1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بچوں کی صحت اور تربیت ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سید فیصل عثمان

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بچوں کی صحت اور تربیت ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سید فیصل عثمان



    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مائیں اگر چاہیں توبچوں کو صحت مند زندگی ہی نہیں دے سکتیں بلکہ انہیں بڑا انسان بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں،اس بارے میں ہم ذیل میں سائنس دانوں کی بچوں کی صحت اور تربیت کے بارے کی گئی چند باتوں کو پڑھتے ہیں۔

    نزلہ، زکام بچوں کی عام بیماری ہے ،یقینا مائیں دوران حمل حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے بچوں کو اس موذی مرض سے بچا سکتی ہیں۔ امریکی ماہرین کے مطابق مائیں 28ہفتوں کے دوران ٹیٹنس ، ٹیسٹیرا اور پرٹوفکس کے حفاظتی ٹیکے لگوالیں تو بچے نزلہ، زکام جیسے امراض سے بچ سکتے ہیں۔ امریکہ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق جن مائوں نے ان حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کیا،ان کے بچوں میں یہ بیماری کم دیکھنے میں آئی۔ یہ تحقیق چند ہفتوں تک نہیں بلکہ تین سالوں پر محیط ہے۔ امریکی ماہرین نے امریکی ریاست میں تین سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا ۔پتہ چلا کہ 27سے 36ہفتوں کی ز چگی کے دوران ان حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرنے والی38فیصد مائوں کے بچوں میں نزلہ اور زکام سے بچائو کی صلاحیت موجود تھی۔ یہ بچے اس مرض کیخلاف دوسرے بچوں کی بہ نسبت زیادہ قوت مدافعت رکھتے تھے۔

    محقق پائول سیشین '' اورگن ہیلتھ اتھارٹی ‘‘ کے مینجنگ ڈائریکٹر اور میڈیکل ڈائریکٹر برائے حفظان صحت و امیونائزیشن ‘‘ ہیں، انہوں نے بتایا کہ اگر ہسپتال میں بہت سنجیدگی کے ساتھ ان امراض سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کی جائے تو 90فیصد بچوں کو نزلہ اور زکام سے بچایا جاسکتا ہے۔

    اسی موضوع پر امریکی کالج برائے گائناکالوجسٹ اور امریکی اکادمی برائے زچگان نے بھی تحقیق کی ہے۔ مشی گن میں بچوں کے امراض اور ویکسی نیشن کے ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ ایف کلمبو نے کہاکہ '' اگر ماں خود ہی کسی مرض کا شکار ہے تو پھر یہ مرض خون کے ذریعے بچے میں بھی منتقل ہو سکتا ہے‘‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو نزلہ اور زکام سے محفوظ رکھنے میں بنیادی کر دار ادا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دوران زچگی 2015-16کے موسم بہار تک محض49فیصد مائوں نے یہ کورسز مکمل کیے،اور پھر ویکسی نیشن میں لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔ در حقیقت صحت مند مائیں اس کورس کو قابل ذکر اہمیت نہیں دیتیں۔ انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کورس ان کے بچوں کو بھی اس مرض سے بچا سکتا ہے۔

    ڈاکٹر شاشلک کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں5 سے 15 کے ہزاروں بے بی نزلہ سے مر جاتے ہیں ،سانس کی یہ بیماری خطرناک ہے اور اس میں مبتلا بچوں کی تعداد کئی لاکھ سالانہ ہے۔ تاہم ویکسین اسے کنٹرول کرسکتی ہے۔تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا۔

    ڈاکٹر کولمبو نے کہا کہ یہ مرض ایک مرتبہ پھر بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ ویکسی نیشن کے استعمال میں کمی ہے۔اسی طرح کی تحقیق امریکہ کے علاوہ برطانیہ میں بھی ہوئی اور دوران زچگی یہ محسوس کیا گیا کہ ویکسی نیشن کا عمل پورا ہونے سے بچے محفوظ رہتے ہیں۔

    اب آتے ہیں ان تربیت کی جانب۔مذکورہ تحقیق کرنے والے ایک سائنس دان کا کہنا ہے کہ

    سائنس دانو ں کے مطابق ''پریشان اور بوکھلائے ہوئے بچوں کے ماں باپ میں بھی بوکھلاہٹ ہوتی ہے جو والدین اطمینان اور سکون سے بچوں کی تربیت کرتے ہیں، وہی بچے اپنے اندر ٹھہرائو پیدا کرتے ہیں، ان کی شخصیت میں اعتماد کی جھلک سب سے نمایاں ہوتی ہے۔ یاد رکھیے، سائنس کے مطابق خوفزدہ اور ہر وقت گھبرائے گھبرائے رہنے والے والدین کے بچوں میں بھی یہ سرایت کر جاتی ہے‘‘۔

    '' ماں اگر چاہے تو وہ اپنے بچوں کو کاروبار کا ماہر بھی بنا سکتی ہے اور اچھا سائنس دان بھی ۔میری ماں نے مجھے سائنس دان بنانے کی کوشش کی مگر باپ نے کہا کہ' اگر یہ بچہ آزادانہ انداز میں سوچنے لگے اور کسی کا محتاج نہ رہے تو کیا ہی اچھا ہو‘۔ انہوں نے یہ بات کر دکھائی‘‘۔

    اس سائنس دان نے کہا کہ مائیں اگر چاہیں تو اپنے بچوں کو انجینئر بھی بنا سکتی ہیں اور ڈاکٹر بھی۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ بہت ٹھہرائو کے ساتھ اس کی تربیت کریں‘‘۔

    اسی ٹیم کے ایک اور سائنس دان کا کہنا ہے کہ

    ''میں جب چھوٹا تھا اور سوئمنگ پول کے پاس ہی کھیلتا تھا تو میری ماں اور باپ قریب بیٹھے مجھے دیکھتے رہتے تھے۔ جب 5سال کا ہوا تو دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا سکھایا۔ تب میں نے دیکھا کہ میری ماں بھی میرے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہے پھر جب میں چھلانگ لگا کر کسی چیز پر کھڑا ہو جاتا ،اور اپنے ارد گرد دیکھتا تو میں حیران رہ جاتا کہ میری ماں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اس کی نظریں مجھ پر جمی ہوئی ہیں۔ ایک لمحہ بھر کے لیے بھی اس کی نظر مجھ سے نہیں ہٹتی تھی۔جب میں کسی اونچی چیز پر چڑھ جاتا تو وہ ایک دم چلاتیں 'اوہ میرے خدایا ،یہ وہاں کیسے چڑھ گیا‘۔ پھر وہ میری طرف بھاگتیں اور مجھے بچا لیتیں۔ کبھی کبھی میں اطمینان سے نیچے کی طرف دیکھتا اور چھلانگ لگا دیتا ۔ تب بھی میری ماں بڑے اطمینان سے دیکھتی رہتیں اور چھلانگ لگانے میں میری رہنمائی کرتیں۔ چھلانگ لگانے کے بعد وہ کہتیں۔۔' بیٹا ٹھیک کیا، مجھے پہلے ہی پتہ تھا ،آپ یہ چھلانگ لگا سکتے ہو۔اس طرح ماں نے مجھ پر اعتماد کر کے میرا حوصلہ بڑھایا۔ میرے اندر نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا ۔ جس سے میں نئی نئی چیزیں سیکھتا چلا گیا ، نئے نئے کام کرتا چلا گیا۔ماں مجھے نہ روکتیں نہ ٹوکتیں، بس قریب کھڑے آنکھوں ہی آنکھوں میں میری رہنمائی کرتیں۔ میری ماں نے مجھ میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے مجھے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مواقع مہیا کئے ۔جب میں بڑا ہو تو میں نے اپنی ما ں سے کہا، ماما میں نوکری چھوڑنا چاہتا ہوں، اس میں ترقی کے مواقع کم ہیں ۔ میری ماں مسکرائی ،اور کہا ،بیٹا آپ یہ کام کر سکتے ہو ،گھبرانے کی ضرورت نہیں نوکری چھوڑ دو‘‘۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں