1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم .... محمد اکرم چوہدی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏27 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم .... محمد اکرم چوہدی

    حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی پھوپھی ہند بنت ہالہ رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کے بارے میں سوال کیا اور امید رکھتا تھا کہ وہ ان چیزوں کو بھی بیان کریں گی جو میرے متعلق ہیں یعنی میں جانتا تھا کہ جو چیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ شریف کی ہے وہ مجھ میں ہو گی۔ کیونکہ حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حد تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ شریف سے مشابہت رکھتے تھے کہ اگر کوئی شخص خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا تو لوگ اس سے دریافت کرتے تھے کہ کس صورت میں دیکھا ہے؟ اگر وہ بصورت حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھتا تو کہتے تم نے ٹھیک دیکھا ہے۔ چنانچہ ہند بن ابی ہالہ نے کہا کہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فخما مخفما یتلا لا وجہہ تلا لاالقمر لیلہ البدر۔

    ترجمہ دیکھنے والوں کی نظر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور عظیم، بزرگ، دبدبہ والا تھا آپ ؐ کا چہرہ چمکتا تھا جیسے چودھویں کا چاند چمکتا ہے۔

    حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے ہند بنت ابی ہالہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام فرمانے، سکوت فرمانے اور قوت گویائی کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ فکر مند اور غم زدہ رہتے تھے۔ بے ضرورت کلام نہ فرماتے تھے آپ ؐ کی خاموشی دراز ہوتی تھی کلام کی ابتدا اور اختتام کنج دہن سے فرماتے یعنی لفظوں کو اپنے دہن مبارک سے تمام و کمال درست نکالتے۔ شکستہ ناقص کلام نہ فرماتے اور آپ ؐ کا تکلم جوامع الکلم ہوتا یعنی لفظ مختصر اور معنی بکثرت رکھتے تھے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ترجمہ "مجھے جوامع الکلم دئیے گئے اور میرے کلام کو میرے لئے مختصر رکھا گیا" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم طبیعت اور خوش خلق تھے۔ درشت سخن اور تند خو نہ تھے۔ نعمت کی عزت کرتے اگرچہ تھوڑی ہوتی اور کسی چیز کو عیب نہ لگاتے تھے کھانا جیسا بھی ہوتا ملاحظہ فرما لیتے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصے کے آگے کھڑا نہ رہ سکتا تھا اور تاب نہ لا سکتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ اس وقت آتا ہے جب کوئی حد سے تجاوز کرتا یہاں تک کہ حق کا بدلہ لے کر ہی رہتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ذاتی حق کے لیے نہ غصہ کرتے نہ بدلہ لیتے تھے بشرطیکہ وہ دنیا سے متعلق ہوتا اگر کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ کرتے نہ کہ صرف انگلی سے۔ گفتگو فرماتے تو داہنے ہاتھ کی سرانگلی کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تمام عادتیں اللہ تعالی کو محبوب تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غضب فرماتے تو اپنا چہرہ نور پہلوئے مبارک اس طرف سے پھیر لیتے اور جب خوشی و مسرت کا اظہار فرماتے اور کسی چیز سے محظوظ ہوتے تو آنکھوں کو بند کر فرما لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکثر ہنسی تبسم سے ہوتی اور تبسم میں دندان مبارک،صفا و لطافت اور

    آب و تاب میں صدف کی مانند چمکنے لگتے تھے۔

    حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان میں داخل ہونے کے بارے میں پوچھا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکان میں تشریف لاتے تو کیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کاشانہ اقدس میں داخل ہوتے تو اپنے اوقات کے تین حصے کرتے ان میں سے ایک حصہ خدا کے لیے ہوتا، یعنی عبادت کرتے اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت عبادت میں رہتے لیکن اس جگہ مراد خالص اللہ ہے۔ وقت کے اس حصے میں نہ اہل کا دخل ہوتا نہ اپنی ذات اور نہ دوسرے لوگوں کے حقوق کی مداخلت ہوتی، دوسرا حصہ اہل و عیال کے لیے ہوتا یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی ہوتی، ان سے گفتگو فرماتے۔ ان کی ضروریات پوری فرماتے۔ تیسرا حصہ اپنی ذات اقدس کے لیے ہوتا اور اس کے حقوق ادا فرماتے۔ پھر اپنے اس تیسرے حصے کو بھی اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے اور اس میں ان کو شریک فرما لیتے۔ اس کی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے مخصوص اصحاب عام لوگوں کی ضروریات اور ان کی حاجتوں کی اطلاع فرماتے پھر خواص صحابہ رضی اللہ عنہم آپ ؐ کی مجلس مبارک کے فوائد ان عام لوگوں تک پہنچاتے۔ مطلب یہ کہ سب سے پہلے بے واسطہ فوائد خواص کو پہنچاتے پھر دوبارہ ان خواص کے واسطے عام لوگوں کو پہنچاتے تھے اقر ان فوائد و نصائح میں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذخیرہ کر کے اور لوگوں سے بچا کر کچھ نہیں رکھتے تھے۔ یعنی جو کچھ انکے حال و استعداد کے مناسب ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پہنچا دیتے۔
    حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے والد علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے کاشانہ اقدس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لے جانے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نشست فرمانے کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم اپنی زبان مبارک کو بند رکھتے اور اس کی حفاظت فرماتے مگر اس چیز میں اور اس بات میں جو مفید ہوتی۔ یحزن خزن سے ہے۔ جس کے معنی خزانہ میں مال رکھنا ہے۔ اس میں اشارہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس اس دل کی جو حقائق و معرفت سے مالا مال ہے، کنجی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی دلجوئی فرماتے اور اپنے قرب سے دور بھاگنے سے انہیں محفوظ رکھتے۔ درحقیقت یہ فعل الہٰی ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے والف بین قلوبہم ترجمہ۔ حق تعالی ایسا مہربان ہے کہ اس نے تمہارے دلوں میں محبت فرمائی۔

    سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس مبارک کے آداب اور طور طریق کیا تھے اور ان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہم نشینی کس طرح تھی، فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ بیٹھے تو نہ اٹھتے مگر ذکر خدا کے ساتھ۔ یعنی نشست و برخاست میں ہمیشہ ذکر خدا فرماتے تھے۔ جب مجلس مبارک میں تشریف لاتے تو جہاں بھی جگہ ہوتی بیٹھ جاتے اور کسی بلند و ممتاز جگہ کا قصد نہ فرماتے اور نہ اپنے لئے کوئی خاص جگہ متعین کر رکھی تھی۔ اسی کی تلقین فرماتے اور بلند و بالا جگہ کی خواہش سے منع فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عنایت اور توجہ و التفات کا حصہ تمام اہل مجلس کو مرحمت فرماتے اور کوئی بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ وہ ہم نشینی میں دوسرے سے بزرگ تر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ قریب ہے اور ہر شخص کے ساتھ اس کے مرتبہ اور قابلیت اور اس کے حال کے مطابق عنایت فرماتے۔ جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کوئی حاجت یا ضرورت لاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک انتظار فرماتے کہ وہ شخص خود ہی واپس چلا جائے مجلس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اس وقت تک تشریف نہ لے جاتے جب تک کہ وہ خود اٹھ کر نہ چلا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کوئی بھی سوال کرتا یا کسی حاجت و ضرورت کو پیش کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے نہ منع کرتے اور نہ رد کرتے بلکہ اس کی حاجت برآری فرماتے اور اگر بالفرض اس وقت کچھ موجود نہ ہوتا تو خوش خلقی سے دلجوئی کر کے میٹھی بات سے اس کو لوٹا دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس علم، حلم، حیا اور صبر و امانت کی مجلس تھی۔ جہاں نہ کسی کی آواز بلند ہوتی اور نہ اس میں حرام و ناشائستہ بات ہوتی تھی۔ بتقاضائے بشریت اگر کسی سے ناشائستہ حرکت سرزد ہو بھی جاتی تو اس کی چشم پوشی کی جاتی تمام اہل مجلس متساوی وموافق اور برابر تھے ان میں باہم فضیلت تقوی کے اعتبار سے تھی وہ باہم ایک دوسرے کی تعظیم و توقیر کرتے تھے بڑے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم کرتے تھے اور محتاجوں پر انحصار کرتے اور غریبوں مسافر کی رعایت فرماتے تھے۔ مکتبہ سراجیہ کے حضرت صوفی اشفاق اللہ واجد نے سیرت انتہائے کمال آقائے لاجواب پڑھیں اور اپنے ایمان کو تازہ کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے اور ہمیں پیارے آقا صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں