    میری تاثیر زباں کھینچ کے لے آئی ہے
    مژدہ اے شوق ہم آغوش کہ جاگے ہیں نصیب
    لے کے انگڑائی وہ کہتے ہیں کہ نیند آئی ہے
    راہ میں مل گیا بت خانہ بھلے کو زاہد
    کعبہ کو جا ہی چکا تھا ترے بہکانے سے

    گیتی آرا ۔
    یہی تخلص تھا اور یہی نام تھا۔ دہلی کی رہنے والی عصمت فروش شاہد بازاری تھی۔ جو پہاڑ گنج میں رہتی تھی۔ 1289 ھ میں زندہ تھی۔ ایک شعر اس کے نام سے مشہور ہے۔

    ہم نشیں راہ میں ہو کوئی ٹھکانہ نہ رہا
    یا ہمیں وہ نہ رہے یا وہ زمانہ نہ رہا

    (لام)

    لالن ۔
    سہارنپور میں ایک زن بازاری تھی۔ ایک شعر مل سکا۔ حاضر ہے۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 146 تذکرۃ الخواتین صفحہ 146

    جعد مشکیں میں پڑا شوخ کی واں سرخ مباف
    آ گئی عکس سے یاں سانپ کے من میں لالی

    لالہ ۔
    متھرا کی رہنے والی ایک ہندو طوائف تھی جو بھرتپور میں بھی رہی تھی۔ سنا ہے کہ قبل از غدر 1857 ء زندہ تھی۔ یہ ایک شعر اس کا ایسے شخص سے سنا جو مدتوں تک بھرتپور کی ریاست میں ملازم رہے۔ انہیں کا بیان ہے کہ اگرچہ طوائف تھی مگر تعلیم یافتہ اور قابلہ تھی۔

    داغ کھائے ہیں غم ہجر میں لالہؔ لاکھوں
    گل و گلزار کے مانند ہے اب دل میرا

    لطیف ۔
    تخلص۔ لطیف النساء بیگم نام تھا۔ پٹنہ عظیم آباد کی رہنے والی تھیں۔ اردو فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتی تھیں۔ اب ایک شعر یادگار ہے۔

    یہ طفل اشک مرے جس گھڑی مچلتے ہیں
    تو پھر ہزار سنبھالو نہیں سنبھلتے ہیں

    لطیف (ط) ۔
    اللہ جوائی نام طوائف کا تخلص تھا۔ بارہ سو نواسی میں علی گڈھ میں رہتی تھی۔ یہ شعر اسی کا ہے۔

    آنے کا اس پری کے مجھے اشتباہ ہے
    دروزہ کی طرف مری ہر دم نگاہ ہے

    ردیف میم

    ماہ ۔
    ایک صاحب عصمت باشندۂ دہلی کا تخلص ہے جو شاہ
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 147 تذکرۃ الخواتین صفحہ 147

    قطب الدین عرف کالے میاں کی مرید تھی۔ صاحب دیوان گزری ہے اب دیوان مفقود ہے۔ اور ایک شعر مستزاد کا موجود ہے۔

    ماہ کے دل میں ترا نقش محبت جو ہے یار ۔۔۔۔ نہ مٹے گا وہ کبھی
    باغ جنت بھی کوئی دیوے تو درکار نہیں ۔۔۔۔ تیرے کوچہ کے سوا

    ماہ ۔
    منجھلی بیگم ساکنۂ لکھنؤ کا تخلص ہے جس کا اور کچھ حال معلوم نہیں۔

    اگر مقابل عارض جاناں کے اک دم آئے گل
    شرم سے بلبل کو پھر ہر گز نہ منہ دکھلائے گل
    کاکل میں میرے دل کو گرفتار کر چلے
    کالی بلا سے ہاے مجھے مار کر چلے

    ماہ ۔
    تخلص۔ منجھلی بیگم نام۔ دہلی کی ایک مستورۂ بے عصمت کا ہے۔ ایک شعر جو لکھا جاتا ہے اسی کے نام سے مشہور ہے۔

    ماہ کاہیدہ ہوا جاتا ہے ابرو دیکھ کر
    دیکھ لو بن کر کے نکلا آج وہ شکل ہلال

    ماہ لقا (ط) ۔
    یہی تخلص تھا اور یہی نام تھا۔ حیدر آباد دکن کی ایک شاہد بازاری تھی۔ جو راجہ چندو لال کی سرکار میں ملازم رہ کر متمول ہو گئی تھی اور اسی صحبت نے اس کو شاعر بھی بنا دیا تھا۔

    پہلے ہی سے چّلا کے مرے دل کو ستا مت
    اے مرغ سحر چپ رہ ابھی رات پڑی ہے

    مبارک ۔
    تخلص۔ مبارک النساء بیگم نام۔ شاہ نجم الدین صغیرؔ۔ خلفِ
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 148ذکرۃ الخواتین صفحہ 148

    شاہ نصیر کی اہلیہ تھیں۔ 1880 ء تک دہلی میں رہیں اس کے بعد ہجرت کر کے مکہ معظمہ دام اللہ شرفہا میں جا رہیں۔ شاہ نصیر کی شاگرد تھیں۔ اکثر اشعار میں سوز و گداز عارفانہ ہوتا تھا۔

    مجھے کیا خوف محشر ہو مبارک دن قیامت کا
    پکڑ لوں گی میں گوشہ دامن خاتون جنت کا
    عذاب گور کی سختی الہی کیونکہ جھیلوں میں
    تھکا ہارا ہوا آیا ہوں پہلی ہی منزل کا

    محبوب ۔
    تخلص۔ سلطان جہاں بیگم نام۔ محبوب محل خطاب تھا۔ واجد علی شاہ بادشاہ اودھ کی منکوحہ تھیں۔ نہایت نیک دل ممتاز عفیفہ تھیں۔ شاعری سے ذوق طبعی رکھتی تھیں اور اپنے معاصرین میں ان کو ایک درجۂ امتیازی حاصل تھا۔ ایک غزل لکھی جاتی ہے

    اٹھا سکی نہ مصیبت فراق یار میں روح
    نکل گئی تن لاغر سے انتظار میں روح
    نہ نکلی حسرت دل ایک بھی کہ موت آئی
    ہمیشہ تڑپے گی تیرے لئے مزار میں روح
    جو آنا ہو تجھے مد نظر تو آ ظالم
    نکل نہ جائے کہیں تیرے انتظار میں روح
    نہیں ہے گور کی تنگی سے کچھ ہمیں دہشت
    رہے گی بعد فنا کے بھی کوئے یار میں روح
    ہے آرزو ترے ہاتھوں سے قتل بھی ہم ہوں
    لگی ہوئی ہے تری تیغ آبدار میں روح
    اسی کے حکم سے ہے موت زندگی محبوب
    حقیقتاً ہے مری دست گردگار میں روح
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 149 تذکرۃ الخواتین صفحہ 149

    مخفی ۔
    تخلص۔ سلطان جہاں بیگم نام۔ اہلیہ مرزا قادر بخش صابر گورگانی۔ (خلف مرزا مکرم بخت بہادر ابن مرزا خورد بہادر نبیرۂ مرزا معزالدین جہاںدار شاہ بادشاہ دہلی۔ شاگرد عبدالرحمن خاں احسان و مولوی امام بخش صہبائی) مصنف تذکرۂ گلستان سخن۔ یہ شعر ان سے یاد گار ہیں۔

    لنڈھائی مے کہ پئیں خفتگاں خاک شراب
    قسم خدا کی عسس کو بڑا ثواب ہوا
    خدا جانے کیا بات ہے اس میں مخفیؔ
    کہ اس ظلم پر جی کو بھاتا بہت ہے

    مخمور (ط) ۔
    تخلص حسینی جان نام۔ حسینی بائی عرف عام۔ بنارس محلہ دال منڈی کی ایک مشہور طوائف تھی۔ شعر کہتی تھی اور خوب کہتی تھی۔ ملاحظہ فرمائیے۔

    کہا یہ دے کے جنازے کو یار نے کاندھا
    سفر ہے دور کا یارو قدم بڑھائے ہوئے
    قرار و صبر و حواس و دل جگر چھوٹے
    تمھارے عشق میں اپنے جو تھے پرائے ہوئے
    شہید ہم ہیں ہمیں احتیاجِ غسل نہیں
    کسی کی تیغ کے پانی سے ہیں نہائے ہوئے

    اگر خدا کے نہ قہر و غضب کا خوف آئے
    بتوں کے عشق میں یہ مشت خاک کیا نہ کرے

    مُزیب (ط) ۔
    زیبن جان نام تھا۔ لکھنؤ کی ایک طوائف تھی۔ یوسف خاں یوسف ولد رحمت خان غوری باشندۂ لکھنؤ کی شاگرد تھی۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 150تذکرۃ الخواتین صفحہ 150

    خوب شعر کہتی تھی۔ نمونۂ کلام کے لئے ایک شعر لکھا جاتا ہے۔

    ہو گئی ہے شام اب تو تیرے کوچہ کے قریب
    شب کی شب رہنے دے او ظالم ذرا منزل کے پاس

    مستور ۔
    تخلص تھا۔ مستور بیگم نام تھا۔ لکھنؤ کی رہنے والی خوش حال رئیسہ اور صاحب لیاقت خاتون تھیں۔ یہ شعر انہیں کا ہے۔

    خزاںمیں بھی نہ کسی سال کم ہوئی وحشت
    رہا ہے اپنا گریبان بے رفو برسوں

    مشتری (ط) ۔
    لکھنؤ کی ایک نہایت مشہور و معروف شاعرہ شاہد بازاری تھی۔ جس کا نام قمرن جان منجھو عرف تھا۔ اصل وطن خیر آباد ضلع سیتا پور تھا۔ مگر آب و دانہ لکھنؤ لے آیا تھا۔ چوک لکھنؤ میں رہتی تھی۔ موسیقی میں اس کو کمال تھا۔ خوش نویس بھی نہایت اچھی تھی۔ شعر بھی کہتی تھی اور خوب کہتی تھی۔ اردو ۔ فارسی دونوں زبانیں جانتی تھی۔ آغا شمس علی کی شاگرد تھی۔ مولوی عبدالغفور صاحب نساخ جب لکھنؤ آئے تو اس سے ملنے کے لئے بھی گئے تھے۔ اس کے شعر اب بھی لوگوں کو بہت سے یاد ہیں۔ اگرچہ یہ صاحب دیوان تھی مگر مجھے صرف یہی شعر ملے جو لکھتا ہوں۔

    ناحق ہیں ناز حسن سے یہ بے نیازیاں
    بندہ نواز آپ کسی سے خدا نہیں
    --------------------------------------------------------------------
     
  26. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 18 تذکرۃ الخواتین صفحہ 16
    اور یہی نام ہے اور یہ اس کا نمونہ کلام ہے
    گر مجھ کو سر کا کل خمدار نہ ہوتا
    تو یوں میں بلاؤں میں گرفتار نہ ہوتا
    امراؤ { ط } دہلی میں ایک طوائف امیر جان تھی جو نہایت مشہور تھی علی بخش والی کے نام سے معروف تھی امراؤ اس کی لڑکی کا نام تھا جو نہایت حسین و خوبصورت تھی ۔ اہل تذکرہ نے اس کا ایک شعر نقل کیا ہے ۔ جو واقعات اور حالات حاضرہ کا ایک عمدہ ثبوت اور شاہد عادل ہے ۔
    آئے امراؤ دن ترے اچھے
    دن بدن مفلسی جو گھٹتی ہے
    تعجب ہے کہ اس میں مفلسی کے گھٹنے کو اچھے دنوں سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حالانکہ ضرورت تھی کہ امیر جان کی طرح امیر ہوجانا چاہیے تھا ۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا جو بیساختہ سپرد قلم کرتا ہوں ۔
    لطیفہ ایک حسینہ دوشیزہ عصمت فروش لڑکی کو کسی دل چلے نے ایک روپیہ نذر کردیا ۔ اس نے اس نیاز عاشقی کی نذر و نیاز کو قبول تو ضرور کرلیا مگر اس خیال سے کہ اس کا چھپانا ذرا دشوار ہوگا
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 19 تذکرۃ الخواتین صفحہ 17
    آکر اپنی ماں کو دے دیا ۔ ماں ایک گرگ باراں دیدہ ۔ گہے عاشق گہے معشوق بودہ ۔ تجربہ کار ۔ سرد و گرم چشیدہ ۔ بلند و پست کا لطف اٹھائے ہوئے تھی ۔ سمجھ گئی اور پوچھا تیرے پاس یہ روپیہ کہاں سے آیا ۔ لڑکی نے جھیپتی ہوئی ۔ شرمیلی ۔ سخن گو نگاہوں کو جھکائے ہوئے جواب دیا کہ ابھی ابھی جو بازار میں فلاں کام کے لئے گئی تھی تو یہ روپیہ راستہ میں پڑا ہوا ملا ۔ ماں تو اس کی ماں تھی ۔ تبسم زیر لبی کے ساتھ کہنے لگی واہ بیٹی ایک ہی روپیہ ملا ۔ اس عمر میں تو کبھی کبھی ہمیں پانچ پانچ روپیہ ایک ساتھ پڑے ہوئے ملتے تھے ۔ ایسے ہی میں کہتا ہوں کہ عالم شباب میں اگر عصمت فروشی کی مفلسی گھٹی تو کیا گھٹی اس کو تو مالدار ہوجانا چاہیے تھا ۔
    امیر { ط } اسی مجموعہ ناز و خوبی جس کا ابھی ابھی ذکر ہوا ۔ { یعنی امراؤ جان } کی ماں کا نام ہے جو علی بخش والی کے نام سے مشہور ڈیرہ دار تھی ایک شعر درج تذکرہ ہے جو میں بھی لکھتا ہوں ۔ جذبات نسوانی کا صحیح فوٹو اور نقشہ ہے ۔
    غصہ سے چہرا میرا گل نار ہوگیا
    بس بار مجھ پہ طعنہ اغیار ہوگیا
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 20 تذکرۃ الخواتین صفحہ 18
    مصنف تذکرہ چمن انداز کو ان کے دوست میر عباس تاجر کتب دہلی نے سنایا تھا اور مجھے اس تذکرہ سے ملا ۔
    امیر { ط } لکھنو کی ایک مجموعہ ناز و انداز طوائف تھی ۔ جو بارہ سو ستر اور اسی کے درمیان زندہ تھی نہایت ذہین اور طباع تھی اشعار میں انتہائی سوز و گداز ہے ۔ اگر وہ اپنے دعوائے تصنیف میں سچی تھی تو یقینی بہترین کہنے والیوں میں اس کا شمار کیا جاسکتا ہے جو مطلع لکھا جاتا ہے اس کی آمد اس کے جذبات کی تعریف محال ہے ۔
    جدھر کے دیکھنے سے جان زار جاتی ہے
    اسی طرف کو نظر بار بار جاتی ہے
    یہ بغض تھا کہ نہ چھوڑا تمھارے کوچہ میں
    صبا لئے میرا مشت غبار جاتی ہے
    یہ محو دید رخ گل ہے بلبل شیدا
    نہیں خبر کہ چمن سے بہار جاتی ہے
    مولوی عبدالغفور صاحب نساخ مصنف تذکرہ سخن شعرا بھی اس سے ایک مرتبہ ملے تھے ۔ تذکرہ میں اس سے ملاقات کا ذکر کیا ہے ۔
    بائے تازی
    بستی { ط } اکبر آباد یعنی اگرہ کی رہنے والی تھی بارہ سو ترانوے 1293
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 151 تذکرۃ الخواتین صفحہ 151

    قاتل کے ہاتھ پاؤں سے سرخی نہ جائے گی
    خون شہید ناز ہے رنگ حنا نہیں
    پالا پڑا ہے کس بت بدخو سے اے خدا
    اپنے سوا کسی کو جو پہچانتا نہیں
    اس وقت آپ میری عیادت کو آئے ہیں
    جب سن چکے گلے سے اترتی دوا نہیں
    ناکسوں سے ربط و بدوضعوں سے صحبت واہ واہ
    دیکھ لی حضرت سلامت میرزائی آپ نے
    شیخی کی لیا کریں فرشتے
    جانے کی وہاں مجال بھی ہے
    غفلت میں ہم ان کو دیکھتے ہیں
    ہے خواب بھی کچھ خیال بھی ہو
    باتیں تو وہ کرتے ہیں خوشی کی
    چہرے سے عیاں ملال بھی ہو
    ہیں آپس میں وہم و گماں کیسے
    یہاں کیسے کیسے وہاں کیسے کیسے
    سہے ہم نے جور بتاں کیسے کیسے
    اٹھائے ہیں کوہِ گراں کیسے کیسے
    دل میں سمجھا چشم کا بیمار ہے
    جس نے میری ناتوانی دیکھ لی
    تیری نظروں میں ہے یکساں نیک و بد
    اے مبصر قدر دانی دیکھ لی
    بے مروت کر دیا اس ماہ کو
    آسماں کی مہربانی دیکھ لی
    جیتے رہتے بھی تو مشکل تھی رہائی ہم کو
    سستے چھوٹے جو ترے ہاتھ سے مر کر چھوٹے
    اس سے تو وصل کے ارمان میں مرنا بہتر
    یا الہی نہ کسی سے کوئی مل کر چھوٹے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 152 تذکرۃ الخواتین صفحہ 152

    مار ڈالا مجھے اے مشتریؔ اس زینت نے
    زلیفں چھوٹیں کہ مرے واسطے اژدڑ چھوٹے

    دم اخیر جو بسمل کی طرح دم پھڑکا
    قضا کے بھیس میں آیا وہ فتنہ خو تو نہیں
    کافی ہے رگ جاں کے لئے نشتر مژگاں
    عاشق کو ترے حاجت فصّاد نہیں ہے
    شاید کسی محرور کا ہے آبلۂ دل
    یہ گنبد چرخ ستم ایجاد نہیں ہے

    مطلوب ۔
    موسوم بہ فضل النساء بیگم۔ ایک مستورۂ عفیفہ تھی جو کوہ شملہ کی رہنے والی تھیں اور باوجود مرکز زبان سے دور ہونے کے بھی شعر کہتی تھی۔ شعر یہ ہیں۔

    کیوں نمک پاش نہ ہو زخم جگر پر ہر دم
    مسکرانا ترا اے رشک قمر وصل کی رات
    اللہ اللہ ری مدہوشی جام الفت
    جان و تن کی نہ رہی کچھ بھی خبر وصل کی رات
    پاؤں میں وحشی کے ہے زلف جنوں کا حلقہ
    آنکھ دکھلاتا ہے پھر حلقۂ زنجیر عبث
    نظر لطف سے ان کو بھی کبھی دیکھا کر
    کیا گزرتی ہے تری چشم کے بیماروں پر

    معشوق ۔
    بی صالحہ یہودن۔ ساکنۂ کلکتہ کا تخلص تھا۔ جو بی سیرہ متخلص بہ پری کی چھوٹی بہن تھی۔ یہ شعر یادگار ہیں۔

    ہجر میں پہلو کو خالی دیکھ کر حیران ہے
    پوچھتا ہے جان سے میرا جگر دل کیا ہوا
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 153 تذکرۃ الخواتین صفحہ 153

    جو کھنچے تم سے کرو تم اس سے جانانہ مزاج
    ہم فقیروں سے کہہیں زیبا ہے شاہانہ مزاج
    دولت حسن خداداد اور یہ بخل اچھا نہیں
    اے حسینوں چاہیے تم کو کریمانہ مزاج
    یا ہمیں تھے راز جس پر کوئی پوشیدہ نہ تھا
    یا ہمیں سے اب نہیں ملتا ہے جانانہ مزاج
    حضرت ناصح سے سیدھی بات بھی کرتا نہیں
    اے پری کرتا ہے کتنا تیرا دیوانہ مزاج
    پڑ گیا پرتو مگر زلف سیاہ یار کا
    بل کی لیتی ہے مگر کرتا ہے اب شانہ مزاج
    ہو جوان نام خدا اٹکھیلیوں کے دن نہیں
    سوچیے کچھ تو صنم تا کے یہ طفلانہ مزاج
    کر دیا معشوقؔ کو سودائی اک معشوق نے
    ہو گیا عشاق کے مانند دیوانہ مزاج

    نام سنتے ہیں نہیں دیکھی مگر وسل کی رات
    ہو گئی کیا گرہ موے کمر وصل کی رات
    شام ہی کو اسے جاتے ہوے میں نے دیکھا
    سنتے تھے پچھلے کو کرتی ہے سفر وصل کی رات

    معشوق ۔
    تخلص۔ حیدر خانم نام تھا۔ فیض آباد کی رہنے والی تھیں۔ شعر بہت کہتی تھیں مگر اب ایک ہی شعر موجود ہے جو درج تذکرہ کیا جاتا ہے۔

    پان کھا کر جو کہیں تھوک دیا اس گُل نے
    رشک یاقوت بنے باغ کے کنکر پتھر

    مغل (ط) ۔
    بیبا جان مشہور بہ مغل جان بنت امیر بیگم کا تخلص تھا۔ دہلی املی والی پہاڑی کے محلہ میں رہتی تھی۔ مگر گلاب سنگھ کشمیری دہلوی کےنطفہ سے
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 154 تذکرۃ الخواتین صفحہ 154

    پیدا ہوئی تھی۔ گانے بجانے میں مہارت تامہ رکھتی تھی۔ شعر بھی کہتی تھی۔ جب جوانی کا عہد ختم ہو گیا تو منہیات سے توبہ کر لی تھی۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    نعش خون آلودہ میری کیوں نہیں کی پائمال
    پاؤں لگنے کو ترے کیا یہ حنا تھی میں نہ تھا
    جب کہ اس قاتل نے قتل عام پر باندھی کمر
    واے ناکامی کہ واں خلق خدا تھی میں نہ تھا
    زلف کے بوسہ پہ ناحق مجھ سے برہم ہو گئے
    یہ دل سودائی کی پیارے خطا تھی میں نہ تھا
    شاخ گل گلشن میں اس پر اس طرح دوڑاے ہاتھ
    اے مغلؔ کیا کیجیے اس گل کا ساتھی میں نہ تھا

    بے وفائی نہ کر خدا سے ڈر
    خود نمائی نہ کر خدا سے ڈر
    بحر الفت کی انتہا ہے کہاں
    آشنائی نہ کر خدا سے ڈر
    بے وفاؤں سے کیا وفا ہو گی
    آشنائی نہ کر خدا سے ڈر
    ظاہری زہد کو بھی دیکھ لیا
    پارسائی نہ کر خدا سے ڈر
    کیوں جلاتا ہے اور مارتا ہے
    بت خدائی نہ کر خدا سے ڈر
    دست نازک کا کچھ خیال تو رکھ
    یوں کلائی نہ کر خدا سے ڈر
    سوزن ظلم سے تو خیّاطن
    یوں سلائی نہ کر خدا سے ڈر
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 155 تذکرۃ الخواتین صفحہ 155

    وہ برا ہے تو اس کو ہونے دے
    تو برائی نہ کر خدا سے ڈر
    منتوں سے منا رہا ہے وہ
    اب ڈھٹائی نہ کر خدا سے ڈر
    ہے مغلؔ رات دن ترے قرباں
    اب جدائی نہ کر خدا سے ڈر

    حال دل کا جو کچھ کروں اظہار
    واجب الرحم سمجھے وہ دلدار
    لیک ہے مہر خامشی لب پر
    چپکا بیٹھا ہوں مثل نقش جدار
    ہے توقع یہ اپنے نالوں سے
    جلد ہوں سینہ عدو سے پار
    دیکھیے کب خدا ملاتا ہے
    یار سے یار کو دوبارہ یار
    رات دن اے مغلؔ تصور میں
    مثل بلبل رہوں ہوں زار نزار

    ملکہ ۔
    تخلص تھا۔رانی نام تھا۔ بلاکیر صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس شہر کلکتہ کی لڑکی تھیں۔ نہایت حسین خوش رو تھیں۔ ولایت ہی میں پیدا ہوئیں لیکن شاید تربیت اور تعلیم ہندوستانی تھی۔ موسیقی میں بھی اچھا خاصہ ملکہ تھا۔ شتار عمدہ بجاتی تھیں۔ کلکتہ ہی میں قیام تھا۔ کبھی کبھی شعر کہتی تھیں اور اپنا کلام مولوی عبدالغور صاحب نساخ مؤلف تذکرۂ شخن شعرا کو دکھاتی ھیں۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 156 تذکرۃ الخواتین صفحہ 156

    خدا معلوم مولوی صاحب کی صحبت نے اثر کیا یا کیا اسباب پیش آئے کہ آخر کار دین مسیحی کو چھوڑ کر مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔ آج یہ شعر ان سے یادگار ہیں۔

    ہو گئی نیند بھی ہمسایہ کی تا صبح حرام
    میں نے نالہ جو کسی رات سر شام کیا
    آہ و زاری نہیں سنتا بخدا راتوں کو
    اس صنم کو ملکہؔ ہی نے مگر رام کیا

    ہجر میں دل کو بے قراری ہے
    جوش فریاد آہ و زاری ہے
    آنکھیں پتھرا کے ہو گئی ہیں سفید
    کسی بت کی جو انتظاری ہے

    منّور ۔
    منور جان نام۔ کرنال کی ایک مشہور طوائف تھی۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔

    تم سنو یا مت سنو اے جان من
    پر دعا ہر صبح دے جاتے ہیں ہم

    مہر (ط) ۔
    تخلص۔ جنیا جان نام۔ کالی عرف تھا۔ کرنال کی رہنے والی تھی۔ غدر تک زندہ رہی۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    بوقت نزع بالیں پر مری آئے تو کیا آئے
    دم آخر جو تم کو ایک دم دیکھا تو کیا دیکھا

    یوں چمکتا داغ ہجراں مہر کے سینے میں ہے
    جس طرح فانوس میں ہو زیر پیراہن چراغ

    ہم کو سینہ سے لگانا چاہیے
    غیر کی چھاتی جلانا چاہیے

    مہتاط (ط) ۔
    اسی نام کی ایک رقاصہ بریلی کی رہنے والی تھی۔ ایک شعر
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 157 تذکرۃ الخواتین صفحہ 157

    تذکرۂ ماہ درخشاں سے نقل کیا جاتا ہے۔

    دل اٹھاتا ہے مرا جور و جفا کیا کیا کچھ
    آہ کرتا ہے وہ عیار دغا کیا کیا کچھ

    مہک (ط) ۔
    تخلص۔ بگن جان طوائف۔ خوش مزاج۔ خوش خو۔ شاگرد امداد حسین رضا لکھنوی۔

    ہم نے ان سے جو گلا درد جدائی کا کیا
    رو دیے تھام کے ہاتھوں سے جگر وصل کی رات
    قتل منظور اگر ہے تو چڑھاؤ ابرو
    ہم تو مدت سے گلے ملتے ہیں تلواروں پر
    بس رہی ہے کیا کسی کی زلف میں
    آج کچھ مہتی ہوئی آتی ہے روح
    کون سوتا ہے گلے لپٹا ہوا
    ناز کرتا دل ہے اٹھلاتی ہے روح

    (نون)

    ناز ۔
    ایک شہزادی کا تخلص تھا جن کا نام عالم آرا بیگم تھا۔ خاندان تیموریہ سے تھیں۔ غدر سے پہلے ایام شباب تھے۔ اسی وقت جوش میں شعر بھی فرماتی تھیں۔ اگرچہ زندہ بہت زمانہ تک رہیں مگر آخر آخر میں شاعری ترک کر دی تھی۔ یہ شعر ہیں۔

    شور ہے اس کی بے وفائی کا
    بس نہیں چلتا واں رسائی کا
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 158 تذکرۃ الخواتین صفحہ 158

    کر غلامی علی کی تو اے نازؔ
    ہے اگر شوق بادشاہی کا
    مجھ سے روٹھا وہ یار جانی ہے
    جان جانے کی یہ نشانی ہے

    ناز ۔
    شفیق بیگم نام ہے۔ زمانۂ حال کی خوش گو شاعرہ ہیں۔ شعر سے نہایت نزاک خیال کا پتا چلتا ہے۔ زیادہ حال معلوم نہیں۔ ایک غزل دستیاب ہوئی ہے۔ وہی درج ہے۔

    نقاب عارض روشن ہٹا کر مسکرا دینا
    ہمارے خرمن دل پر ذرا بجلی گرا دینا
    خرام ناز سے تربت پہ اک ٹھوکر لگا دینا
    مری سوتی ہوئی تقدیر کو آ کر جگا دینا
    لگی ہے آگ سینہ میں پھنکا جاتا ہے دل میرا
    ذرا اے شچم تر بڑھتے ہوئے شعلے بجھا دینا
    نہیں ہے رونے والا کوئی بھی بے کس کی میت پر
    تمہیں آکر ذرا اشکوں کے دو قطرے گرا دینا
    تمہارے کشتۂ الفت کی بس اتنی وصیت ہے
    کہ بعد مرگ ہاتھوں سے مری میت اٹھا دینا
    حوادث سے زمانہ کے نہ گھبرانا کبھی اے نازؔ
    خدا کے ہاتھ ہے بگڑی ہوئی قسمت بنا دینا

    ناز (ط) ۔
    تخلص۔ شاہد بازاری کا تھا۔ جو آرہ میں رہتی تھی۔ خواجہ فخر الدین حسین متخلص بہ سخن تلمیز مرزا غالب مصنف سروش سخن وغیرہ کی شاگرد تھی۔ جو غدر کے بعد تک زندہ رہی۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 159 تذکرۃ الخواتین صفحہ 159

    امید زیست کیا نفس واپسیں ہے اب
    پھر جذب دل دکھائے گا اپنا کمال کب

    فرقت تیغ نگاہِ یار میں
    نیم جاں کی طرح تڑپاتی ہے روح

    ناز (ط) ۔
    تخلص۔ بندی جان طوائف عظیم آبادی کا تھا۔ جو علم انگریزی و فارسی میں اچھی خاصی قابلیت رکھتی تھی۔ کشیدہ کا کام بھی خوب اچھی طرح جانتی تھی۔ حکیم آغا حسین ازل کی شاگرد تھی۔ 1289 ھ تک زندہ تھی۔ اب کا حال معلوم نہیں۔

    شب وصل کرتے ہو عاشق سے حجت
    نکالا ہے تم نے یہ جھگڑا کہاں کا
    ارے آسماں میرے نالوں سے ڈر تو
    ارادہ یہ رکھتے ہیں اب لامکاں کا
    چھٹا ہوں میں یاروں سے بھولا ہوں منزل
    نشاں دے مجھے اب کوئی کارواں کا
    وہ خنجر یہ سر دونوں حاضر ہیں اس دم
    ارادہ ہو دل میں اگر امتحاں کا

    ناز (ط) ۔
    تخلص ۔ بندی جان نام۔ آرہ کی ایک حسین طوائف تھی۔ یہ دو شعر اسی کے ہیں۔

    کچھ تو بولو منو اے رشک قمر وصل کی رات
    پھر خدا جانے کب آوے مرے گھر وصل کی رات
    منہ سے بولو تو سہی کاہے کی گھبراہٹ ہے
    بات کی بات میں ہوتی ہے سحر وصل کی رات

    ناز (ط) ۔
    تخلص ۔ اچھی بی نام۔ لکھنؤ کی ایک عصمت فروش شاہد بازاری کا تھا۔
    --------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 160 تذکرۃ الخواتین صفحہ 160

    جو مرزا فدا حسین فضا سے اصلاح لیتی تھی۔

    دل جل گیا اگر حرارت داغ فراق سے
    اس آفتاب حشر کا ہو گا زوال کب

    ناز (ط) ۔
    امراؤ جان طوائف سندیلہ ہردوئی کی رہنے والی تھی۔ پھر خیر آباد میں چلی آئی تھی۔ نہایت طبیعت دار تھی۔ حالانکہ زیادہ استعداد علمی نہ تھی۔ مگر خوب شعر کہتی تھی۔ چند شعر حاضر ہیں۔

    قید میں پڑ گئی کڑی کس پر
    درد تھا نالۂ سلاسل میں
    کاش چھڑواے مجھ سے کوئی اسے
    شب ہجراں پڑی ہے مشکل میں
    لوٹتی پھرتی تھی قضا ہمراہ
    کیا ادا تھی تمھارے بسمل میں
    مانا نکلے نہ آرزو نہ سہی
    آرزو بن کے آئیں تو دل میں

    بڑھائیں بات کسی کو گلے سے مطلب کیا
    عدو سے بحث ہے کچھ مجھ سے گفتگو تو نہیں
    کچھ تبسم سا لب ناز پہ نیچی نظریں
    کن اداؤں سے شب وصل وہ شرماتے ہیں
    جی بھر آیا بس ایک آہ کے ساتھ
    جوش حسرت اٹھا نگاہ کے ساتھ
    دل کو بے درد چھیل کر نکل
    ٹکڑے ٹکڑے کچھ آہ کے ساتھ
    دیکھتے آنکھ سے کیوں خون تمنا ہوتے
    بات بنتی جو ہم ان کے لب گویا ہوتے
    چھیڑتا ہے کسی کا ناوکِ ناز
    گدگدی سی جگر میں اٹھتی ہے
    --------------------------------------------------------------------
     
  30. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 21 تذکرۃ الخواتین صفحہ 19
    میں زندہ تھی ایک شعر ملا ہے خوب بلکہ بہت خوب کہا ہے ۔
    بستی ضرور چاہیے اسباب ظاہری
    دنیا کے لوگ دیکھنے والے ہوا کے ہیں
    بسم اللہ تخلص تھا ، نام بسم اللہ بیگم ۔ دہلی کی رہنے والی تھیں ان کی والدہ ولایت زہ تھیں مگر یہ دلی میں پیدا ہوئیں ابتدائے سن شور سے شعر گوئی کا شوق تھا اور منشی انعام اللہ خان یقین شاگر مرزا جان جاناں مظہر کی شاگرد تھیں منشی انعام اللہ خان یقین حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں تھے اسلاف سرہند کے رہنے والے تھے مگر ان کا مولد و مسکن دہلی ہی تھا ۔ احمد شاہ بادشاہ کے عہد میں ان پر زنا کی تہمت لگائی گئی اور اپنے والد ماجد کے ہاتھ سے بیگناہ قتل ہوکر شہید ہوئے ۔ ان کی طبعیت میں حد درجہ کا سوز و گداز تھا ۔ کلام میں درد و اثر اسقدر تھا کہ دیکھنے والا اب بھی آہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ صاحب دیوان تھے ۔ اب دیوان نایاب ہے لہاذا ہم مناسب موقع سمجھ کر یقین مرحوم کا بھی تھوڑا سا کلام یہاں درج کرینگے ۔ پہلے بسم اللہ کے کلام سے بسم اللہ کرتے ہیں ۔
    تری الفت میں یہ حاصل ہوا ہے
    گہے مضطر ہے دل گاہے طپاں ہے
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں