1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بارات

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بارات
    upload_2019-11-24_2-5-1.jpeg
    یوسف ناظم
    یہ میرے بڑے بیٹے کی بارات تھی۔ انور ایک گھوڑے پر سوار زرق برق لباس پہنے، سہرا باندھے، مسکراتا اور شرماتا ہر ایرے غیرے کو مسلسل سلام کر رہا تھا۔ راستہ پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ باراتیوں کا وہ اژدہام تھا کہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کتنی ریاضتوں کے بعد آج مجھے یہ موقع نصیب ہوا ہے کہ میں بھی اپنی آرزوئیں پوری ہوتی ہوئی دیکھوں۔ یکایک مجھے 25 سال پہلی کی بات یاد آ گئی۔ یہی ہلکے جاڑے کا موسم تھا اور ایسی ہی ایک سہانی رات تھی۔ ٹھیک 25 سال پہلے میں بھی اسی طرح بیاہا گیا تھا اور مجھے بھی رات کے دو بجے ایک شریف النفس گھوڑے کی پیٹھ پر سوار کرا دیا گیا تھا۔ میرا مرکب شان استغنا کے ساتھ محو خرام تھا اور اس سکندر شوکت داراحشمت کو مطلق خبر نہ تھی کہ کوئی آفت زدہ اس کی پیٹھ پر بیٹھا اپنی جان کی خیر منا رہا ہے۔ میری بارات بھی بڑی دھوم دھام کی تھی۔ آتش بازی جو غالباً ممنوع ہے اس رات بڑی فراخدلی کے ساتھ روا رکھی گئی تھی۔ میں بے چارہ پریشاں حال خواہ مخواہ مسکرا مسکرا کر ہر شخص کو سلام پر سلام کیے جا رہا تھا گویا میں ہر ایک کا مقروض ہوں۔ ایک سعادت مند گھوڑے کے ساتھ ساتھ رواں دواں پنکھا جھل رہا تھا اور اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھے ہوئے تھا۔ انہیں یہ پتہ نہ تھا کہ ان کے پنکھے کی ہوا مجھے سے زیادہ گھوڑے کو فائدہ پہنچا رہی تھی حالانکہ درحقیقت شادی میری ہوئی تھی نہ کہ گھوڑے کی۔ ہر 25، 30 قدم کے بعد ایک آدھ انار چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ گھوڑا بدک کر نوشاہ کے رہے سہے اوسان بھی فنا کر دے۔ وردی پوش بینڈ بجانے والے جوش و خروش کے ساتھ قوالی کے گیت اور فلمی دھنیں بجا رہے تھے۔ میری ہیئت کذائی اس وقت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ سر پر بڑا سا رنگین عمامہ، پھولوں کا گز بھر کا سہرا، جو خوبصورتی کے ساتھ الٹ دیا گیا تھا اور اس طرح میرا روئے انور ’’بملاحظہ عالی‘‘ کی مکمل تصویر بنا ہوا تھا۔ میری پیشانی پر چاندی اور سونے کے تار لہرا رہے تھے، افشاں بھی چنی ہوئی تھی۔ شیروانی تاروں بھرے آسمان کو شرما رہی تھی۔ لوگ میرے دیدار سے بے حد مسرور تھے صرف اس لیے کہ میں بیوقوف نظر آ رہا تھا۔ رات کے تین بجنے والے تھے لیکن بازگشت کا سلسلہ برابر جاری تھا… جہیز کا سامان پیچھے پیچھے یوں لایا جا رہا تھا جیسے کوئی بادشاہ مالِ غنیمت لے جا رہا ہو۔ مالِ غنیمت میں دلہن کی موٹر بھی تھی جس کی آہستہ خرامی دلہن کی زبوں حالی کا پتہ دیتی تھی۔ موٹر کا شوفر بھی اپنے آپ کو نوشاہ سے کم اہمیت دینے پر رضامند نظر نہ آتا تھا۔ موٹر پر پھول اس طرح ڈال دیے گئے جیسے کسی بڑے آدمی کا جنازہ جا رہا ہو۔ میں حیران و ششدر اس منظر کو حسرت و یاس سے دیکھ رہا تھا۔ دل یہی چاہتا تھا کہ گھوڑے سے کود پڑوں (یوں بھی گرنے ہی کے قریب تھا) اور پرتھوی راج کی طرح دلہن کو لے کر بھاگ کھڑا ہوں لیکن دلہا ان بادشاہوں کی طرح ہوتا ہے جس کی لگام بادشاہ گروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ بہرحال میں نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے یہ تصفیہ ضرور کر لیا تھا کہ مذہب خواہ کتنی ہی شادیوں کی اجازت کیوں نہ دے میں دوبارہ شادی کبھی نہ کروں گا۔ پھر اپنے فیصلہ میں مَیں نے یہ ترمیم کی کہ اگر دوبارہ شادی کروں گا تو بغیر بارات والی لیکن اس بات کا اعتراف مجھے ہے کہ میری بارات تھی بڑی شاندار، میں ہو بہو لیڈر معلوم ہو رہا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ لیڈر کے جلوس پر روپیہ قوم کا خرچ ہوتا ہے اور خوش ہوتا ہے لیڈر۔ یہاں پیسے تو ہمارے خرچ ہوئے لیکن خوش ہوئی ساری قوم۔ شادی سے پہلے میں اپنی روشن خیالی کی بنا پر دلہنوں کی بیچارگی پر متاسف ہوا کرتا تھا کہ ان کو ہفتوں پہلے خاموشی کا برت رکھوایا جاتا ہے۔ آنے جانے والے انہیں اس نقطہ نظر سے جانتے ہیں جیسے وہ کسی عجائب گھر کا جانور ہوں۔ بہرحال ان پر ہر وہ ظلم ہوتا ہے جو اقربا اور محلہ والیوں کے ذہن رسا میں آ سکتا ہے لیکن اپنی بارات دیکھ کر میرے خیالات یک لخت بدل گئے۔ دلہن کے ساتھ جو بھی حرکتیں کی جاتی ہیں وہ گھر کی چار دیواری میں ہو جاتی ہیں لیکن بارات کا دلہا تو سرِ بازار رسوا کیا جاتا ہے۔ اس کی اس ذرا سی لغزش کو چوراہے پر مشتہر کیا جاتا ہے۔ عورتیں اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر اس کا تماشہ کرتی ہیں۔ بچے تالیاں پیٹتے ہیں، اقربا خوشی سے دیوانے ہو جاتے ہیں۔ تعلیم یافتہ اسے نٹشے کا فوق البشر جانتے ہیں اور بڑے بوڑھے یہ سمجھتے ہیں کہ دولہا ابھی ابھی حج اکبر سے فراغت پا کر آ رہا ہے اور دلہن والے تو اسے اس طرح پرچاتے ہیں کہ اگر آج تک کوئی شریف آدمی پیدا ہوا ہے وہ یہی شہ سوار ہے۔ بارات کا دولہا عام لوگوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ شکل و صورت کے اعتبار سے وہ خواہ کسی ڈیزائن اور شیپ کا کیوں نہ ہو ایک وقت وہ دولہا بن گیا تو سمجھئے اس نے گنگا نہا لی۔ اس کی جسمانی ساخت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ دولہا ملٹری کا لیفٹیننٹ یا پولیس کا سارجنٹ نہیں۔ اس کی صحت سے متعلق رائے زنی نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس نے بیاہ کیا ہے نہ کہ سرکاری ملازمت کہ طبی معائنہ کرانا پڑے۔ بہرحال دولہا بن جانے کے بعد وہ تنقید و تعریض جیسی فضول اور لایعنی باتوں سے بلند و بالاتر ہو جاتا ہے۔ بازار سے جب دولہا کی سواری بادبہاری گزرتی ہے تو لوگ انگلیاں اٹھا کر بتاتے ہیں کہ آہا دیکھو وہ ہے دولہا۔ عورتیں اپنے روتے ہوئے بچوں کو اس کے دیدار سے چپ کراتی ہیں۔ خوش مزاج والدین اپنے کمسن لڑکوں کو دولہا دکھا کر تسلی دیتے ہیں کہ ٹھہرو تم بھی ایک روز اسی طرح گھوڑے پر دولہا بن کر سوار ہو گے اورلوگ تم سے عبرت حاصل کریں گے۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جاڑے کی اس سہانی رات میں دنیا کے لیے نمونۂ عبرت بن کر شاہراہوں سے گزر رہا تھا حالانکہ میرا گھر دلہن کے مکان سے زیادہ فاصلہ پر نہیں تھا۔ اس رات سے میں اس فکر میں تھا کہ کسی کو دولہا بنا کر اپنا بدلہ لے سکوں۔ اور آج… آج میں بے حد خوش ہوں کہ میرے انتقام کی پیاس بجھ گئی۔ زندہ باد میرے فرزند ارجمند، خوش رہ اور مت ڈر۔ ایک ربع صدی بعد تو بھی اپنے بیٹے سے انتقام لے سکے گا۔ میری یہی دعا تیری شادی کا تحفہ ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں