بے حسی ٹھیک ہے شہر میں قتل و غارت گری کی نئی لہر ہے پر نئی بات کیا یہ تو معمول ہے ٹھیک ہے کہ کئی بے گناہ آگ اور خون کے کھیل میں زندگی ہار کر جینے والوں کے بھی حوصلے لے گئے اور پسماندگاں دیکھتے رہ گئے یہ بھی معمول ہے شہر اب پھر سے مصروف و مشغول ہے ٹھیک ہے کہ ستم کالی آندھی کی مانند چھایا رہا کتنی صبحوں پہ ظلمت کا سایہ رہا کتنے دن تک ہوا نوحہ خوانی کی خواہش میں گُھٹتی رہی اور دھرتی کے سینے سے کتنے دنوں ہُوک اُٹھتی رہی کتنے دن سے یہاں عافیت کا چمن خاک ہے، دھول ہے ٹھیک ہے کہ پسِ پُشت رکھے ہوئے خون آلود ہاتھ میرا رہبر ہی تھا جو محبت کا پرچار کرتا رہا دل ہی دل میں کہیں مُسکراتا رہا اور نقاب اپنے چہرے پر اوڑھے ہوئے مرنے والوں کا ماتم بھی کرتا رہا یہ نفاقِ طرحدارِ اہلِ ستم تو روایت میں صدیوں سے منقول ہے اور معمول ہے پر مجھے کیا پڑی ہاں مجھے کیا پڑی کہ میں سوچُوں یہاں کون ظالم ہے اور کون مظلوم ہے کون قاتل ہے اور کون مقتول ہے جس پہ گولی چلی وہ مِرا سر نہ تھا آگ جس پر لگی وہ مِرا گھر نہ تھا پھر مجھے کیا پڑی ہاں مجھے کیا پڑی کہ میں سوچُوں جو بستی میں اُفتاد ہے کس کی ایجاد ہے میرا دل اپنی دُنیا میں مشغول ہے میری دُنیا میں سب حسبِ معمول ہے محمداحمدؔ
بہت خوب جناب۔۔۔ ٹھیک ہے کہ پسِ پُشت رکھے ہوئے خون آلود ہاتھ میرا رہبر ہی تھا جو محبت کا پرچار کرتا رہا دل ہی دل میں کہیں مُسکراتا رہا اور نقاب اپنے چہرے پر اوڑھے ہوئے مرنے والوں کا ماتم بھی کرتا رہا یہ نفاقِ طرحدارِ اہلِ ستم تو روایت میں صدیوں سے منقول ہے اور معمول ہے بہت خوب محمد احمد بھائی۔۔۔ :222:
سبحان اللہ، بہت ہی خوب محمد احمد بھائی۔ بہت ہی کمال کی فکر ہے۔ یقین کریں، دل خوش ہو گیا آپ کا یہ خوبصورتی سے پرویا ہوا پیغام دیکھ کر۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ایسی شاعری کر رہے ہیں جو ہمیں ہمارے معاشرتی رویوں پر نظر ڈالنے پر مجبور کر دے۔ بہت سی داد قبول کریں۔ اپنے پیغام کو خوب پھیلائیں، کچھ لوگ تو اثر لے کر رویے بدلیں گے انشاءاللہ۔ :101: :101: :101:
واہ احمد بھائی واہ ۔ آپ نے معاشرتی بےحس ضمیر پر بہت کاری ضرب لگائی ہے۔ کاش ہمارا قومی ضمیر بیدار ہوجائے۔