1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بلیک واٹر ، امریکن سیکورٹی کمپنی پاکستان میں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏10 اگست 2009۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
  2. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اسلام علیکم
    بہت بہت شکریہ پیارے بھاٰی
    بات یہ ہے کہ ہماری سرکاری ایجینسیاں کیا کر رہی ہیں اگر ایک اخبار اتنی معلومات اکٹھی کر سکتی ہے تو کیا ایجنسیاں سو رہی ہیں
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    شکریہ بے باک جی اس شئیرنگ کے لئے

    اور آپ آج کل ھیں کہاں
     
  4. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ درست ہے کہ حاليہ دنوں ميں امريکی سفارت خانے ميں نہ صرف يہ کہ ملازمين کی تعداد ميں اضافہ کيا گيا ہے بلکہ اس سلسلے ميں اسلام آباد کے گردونواح ميں کراۓ پر مکانات بھی ليے گۓ ہيں۔۔ يہ نہ تو کوئ خفيہ کاروائ ہے اور نہ ہی کسی سازش کا حصہ۔

    اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانہ مرمت اور توسيع کے عمل سے گزر رہا ہے۔ يہ 3 سال پرانا منصوبہ ہے جس کی حال ہی ميں کانگريس نے باقاعدہ منظوری دی ہے

    يہ کانگريس کميٹی کی رپورٹ کے اس حصے کا عکس ہے جس کے مطابق اسلام آباد ميں سفارت خانے کی توسيع کے لیے 736 ملين ڈالرز کی منظوری دی گئ ہے۔ يہ ايک 40 سالہ پرانی عمارت ہے جس ميں توسيع کی اشد ضرورت ہے۔

    http://img192.imageshack.us/img192/6175/clipimage002edg.jpg

    يہ ايک عام فہم بات ہے کہ مرمت کے دوران کچھ سفارت کاروں اور اہلکاروں کو عارضی طور پر کراۓ کے مکانوں ميں منتقل کيا جاۓ گا۔ اس کے علاوہ عمارت ميں توسيع اور عملے ميں اضافے کی صورت ميں سيکورٹی کی ضروريات ميں اضافہ ايک فطری امر ہے۔

    يہ بات قابل توجہ ہے کہ جب آپ سفارت خانے ميں عملے کی تعداد کا ذکر کرتے ہيں تو يہ ياد رہے کہ سفارت خانے ميں کام کرنے والے ملازمين کی ايک بڑی تعداد امريکی شہری نہيں بلکہ مقامی پاکستانی شہری ہیں۔ ميرے ايک بہترين دوست امريکی قونصل خانے ميں کئ سالوں تک کام کر چکے ہيں۔
    خود ان کے دوست احباب اور واقفيت کے بے شمار لوگ اب بھی وہاں پر ملازم ہيں۔

    سفارت خانے ميں امريکی اور پاکستانی ملازمين کی تعداد کے تقابلی جائزے کو سمجھنے کے لیے ميں آپ کو سال 2008 کی ايک رپورٹ کا عکس دے رہا ہوں جس ميں آپ مجموعی طور پر اس خطے ميں امريکی اور مقامی ملازمين کی تعداد کا شمار کر سکيں گے۔

    http://img406.imageshack.us/img406/1746/clipimage002p.jpg

    جہاں تک مختلف اخباروں میں چھپنے والی خبروں کا سوال ہے تو ميں واضح کر دوں کہ اسلام آباد میں امريکی سفارت خانے کے پبلک امور کے شعبے نے اپنی وضاحت پيش کر دی ہے جو 6 اگست کو ڈان اخبار کے صفحہ 6 پر چھپ چکی ہے۔

    http://epaper.dawn.com/Default.aspx?selpg=1731

    اخبار کے نام اس خط میں واضح لکھا ہے کہ سفارت خانے ميں توسيع کا مقصد کيری لوگر بل کے نتيجے ميں شروع کيے جانے والے منصوبوں کے توسط سے عوام کی فلاح کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ضمن ميں صلاحيتوں ميں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ سينکڑوں کی تعداد ميں امريکی مرينز کی تعنياتی کا دعوی بالکل بے بنياد ہے۔

    ميں آپ کو يہ بھی ياد دلا دوں کہ امريکہ ميں بھی پاکستان کے سفارت کار، ديگر ممالک کے سفارت کاروں کی طرح واشنگٹن اور نيويارک ميں کراۓ پر مکانات ليتے رہتے ہيں۔ ليکن امريکہ ميں کوئ بھی ايسے مصالحے دار کالم نہيں لکھ رہا کہ پاکستان اور آئ – ايس – آئ امريکی حکومت کی رٹ کو چيلنج کرنے کی سازش کر رہے ہيں۔

    يہ ايک حقيقت ہے کہ امريکہ نے پاکستان کے لیے سالانہ 5۔1 بلين ڈالرز کی امداد اگلے پانچ سالوں کے لیے منظور کی ہے۔ اس امداد کا بڑا حصہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں صحت، تعليم اور تعمير وترقی کے کئ منصوبوں پر خرچ ہو گا۔ اس تناظر ميں پاکستان ميں امريکہ کی سفارتی کوششوں اور تعلقات ميں توسيع اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امريکہ پاکستان سے وسيع بنيادوں پر طويل مدت کے ليے سفارتی تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  5. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    انجم بھائی الزام ایجنسیوں کو مت دیں۔ایجنسیوں کا ایک دائرہ اختیار ہوتا ہے۔اگر غیر ملکی ایجنسیوں کی کاروائیاں خفیہ ہوں تو ایجنسیاں قانون کے مطابق از خود ان کے خلاف حرکت میں آ سکتی ہیں۔لیکن اگر حکومت کی جانب سے انہیں کھلی چھٹی دے دی جائے تب یوں کھلم کھلا حرکتوں پر سوائے حکومت کو اطلاع کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتیں اور یقینا خفیہ ایجنیسوں نے حکومت کو اپنے خدشات سے آگاہ کر دیا ہو گا۔ہاں حکومت ان کے خلاف کام کرنے کا حکم دے تو وہ ان کے خلاف کام کر سکتی ہیں یا وہ انہیں اپنے مقصد سے ہٹ کر ملکی سالمیت کے خلاف کام کرتا دیکھیں تو از خود کاروائی کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔بصورتِ دیگر ایجنسیاں قانونا ایسا کچھ نہیں کر سکتیں البتہ ایجنسیوں کے کچھ افراد از خود کاروائیاں کر سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کسی دن بلیک واٹر کے اہلکار اغواء کر لئے جائیں یا کچھ پراسرار طور پر مردہ پائے جائیں یا امریکی کمپلیکس میں کوئی دھماکہ ہو جائے لیکن اس کی پاداش میں پکڑے جانے پر انہیں سزا بھی ہو سکتی ہے۔
     
  6. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں کام کرنے والا ہر امريکی شہری حکومت پاکستان سے منظور شدہ ويزے کی بنياد پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان کے حکومتی اہلکاروں نے انھيں عالمی قوانين اور روايات کے عين مطابق انھيں يہاں رہنے اور کام کرنے کی مکمل اجازت دی ہے۔

    کوئ بھی شخص جسے سفارتی اداروں ميں کام کرنے کا تجربہ ہے، وہ آپ پر يہ واضح کر دے گا کہ کسی بھی ملک ميں کونسل خانے يا سفارت خانے کے قيام کے لیے اس ملک کی جانب سے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے معاہدوں ميں عام طور پر دونوں ملکوں ميں مساوی بنيادوں پر دفاتر کا قيام عمل ميں لايا جاتا ہے۔

    يہ ايک غير منطقی مفروضہ ہے کہ ايمبسی ميں کام کرنے والے کچھ درجن افراد کسی ملک ميں داخل ہو کر اس پر اپنا قبضہ جما سکتے ہيں۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  7. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جہاں تک مجھے اندازہ ہو رہا ہے ، جناب فواد صاحب خیالی یا صرف کتابی دنیا میں رہتے ہیں ،
    بلیک واٹر تنظیم کی قتل و غارت کی مکمل تفصیل دنیا بھر کے اخبارات میں موجود ہے ، اور انٹر نیٹ پر بھی تفصیل موجود ہے ، اس تنظیم کی خدمات امریکہ اور برطانیہ اور بعض اقوام متحدہ کے اداروں نے کرائے کے فوجیوں کے طور پر حاصل کی ہیں ، امریکن سفارت خانہ یا کوٰ ئی بھی سفارت خانہ اپنے آپ کو بے شمار معاملات میں ملوث نہیں کرتا ، یہ سب کام پس ِپردہ تنظیم یا خفیہ ادارے کرتے ہیں ، جو کہ پے رول پر ہوتے ہیں ، بلیک واٹر تنظیم کی قتل وغارت گری دنیا بھر کے عوام نے عراق میں دیکھ لی ہے ، مزید معلومات کے لیے اسے دیکھیں
    1: گیارہ جون کی نوائے وقت کی خبر دیکھیں:http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/National/11-Jun-2009/7722
    مزید دیکھیں : 11 اگست کی ایک خبر:
    http://nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/International/04-Feb-2009/1879
    مزید گہرائی میں آپ نے پڑھنا ہو تو اسے دیکھیں:http://www.alarabiya.net/articles/2009/08/08/81224.html
    مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:http://www.islamtimes.org/vdcd.f052yt0zx346y.html
    http://www.app.com.pk/ud_/index.php?option=com_content&task=view&id=2725
    http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/12/printable/081218_blackwater_iraq_probe.shtml
    بلیک واٹر نامی اس کرائے کی فوج پر امریکہ کا کوئی قانون لاگو ہوتا ہے نہ ہی کسی قانون اور ضابطے کی پابند ہے رپورٹ کے مطابق بلیک واٹر نامی اس فوج کا اپنا فوجی اڈا ہے وہاں ا س کے 20 جہاز ہیں اور اس کے 20 ہزار کنٹریکٹر ہیں اس کا سربراہ ایک کھرب پتی عیسائی قدامت پسند ہے ۔ بلیک واٹر میں کوفر بلیک بڑے طاقتور شخص ہیں جو30 سال تک سی آئی اے میں ڈائریکٹر رہ چکے ہیں ۔اس فورس کا ہیڈ کوارٹر امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں ہے جس کا رقبہ پانچ ہزار ایکڑ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اس کی فورسز حکومتوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہےں اور بش انتظامیہ نے اس فورس کو عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی آپریشن کے لئے کرائے پر حاصل کیا ہے رپورٹ کے مطابق کوفر بلیک 70 سے 80 کی دھائی میں افریقہ میں سی آئی اے کی اہم شخصیت کے طور پر کام کرتے رہے ہیں تاہم وہ 1990 کے آغاز میں سفارت کاری کے طور پر سوڈان پہنچے لیکن اس دوران در حقیقت ان کا تعلق سی آئی اے ہی سے تھا۔ اس وقت اسامہ بن لادن اور کوفر بلیک خرطوم میں اپنا اپنا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق جب اسامہ بن لادن کو کوفر بلیک کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا تعلق سی آئی اے سے ہے تو اسامہ بن لادن نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جبکہ کوفر بلیک کے گروپ نے بھی اسامہ بن لادن کو قتل کر کے خرطوم میں ایرانی سفارت خانے کی عمارت کے سامنے لاش پھینکنے کا پروگرام بنایا تا کہ اس سے یہ تاثر ملے کہ ایران نے اسامہ بن لادن کو قتل کیا ہے تاہم اس وقت اسامہ بن لادن کوئی بڑی شخصیت تصور نہ ہوتے تھے اطلاع کے مطابق نائن الیون بم دھماکوں کے بعد کوفر بلیک کو لاطینی امریکہ سے وائٹ ہاﺅس میں سچویشن روم طلب کیا گیا جہاں اسے افغانستان میں حملے اور اسامہ بن لادن کی گرفتاری کی حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے کیا گیا اس موقع پر کوفر بلیک نے صدر بش سے کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کو زندہ یا مردہ حالت میں لے کر واپس آئےں گے ۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت عراق میں اس گروپ کے ایک لاکھ نجی کنٹریکٹرز موجود ہیں
    http://www.jasarat.com/unicode/detail.php?category=8&coluid=1278
    اطلاعا عرض ہے کہ اب نیا نام اس تنظیم کا Xe ہے ،
    مزید تفصیل نیویارک ٹایمز میں ملاحظہ فرمائیں:http://topics.nytimes.com/top/news/business/companies/blackwater_usa/index.html?inline=nyt-org
    فواد صاحب: موضوع سے ہٹ گیے ہیں ، یہاں صرف بلیک واٹر تنظیم کی کارکردگی پر رپورٹ تھی ،
     
  8. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    فواد صاحب ۔۔۔۔بے باک نے جو کچھ بیان کیا ہے پڑھ کے اپنے آپ کو اپڈیٹ کرلیں۔۔۔۔۔ورنہ آپ کے پاس تو وہی کچھ ہے جو کچھ "انھوں" نے فراہم کیا ہے۔
     
  9. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اسلام علیکم
    بہت شکریہ پیارے بھای اتنی معلومات دیں آپ نے اب دیکھتے ہیں فواد جی کون سہ پراپوگنڈا کرتے ہیں کن خیالی باتوں کو ثبوت کے طور پر لکھتے ہیں
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    علی عمران بھائی اور بےباک بھائی کی تحریریں مبنی بر حقیقت اور بہت معلوماتی ہیں۔
    بہت شکریہ
     
  11. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ واضح رہے کہ بليک واٹر نہ تو امريکی حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی امريکی فوج سے اس کا کوئ تعلق ہے۔ يہ سيکورٹی سے وابستہ ايک نجی کمپنی ہے جس کی خدمات کوئ بھی حکومت يا نجی کمپنی حفاظت کے ژمرے ميں لے سکتی ہے۔ اس تناظر ميں اس کمپنی کے اندر کس قسم کا کلچر موجود ہے يا اس کے ملازمين کس قسم کے خيالات رکھتے ہیں، وہ کسی بھی صورت ميں امريکی حکومت کی سرکاری پاليسی يا نقطہ نظر کی ترجمانی نہيں کرتے۔

    جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا کہ يہ ذمہ داری کلی طور پر پاکستانی حکومت کی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شہری کو ضروری تفتيشی مراحل سے گزارے۔ پاکستان ايک خودمختار ملک ہے جو اس بات کا مکمل اختيار رکھتا ہے کہ کسی بھی غير ملکی شخص کا ويزہ منظور يا مسترد کرے۔ اس کام کی تکميل کے ليے درجنوں کی تعداد ميں حکومتی ادارے اور اہلکار موجود ہيں۔

    ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ پاکستان کی بے شمار ايجينسياں پاکستان کے اندر موجود ہر غير ملکی کی نقل وحرکت پر نظر رکھتی ہيں۔ يہاں تک کہ ہوٹلز، موٹلز اور گيسٹ ہاؤس بھی اس بات کے پابند ہيں کہ وہ رہائش پذير غير ملکيوں کے کوائف حکومتی اہلکاروں کو مہيا کريں۔ اسی طرح ائرپورٹس پر غير ملکيوں کے کوائف کے حوالے سے سيکورٹی کے انتظامات سے سب واقف ہيں۔

    اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں کام کرنے والا ہر شخص رائج عالمی قوانين اور قواعد وضوابط کے عين مطابق کام کر رہا ہے اور اس ضمن ميں امريکی سفارت خانے کو حکومت پاکستان کی مکمل منظوری اور تعاون بھی حاصل ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  12. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    پاکستانی ميڈيا پر اس ضمن ميں پھيلائ جانے والی فرضی کہانياں اور الزامات حقائق پر مبنی نہيں ہیں۔ يہاں تک کہ دفتر خارجہ کے ترجمان عبدل باسط نے بھی واضح طور پر يہ بيان ديا ہے کہ اس خبر کے حوالے سے ميڈيا رپورٹس اور ان سے منسوب بيان بالکل بے بنياد ہے۔ ان کی ترديد آج کے جنگ اخبار ميں موجود ہے جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

    http://img195.imageshack.us/img195/7972/clipimage002muq.jpg

    خبر سے يہ بھی واضح ہے کہ دفتر خارجہ کو پاکستان کے کسی شہر ميں بھی امريکی مرينز کی تعداد ميں اضافے کے ليے نا تو کوئ درخواست موصول ہوئ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئ اشارہ ملا ہے۔

    اسلام آباد ميں "ہزاروں مرينز" کے حوالے سے اب تک وضاحت اسلام آباد ميں امريکی ايمبسی کے پبلک افير سيکشن، پاکستان کی وزارت خارجہ اور اور اس ترجمان کی جانب سے بھی آ چکی ہے جس کے مبينہ بيان کو بنياد بنا کر يہ کہانی تخليق کی گئ تھی۔

    جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کی توسيع اور عملے ميں اضافہ کوئ خفيہ سازش نہيں بلکہ ايک کھلا اور واضح معاملہ ہے۔ اہم بات يہ ہے کہ پاکستان کی حدود کے اندر کن غير ملکی افراد کو رہنے اور کام کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، اس کا اختيار اور ذمہ داری مکمل طور پر حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ذاتی تجربہ ؟ جس شخص کے منہ میں اپنی زبان ہی نہ ہو۔ اسکا ذاتی تجربہ کیا معنی رکھتا ہے ؟
     
  14. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    کوئی تین ماہ قبل حامد میر نے اس طرف توجہ دلائی تھی لیکن کسی نے خاص نوٹس نہ کیا بلکہ اسے بے پرکی سمجھا گیا
     
  15. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    راشد بھائی کسی چیز کو بے پر کی تصور نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔ایجنسیاں چھوٹی سے چھوٹی اور معمولی سے معمولی بات کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔البتہ بعض حکومتی مجبوریوں کے پیشِ نظر ایسی باتوں کو ہوا نہیں دی جاتی۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ ان سے نظریں ہٹا لی گئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  16. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ایک لنک مزید دیکھیں : کاش ہم عقل مندی سے بھرپور مظاہرہ کرتے،،،
    http://http://www.ummatpublication.com/2009/08/13/lead11.html

    امریکن سکورٹی گارڈ اور پاکستانی پولیس ، اور حکومت پاکستان نے اس واقعے کا انکار بھی کر دیا،
     
  17. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    آپ نے بالکل درست تجزيہ کيا ہے۔ ميں صرف اسی موقع پر اپنی راۓ کا اظہار کرتا ہوں جب ميرے پاس تحقيق شدہ حقائق اور ايسا سرکاری ريکارڈ ہوتا ہے جس کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔ يہ طريقہ کار يقينی طور پر بغير کسی دستاويز، سرکاری بيان اور تحقيق سے عاری بے بنياد کہانی يا خبر پر تبصرے سے بہتر ہے۔

    ليکن آپ کی نشاندہی اس بات کی جانب کروانا چاہوں گا کہ ميں نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے جن شواہد کی نشاندہی کی ہے وہ امريکی اہلکاروں کے ساتھ مراسلے، امريکی ميڈيا رپورٹ يا امريکی سرکاری دستاويز پر مبنی نہيں ہيں۔ اس کے برعکس ميں نے دانستہ روزنامہ ڈان، جنگ اخبار اور وزارت خارجہ کے ترجمان عبدل باسط کی جانب سے جاری کردہ ترديد کے حوالے ديے ہيں – يہ سارے پاکستانی ريفرنسز ہيں۔

    سوال يہ ہے کہ ايک سرکاری اہلکار سے وابستہ مبينہ بيان کی بنياد پر تخليق کردہ بے بنياد کہانی کو تو اہميت دی جا رہی ہے ليکن اسی اخبار ميں اہلکار کی جانب سے شائع ہونے والا ترديدی بيان کوئ وقعت نہيں رکھتا؟

    ريکارڈ کی درستگی کے لیے واضح کر دوں کہ اس وقت پاکستان ميں سفارت خانے اور وابستہ عمارات کی حفاطت کے ضمن ميں کل 20 امريکی مرينز اپنے فرائض انجام دے رہے ہيں۔ اس تعداد ميں سفارت خانے کی توسيع اور عملے ميں اضافے کے بعد معمولی سا اضافہ کيا جاۓ گا۔

    اس کے علاوہ پاکستان ميں 250 امريکی شہری سفارت کاری کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہيں جو 1000 سے زائد مقامی پاکستانی باشندوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  18. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ’بلیک واٹر‘ اور سی آئی اے کی خفیہ کارروائیاں

    امریکہ کے اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کے سابق فوجیوں پر مشتمل نجی کمپنی کو، جس کا پہلا نام ’بلیک واٹر‘ تھا سی آئی اے دہشت گردی کے خلاف مہم میں القاعدہ کے خلاف ڈرون حملوں میں استعمال کرتی رہی ہے۔

    نیویارک ٹائمز نے سرکاری حکام اور سکیورٹی کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازموں کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کمپنی کے اہلکار پاکستان اور افغانستان میں موجودہ خفیہ اڈوں پر ڈرون طیاروں پر ’ہیل فائر‘ میزائل اور پانچ سو پونڈ وزنی لیز گائیڈڈ میزائل لگانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ یہ کام ماضی میں سی آئی اے کے اپنے ماہر انجام دیتے تھے۔

    اخبار کے مطابق کمپنی سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کو ان خفیہ اڈوں کی نگرانی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

    برطانوی اخبار گارڈین نے بھی نیو یارک ٹائمز کی اس خبر کو شائع کیا ہے اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ بلیک واٹر کی خفیہ کارروائیوں میں شمولیت کی خبروں نےصدر بش کے دور میں سی آئی اے کی کارروائیوں پر نئے قانونی سوالات کو جنم دیا ہے۔

    اخبار مزید کہتا ہے کہ ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ القاعدہ کے سرکردہ اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا پروگرام کیا دانستہ طور پر کانگریس سے مخفی رکھا گیا۔

    کانگریس نے انیس سو چھہتر میں ویتنام اور لاطینی امریکہ میں سی آئی اے کی ’ٹارگٹ کلنگ ‘ کی کارروائیوں پر سماعت کے بعد اس طرح کی کارروائیوں پر پابندی لگا دی تھی۔ لاطینی امریکہ میں مخالفین کو ہلاک کرنے کی کارروائیوں میں فیدل کاسترو پر چھبیس ناکام قاتلانہ حملے بھی شامل تھے۔

    اس کمپنی کو ’پریڈیٹر پروگرام‘ یا ڈرون حملوں میں شامل کیئے جانے سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے کس حد تک اپنی اہم کارروائیوں کے لیے ٹھیکیداروں یا کرائے کے فوجیوں پر انحصار کرتا ہے۔

    یہ امر اس بات کا بھی غماز ہے کہ بلیک واٹر کمپنی جس کا نیا ’ایکس ای‘ ہے اور جسے ’زی‘ پکارا جاتا ہے کس قدر مہارت اور استعداد کی حامل ہے۔

    کمپنی کی کارروائیوں اور خاص طور پر عراق میں اس کے اہلکاروں کے رویئے کی بنا پر اس کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اسے مستقل طور پر سی آئی اے کی طرف سے کروڑوں ڈالر کے ٹھیکے دیئے جاتے رہے اور یہ پھلتی پھولتی رہی۔

    اخبار کے مطابق سی آئی اے نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بی بی سی اردو سروس نے بھی نیو یارک ٹائمز کی خبر پر پاکستانی حکام سے رابط کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں مل سکا۔

    نیویارک ٹائمز نے جمعرات کو لکھا تھا کہ بلیک واٹر کے ملازمین کی خدمات سن دو ہزار چار میں سی آئی اے نے القاعدہ کے کارکنوں کا پتا لگانے اور ان کو ختم کرنے کے اپنے انتہائی خفیہ آپریشن کے لیے کرائے پر حاصل کی تھیں۔

    اخبار کے مطابق بلیک واٹر کے موجودہ اور سابق اہلکاروں سے کیئے جانے والے انٹرویوز سے سی آئی اے کے القاعدہ کے کارکنوں کو ہلاک کرنے کی کارروائیوں میں بلیک واٹر کی شمولیت کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ بلیک واٹر کو ان کارروائیوں میں سن دو ہزار چار میں پورٹر جے گاس کے سی آئی اے کے سربراہ بننے کے بعد شامل کیا گیا۔

    حکام کا کہنا ہے کہ سی آئی اے نے بلیک واٹر کے ایگزیکٹیویز کو ’لائسنس ٹو کل‘ یا قتل کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دی تھی۔ تاہم ان کرائے کے فوجیوں کو القاعدہ کے سرکردہ ارکان اور سرگرم کارکنوں کو پتا لگانے اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔

    سی آئی اے کے اس پرگروام سے آگاہی رکھنے والے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ لبلبی دبا کر کسی کو ہلاک کرنا سب سے آسان کام ہوتا ہے اور اس میں زیادہ مہارت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا اصل میں لبلبی دبانے تک کا جو کام ہوتا ہے وہ اصل اہمیت رکھتا ہے۔

    سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ کسی دہشت گردی کو پکڑنے اور پھر اس کو ہلاک کرنے کی سی آئی اے کے ڈائریکٹر سے پیشگی اجازت ضروری ہوتی ہے اور اسے وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی پیش کیا جاتا ہے۔

    سی آئی اے کے موجودہ سربراہ لیون ای پنیٹا نے اس پروگرام کو معطل کر دیا تھا اور اس سے کانگریس کے جون میں ہونے والے اجلاس کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا۔

    بلیک واٹر کے سی آئی اے کے ساتھ بزنس معاملات زیادہ تر خفیہ رہے لیکن اس کے امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ معالات منظر عام پر آ گئے۔ امریکہ وزارت خارجہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عراق میں اپنے سفارت کاروں کی سکیورٹی کے لیے بلیک واٹر کی خدمات حاصل کرتا رہا ہے جس سے کئی تنازعات بھی کھڑے ہو گئے تھے۔

    عراق میں سفارت کاروں کی حفاظت کا ٹھیکہ اس سال بلیک واٹر سے واپس لے لیا گیا کیونکہ گزشتہ سال اس کے اہلکاروں نے سترہ عراقی شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔ تاہم اس کے بعد اب بھی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس کچھ ٹھیکے ہیں۔

    عراق میں سترہ شہریوں کی ہلاکتوں پر بلیک واٹرز کے پانچ ارکان پر امریکہ میں فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔

    کمپنی کے خفیہ آپریشن کے لیے امریکی ریاست نارتھ کیرولائنہ میں ’بلیک واٹر سلیکٹ‘ سے ایک بہت بڑا دفتر موجود ہے۔ اس کمپنی کا سی آئی اے کی طرف سے پہلا ٹھیکہ سن دوہزاردو میں کابل میں نئے اڈے کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کا تھا۔

    نیویارک ٹائمز کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازمین کے حوالے سے لکھتا ہے کہ کمپنی کے ملازمین کو ڈرون طیاروں پر ہیلر فائر اور لیزر گائڈڈ میزائل نصب کرنے کی تربیت نویڈا میں قائم نیلس ایئر بیس پر دی جاتی ہے۔

    اخبار نے کئی اور سرکاری اور کمپنی کے ملازمین کے حوالے سے لکھا ہے کہ سی آئی اے ایک عرصے تک پاکستان کے صوبے بلوچستان میں قائم فضائی اڈے شمسی سے ڈرون طیاروں کی پروازیں کرتی رہی ہے لیکن حال ہی میں جلال آباد میں ایک نیا اڈہ بنا لیا گیا ہے۔

    جلال آباد میں ڈرون اڈے کی خبر اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئی ہے۔

    سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اب جلال آباد سے زیادہ تر ڈرون طیاروں کی پروازیں ہوتی ہیں جہاں ہر گھنٹے میں ڈرون طیارہ اڑتے یا اترتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں شمسی بیس اب بھی استعمال ہو رہا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ نے جلال آباد میں اڈہ قائم کرنے کا فیصلہ اس بنا پر کیا کہ کہیں پاکستانی حکومت عوام میں پائے جانے والے امریکہ مخالف دباؤ کا شکار ہو کر ملک میں موجود اڈے بند کرنے کا مطالبہ نہ کر دیں۔

    بلیک واٹر کے ملازمین ڈرون حملوں کے اہداف کی نشاندھی میں شامل نہیں ہوتے اور ان پر نصب میزائیلوں کو چلانے کا بٹن لینگے ورجینیا میں بیٹھے سی آئی اے کے اہلکاروں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ایجنسی کے بہت کم ملازمین افغانستان اور پاکستان میں موجود ہوتے ہیں۔

    بلیک واٹر کے کرائے کے لوگوں کا ڈرون حملوں میں شامل ہونا بعض اوقات تنازعات کا بھی باعث بنتا ہے۔ جب کبھی بھی ڈرون سے داغے میزائل اپنے ہدف سے چوک جاتے ہیں سی آئی اے والے بلیک واٹر کے ملازمین کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

    اسی طرح کے ایک واقعہ میں گزشتہ سال ڈرون طیارے کے اپنے ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی ایک پانچ پاونڈ وزنی بم گرا دیا گیا۔ اس کے بعد اس بم کو ڈھونڈر کی ایک زبردست مہم شروع کی گئی اور آخر میں یہ بم اپنے ہدف سے سو گز دور پڑا ہوا ملا۔

    امریکی خفیہ اداروں کی کاررائیوں کا ایک چوتھائی اب ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں ہے۔

    شکریہ: بی بی سی اردو سروس
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کتنی افسوسناک حقیقت ہے
    محبوب خان بھائی ۔۔۔ آپ نے امریکہ کے مکروہ چہرے سے خوب نقاب کشائی کی ہے۔
     
  20. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ نعیم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کریڈٹ بی بی سی اردو ڈاٹ کام لندن کے فراز ہاشمی صاحب کو جاتا ہے۔
     
  21. محمد نواز شریف
    آف لائن

    محمد نواز شریف ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2009
    پیغامات:
    182
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت خوب
    ایسا مضمون شئیر کیا
     
  22. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بےباک بھائی ۔
    اتنا دل دہلا دینے والا ، حقائق نامہ ہم سے شئیر کرنے کا بہت شکریہ ۔
    اللہ تعالی ہمارے شعور کی آنکھیں کھول کر ہمیں دوست دشمن کی پہچان عطا کرے۔
    اور ہمارے وطن عزیز کو غداروں سے بچا کر دنیا کی مضبوط ترقی یافتہ قوموں کی صف میں‌لاکھڑا کرنے والی قیادت عطا فرمائے۔ آمین
     
  24. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    میں اس وقت شدید حیرانی میں مبتلا ہوں۔ کہ ہمارے وزراء حکومت تو اس سب کے وجود سے انکاری ہیں جبکہ میرے ذرائع کے مطابق یہ سب بلکل درست ہے۔ اور میں کیونکہ اس وقت پاکستان کے اندرونی حالات میں اس قدر دخیل نہیں اور دوسرے کاموں میں بے حد الجھا ہوا ہوں اس لئے اس جانب شدید خواہش کے باوجود توجہ نہیں دے پا رہا۔ میری اسلام آباد سکیورٹی والوں سے بات ہوئی تھی۔ ان کے مطابق وہ خود ان کی سرگرمیوں سے پریشان ہیں اور حکومت کو کئی مرتبہ تشویش سے آگاہ کر چکے ہیں۔ یہ لوگ اسلحہ لے کر سرِ عام گھومتے ہیں اور بلیک کلر شیشے استعمال کرتے ہیں۔ کئی ایک بار پکڑے گئے لیکن اعلی حکام کے حکم پر چھوڑ دئیے گئے۔ لیکن کیونکہ یہ حکومت کی اجازت سے آئے ہیں اس لئے سکیورٹی والے بے چارے کچھ نہیں کر پا رہے۔ اور نہ ہی پاکستانی سسٹم ایسا ہے کہ سکیورٹی والے‌صدر کو بھی سکیورٹی کے معاملے میں مداخلت پر کٹہرے میں لا سکیں۔ میرے خیال میں اب ایجنسیوں کو حرکت میں آنا ہو گا۔ اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی کوئی خبر سننے کو ملے گی۔ بہر حال اس بارے میں تشویش تو ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ لوگ اپنا کام کر جائیں اور لوگ سوتے رہیں۔ اب امریکہ کو پاکستانی معمالات سے باہر نکال دینا ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ ورنہ اب عوام خود اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور پھر امریکہ سمیت امریکہ نواز حکمران بھی باہر جائیں گے۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کبھی نہیں جیت سکتا اور ہمیں اگر ہوش نہ آیا تو ہم گردن تک اس میں دھنس چکے ہوں گے۔ امریکہ تو ہزاروں میل دور جا بیٹھے گا اور ہم دھماکوں اور کلاشنکوف کلچر کی زد میں آ جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  25. محمداسد
    آف لائن

    محمداسد ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2009
    پیغامات:
    43
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    امریکی استعمار کی پاکستان کے اندر پڑھتی ہوئی مداخلت ایسا ظاہر کرنے لگی ہے کہ پاکستانی دارالحکومت امریکی کالونی کا روپ اختیار کرچکا ہے۔لیکن ایک نہ ایک دن تو ایسا ہونا ہی تھا۔ جس دن امریکا نے پاکستان کی فضائی حدود کی پہلی بار خلاف ورزی کرتے ہوئے بے گناہ پاکستانیوں کو ڈرون اٹیک کے ذریعے خون میں نہلایا، وہ ہمارے حکمرانوں کی بکاؤ ہونے کی پہلی علامت تھا۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمران نہ صرف اخلاقیات میں تنزلی کا شکار ہوتے گئے بلکہ ان کی حیثیت محض امریکی نوکروں سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔


    سابق صدر جنرل مشرف نے تو پاکستانی اداروں کی نیلامی کی تھی، جبکہ موجودہ صدر ان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پورے پاکستان کو نیلام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
     
  26. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ہم اس بات کی اہميت کو تسليم کرتے ہيں کہ امريکی امداد اور متعلقہ ترقياتی منصوبوں کے مثبت اثرات عام عوام تک پہنچانے کے لیے فعل اور اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ يہی وہ ضرورت تھی جس کے پيش نظر اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع اور عملے ميں اضافے کا فيصلہ کيا گيا۔

    بدقسمتی سے پاکستان ميں ميڈيا کے کچھ عناصر نے ہزاروں امريکی مرينز کی اسلام آباد ميں موجودگی کی بے بنياد اور فرضی کہانی کو لے کر طوفان کھڑا کر ديا۔ کسی نے بھی اس بات کا ذکر نہيں کيا کہ 1200 سے زائد پاکستانی بھی وہاں پر کام کريں گے۔ پاکستانی اخبارات کی اس ضمن ميں سرخيوں کو اگر معيار بنايا جاۓ تو اس مناسبت سے تو کسی امريکی اخبار ميں بھی يہ سرخی بنائ جا سکتی ہے کہ امريکی سفارت خانے ميں 1200 پاکستانی اپنا قبضہ جمانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

    جہاں تک سفارت خانے کی توسيع اور اس کو ملٹری بيس ميں تبديل کرنے کے حوالے سے خبروں کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں آپ کی توجہ رچرڈ ہالبروک کے اس بيان کی جانب دلواؤں گا جو انھوں نے جماعت اسلامی کے رہنما لياقت بلوچ سے ملاقات کے بعد ديا تھا۔

    "ميں نے ڈاکٹر بلوچ اور ان کے ساتھيوں کو دعوت دی ہے کہ وہ کسی بھی وقت امريکی سفارت خانے کا دورہ کر کے تعميراتی منصوبوں کے بليو پرنٹس اور عملے کی جانچ پڑتال کر سکتے ہيں۔ اس معاملے ميں ہميں کچھ بھی خفيہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے"۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فواد بھائی ۔ آپکے کھسیانے پن پر کھمب نوچنے کی حالت پر ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ‌ہوجانے کو دل کررہا ہے۔
    :201: ۔ :201: ۔ :201:
     
  28. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    اسلام آباد کے رہائشی خود کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کی وہاں مشکوک سرگرمیاں نظر آرہی ہیں۔ یہ بات لوگ وزارت داخلہ اور پولیس کو کئی بار بتاچکے ہیں لیکن ان کے کانوں پر جوں نہیں‌رینگتی۔
     
  29. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    کچھ دوستوں نے مختلف فورمز پر يہ سوال بھی اٹھايا ہے کہ آخر امريکی سفارت خانے ميں توسيع کی ضرورت ہی کيوں پيش آئ جبکہ سفارت خانہ تو محض ويزے جاری کرنے تک ہی محدود ہوتا ہے۔

    ميرے ليے يہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ کچھ لوگ پاکستان ميں امريکی امداد کی درست ترسيل کے ضمن ميں کی جانے والی اضافی کاوشوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہيں۔ کيا يہ درست نہيں ہے کہ اسی فورم پر اکثر دوستوں نے ماضی ميں مجھ سے اس بات پر بحث کی ہے کہ مختلف ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں پاکستان کو دی جانے والی امداد بے وقعت اور نقصان دہ ہے کيونکہ مناسب انتظامی ڈھانچے اور نگرانی کی عدم موجودگی ميں امداد کا بڑا حصہ کرپشن اور اقربا پروری کی نذر ہو جاتا ہے؟ ميرے خيال میں اس ضمن ميں اعتراض تنقید براۓ تنقيد کے ضمن ميں آتا ہے۔

    ميں واضح کر دوں کہ سفارت خانے کا مقصد محض ويزوں کے اجراء يا مختلف منصوبوں کے ضمن ميں امريکی امدادی رقوم کی تقسيم اور نگرانی تک ہی محدود نہيں ہے۔ سفارت خانہ دراصل ايک مستقل سفارتی مشن ہوتا ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے مابين باہمی مفادات کے حصول کے ليے تعلقات استوار کرنا ہوتا ہے۔

    امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے تعلق کی بنا پر مجھے يہ موقع ملتا ہے کہ ميں اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کی روزمرہ کی سرگرميوں سے آگاہ رہتا ہوں۔

    اس کی ايک مثال ۔

    اگست 20 2009 کو امريکی سفارت خانے کے شعبہ امور عامہ کے قونصلر نے اسلام آباد ميں ايک تقريب ميں مارٹن لوتھر کنگ ريڈنگ روم کا افتتاح کيا۔ ایم کے ايل ريڈنگ روم امريکی ثقافت، معيشت، سياست، تاريخ اور فنون کے بارے ميں تازہ ترين اور مستند معلومات کے متلاشی لوگوں کو رہنمائ فراہم کرنے کا ذريعہ ہو گا۔ نيز يہ ريڈنگ کلب عوام کو حوالہ جاتی مواد، کتب، جرائد، ويڈيوز اور ڈی وی ڈيز فراہم کرنے کے علاوہ دستاويزی فلميں دکھانے کے لیے آڈيو ويژيول سہولتيں بھی فراہم کرے گا۔

    ايم کے ايل ريڈنگ روم امريکی سفارت خانے کی طرف سے پاکستان ميں قائم کيا جانے والا تازہ ترين مرکز ہے۔ اس کے علاوہ ديگر مراکز جو لنکن کارنر کے نام سے موسوم ہيں۔ اسلام آباد، پشاور، کراچی اور مظفر آباد ميں قائم ہيں جبکہ حال ہی ميں فاطمہ جناح يونيورسٹی براۓ خواتين ميں سوسن بی انتھونی کے نام سے ايک دارالمطالعہ بھی منسوب کيا گيا ہے۔

    http://img259.imageshack.us/img259/7272/082009photousembassyope.jpg

    اسی طرح جون 25 2009 کو امريکی سفارت خانے کے توسط سے اسلام آباد کی علامہ اقبال اوپن يونيورسٹی ميں ايک تقريب ميں پاکستان کے سرکاری سکولوں کے لیے انگريزی زبان کے 600 تدريسی ڈيجيٹل پروگرام ديے گۓ۔ يہ ڈيجيٹل پروگرامز جو سی ڈی رومز پر مشتمل ہيں اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے علامہ اقبال اوپن يونيورسٹی کو دی جانے والی 41 ہزار ڈالرز کی گرانٹ کا حصہ ہيں، چھٹی سے دسويں جماعت کے طالب علموں کے لیے تيار کيے گۓ ہیں اور پاکستان بھر کے لگ بھگ 1600 سرکاری سکولوں ميں استعمال کيے جائيں گے۔

    يہ محض چند مثاليں ہیں۔ اسی طرح کے اقدامات اور منصوبے اس روزمرہ کی سفارتی کوششوں اور عمل کا حصہ ہيں جن کا مقصد دونوں ممالک کے مابين تعلقات کی خليج کو کم کرنا ہے۔

    اقوام کے مابين تعلقات بہتر بنانے کے ضمن ميں سفارت خانے کے کردار کو صدر اوبامہ نے بھی رمضان شريف کے آغاز پر مسلمانوں کے نام اپنے پيغام ميں اجاگر کيا

    "گزشتہ دو ماہ کے دوران پوری دنيا کے مسلم اکثرتی ممالک ميں امريکی سفارت خانوں نے نہ صرف يہ کہ مقامی حکومتوں بلکہ عوام تک براہ راست رسائ حاصل کی ہے۔ ہميں اس ضمن ميں بڑے پيمانے پر آراء موصول ہوئ ہيں کہ کس طرح امريکہ لوگوں کی امنگوں کے مطابق اشتراک عمل کا حصہ بن سکتا ہے۔ ہم ہمہ تن گوش ہيں اور آپ ہی کی طرح ايسے مضبوط اقدامات پر اپنی توجہ مرکوز کيے ہوۓ ہيں جو وقت گزرنے کے ساتھ کارآمد ثابت ہوں گے"

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فواد صاحب۔ آپ بلیک واٹر کو قصہ گول کرنے کے چکر میں لگتے ہیں۔ :139:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں