1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی ایسا تھا میرا کراچی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی ایسا تھا میرا کراچی
    upload_2019-11-21_3-29-33.jpeg
    محمد سعید جاوید

    پرانے وقتوں کی بات ہے، ٹرانسسٹر ریڈیو ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ بازار میںدو کمپنیوں کے بڑے بڑے ریڈیو ہوتے تھے لیکن ان تک پہنچ کم از کم اپنے بس کی بات نہیں تھی۔ میرے ابا جان نے الیکٹریشن سے کہہ سن کر ایک ذاتی سا ریڈیو بنوایا تھا اور پھر بڑھئی سے اس کی خوبصورت باڈی بھی بنوا کر اس پر پالش کروا لیا تھا۔ اس میں بس دو ہی بٹن تھے، ایک ریڈیو کو چلانے اور آواز اونچی نیچی کرنے کا جبکہ دوسرا مختلف اسٹیشن بدلنے کا۔ اس کے اندر ایک سو واٹ کا بلب لگتا تھا جو ہر وقت روشن رہتا تھا۔ ایرئل کی ایک باریک اور لمبی سی تار گھر کی چھت پر بندھے بانس پر عشق پیچاں کی بیل کی طرح چڑھا دی گئی تھی ۔ صبح اسکول جانے کے وقت تک ہم اس پر ریڈیو سیلون سنتے رہتے تھے۔ اس کا ’’بناکا گیت مالا‘‘ ہم سب کا پسندیدہ پروگرام ہوا کرتا تھا، جس میں امین سیانی لہک لہک کر مختلف گانے پیش کیا کرتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن کراچی پر دوپہر بارہ بجے فلمی گانے چلتے تھے اور چوٹی کے غیر ملکی اور پاکستانی گیت سنوائے جاتے تھے۔ ایک بجے کا وقت خبروں کے لیے مخصوص تھا، جس کا بڑوں کو بہت انتظار رہتا تھا۔ شام ڈھلے مذہبی پروگرام ہوتے تھے یا کسی استاد اور ان کی منڈلی کو سارنگیاں اور طبلے دے کر بٹھا دیا جاتا اور یوں ان سے کچے پکے راگ سنوا کر وقت گزارا جاتا تھا۔ مغرب کا وقت بچوں کے لیے اور پھر کچھ مذہبی پروگرام ہوتے تھے ۔ رات آٹھ بجے پہلے انگریزی میں اور پھر اردو میں خبریں ہوتی تھیں۔ اپنی انتہائی سریلی اور لہراتی بل کھاتی آواز میں جہاں آرا سعید انگریزی خبریں پڑھتی تھیں، جو کم از کم ہمارے تو اوپر سے گزر جاتی تھیں اور ہمیں خاک سمجھ نہ آتا تھا کہ وہ کیا بتا رہی ہیں۔ انیتا غلام علی بھی انگریزی کی نیوز کاسٹر تھیں اور بڑے سپاٹ لہجے مگر بہترین انداز میں جلدی جلدی خبریں سنا کر چلی جاتی تھیں۔ وہ استاد بھی تھیں اس لیے انگریزی کے شین قاف کا بڑا خیال رکھا کرتی تھیں۔ کچھ اور ادھر اُدھر کے پروگرام پیش کیے جاتے اور پھر اردو خبروں کا وقت ہوتے ہی مائیک گرج دار آواز والے شکیل احمدکو تھما دیا جاتا تھا جو آتے ہی سارے دن کا کچا چٹھا سنا دیا کرتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں ان سے بلند آواز اور بہتر انداز میں خبریں پڑھنے والا پھر کوئی نہ آیا۔ ان کی کرختگی کو متوازن رکھنے کے لیے اکثر اوقات انور بہزاد کو خبریں پڑھنے پر مامور کر دیا جاتا تھا، جو ایک بہت بڑے شاعر اور نعت خواں بہزاد لکھنوی کے صاحب زادے تھے۔ وہ اپنی نر م و ملائم اور لچک دار آواز میں اس طرح خبریں پڑھتے تھے کہ سننے والے اگر سامنے نہ صحیح تو دل میں ضرور ان کی دلکش آواز کا اعتراف کرتے ہوں گے۔ ان کے علاوہ عبدالاسلام، وراثت مرزا اور شمیم اعجاز بھی ہوتی تھیں۔ ریڈیو سننے کا اصل مزہ تو نو بجے کے بعد ہی آیا کرتا تھا جب خاندان کے تمام افراد کام کاج سے فارغ ہو کر ریڈیو کے آس پاس بیٹھ جاتے تھے۔ تب ہی ریڈیو کی تاریخ کا سب سے شاندار ہفتہ وار پروگرام ’’اسٹوڈیو نمبر نو‘‘ شروع ہوا کرتا تھا جس میں بہترین مقامی اور دوسری زبانوں سے اخذ کیے گئے ڈرامے نشر ہوتے تھے۔ ایس ایم سلیم، طلعت حسین، قاضی واجد، محمود علی، ذہین طاہرہ، ظہور احمد، جمشید انصاری، شکیل احمد، نیلوفر علیم، عرش منیر، محمد علی، سنتوش رسل، عشرت ہاشمی اور ننھی سی پروین عرف منی باجی کو کون بھول سکتا ہے! یہ لوگ ڈراموں میں اس خوب صورتی سے اپنا اپنا کردار نبھاتے تھے کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے۔ ایس ایم سلیم کو ریڈیو کا دلیپ کمار بھی کہا جاتا تھا۔ ان کی دھیمی دھیمی اور مدھر آواز میں ادا کیے گئے مکالمے دل میں اترتے جاتے تھے۔ ایسے ہی دو اور پروگرام ’’دیکھتا چلا گیا‘‘ اور ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ بھی تمام گھروں میں بڑی دلچسپی سے سنے جاتے تھے۔ دس ساڑھے دس بجے تک یہ ہلا گلا لگا رہتا تھا۔ اس کے بعد ایک بار پھر کوئی کلاسیکی راگ چھیڑ دیا جاتا تھا۔ جمعرات اور جمعہ کو کچھ قوالوں کو بٹھا دیا جاتا تھا، جنہیں عام لوگ تو کم ہی سنتے تھے تاہم بے خوابی کے مرض میں مبتلا بزرگ پاس بیٹھے سردھنتے رہتے اور پھر اسے قومی ترانے کے حوالے کرکے اٹھ جاتے تھے۔ تب ہی ریڈیو بھی سب کو شب بخیر کہہ کر اگلی صبح چھ بجے تک کے لیے خاموش ہو جایا کرتا تھا۔ دن کو البتہ ہم سب اکٹھے بیٹھ کر ریڈیو سنا کرتے تھے جو اس زمانے کا دستور تھا۔ کسی قسم کا کوئی اشتہار چلانا انتہائی غیرشریفانہ فعل سمجھا جاتا تھا۔ پھر 1960ء کے ایک دن سب نے بڑی خوش گوار حیرت سے سنا کہ اگلے دن سے ریڈیو سے بھی کمرشل سروس شروع ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے یہ کام صرف ریڈیو سیلون پر ہی ہوتا تھا۔ اگلے دن دوپہر کو بارہ بجے ’’ آپ کی فرمائش‘‘ کا آغاز ہوا تو ہر نغمے کے بعد اشتہار چلاتے، بہت جلد اشتہاری گانے بھی بننے شروع ہو گئے جو اتنے مقبول ہوئے کہ بچے اپنی اپنی پسند کے گانے بآواز بلند گلیوں اور محلوں میں گاتے پھرتے اور یوں مفت میں کمپنی کی تشہیر ہوتی رہتی تھی۔ پھر تو ریڈیو خوب کھل کر کھیلا کیونکہ یہ نشریاتی دنیا کے اکھاڑے کا اکلوتا پہلوان تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی میں ملک کے بہت بڑے گلوکار احمد رشدی نے بچوں کے پروگرام کے لیے اپنا ایک مقبول گانا گایا، جس کے بول کچھ یوں تھے : بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں