اے زندگی کبھی کبھی انسان اپنی زات سے ہی تنگ آجائے تو اسے اپنا وجود ہی کائنات پر بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں کوئی خوشی، کوئی دکھ متاثر نہیں کر تا۔آنکھیں خشک سیلاب بن کر ویران ہو جاتی ہیں،سوچ کے دریچوں پر جیسے قفل پڑ جاتے ہیں ۔دل کسی پرانے کھنڈر کی طرح ہو جاتا ہے۔وقت گویا صحرا کی تپتی ریت پر لا کھڑا کرتا ہے۔ انسان کا حال اس ضدی بچے کی مانند ہو جاتا ہے جو پرانے کھلونوں سے کسی طور نہیں بہلتا بلکہ ہراس شے کے حصول پر بضد رہتا ہے جو اس کی پہنچ میں نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اور ایسے میں ۔۔۔۔ہم جیسے لوگ!گئی باتوں کو دفن کر کے آدھی رات کی خاموشی سنا کرتے ہیں ۔لب خاموش رہتے ہیں ،آنکھیں اجاڑ ہیں مگر دل کا بوجھ کا کتبہ ہے۔ اور ان سب کے بیچ۔۔۔۔ ایک نیا دکھ، نئے دن کا آغاز،زندگی کس موڑ پر لا کھڑا کرے؟ کوئی خبر نہیں ۔ جی چاہتا ہے رات کے پچھلے پہر ویران سڑکوں پر زندگی کو ڈھونڈنے نکلوں،آسمان والے سے دل کی بات کہوں۔اپنے خدا سے پوچھوں کہ زندگی اتنی گم صم کیوں ہے؟؟؟کہیں اپنا پتہ کیوں نہیں دیتی؟؟؟؟؟
جواب: اے زندگی مونا جی ، آپ کو اتنی روانی سے اتنی اچھی اردو لکھتے دیکھ کر دل بہت خوش ہوا ۔ بے حد شکریہ اس پیار شئیرنگ کے لیے ، جیتی رہیں ۔
جواب: اے زندگی مونا ! آپ نے بہت خوب لکھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ جس موضوع پر لکھا گیا ہے وہ "محبت" ہے اور سب سے زیادہ جس چیز کے بارے میں سوچا گیا وہ شاید زندگی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے زندگی اور محبت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ آپ کے انداز تحریر سے پتا لگتا ہے کہ آپ ذوق مطالعہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے سگنیچر میں جس ہستی کا قول موجود ہے۔ میرا خیال ہے زندگی کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے ان کی تحریریں مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ خلیل جبران میرے پسندیدہ ترین منصفوں میں سے ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کو اگر فرصت میسر ہو تو "اوشو" کی کتاب "جیون بھید" اور "واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ" کی کتاب "قطرہ قطرہ قلزم" ، "حرف حرف حقیقت" ، "کرن کرن سورج" وغیرہ کا مطالعہ کیجئے گا۔ سر دست ایک نغمہ یاد آ رہا ہے جو میں اکثر سنتا ہوں۔ زندگی کے بارے میں ہی ہے۔
جواب: اے زندگی جمیل بھائی کی بات سے میں بھی اگری کرونگا کہ۔۔۔تحریر میں بلا کی روانی ہے۔۔۔! اللہ تحریر کو مزید نکھار دے۔۔آمین