1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تاریخ اسلام کا درخشندہ ستارہ ۔غازی علم دین شہید

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد ایاز افضل عباسی, ‏31 اکتوبر 2015۔

  1. محمد ایاز افضل عباسی
    آف لائن

    محمد ایاز افضل عباسی ممبر

    شمولیت:
    ‏14 ستمبر 2015
    پیغامات:
    59
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    ملک کا جھنڈا:
    غازی علم دین شہید 3 دسمبر 1908ء بمطابق 8 ذیقعد 1366ھ کو لاہور کے ایک علاقے کوچہ چابک سواراں (موجودہ نام محلہ سرفروشاں) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام طالع مند تھا جو کہ نجار یعنی لکڑی کے کاریگر تھے۔ غازی علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کی تکیہ سادھواں کی مسجد اوربازار نوہریاں اندرون اکبری دروازہ بابا کالو کے مدرسہ میں حاصل کی۔ تعلیم سے فرا‏غت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو اختیار کیا اور اس فن میں اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی.1928ء میں آپ کوہاٹ منتفل ہوگئے اور بنوں بازار میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا۔
    پس منظر

    لاہور کے ایک ناشر راج پال نے بدنام زمانہ کتاب شائع کی۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوگیا. مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سےاس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا۔ انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہوکر مسلمانوں نے متعدد جلسے جلوس منعقد کئے۔ مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا۔ مسلمانوں میں یہ احساس جاگزیں ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور یہ کہ اس ملعون کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔
    ردعمل
    لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا۔ ‎غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی. افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی. راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔ راج پال کچھ عرصے کے لئے لاہور چھوڑ کر کاشی، ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیا۔ غازی علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارہ نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے آپ نے اس کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کرلیا .آپ نے 29 اپریل 1929ء کو راج پال کی دکان کا رخ کیا۔ اس وقت یہ ملعون اپنی دکان پر ہی موجود تھا۔ آپ نے اس کو للکارتے ہوئے کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور اس دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ کے لئے ان حرکات سے باز رہو" راج پال نے اس کو گیدڑ بھپکی سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ اس پر آپ نے ایک ہی بھرپور وار میں اس بدبخت کا کام تمام کر دیا۔ اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کرلیا. آپ اس واقعہ کے بعد نا صرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی. آپ نے اس کاروائی کا اعتراف کیا اور گرفتاری پیش کردی۔ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جس نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے صفائی کا موقع دیئے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا۔ آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنہوں نے آپ کے حق میں دلائل دیئے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22 مئی 1929ء کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لئے شہرہ آفاق وکیل محمد علی جناح کو نامزد کیا جائے۔ چنانچہ محمد علی جناح بمبئی سے لاہور تشریف لائے ان کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی. 15 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ کے دو جج نے فیصلہ سناتے ہوئے سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ اور غازی کی اپیل خارج کردی۔ اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی کو ملی تو آپ مسکرا کر فرمایا " شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا موجب ہزار ابدی سکون و راحت ہے" مسلمان عمائدین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریوی کونسل میں اپیل دائر کی۔ اس اپیل کا مسودہ محمد علی جناح (جو بعد میں قائد اعظم کہلائے) کی زیر نگرانی تیار کیا گیا۔ مگر انگریز حکومت جو ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک مسلم دشمنی کا مسلسل مظاہرہ کرتی آئی تھی نے اس اپیل کو بھی رد کردیا۔
    وصیت
    غازی کی اپنے رشتہ داروں کوجو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔ " میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے‘ بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰة برابر ادا کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں".
    شہادت
    31 اکتوبر 1929ء بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں آپ کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. محمد ایاز افضل عباسی
    آف لائن

    محمد ایاز افضل عباسی ممبر

    شمولیت:
    ‏14 ستمبر 2015
    پیغامات:
    59
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    ملک کا جھنڈا:
    جسد خاکی کی ضبطگی
    آپ کی شہادت کے بعد انگریز حکومت نے آپ کے جسد خاکی کو قبضے میں رکھا اور کسی نامعلوم مقام پر سپرد خاک کردیا جس پر شدید احتجاجی لہر اٹھی۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد (جن میں علامہ اقبال، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع، میاں امیر الدین، مولانا غلام محی الدین قصوری شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی۔ 13 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کیا۔ موقع پر موجود لوگوں کا بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جسد خاکی میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا اور جسدِ مبارک بالکل صحیح وسالم تھا۔ چہرے پر غسل کے پانی کے قطرے ایسے چمک رھے تھے جیسے ابھی غازی نے وُضوء کیا ھو اور چہرے پر جلال و جمال کا حسین امتزاج تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کیوں کہ شہید زندہ ہوتے ہیں یہ اللہ تعٰالی نے قُرآن میں بھی ارشاد فرمایا ہے۔ محکمہ ریلوے نے یہ جسد خاکی 15 نومبر 1929ء کو لاہور چھاؤنی میں دو مسلم رہنماؤں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا۔
    جنازہ
    شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہلاتا ہے جس میں تقریبا چھ لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی. جنازہ کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔ مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ نے فرمایا " یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا "۔ لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کئے کہ میت ان میں چھپ گئی۔
    آخری آرام گاہ
    لاہور میں بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ مزار کے چہار اطراف برآمدہ ہے، مزار بغیر چھت کے ہے، مزار کے مشرق میں ‏غازی کے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرامگاہیں موجود ہیں۔ لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئي اشعار کندہ ہیں
     
    نعیم، پاکستانی55 اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ
    جزاک اللہ خیر
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔ اللہ پاک ہم سب کو ناموسِ رسالت صل اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی توفیق و جذبہ دے۔ آمین
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بعض کتب میں یہ بھی درج ہے کہ غازی علم دین شہید کے کیس کی پیروی کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے غازی سے کہا کہ عدالت میں صرف اتنا کہہ دو کہ یہ قتل تم نے نہیں کیا۔ آگے تمھیں بچانا میرا کام ہے۔ جس پر غازی نے مسکرا کر جواب دیا " جناب ! میں آپکو بتا نہیں سکتا کہ جس دن سے اسے قتل کیا ہے مجھ پر ہر رات اللہ و رسول صل اللہ علیہ وسلم کی رحمت و عنایت رہتی ہے۔ مجھے ہر روز رات جنتوں میں میرا مقام دکھایا جاتا ہے۔ میں بس پھانسی کا انتظار کررہا ہوں "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    سوال یہ ہے کہ اگر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کا کیس بھی ایسا ہی ہے تو درجنوں نامور مولانا حضرات اور خود ممتاز قادری صاحب بھی رہائی اور جان بچانے کی سرتوڑ کوششوں میں کیوں مصروف ہیں ؟
    ہنسی خوشی پھانسی قبول کرکے "امر" کیوں نہیں ہوجاتے ؟ اور سڑکوں اور مسجدوں میں شور مچانے والے فتویٰ باز مولانا حضرات بھی عدالت میں اپنی جان بھی پیش کیوں نہیں کردیتے ؟
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میرا سوال ابھی بھی قائم ہے کہ ممتاز قادری کے حق میں دلائل دینے اور تقریریں کرنے والے "عاشقانِ رسول:drood: اور ماہرینِ قانون" سیدھے سپریم کورٹ کیوں نہیں جاتے اور جا کر وہاں بیان دیں کہ
    " ممتاز قادری نہ عالمِ دین ہے نہ ماہرِ قانون ہے بلکہ ہم ماہرِ قانون اور ہم مفتی ہیں۔ ہم دین بھی جانتے ہیں اور ہم آئینِ پاکستان بھی جانتے ہیں۔ ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ سلمان تاثیر واجب القتل تھا اور ہمی نے فتویٰ دیا تھا کہ سلمان تاثیر واجب القتل ہے اور یوں اسکو سرِعام بنا عدالت میں مقدمہ چلائے اسکو قتل کردینا بالکل دینی و قانونی فعل ہے۔ اور ممتاز قادری نے صرف ہمارے کہنے پر جس طرح سرِعام سلمان تاثیر کو قتل کیا وہ بالکل جائز ہے لہذا ممتاز قادری کو بےگناہ قرار دیا جائے اور اگر مقدمہ چلانا ہی ہے تو پہلے ہم پر قانونی دفعہ لگائی جائے "
    پتہ چل جائے گا ساری عاشقی اور ساری قانون دانی کا ۔
     
  7. محمد ایاز افضل عباسی
    آف لائن

    محمد ایاز افضل عباسی ممبر

    شمولیت:
    ‏14 ستمبر 2015
    پیغامات:
    59
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    ملک کا جھنڈا:
    جی ہاں ۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تو جان قربان کرتے ہیں ۔۔ اپیلیں اور دلیلیں نہیں پیش کرتے۔
     
    نعیم اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. آصف 26
    آف لائن

    آصف 26 ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    59
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم
    بڑے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ آپ لوگ بھی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں سرکار غازی ممتاز قادری رحمت اللہ علیہ نے نہ رحم کی اپیل کی نہ جج کے سامنے اپنا موقف بدلا ٹھوک بجا کر کہا میں نے مارا ہے اس لعین کو باقی اگر غازی ممتاز قادری کے چاہنے والے جرم دار ہیں جلسے جلوسوں کے تو غازی علم دین رحمت اللہ علیہ کے لئے بھی جلسے جلوس ہوۓ تھے فساد کے ڈر سے ہی تو آپ کو میانوالی دفنا دیا گیا تھا
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ممتاز قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ کی قربانی اور انکے عشقِ رسول صل اللہ علیہ وسلم پر کسی کو نہ کوئی شک ہے اور نہ کوئی اعتراض کررہا ہے۔
    ہمارے دلی جذبات اور ایمانی محبتیں ممتاز قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہیں اور ہم ہر لمحہ انکی بلندی درجات کے لیے دعاگو ہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بات تو ممتاز قادری شہید کی شجاعت اور شہادت پر "سیاست اور لیڈری" چمکانے والے نام نہاد عالموں کی ہورہی ہے جنہوں نے ممتاز قادری شہید کے زندہ ہوتے ہوئے ان سے وفا نہ کی بلکہ وہ مفتی حنیف قریشی جن کی تقریروں سے ممتاز قادری شہید کو یقین ہوا کہ سلمان تاثیر واجب القتل ہے اور اس نے اسکو قتل کیا۔ اس مفتی صاحب کو جب عدالت میں بلایا گیا تو انہوں نے ممتاز قادری سے مکمل طور پر اعلانِ لا تعلقی کردیا ۔ جبکہ ممتاز قادری شہید کے جنازے پر سب سے زیادہ قریب ہو کر سیلفیاں بنوانے والے وہی تھے۔
    ان علما حضرات کا دعوی ہے کہ ممتاز قادری کے جنازے پر کئی ملینز لوگ انکی اپیل پر باہر نکلے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب انکے پیروکار تھے اور انکی کال پر باہر نکلنے کو تیار تھے
    تو اتنے ملینز لوگ ممتاز قادری شہید کو پھانسی سے پہلے چھڑانے کے لیے اسلام آباد کیوں نہ پہنچے تاکہ حکومت پر دباو ڈالا جاسکے؟
    اور پھر یہ سارے ملینز لوگ ممتاز قادری شہید کے لیاقت باغ والے چہلم (جس میں ممتاز قادری کے والد صاَحب نے لاتعلقی ظاہرکی تھی) اور دھرنے میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    دین حق از کافری رسوا تر است
    زانکہ ملا مومن کافر گر است
    کم نگاہ و کور ذوق و ہرزہ گرد
    ملت از قال و اقولش فرد فرد
    مکتب و ملا و اسرارِ کتاب
    کورِ مادر زاد و نورِ آفتاب
    دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
    دین ملا فی سبیل اللہ فساد
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں