1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بڑھاپا, ہڈیاں اور عضلات

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بڑھاپا, ہڈیاں اور عضلات
    upload_2019-10-24_1-43-24.jpeg
    محمد اقبال
    عمر جوں جوں بڑھتی ہے ہڈیوں کی موٹائی کم ہونے لگتی ہے۔ اس طرح ان کے کمزور ہو کر ٹوٹنے کا خطرہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ خواتین میں سن یاس کی وجہ سے ہڈیوں کی دبازت یا موٹائی تیزی سے گھٹنے لگتی ہے۔ ہڈیوں کے حجم میں کمی یا اس کے گھُلاؤ کی ایک اہم وجہ اس میں کیلشیم کی مقدار میں کمی ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ غذا میں شامل کیلشیم نظام ہضم میں کم جذب ہونے لگتا ہے اور حیاتین ’’د‘‘ (وٹامن ڈی) میں بھی کچھ کمی ہو جاتی ہے۔ اس حیاتین کی وجہ سے جسم کو کیلشیم کے استعمال میں مدد ملتی ہے۔ ہڈیوں کو مضبوط رکھنے میں کیلشیم کا کردار مرکزی ہوتا ہے۔ بعض ہڈیاں بھی دوسری ہڈیوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہوتی ہیں، ان میں ران کی ہڈی کا اوپری، یعنی کولھے والا حصہ اور بازوؤں کی ہڈیوں کے آخری سرے یعنی کلائیاں اور ریڑھ کے منکے قابل ذکر ہیں۔ ہڈیوں کے درمیانی یا مرکزی حصے میں گودا بھرا ہوتا ہے، جس میں خون کے سرخ ذروں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے۔ اس لیے بڑھاپے میں سرخ ذرات کم تیار ہونے لگتے ہیں۔ اس کے باوجود ہڈی کا گودا زندگی بھر یہ ذرات تیار کرتا رہتا ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب ان ذرات کی طلب یا ضرورت میں اضافہ ہو جاتا ہے، مثلاً خون کی کمی کے مرض، کسی انفیکشن، یعنی چھوت دار مرض یا جسم سے خون کے زیادہ اخراج کی صورت میں ان سرخ ذرات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں گودا جسم کی یہ ضرورت پوری کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ جوڑوں کے سِرے کُری ہڈیوں سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہڈیاں ایک دوسرے سے رگڑتی گھستی نہیں ہیں۔ ان کُری ہڈیوں کی تہ کم ہونے کی صورت میں ہڈیوں کے آپس میں ٹکرانے اور رگڑ کے باعث ان کے زخمی ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصے جاری رہنے کی صورت میں جوڑوں کے دیرینہ درد یعنی اوسٹیوارتھرائٹس کا امکان بڑھ جاتا ہے، جو بڑی عمر میں بڑی تکلیف کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمارے جوڑوں کو بندھن یا رباط باندھے رکھتے ہیں، وہ عمر کے ساتھ ساتھ اپنی لچک کھونے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جوڑ سخت اور اکڑ جاتے ہیں، یہ تبدیلی ان رباطوں کے لحمیات (پروٹینز) میں کیمیائی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اکثر لوگ جسمانی لچک سے محروم ہو جاتے ہیں اور رباط آسانی سے ٹوٹنے لگتے ہیں اور دیر سے ٹھیک ہوتے ہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ عضلات، یعنی پٹھوں کے ریشے اور ان کی توانائی کم ہونے لگتی ہے۔ یہ عمل Sarcopenia کہلاتا ہے، جس کے معنی گوشت کا نقصان ہوتے ہیں۔ ہمارے جسم میں یہ عمل تقریباً 30 برس کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے اور پھر اس کا سلسلہ زندگی بھر چلتا رہتا ہے۔ عضلات کے حجم میں کمی کی وجہ دراصل عضلات کے ریشوں کی تعداد میں کمی ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی جسم میں ہارمونز کی مقدار میں کمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ان میں ٹیسٹوسٹیرون (مردانہ ہارمون) اور پروجیسٹرون (زنانہ ہارمون) قابل ذکر ہیں۔ ٹیسٹوسٹیرون مردوں میں عضلات کی تیاری کا عمل تیز رکھتے ہیں، جبکہ یہی فائدہ خواتین میں پروجیسٹرون سے پہنچتا ہے۔ عمر میں اضافے سے ان کی مقدار کم تیار ہونے لگتی ہے۔ اس طرح بڑھاپے میں عضلات تیزی سے سکڑنے لگتے ہیں۔ اکثر بوڑھے افراد کے عضلات کا حجم کافی ہوتا ہے، جس کی مدد سے وہ ضروری کام کرنے کے قابل رہتے ہیں۔ وہ کھیلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں اور سخت قسم کی جسمانی ورزش بھی کر لیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایسے توانا اور تندومند بوڑھے بھی عمر میں اضافے کے ساتھ اپنے عضلات میں کمی اور کمزوری محسوس کرنے لگتے ہیں۔ عضلات کے گھُلاؤ اور کمزوری پر باقاعدہ ورزش سے کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ وہ لوگ بھی جنہوں نے کبھی ورزش نہ کی ہو، ورزش کے ذریعے سے اپنے عضلات کے حجم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بستر میں ہر وقت لیٹے رہنے سے عضلات گھُلنے لگتے ہیں۔ بیماری کی وجہ سے بستر میں ایک دو دن لیٹے رہنے سے بھی یہ عمل تیز ہو جاتا ہے اور عضلات کو بحال کرنے میں کم از کم دو ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ جسم کی چربی بڑھنے لگتی ہے، جس سے صحت کے خطرات میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اس کا یہی حل ہے کہ درست قسم کی غذا کھائی جائے اور ورزش باقاعدگی سے کی جائے۔ اس طرح جسم کو زیادہ بڑھنے پھیلنے، بے ڈول اور بھدا ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ عمر میں اضافے کے ساتھ دماغ کے خلیات میں برائے نام کمی ہوتی ہے۔ دماغی انحطاط کو روکنے میں کئی عوامل کام کرتے ہیں۔ دماغ کے خلیات کم ہوتے ہیں تو اس کے بعض حصوں میں بچنے والے اعصابی خلیات میں نئے تعلق یا رابطے قائم ہونے لگتے ہیں۔ بعض حصوں میں نئے اعصابی خلیات بھی بن سکتے ہیں۔ یہ عمل زیادہ بڑھاپے میں بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دماغ میں ایسی بیشتر سرگرمیوں کی تکمیل کے لیے ویسے بھی زیادہ خلیات ذخیرہ رہتے ہیں۔ طب میں یہ خصوصیت فراوانیِ خلیات کہلاتی ہے۔ دماغ میں پیغامات بھیجنے یا ترسیل کے عمل میں درکار نظام اور دیگر اشیا میں تبدیلی آ جاتی ہے، مثلاً بعض کیمیائی پیغام رسانوں (نیوروٹرانسمیٹرز) اور خامرات (انزائمز)کی سطح اور مقدار گھٹ جاتی ہے اور دوسروں کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں بوڑھوں کی ذہنی صلاحیتیں کسی حد تک متاثر ہونے لگتی ہیں۔ ان میں ذخیرۂ الفاظ کی صلاحیت کے علاوہ زمانۂ قریب کی باتوں کی یادداشت، نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت اور الفاظ یاد کرنے کی اہلیت میں کمی قابلِ ذکر ہیں۔ 60 سال کی عمر کے بعد حرام مغز کے خلیات کی تعداد بھی کم ہونے لگتی ہے جس سے حس اور احساس کی صلاحیتیں بھی دھیمی پڑنے لگتی ہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ اعصاب کا عمل بھی مدھم پڑتا جاتا ہے۔ عام طور پر بوڑھے اسے محسوس نہیں کرتے۔ زخم کا احساس بھی کم ہوتا جاتا ہے۔ اعصاب آہستہ آہستہ سے اپنی مرمت کر لیتے ہیں، لیکن چونکہ یہ عمل جوانوں کے مقابلے میں بوڑھوں میں بہت سست رفتار ہوتا ہے، وہ زخم چوٹ وغیرہ کے معاملے میں زیادہ بے حس ہونے لگتے ہیں یعنی اس کا زیادہ احساس نہیں ہوتا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں