1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اے پی سی اور میاں نواز شریف کا خطاب ۔۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اے پی سی اور میاں نواز شریف کا خطاب ۔۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

    کئی روز سے وزیراعظم کے کچھ مشیر اور وزیر بڑی گھن گرج کے ساتھ دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگرمیاں نواز شریف نے اے پی سی سے خطاب کیا تو وہ اسے میڈیا پر نشر نہ ہونے دیں گے اور پیمرا حرکت میں آئے گا، سخت اقدام اٹھائے گا۔ ادھر مسلم لیگ (ن) نے میاں صاحب کے خطاب کو سوشل میڈیا پر دکھانے کے انتظامات کر لئے تھے مگر جناب وزیراعظم نے ا پنے وزیروں اور مشیروں کو مایوس کیا اور ساری قوم کو یہ خوشگوار سرپرائز دیا کہ میاں صاحب کی تقریر مین سٹریم میڈیا پر آنے دی جائے تاکہ قوم خودہی حساب کتاب لگا لے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔
    سچ تو یہ ہے کہ بلاول بھٹوکی میزبانی میں بلائی گئی اے پی سی کے انعقاد کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمان کوجاتاہے۔ عمران خان پی ٹی آئی کی انتخابی کامیابی کو مولانا فضل الرحمان روزِ اوّل سے دھاندلی کی پیداوارگردانتے تھے۔ مولانا تو اسمبلیوں میں بیٹھنے کے حق میں بھی نہ تھے۔ مولانا فصیح اللسان بھی ہیں، نڈر بھی ہیں، بیباک بھی ہیں اور بابائے جمہوریت مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کے سیاسی وارث بھی ہیں۔ وہ ذاتی تعلقات، سیاسی روابط اور اپنی دینی میراث کے عناصرِ ثلاثہ کو کام میں لا کر دو سال تک سیاسی جماعتوں کے دروازوں پر دستک دیتے رہے اور بالآخرانہیں جگانے اور اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کے کریڈٹ کو میاں نواز شریف نے بھی تسلیم کیا اور جناب آصف علی زرداری بھی مولانا کی تعریف میں رطب اللسان رہے۔ کبھی بزرگ صحافی جناب مجید نظامی نے مدتوں پسِ دیوار زنداں رہنے والے آصف زرداری کو مردِ حر کا خطاب دیا تھا۔ اب زرداری صاحب نے کانفرنس کے آغاز میں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے یہ خوش خبری سنائی کہ وہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے والے پہلے قیدی ہونے کا اعزاز حاصل کریں گے۔ گویا وہ ''اسیرِ جمہوریت‘‘ کا خطاب بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
    میاں نواز شریف کی ویڈیو لنک کے ذریعے تقریر اے پی سی کا ''سٹار ایونٹ‘‘ اور ن لیگ والوں کے بقول سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بن گئی۔ میاں صاحب کا بیانیہ تو وہی پرانا تھا مگر چونکہ فاختہ بڑی دیرسے چپ تھی اس دوران طرح طرح کی خبریں اور افواہیں گردش میں رہیں کہ میاں صاحب کس مصلحت کے تحت چپ ہیں۔ اب دو برس کے بعد میاں صاحب نے چپ کا روزہ توڑا اور اپنا ناتا اس پرانے بیانے سے جوڑا ہے ۔ میاں صاحب نے قدرے تفصیلی خطاب میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں مولانا فضل الرحمان کی سوچ سے پوری طرح متفق ہوں کہ ہمیں رسمی اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر اس کانفرنس کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانا ہوگا وگرنہ قوم بہت مایوس ہو گی۔ میاں نواز شریف نے ایک بار پھر اپنے سابقہ بیانیے کی تجدید کرتے ہوئے کہا ووٹ کی عزت کو پامال کر دیا جائے تو سارا جمہوری ڈھانچہ جعلی اور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کی چوری کی بنیاد پر اس حکومت کی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ میاں نواز شریف نے دردمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ 1973ء کے آئین میں بیرونی مداخلت کا دروازہ بند کردیا گیا تھا مگر اس کے بعد بھی بیس سال آمریت کی نذر ہو گئے۔ میاں صاحب نے زور دے کر کہا کہ دو سالوں میں پاکستانی معیشت بالکل تباہ ہو چکی ہے۔ 5.8فی صد کی شرح ترقی سے آگے بڑھتا ہوا پاکستان آج صفر سے بھی نیچے آ چکا۔ میاں صاحب کے تجزیہ کے مطابق دو سال میں ڈیڑھ کروڑ لوگ خط ِغربت سے نیچے جا چکے ہیں اور ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
    میاں نواز شریف نے تلخ باتوں کی ایک طویل چارج شیٹ تو جاری کی ہے مگر انہوں نے اسی حساب سے اعتراضات نہیں کیے۔ میاں نواز شریف کو یہ بھی اعتراف کرنا چاہئے تھا کہ ہمارے اکثر وزرائے اعظم غیر جمہوری راستوں سے سیاست میں آئے تھے۔ جب تک اُن کا کِلّہ مضبوط رہتا ہے تو انہیں جمہوریت یاد نہیں رہتی مگر جب اُن کا اقتدار چھن جاتا ہے تو انہیں جمہوریت یاد آتی ہے۔ سیاست دانوں کو یہ فیصلہ کر نا چاہیے کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنی پرفارمنس اور گڈگورننس کے ذریعے اپنے اقتدار کو عوام کے ساتھ مل کر مستحکم کریں گے۔ ہم ایک مرتبہ پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ جب رجب طیب اردوان استنبول کے میئر تھے تو ہم نے ان کے دفتر کا وزٹ کیا تھا۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے عوام کی بے پناہ خدمت کی تھی اور جو میئر آفس کرپشن کا گڑھ ہوتا تھا اسے وہ زیرو پر لے آئے تھے۔
    میاں نواز شریف کی دو سال کے بعد دو ٹوک تقریر کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین و کارکنان میاں شہباز شریف کے منقار زیر پر رہنے اور شاہراہِ مصلحت پر گامزن رہنے سے بہت کنفیوز تھے۔ اب اس غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو گیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنان ایک کنفیوژن سے نکل آئے ہیں۔ میاں نواز شریف نے صرف ایک اعترف کیا کہ نیب کو ختم نہ کرنا یا اسے جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرنا اُن کی غلطی تھی۔ میاں صاحب کو یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے تھا کہ ''میثاق جمہوریت‘‘ کی روح کو انہوں نے اور ان کے برادرِ اصغر نے پامال کیا تھا۔ میاں صاحب کو یہ بھی اعتراف کرنا چاہئے تھا کہ آج شیرو شکر ہونے والی دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف بڑی نازیبا زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس نامناسب رویے کا اعتراف ہونا چاہئے تھا اور آئندہ کیلئے اس کے تدارک کرنے کا عہد شامل ہونا چاہئے تھا۔ چائس آف ورڈز کا خیال نہ رکھا جائے اور جو منہ میں آئے وہ کہہ ڈالا جائے تو پھر زندگی کے کسی نئے موڑ پر آنکھیں ملانا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ ان بڑی پارٹیوں کی نئی قیادتوں کو ضرور عہد کرنا چاہئے کہ وہ آئندہ اختلاف کی مہذب حدود کا احرام کریں گی۔
    مولانا فضل الرحمان نے اے پی سی کا 26نکاتی اعلامیہ پڑھا تو اس میں حکومتی وزیروں اور مشیروں کی پیش گوئیوں کی مکمل نفی تھی۔ جناب شیخ رشید احمد سے لے کر شبلی فراز تک کی رائے یہ تھی کہ یہ کانفرنس گفتند نشستند اور برخاستند سے آگے نہیں بڑھے گی مگر اے پی سی نے تے بڑے دو ٹوک اور واشگاف فیصلے کئے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اپوزیشن کی جماعتیں ان فیصلوں پرکہاں تک عملدرآمد کر پاتی ہیں۔ اے پی سی نے ''جمہوری حکومت‘‘ کے آمرانہ ہتھکنڈوں کی پرزور مذمت کی ہے۔ ا پوزیشن نے وزیراعظم سے فوری طور پر مستعفی ہونے، نئے انتخابات کرانے، انتخابی اصلاحات اور احتساب کا نیا قانون لانے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ انتخابی اصلاحات اور احتساب کے نئے قانون کے سلسلے میں حکومت کو بین السطور مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہئے کیونکہ اس سے پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ حکمران مستقبل کو بھلا کر وقتی مصلحتوں سے گریزاں پارٹیوں کو وہ شاہراہِ تحریک پر ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔ حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لئے پاکستان ڈیمو کریٹک فورم تشکیل پا گیا ہے۔ تحریک تین مرحلوں میں چلے گی۔ پہلے مرحلے کا آغاز اکتوبر سے ہوگا۔ اس مرحلے میں چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے اور مظاہرے ہوں گے۔ دسمبر میں بڑی بڑی ریلیاں ہوں گی اور جنوری 2021ء میں حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ، احتجاجی پروگرام میں ان ہاؤس تبدیلی، اسمبلیوں سے استعفے اور بہت کچھ شامل ہے۔
    پاکستان میں سابقہ احتجاجی و جمہوری تحریکوں کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسی تحریکیں چٹاخ پٹاخ آناً فاناً نہیں چلتیں بلکہ آہستہ آہستہ زور پکڑتی ہیں۔ بہرحال مولانا فضل الرحمان اپوزیشن کو یہاں تک تو لے آئے ہیں۔ اس لحاظ سے تو اے پی سی کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں